اخلاق باختگی کے واقعات‘ لمحہ فکر

757

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد
(دوسرا ور آخری حصہ)
آج ہمیں جس اخلاقی بحران کا سامنا ہے، اس کا ایک اہم سبب تہذیبی اور ثقافتی اداروں کی ناکامی ہے۔ یہ ادارے ہماری تہذیبی پہچان اور ایک وقت میں ہمارے عروج کا سبب تھے لیکن ہم نے ان کی قدر نہ کی اور انھیں اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان اداروں میں سب سے پہلا ادارہ خاندان ہے۔ ہماری ثقافت اور تہذیب میں خاندان محض شوہر، بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچوں کا نام نہیں ہے، بلکہ خاندان کا مطلب وہ سب رشتے ہیں جو ہماری تہذیب کو وجود بخشتے ہیں۔
ہماری تہذیب میں بچے کی آمد‘ وہ لڑکا ہو یا لڑکی‘ ایک بابرکت چیز تصور کی جاتی تھی کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان افراد کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا تھا جو اپنی تین یا دو یا ایک بیٹی کی صحیح تربیت کر کے اسے صالح لڑکی بنائیں۔ ہم نے جاہلی روایات کو خوش آمدید کہتے ہوئے لڑکیوں کی پیدائش کو ناپسند کیا اور جاگیر دارانہ ثقافت میں ان کے مقام کو ہمیشہ کم تر سمجھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بچوں اور خواتین پر جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب ملک کے ان حصوں میں زیادہ ہے جہاں جاگیردارانہ ذہن معاشرے پر حاوی ہے۔
ہم نے اپنی تہذیبی روایات کو چھوڑ کر‘ جس کی پہچان شرم و حیا تھی، بے حیائی کے ساتھ عریانیت اور جسم کی نمائش کو معاشرے میں ہر سطح پر عام کر دیا۔ آج ہمارے اخبارات ہوں‘ ٹی وی یا نیٹ ورک ہوں، ہر جگہ عریانیت کو عام کر دیا گیا ہے۔ اس کے اثرات دیکھنے والوں پر شہوانیت ہی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جنسی جذبات و ہیجان کو ابھارنے میں ہمارے ابلاغ عامہ کا کردار بڑا واضح نظر آتاہے۔ ظاہر ہے تعلیم اخلاق و تربیت سے خالی ہو اور 24 گھنٹے جو مناظر ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہوں اور وہ جنسی جذبات کو اُبھارنے والے ہوں اور پھر مخلوط معاشرت کو جانتے بوجھتے فروغ دیا جائے تو نوجوانوں میں بے راہ روی کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے۔
مغربی سامراجیت، لادین جمہوریت، خود پرست انسان، انفرادیت پسند معاشرتی تصور کو ’’جدیدیت‘‘ کے زیر عنوان ہمارے اخبار نویسوں ، دانش وروں ، سیاستدانوں نے ملک پر مسلط کرنے کے لیے تعلیم، معیشت، معاشرت ہر چیز کو مغرب کے ساتھ مربوط کر دیا۔ مغربی جمہوریت نے شعوری طور پر خود کو کلیسا کے اثرات سے آزاد کرایا تھا، ہم نے بھی اسی میں خیر سمجھی کہ ’’مذہب‘‘ کو زندگی کے ہر خانے سے خارج کرنے میں پوری قوت صرف کردی جائے۔
پاکستان کی بنیاد ہی اسلام کی آفاقی، الہامی، اقدار اور اخلاق پر تھی۔ قائد اعظم نے خاصی سوچ بچار کے بعد کہا تھا: ایمان، اتحاد، تنظیم۔ یہ محض تین الفاظ نہیں تھے بلکہ پورا نظریۂ پاکستان ان تین الفاظ کے اندر سمویا ہوا ہے۔ ہم نے اس کا مفہوم آج تک نہیں سمجھنا چاہا۔
مغربی تہذیب میں جنسی اختلاط ایک روز مرہ کا عمل ہے۔ اسکول ہوں یا تجارتی ادارے یا سرکاری دفاتر، ہر جگہ مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہم نے بھی اسی کو ترقی کی علامت سمجھا اور اپنے معاشرے میں ’’مساوات‘‘ کے نام پر مخلوط اداروں کو فروغ دیا اور یہ بھول گئے کہ یہ تجربہ خود مغرب میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
مغرب کی مخلوط معاشرت اور معیشت کے حوالے سے صرف امریکا میں اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو ہم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ادارہ والٹرز اینڈ میلک کے مطابق امریکا میں ہر سال21 لاکھ 70 ہزار خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں، حتیٰ کہ فوج جیسے منظم ادارے میں بھی ان کی عصمت محفوظ نہیں رہتی۔
یورپ اور امریکا میں آج نہیں 70 سال پہلے ’’جنسی آگاہی‘‘ کو متعارف کروایا گیا۔ حتیٰ کہ بچوں کے اسکولوں میں مشروبات اور ماکولات کی دکانوںمیں وہ مصنوعات بھی فراہم کر دی گئیں جو جنسی بے راہ روی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ان تمام دانش ورانہ اقدامات کے باوجود اگر دیکھا جائے تو مطبوعہ اعداد و شمار (جو کوئی بھی محقق چند لمحات میں نیٹ سے حاصل کر سکتا ہے) یہ گواہی دیتے ہیں کہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں جنسی تعلیم نہ اخلاقی بے راہ روی کو روک سکی اور نہ اس کی بنا پر معصوم بچیاں درندہ صفت انسانوں کی دست برد سے محفوظ ہوسکیں۔
دورجانے کی ضرورت نہیں صرف امریکا میں بچوں کے ساتھ جنسی بے ضابطگی کے حوالے سے چلڈرن بیورو نے 2017 میں 2015 کے اعداد و شمار پر مبنی جو رپورٹ طبع کی ہے اس کے مطابق امریکا میں ایک سال میں 1740 بچے جنسی استحصال کی وجہ سے جان سے گئے۔ گویا روزانہ پانچ بچوں کی موت جنسی استحصال سے واقع ہوئی۔ اس سے بڑھ کر جو چیز افسوس ناک ہے وہ یہ کہ ان میں سے 80 واقعات وہ ہیں جن میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ اس ظلم میں ان کے والدین میں سے کسی ایک کا براہِ راست دخل تھا۔ جنسی استحصال کے کُل واقعات میں کم از کم 60 کا تعلق جنسی تعلق سے رہا اور ان میں سے 90 فی صد کسی اجنبی کے ہاتھوں شکار نہیں ہوئے۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان حادثات میں تین سال سے 17 سال کی عمر تک کے بچوں میں تین سال کی عمر والے7.10 فی صد جب کہ 17سال کی عمر والے 5.3 فی صد بچے تھے۔ گویا اس درندگی میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے اور گزشتہ تین سال کے جائزے اس رجحان میں اضافے کا پتا دے رہے ہیں۔
کیا کرنا چاہیے؟
مختلف اسباب پر غور کرنے کے بعد عموماً برقی ابلاغ عامہ اور اخبارات میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں ان میں اولاً اسکولوں میں جنسی تعلیم، ثانیاً تعلیم میں بچوں کو اپنے قریبی رشتے داروں سے خبردار رہنے کی تعلیم تجویز کی گئی ہے۔ یہ وہی حل ہے جو امریکا اور یورپ میں گزشتہ 50 برسوں سے متعارف کیا جا چکا ہے اور اس کے باوجود اوپر کے اعداد و شمار یہ پتا دیتے ہیں کہ اس حل سے مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔
مغرب میں بچوں کو جنسی تعلیم دینا اس لیے اختیار کیا گیا کہ وہاں معاشرے نے ’’محفوظ جنسی‘‘ تعلق کو جائز قرار دے دیا۔ اس لیے اگر کوئی دوا یا مانع حمل تدابیرکا استعمال کرنا سیکھ لے تو ان کے خیال میں ایڈز اور حمل دونوں سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ ا س تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کوئی بری چیز نہیں، صرف احتیاط کر لی جائے تو مناسب ہے۔ کیا یہ حل ایسے افراد کے لیے‘ جن کا دین نکاح کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتا ہو‘ قابل قبول ہو سکتا ہے؟
لیکن کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ایک جذباتی فضا میں زینب کے سانحے کے سہارے اس مذموم حل کو نافذکروایا جائے بلکہ بہت سے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ہرباشعور پاکستانی اس حل کو رد کرتا ہے کیوں کہ یہ اس کے دین، تہذیب اور اس کی اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حل کہ بچوں کو اپنے رشتے داروں سے خبردار کیا جائے، خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے۔ کیا خاندان کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ صرف اپنے ماں باپ پر اعتماد کرے اور باقی ہر رشتے کو شک کی نگاہ سے دیکھے؟ کیا خاندان صرف ماں باپ کا نام ہے؟ جن مقامات پر یہ فکر اختیار کی گئی ہے وہاں بات رشتے داروں پر نہیں بلکہ خود والدین تک بھی پہنچی ہے۔ امریکا میں ہونے والے بچوں کے جنسی استحصال میں 80 بچوں کی موت میں خود ان کے والدین میں سے کسی کا دخل بتایا جاتا ہے۔ احتیاط کس کس سے اور کب تک کرائی جائے گی؟
مسئلہ شک و شبہے سے نہیں بلکہ اسلام کے مثبت نظام خاندان سے حل کیا جاسکتا ہے۔ جس میں ماں باپ کو ان کی ذمے داری سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کس طرح تربیتِ اولاد کریں‘ وہ کس طرح محبت اور نرمی کے ساتھ بچوں کو طہارت اور پاکیزہ کردار کی تعلیم دیں۔ ہمارا فقہی سرمایہ روزِ اوّل سے بچے کو سمجھاتا ہے کہ پاکی اور ناپاکی میں کیا فرق ہے۔ وہ یہ سمجھاتا ہے کہ وہ نہ اپنے اعضا کسی کو دیکھنے دے نہ کسی کے اعضا دیکھے۔ وہ روزِ اوّل سے اس میں ایک اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے جو جنسِ مخالف سے مناسب دوری اس کی فطرت میں شامل کر دیتی ہے۔ وہ نگاہ کے فتنے سے، جسم کے لمس سے، زبان کے فتنے سے، بچپن سے تعلیم کے ذریعے اپنے گھر کے ماحول میں اسے یہ سب باتیں سکھانا چاہتا ہے۔ اگر ہم اسلام کی ان عملی اور آفاقی تعلیمات کو خاندان کی ذمے داری کے طور پر ادا نہ کریں تو قصور خاندان کا ہے یا کسی اور کا؟
مسئلے کا حل اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آداب و اخلاق کی تعلیم ہے۔ یہ کام کتابوں میں جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنسی تعلیم انھیں جنسی تجربے پر اُبھارے گی جب کہ پاکیزگی، عصمت و عفت اور رشتوں کے احترام کی تعلیم انھیں مثبت طور پر ایک صالح معاشرے اور خاندان کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گی۔
اس کے ساتھ میڈیا کے کردار اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو بد اخلاقی پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا فوری اور مؤثر تدارک ضروری ہے۔ بعض افسانے اور ڈرامے بھی جنسی جذبات اُبھارنے کا سبب بنتے ہیں۔ 50 کے عشرے میں تو سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے پر مقدمے بھی چلے اور ایک مقدمے میں تو سپریم کورٹ نے انھیں تین ماہ قید ِ سخت کی سزا بھی سنائی۔ اس طرح کے افسانے آج کل بھی لکھے جارہے ہیں۔ لہٰذا ادیبوں کو اپنی ذمے داری محسوس کرنی چاہیے۔ اسی طرح فیسٹیول کے نام پر بعض ادارے جو گانے بجانے کی مخلوط محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ آزادیٔ اظہار بجا لیکن وہ آزادی جو اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی کا ذریعہ بنے، آزادی نہیں فساد اور تباہی کا آلہ ہے، جسے ملک کے آئین و قانون اور اخلاقی قدروں کا پابند بنانا ضروری ہے۔ پھر اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کی اصلاح ، قانون کا بے لاگ نفاذ، انتظامیہ، پولیس اور عدالت کے نظام کی اصلاح اور مجرموں کو قانون کے مطابق بروقت اور قرار واقعی سزا کا دیا جانا اصلاحِ احوال کے لیے اوّلین ضرورت ہے۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے صابر شاہ نے 17 جنوری 2018 کی اشاعت میں ایک چشم کشا جائزہ مرتب کیا۔ جس میں اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کے فروغ میں انٹرنیٹ اور میڈیا کے کردار پر بحث کی گئی ہے اور پاکستان اور مغربی دنیا کے حوالوں سے اُن دروازوں کی نشان دہی کی گئی ہے جس سے یہ تباہی خود ہمارے معاشرے کو تہ و بالا کر رہی ہے۔ جہاں ان دروازوں کو بند کرنا ضروری ہے وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو مؤثر سزا کے ذریعے نشانِ عبرت بنانا بھی ان جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ صابر شاہ رقم طراز ہیں: ’’ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ 1981ء میں ’’پپو‘‘ نامی لڑکے کو لاہور کے علاقے باغبانپورہ (نزد شالا مار باغ) سے اغوا کیا گیا اور چند روز بعد اس کی لاش قریبی ریلوے لائن کے جوہڑ سے ملی۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں اغوا کنندگان اور قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک ہفتے کے اندر ان مجرموں کو سرعام پھانسی دی گئی۔ ان مجرموں کی لاشوں کو غروب آفتاب تک لٹکائے رکھا گیا اور اس سخت سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ایک عشرے یا اس سے زائد عرصے کے دوران وہاں کوئی لڑکا اغوا ہوا نہ کسی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘
ہمارے مسائل کا حل ہماری اپنی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور مطلوبہ خاندان کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ درآمد کیے ہوئے حل نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آج ہو سکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں سے محبت ہے تو ہمیں خاندان، نظامِ تعلیم اور ابلاغِ عامہ کو صحیح کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا ہوگا۔ اس وقت نہ خاندان اپنا فرض پورا کر رہا ہے نہ اسکول اور نہ ریاست۔ ہمیں تینوں محاذوں پر کام کرنا ہوگا۔ قانون کا مؤثر استعمال اس کا اہم حصہ ہے۔
ہمارے ابلاغِ عامہ کو آفاقی اسلامی اقدارِ حیات کو متعارف کروانا ہوگا اور عریانیت، فحاشی اور ہندووانہ ثقافت کو‘ جو اس وقت ہمارے ابلاغ عامہ کی پہچان بن گئی ہے‘ خیرباد کہنا ہو گا۔ جب تک ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ اس کام کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے‘ جو ظلم اور زیادتی ملک میں ہو رہی ہے‘ اس سے اپنے آپ کو بری نہیں کر سکتے۔

حصہ