دہشت گردی کے خلاف علما کا فتویٰ

299

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
وطنِ عزیز پاکستان میں طویل عرصے سے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حملوں کا ہدف مسلح افواج کے جوانوں کے ساتھ ساتھ پولیس کے اہلکار، ٹریفک پولیس، زیر تربیت رنگروٹس، اسکول، کالج، مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، گھروں میں عام افراد بھی ہوتے ہیں۔ کئی قسم کے گروہ ان واقعات میں ملوث ہیں اور اس کی ذمے داری قبول کرتے ہیں، جن میں سرفہرست تحریک طالبان پاکستان اور اس سے ملحق دیگر مسلح تنظیمیں ہیں۔ ان کے علاوہ لشکر جھنگوی اہلِ تشیع، خاص طور پر کوئٹہ میں ہزارہ قوم کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔ قوم پرست تنظیمیں خاص طور پر بلوچ تنظیمیں بلوچستان میں غیر بلوچی افراد کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم سے وابستہ مسلح گروپوں نے طویل عرصے تک قتل و غارت کا بازار گرم رکھا اور بوری بند لاشیں ملنا ایک زمانے میں معمول تھا۔ عسکری اداروں اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے بھی مشکوک افراد کو گھر سے اٹھانے اور لاپتا افراد کو بغیر مقدمہ چلائے قتل کرنے کا ناپسندیدہ عمل اپنایا ہوا تھا جس کا سلسلہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں آرمی ایکشن کے دوران بھی بڑے پیمانے پر قبائلی عوام کو قتل کیا گیا اور لاکھوں افراد بے گھر ہوکر خیبر پختون خوا اور دیگر صوبوں میں منتقل ہوئے۔ اس طرح گزشتہ سال تک ملک میں بڑے پیمانے پر بدامنی کا راج رہا اور ہزاروں افراد اس کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حالت یہ تھی کہ مساجد میں نمازی، اسکولوں میں طلبہ، عدالتوں میں وکلاء اور اسپتالوں میں مریض تک محفوظ نہ رہے۔ پاکستان اور بھارت کی آپس کی جنگوں میں اتنے فوجی افسران شہید نہیں ہوئے جتنے اپنے ملک میں دہشت گردی کا شکار بنے، جن میں جنرل کی سطح کے افراد تک شامل ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ ترین افسران نشانہ بنے۔ ایک عجیب منظر یہ دیکھنا نصیب ہوا کہ ٹریفک پولیس اہلکاروں نے کلاشنکوف ہاتھوں میں پکڑ رکھی ہے۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ چھوٹے بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین کے قطرے پلاکر معذوری سے بچانے کی مہم چلانے والی خاتون ورکرز کو بھی ہدف بناکر قتل کیا جارہا ہے۔ ایسا سنگین مذاق دنیا میں شاید ہی آپ کو نظر آئے۔ سب سے دل خراش واقعہ 16 دسمبر 2015ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے 150 معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے کا پیش آیا جس نے پوری پاکستانی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور بیک وقت سب نے مطالبہ کیا کہ ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ بنایا جائے۔
ہمارے ملک پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں کسی بھی دور میں ملکی قانون کے نفاذ کی کیفیت قابلِ رشک نہیں رہی۔ حکمران طبقے نے خود قانون کی پامالی کو اپنا وتیرہ بنایا ہوا ہے، اس لیے مجموعی طور پر ملک میں نظم و ضبط کی کمی ہے۔ اس رویّے کا بدترین مظاہرہ آپ کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں ہماری سڑکوں پر نظر آتا ہے۔ غالباً یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتا اور کار سوار سیٹ بیلٹ کا استعمال نہیں کرتے۔ تھانوں اور عدالتوں میں بدعنوانی اور مقدمات میں عدل وانصاف کی پامالی ایک عام بات ہے، اس لیے عام لوگ عدالتی فیصلوں کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی انتقامی کارروائی کرلیتے ہیں اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ ہر فریق کی طرف سے جاری ہے۔
اس صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا، جس پر گزشتہ دو، تین سال سے عمل ہورہا ہے، لیکن اس میں ایک اہم سقم تھا کہ تخریب کاری کی ایک بنیادی وجہ مذہبی و دینی نکتہ تھا جس کو استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ خودکش حملوں کے لیے جن نوجوان اور کم عمر بچوں کو استعمال کیا جاتا رہا وہ یہی دینی نکتہ ہے جس کی غلط اور من مانی تعبیرکے ذریعے ذہن سازی کی جاتی تھی، جس کی بنیاد پر وہ خودکش دھماکا کرنے پر آمادہ ہوتے تھے اور اپنے ساتھ بہت سارے بے گناہ لوگوں کو بھی مار دیتے تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس مسئلے پر علمائے کرام دینی بنیاد پر ایک رائے دیں کہ وہ ان حملوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہ بڑا حساس مسئلہ تھا جس کے لیے ضروری تھا کہ ریاستی قوت اور علماء مل کر کام کریں، کیونکہ اس سے پہلے انفرادی طور پر اگر کسی عالم نے ایسی کوئی کوشش کی بھی تو اُس کو اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔
پشاور کے مشہور و معروف عالم دین شیخ حسن جان کی دن دہاڑے رمضان المبارک میں شہادت اسی حق بیانی کا شاخسانہ تھا۔ اس لیے اب ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی نے جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تحت کام کرتا ہے، ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور مفتیانِ عظام سے رابطہ کیا اور ان کو ایک استفتاء بھیجا۔ اس اہم کام میں پاکستان کے تمام دینی مدارس کے نمائندہ جو وفاق قائم ہیں اُن کے سربراہان نے تعاون فراہم کیا جس میں وفاق المدارس، تنظیم المدارس اہلسنت، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعیہ اور رابطہ المدارس پاکستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کے تمام اراکین بھی اس کی تدوین میں شامل ہیں جن کا تعلق پاکستان کے تمام مسالک سے ہے۔ اس فتویٰ کو 35 جید علمائے کرام نے لکھا ہے اور پورے پاکستان سے 1829 علماء، مفتیان اور مدرسین نے اس کی تصدیق کی ہے۔ یہ استفتا اور فتویٰ اب کتابی صورت میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے جو بیک وقت اردو اور انگریزی میں ہے۔ اس کتابچے میں قیام پاکستان کے پس منظر، قراردادِ مقاصد اور دستاتیر پاکستان 1956ء، 1962ء اور 1973ء کے حوالے سے ریاست پاکستان کی نظریاتی اساس دینِ اسلام کو قرار دیا گیا ہے اور اس کی حفاظت و سلامتی کی ذمے داری تمام مسلمانانِ پاکستان کی ہے، اور اس کی مخالفت اور اس میں شورش و بغاوت یا مسلح جدوجہد ازروئے اسلام باطل قرار پاتی ہے۔ اس میں اُن تمام علماء کے نام و پتے بھی درج ہیں جنہوں نے اس فتویٰ کی تائید کی ہے۔
استفتاء میں علماء سے جو سوال کیا گیا ہے اُس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ہمارے ملک پاکستان میں عرصۂ دراز سے بعض حلقوں کی جانب سے حکومتِ پاکستان اور مسلح افواج کے خلاف خونریز کارروائیاں جاری ہیں۔ حکومت اور افواج کو اس بنا پر کافر و مرتد قرار دیتے ہیں کہ ملک میں شریعت کو نافذ نہیں کیا، اس لیے مسلح کارروائیوں کو جہاد کا نام دے کر نوجوانوںکو ان کارروائیوں میں شرکت کی دعوت دی، خودکش حملے کرکے بے گناہ شہریوں اور فوجیوں کو شہید کیا اور اسے کارِ ثواب قرار دیا۔ اسی بنیاد پر 5 سوالات کے جوابات پوچھے گئے:
-1 کیا نفاذِ شریعت نہ کرنے کی وجہ سے ملک کو غیر اسلامی اور فوج کو غیر مسلم قرار دینا جائز ہے؟
-2 کیا نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے نام پر حکومت اور فوج کے خلاف بغاوت جائز ہے؟
-3 جو خودکش حملے کیے جارہے ہیں، قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا کیا جواز ہے؟
-4 اگر ان تین سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ شریعت کی رو سے جائز ہیں؟
-5 مسلح فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات اور اپنے نظریات طاقت کی بنیاد پر مسلط کرنا شرعاً جائز ہے؟
اس استفتاء کے جواب میں 26 مئی 2017ء کو جو متفقہ فتویٰ جاری کیا گیا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ جواب میں جن قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں وہ یہاں نقل نہیں کیے گئے ہیں۔ اسی طرح دستورِ پاکستان کی دفعات بھی نہیں لکھیں، البتہ اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔
-1 اسلامی جمہوریہ پاکستان یقینا اپنے دستور اور آئین کے لحاظ سے ایک اسلامی ریاست ہے۔ (حوالہ جات: قراردادِ مقاصد، دستورِ پاکستان کی دفعات 227,31) اور کسی قسم کی عملی خامیوں کی بنا پر اسے، اس کی حکومت یا افواج کو غیر مسلم قرار دینا ہرگز جائز نہیں بلکہ گناہ ہے۔
-2 چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور پاکستان کی حکومت اور افواج دستورِ پاکستان کے پابند اور اس کے مطابق حلف اٹھاتے ہیں، اس لیے پاکستان کی حکومت یا افواج کے خلاف مسلح کارروائیاں بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں جو شرعاً حرام ہیں۔ دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات کو نافذ کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے پُرامن اور آئینی جدوجہد مسلمانوں کا فریضہ ہے، لیکن اس کے لیے ہتھیار اٹھانا فساد فی الارض ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور جو لوگ اس مسلح بغاوت میں شریک یا اس کی مدد کرتے ہیں وہ ان ارشادات کی نافرمانی کررہے ہیں۔ (حوالہ جات: حدیث نمبر 4768، صحیح مسلم) کسی مسلمان حکومت کے خلاف مسلح کارروائی اور خونریزی بدترین گناہ ہے۔
-3 اسلام میں خودکشی حرام ہے (حوالہ جات قرآن: سورۃ النساء، آیت 29، و احادیث) اور اگر یہ خودکشی کسی دوسرے مسلمان کو مارنے کے لیے کی جائے تو یہ دہرے گناہ کا سبب ہے (حوالہ: سورۃ النساء آیت 93، حدیث جامع ترمذی 1403)۔ پاکستان میں جو خودکش حملے کیے جارہے ہیں وہ تین شدید گناہوں کا مجموعہ ہیں۔ ایک خودکشی، دوسرا بے گناہ کا قتل اور تیسرا مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت۔ خودکش حملے کسی بھی تاویل سے جائز نہیں ہوسکتے اور ان کی حمایت کرنا گناہوںکی حمایت کرنا ہے۔
واضح رہے کہ جو لوگ شریعت کے نام پر یا قومیت کے نام پر حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں کررہے ہیں وہ شرعاً مسلمان ریاست کے خلاف کھلی بغاوت ہے (حوالہ: الحجرات 9)۔ لہٰذا حکومت اور افواجِ پاکستان کا شرعی حدود میں رہتے ہوئے باغیوںکے خلاف لڑنا جائز اور قرآنی حکم کے تحت واجب ہے اور اس کی مدد مسلمانوں پر واجب ہے۔
مختلف مسالک کا نظریاتی اختلاف ایک حقیقت ہے لیکن اس کو علمی اور نظریاتی حدود میں رکھنا واجب ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام، صحابہ کرامؓ، ازواجِ مطہراتؓ اور اہلِِ بیت کے تقدس کو ملحوظ رکھنا ایک فریضہ ہے، اور آپس میں سبّ وشتم، اشتعال اور نفرت پھیلانے کا کوئی جواز نہیں، اور اس اختلاف کی بنیاد پر قتل و غارت، جبر اور جان کے درپے ہونا بالکل حرام ہے۔
جامعہ نعیمیہ کراچی نے اس فتویٰ سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اضافی نوٹ لکھا ہے اور ان باغی گروہوں کو خوارج قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا وہ حکم لکھا ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے عہد کے خوارج کی بابت دیا تھا اور ان کے خلاف جہاد کرکے ان کی سرکوبی کی تھی۔ (حوالہ قرآنی آیت المائدہ)
جید علمائے کرام کی مشاورت سے یہ فتویٰ تحریر کیا گیا ہے، ان میں مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا عبدالمالک، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا محمد حنیف، مولانا یاسین ظفر، علامہ سید ریاض حسین نجفی، مولانا ڈاکٹر ابوالحسن محمد شاہ، مولانا نعیم، مولانا محمد افضل حیدری، مفتی محمود الحسن محمود، مولانا حامدالحق حقانی، مولانا یوسف الدریوش، ڈاکٹر محمد ضیا الحق، پروفیسر عبدالقدوس صہیب، مولانا اسحاق ظفر، مولانا ابوالظفر غلام محمد، مولانا زاہد محمود قاسمی، مفتی رحیم اللہ، اور مولانا سید قطب کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

حصہ