حضرت شعیب ؑاور ان کی قوم

559

سید مہر الدین افضل
(تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف آیت:۔ 85 تا 93 سورۃ ہود آیت 85 تا 95 سورۃ الشعرا آیت نمبر 176 تا 191)
حضرت شعیبؑ کا خطاب:۔ شعیبؑ نے اپنی قوم سے متعدد تفصیلی خطاب کیے ہوں گے قرآن مجید میں ان خطبات کے بنیادی نکات بتائے گئے ہیں، جوسورۃ الاعراف، سورۃ ہود، سورۃ الشعرا میں مذکور ہیں ہم انہیں مختصر مفہوم کے ساتھ پیش کرتے ہیں:۔
انہوں نے فرمایا ’’اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ (اور میں تمہارے رب کی رہنمائی تم تک پنہچا رہا ہوں۔۔۔ اور تم جانتے ہو کہ تمہارے درمیان میرا اخلاق و کردار کیسا رہا ہے اور میں اللہ کا پیغام پنہچانے کے لیے تم سے کوئی اجرت یا صلہ نہیں مانگتا۔۔۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں جو باتیں تم سے کہتا ہوں ان پر خود عمل نہ کرتا ہوں) اب جب کہ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہٰذا (تجارت میں ایمان داری سے کام لو اور) وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہوتو ایمان کے سارے تقاضے پورے کرو۔۔۔ تمہارے درمیان اور خدا اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان فرق ہونا چاہیے اور تمہیں خدا نے بہترین جغرافیائی پوزیشن دی ہے، تمہارے پاس سے تمام تجارتی قافلے گزرتے ہیں اب تم ان کے ہر راستے پر ڈاکو بن کر نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو خوف زدہ کر و اور ان پر بھاری ٹیکس لگاؤ! اس طرح تمام دوسری قومیں تمہاری دشمن ہو جائیں گی اور تمہاری تجارت اور خوشحالی برباد ہو جائے گی۔ اور جو لوگ میری دعوت قبول کر رہے ہیں اور مجھ پر ایمان لا کر اپنے اخلاق و کردار میں تبدیلی لا رہے ہیں انہیں خدا کے راستے سے نہ روکو اور جو سیدھی راہ دکھائی جا رہی ہے اس کو ٹیڑھا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے۔۔۔ تم مدیان بن ابرہیمؑ اور ان پر ایمان لانے والوں کی اولاد ہو اللہ نے ان کے اعلی اخلاق و کردار کی وجہ سے برکت دی تعداد بڑھائی تجارت میں کامیابی عطا کی۔۔۔ اب تم بد کرداری پر اتر آئے ہو۔۔۔ فساد پھیلا رہے ہو، ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے تو ان کا جینا دشوار نہ کرو انہیں ان کے اعلی اخلاق و کردار کے ساتھ زندگی گذارنے دو۔۔۔ تم خود دیکھ لو گے کامیاب کون ہوتا ہے۔۔۔ اگر تم خود اعلی اخلاق اختیار نہیں کرتے تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔‘‘ آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے۔۔۔ اور بہر حال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِ کار نہیں ہوں۔‘‘
سرداروں کا جواب:۔ اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے،آپس میں کہا کہ:۔ ’’اگر تم نے شعیبؑ کی پیروی قبول کرلی تو برباد ہوجاؤگے۔۔۔ جملہ تو بہت چھوٹا سا ہے لیکن بات بہت بڑی اور غور طلب ہے۔۔۔ جس معاشرے میں جھوٹ، کرپشن، میرٹ کا قتل، اور لوٹ مار عام ہو وہاں معاشرے کی بنیادی اقدار مختلف ہوتی ہیں۔۔۔ افراد کی ترقی اور تنزلی کا معیار مختلف ہوتا ہے۔۔۔ زندگی کے رنگ ڈھنگ مختلف ہوتے ہیں۔۔۔ مَد یَنَ کے سردار اور لیڈر (یہ سمجھ گئے تھے کہ شعیبؑ کی بات مان کر ہماری سرداری، نہیں چلے گی، ہماری دولت مندی ختم ہو جائے گی جس کی وجہ سے ہماری دھونس قائم ہے وہ دراصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے کہ شعیب جس ایمان داری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق ودیانت کے جن مستقل اصولوں کی پا بندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہوجائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں۔ اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چوراہے پر بستے ہیں، اور مصر و عراق کی عظیم الشان متمدّن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کر دیں اور بے ضرر اور پُر امن لوگ ہی بن کر رہ جائیں تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافیائی پو زیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر ہماری جو دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔۔۔۔ یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جھوٹ اور بے ایمانی اور بد اخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلے میں جو زبر دست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہو جائے گی۔ اور انہوں نے شعیبؑ سے کہا کہ:۔ ’’ اے شعیبؑ، تیری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ تم پر جادو ہو گیا ہے! ہماری دنیا کے معاملات سے خدا کو کیا لینا دینا وہ بے نیاز ہے، کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ ہم کو اپنے مال میں اپنے منشا کے مطابق تصّرف کرنے کا اختیار نہ ہو؟ بس تو ہی تو ایک عالی ظرف اور راست باز آدمی رہ گیا ہے!‘‘ اور ہم دیکھتے ہیں کہ تو ہمارے درمیان ایک بے زور آدمی ہے، تیری برادری نہ ہوتی تو ہم کبھی کا تجھے سنگسار کر چکے ہوتے، تیرا بل بوتا تو اتنا نہیں ہے کہ ہم پر بھاری ہو۔‘‘
’’اے شعیبؑ، ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری مِلّت میں واپس آنا ہوگا۔۔۔ تمہاری عذاب کی دھمکی ہمیں جھوٹ لگتی ہے اگر تم سچے ہو تو لے آو وہ عذاب جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔
شعیبؑ نے جواب دیا:۔ ’’کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟ ہم اللہ پر جھوٹ گڑھنے والے ہوں گے اگر تمہاری مِلّت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔ ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں اِلّا یہ کہ خدا ہمارا ربّ ہی ایسا چاہے، ہمارے ربّ کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اسی پر ہم نے اعتماد کر لیا، اے ربّ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ شعیبؑ نے کہا ’’بھائیو، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا۔ تو اس کے بعد میں تمہاری گمراہیوں اور حرام خوریوں میں تمہاراشریکِ حال کیسے ہو سکتا ہوں؟ اور میں ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے۔ اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملے میں اسی کر طرف رجوع کرتا ہوں۔ اور اے برادرانِ قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخرِ کار تم پر بھی وہی عذاب آکر رہے جو نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیا تھا۔ اور لوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔ دیکھو! اپنے ربّ سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آئو، بے شک میرا ربّ رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔‘‘ شعیبؑ نے کہا ’’بھائیو، کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے برادری کا تو خوف کیا اور اللہ کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اے میری قوم کے لوگو، تم اپنے طریقے پر کام کیے جائو اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا، جلد ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر ذلّت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے۔ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں۔‘‘

عذاب

آخرِ کار جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فیصلے کا وقت آگیا تو اس نے اپنی رحمت سے شعیبؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے سے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حسّ و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔
یہ ایک دہلا دینے والی آفت تھی جس میں شعیبؑ کی دعوت کو جھٹلا نے والے ہی آخرِکار برباد ہو کر رہے۔ اور شعیبؑ نے اس بستی سے نکلتے ہوئے کہا کہ ’’اے برادرانِ قوم، میں نے اپنے ربّ کے پیغامات تمہیں پہنچا دیے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ اب میں اس قوم پر کیسے افسوس کروں جو قبولِ حق سے انکار کرتی ہے سنو! مَدیَن والے بھی دور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔
اللہ سبٰحانہٗ و تعٰالٰی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ