وہ تو پاگل ہے یار۔۔۔!!!۔

352

عابد علی جوکھیو
یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ انسانی بناوٹ، رنگ، زبان، لب و لہجہ، علم، سوچنے کا انداز اور اظہار وغیرہ ہر چیز مختلف ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی دو انسان بالکل ایک جیسے نہیں، فرق ضرور ہوتا ہے… اور یہی فرق کائنات کا حسن ہے۔ مختلف مزاج کے افراد ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتے ہیں، اور ان تعلقات کو قائم رکھنے کی زندگی بھر کوشش کرتے ہیں۔ کہیں یہ کوشش کامیاب ہوجاتی ہے اور کہیں ناکام… لیکن ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے اس انفرادی اختلاف (Individual Differences)کی وجہ سے ایک دوسرے سے تعلقات استوار کرنا چھوڑ دیا ہو، کیونکہ یہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ انسان کبھی بھی اکیلا نہیں رہ سکتا، اسے زندگی گزارنے کے لیے ہر موڑ پر مختلف افراد کی ضرورت پیش آتی ہے، پھر یہی افراد اس کی زندگی کو آسان بنانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کہیں ایک دوسرے سے تعلقات اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی قائم کرتے ہیں، دو افراد آپس میں اسی لیے ملتے ہیں کہ اپنے اپنے نظریات پر دوسرے کو قائل کرلیں۔ اسی تعلق کی کیفیت میں کبھی کسی سے نظریات قبول کرلیے جاتے ہیں، تو کبھی قبول نہیں کیے جاتے، اور کبھی جانبین میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے نظریات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس کی سب سے اعلیٰ مثال انبیاء علیہم السلام کی دعوت ہے، وہ لوگوںکو اپنے نظریات بتاتے اور ان پر قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ تمام انبیاء کرام نے لوگوں کو اخلاصِ نیت کے ساتھ دعوت دی، ان سے کسی معاوضے یا اپنے فائدے کے لیے کوئی سوال نہ کیا۔ لیکن اکثر لوگوں نے ان کی باتوں سے انکار کیا، بحث مباحثہ کیا، مناظرے و مباہلے کی کوشش کی، اور بہت سے نامرادوں نے اتمام حجت کے بعد بھی حق قبول کرنے سے انکار کرکے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔
دنیا میں دو قوتیں ہی کارفرما ہیں، ایک رحمن کی اور دوسری شیطان کی۔ اگرچہ شیطان کو دی گئی قوت بھی رحمن کی جانب سے ہی ہے، لیکن وعدۂ مہلت کے مطابق اسے یہ طاقت دی گئی ہے، لیکن بروز قیامت اللہ تعالیٰ اپنی تمام تر عزت و جلال کے ساتھ اعلان کریں گے کہ ’’بتاؤ! آج کس کی بادشاہی ہے… بتاؤ! آج کس کی بادشاہی ہے… ؟‘‘ لیکن کوئی جواب دینے والا نہ ہوگا، اُس وقت دنیا کی ساری طاقتیں دم توڑ چکی ہوں گی۔ جب دنیا میں یہی دوقوتیں کارفرما ہیں تو لامحالہ ان کے پیروکار بھی موجود ہوں گے، ایک رحمن کے بندے اور دوسرے شیطان کے۔ رحمن کے بندے وہی ہیں جو اُس کے بندوں کو بغیر کسی لالچ اور غرض کے نجات اور کامیابی کی طرف بلاتے ہیں، ان کی مشکلات کو آسان کرنے اور ان کے حصے کے بوجھ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کی فکر میں ہوتے ہیں… جبکہ شیطان کے بندے انسانوں سے اُن کا سُکھ چین چھیننے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ کہیں یہ سُکھ معاشی ذریعے سے چھینا جاتا ہے تو کہیں روحانی آسودگی پر حملہ کرکے… شیطان کے پجاری ایک جال کی صورت میں انسان کو تباہ و برباد کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔ جب رحمن اور شیطان کے بندوں میں نظریاتی سطح کی گفتگو ہوتی ہے تو تمام تر عقلی اور نقلی دلائل کے باوجود شیطان کے پجاری ہٹ دھرمی پر اُتر آتے ہیں ، اور رحمن کے بندوں کی کردارکشی کرنے لگتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ یہ کام کرنے والے پہلے نہیں، ان سے پہلے بھی رحمن کے بندوں پر اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں۔
قرآن مجید میں 11 مقامات پر کفار کی جانب سے لگائے گئے ایسے الزامات کا تذکرہ ملتا ہے، جن میں انبیاء علیہم السلام کو (نعوذ باللہ) مجنون کہا گیا۔ سورہ الذاریات میں بیان ہوا ہے:
(ترجمہ) ’’یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔‘‘ (آیت 52)
مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ: یعنی آج پہلی مرتبہ ہی یہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کی زبان سے آخرت کی خبر اور توحید کی دعوت سن کر لوگ اسے ساحر اور مجنون کہہ رہے ہیں۔ رسالت کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ جب سے نوع انسانی کی ہدایت کے لیے رسول آنے شروع ہوئے ہیں، آج تک جاہل لوگ اسی ایک حماقت کا پوری یکسانی کے ساتھ اعادہ کیے چلے جا رہے ہیں۔ جس رسول نے بھی آکر خبردار کیا کہ تم بہت سے خداؤں کے بندے نہیں ہو بلکہ صرف ایک ہی خدا تمہارا خالق و معبود اور تمہاری قسمتوں کا مالک و مختار ہے، تو جاہلوں نے شور مچا دیا کہ یہ جادوگر ہے جو اپنے افسوں سے ہماری عقلوں کو بگاڑنا چاہتا ہے۔ جس رسول نے بھی آکر خبردار کیا کہ تم غیر ذمے دار بناکر دنیا میں نہیں چھوڑ دیے گئے ہو بلکہ اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد تمہیں اپنے خالق ومالک کے سامنے حاضر ہوکر اپنا حساب دینا ہے اور اس حساب کے نتیجے میں اپنے اعمال کی جزا وسزا پانی ہے، تو نادان لوگ چیخ اٹھے کہ یہ پاگل ہے، اس کی عقل ماری گئی ہے، بھلا مرنے کے بعد ہم کہیں دوبارہ بھی زندہ ہوسکتے ہیں؟
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’تباہی ہے ہر اُس جھوٹے اور بداعمال شخص کے لیے جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں، اور وہ اُن کو سنتا ہے، پھر پورے اِستکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اِس طرح اَڑا رہتا ہے کہ گویا اُس نے اُن کو سنا ہی نہیں۔ ایسے شخص کو دردناک عذاب کا مُژدہ سنادو۔ ‘‘ (الجاثیہ 7۔9)
مولانا مودودیؒ نے ان کے استکبار کا تجزیہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ: ’’اس حالت میں بالعموم وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن کے اندر تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے صداقت ان کو اپیل نہیں کرتی۔ دوسرے یہ کہ وہ بدعمل ہوتے ہیں، اس لیے کسی ایسی تعلیم وہدایت کو مان لینا انہیں سخت ناگوار ہوتا ہے جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو۔ تیسرے یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ہمیں کوئی کیا سکھائے گا، اس لیے اللہ کی جو آیات انہیں سنائی جاتی ہیں ان کو وہ سرے سے کسی غورو فکر کا مستحق ہی نہیں سمجھتے اور ان کے سننے کا حاصل بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو نہ سننے کا تھا۔‘‘ (تفہیم القرآن)
حق کے انکاریوں نے صرف انکار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حق پرستوں کی تذلیل کی اور ان کا مذاق بھی اڑایا۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ان بدبختوں نے اللہ کے برگزیدہ بندوں کا مذاق اڑایا، ان کو کمتر جانا، ان کی تذلیل کرنے کی مذموم کوشش کی، لیکن اللہ نے ان کی تمام تر اکڑ اور تکبر کو دنیا میں ہی خاک آلود کردیا کہ تم جیسوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی دعوتِ دین کا آغاز کیا تو ان کا بھی مذاق اُڑایا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ (کہتے ہیں)’’کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟‘‘ (الفرقان 41)
اس طرح جب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو کہا کہ ’’اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰ نے کہا، میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں۔‘‘ (البقرہ 67)
یہاں بھی بنی اسرائیل نے استہزائً سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ کہیں آپ ہم سے مذاق تو نہیں کررہے…؟ مولانا ساجد جمیل نے اس واقعے کے ذیل میں بتایا کہ مذاق اڑانا جہالت کی بات ہے۔ انہوں نے مذاق کی وجہ بیان کی کہ یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے۔ یہ اُن لوگوں میں پیدا ہوتی ہے جو اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں، عقلمند سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی ایسی بات کی جائے جس سے وہ محسوس کریں کہ یہ ان کے Status یا مرتبے ومقام سے بہت چھوٹی ہے، یا یہ بات ان کی خواہشات کے خلاف ہے تو اُن کا دل چاہتا ہے کہ اس طرح کی بات کرنے والے کی عزت مجروح کردی جائے یا اس کے الفاظ کی قدر کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس نفسیاتی کیفیت میں بات کہنے والے اور اس کی بات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان (بنی اسرائیل) کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جاہلوں کا طریقہ ہے کہ کسی کا مذاق اڑایا جائے۔ کیونکہ ایسے افراد میں ایک دوسرے کی عزت کرنے کی حس ختم ہوجاتی ہے، انہیں ایک دوسرے کے مقام و مرتبے کی ذرا بھی فکر نہیں ہوتی کہ کسی کو کمتر نہ سمجھیں، اور نہ ہی کسی کا مذاق اڑا کر اسے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کریں۔
آج ہم اپنے معاشرے میں بھی یہی دیکھتے ہیں، آپ بے غرض ہوکر کسی کے فائدے کی بات کریں تو سامنے والا آپ کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھے گا اور سوچے گا کہ کہیں یہ پاگل تو نہیں… یا اسے میرے فائدے میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے…! یہ مجھ پر کیوں مہربان ہورہا ہے…! میری بھلائی کا کیوں سوچتا ہے…! بالآخر اُسے ان باتوں کا جواب نہیں ملتا اور بنی اسرائیل کی طرح یہی کہتا پھرتا ہے کہ یار وہ تو پاگل ہے، عجیب و غریب باتیں کرتا رہتا ہے۔ یا پھر قوم ثمود کی طرح کہتا ہے کہ مجھے تو آپ کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہیں۔ یہ طرزِعمل صرف اسی لیے ہوتا ہے کہ سامنے والا یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کوئی اپنے مطلب اور غرض کے بغیر بھی میرے ساتھ خیرخواہی کرسکتا ہے… درحقیقت اسلام کا اصل مطلوب یہی بے غرض خیرخواہی ہے۔ لیکن آج مادہ پرستانہ ذہنیت نے اسلام کی اصل روح کو مسخ کردیا ہے اور کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں کہ بلاغرض اور مطلب بھی کسی سے خیرخواہی کی جاسکتی ہے۔

حصہ