جوڑ توڑ اور ضمیر فروشی کی سیاست

434

سید اقبال چشتی
ابھی سینیٹ کے الیکشن کا شیڈول جاری نہیں ہوا تھا مگر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایوانِ بالا کی خالی ہونے والی نشستوں کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے سیاسی چالوں کے ساتھ جوڑتوڑ کی سیاست کا آغاز کردیا تھا۔ اس حوالے سے سب سے پہلا والا بلوچستان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر کیا گیا، اور مسلم لیگ (ن) کے بجائے اب وہاں مسلم لیگ(ق) کے وزیراعلیٰ ہیں۔
حکومت کی اس تبدیلی کو سیاسی حلقوں میں ایوانِ بالا میں اکثریت برقرار رکھنے کی دوڑ کہا گیا۔ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر آصف علی زرداری نے اپنے لاہور کے جلسہ عام کے موقع پر کھل کر کہا کہ ہم حکومت کو جب چاہیں گرا سکتے ہیں اور ہم نے یہ عمل بلوچستان میں کر دکھایا۔ ظاہر ہے صوبائی حکومت کی تبدیلی کا عمل ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی پالیسی کے تحت ہی ہوا ہوگا۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ ہم نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد برطانوی قوانین ہی اپنے ہاں رائج کیے لیکن برطانوی سیاست کو اپنے ملک میں متعارف نہ کرا سکے۔ ایک برطانوی وزیراعظم ایک ووٹ کی برتری کے ساتھ پانچ سال وزیراعظم رہتے ہیں لیکن عدم اعتماد کی کوئی تحریک پیش نہیں ہوتی۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوجاتی ہے، کیونکہ ہمارے پاس جوڑ توڑ کی سیاست کو شاطرانہ چال سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں سیاست کے میدان میں ہارس ٹریڈنگ اور لفافے کی اصطلاحیں موجود ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات کا شیڈول جاری ہوا تو سندھ میں سیاسی ہلچل زیادہ نظر آئی، اور سیاسی جوڑتوڑ کے ماہر کا جادو یہاں بھی چل گیا، اور تیس سال سے کراچی پر راج کرنے والی پارٹی ایم کیو ایم میں سینیٹ کے امیدواروں کی نامزدگی کے حوالے سے کنوینر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے، اس طرح ایم کیو ایم مزید تقسیم ہوگئی۔ یقینا اس اختلاف اور تقسیم کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ اس حوالے سے تجزیہ یہی کیا جارہا ہے کہ سندھ کی 12 نشستیں پیپلز پارٹی لے جائے گی کیونکہ ضمیر فروشی کا موسم ہے اور جو لوگ الطاف حسین اور پارٹی کے خیرخواہ نہ رہے، وہ کس طرح یہ آخری موقع اپنے ہاتھوں سے گنوانا چاہیں گے! اس لیے کہ یہ معاملہ ہی مال و دولت کا ہے۔ پہلے یہ دولت لندن جاتی تھی، اب یہ مال کس کو لینا ہے؟ ہر گروپ اس مال کا اپنے آپ کو حق دار سمجھ رہا ہے۔ اب تو ایم کیو ایم کے ایک رکن اسمبلی نے بھی بیان دے دیا ہے کہ پیپلز پارٹی ہمارے ارکانِ اسمبلی کو خریدنے کی کو شش کررہی ہے۔ مگر جو گروپ یہ بات کررہا ہے کہ ہمارے پاس وفادار ارکانِ اسمبلی ہیں، اُس پر رزلٹ والے دن یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ کون جیتا اور کون جوڑتوڑ کی سیاست کی نذر ہوگیا۔ جس اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا تھا اور جس کے متعلق فاروق ستار کہہ چکے ہیں کہ 2013ء تک اسٹیبلشمنٹ الطاف حسین سے مشاورت کرتی تھی، آج اسی اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کو لاوارث کردیا ہے، کیو نکہ اب جس سے جو کام لینا تھا وہ لیا جا چکا۔ اسی لیے پیپلزپارٹی کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ یہ مکافاتِ عمل ہے، کل تک عوام کو مارنے والے اب ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، جن لوگوں نے کراچی کو خون کے آنسو رلایا، آج وہی نہ صرف آپس میں لڑرہے ہیں بلکہ رو بھی رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی اس تقسیم پر سوشل میڈیا پر ایک تبصرہ ہم نے بھی کیا کہ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا‘‘۔
جوڑ توڑ کی سیاست ایسی چیز ہے کہ دھرنے کی سیاست کرنے والے بھی سینیٹ کے انتخابات میں ڈر اور خوف کا شکار ہیں کہ کہیں ہمارے ارکانِ اسمبلی ہارس ٹریڈنگ کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس کا تدارک کرنے کے لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ارکانِ اسمبلی کو لالچ دیا ہے کہ آئندہ جنرل الیکشن میں پارٹی اُنہی قومی اور صوبائی ارکانِ اسمبلی کو ٹکٹ دے گی جو سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کے اُمیدوار کو ووٹ دیں گے۔ یہ ڈر اور خوف تحریک انصاف کو کیوں لاحق ہوا؟ اس لیے کہ تحریک انصاف نے بھی سینیٹ کے ٹکٹ اُن افراد کو دیے ہیں جو پیسے والے ہیں، اور یقینا یہ ٹکٹ مفت میں نہیں دیے گئے ہوںگے۔ بقول جاوید ہاشمی جب چیئرمین تحریک انصاف جنرل الیکشن کے پارٹی ٹکٹ کروڑوں میں دے سکتے ہیں تو پھر سینیٹ کے انتخابات میں تو چلتا ہی پیسہ ہے۔ اس لیے ارکانِ اسمبلی جو کروڑوں کے عوض ٹکٹ حاصل کرتے ہیں، اُن کے ضمیر کا سودا کس طرح کیا جائے گا، یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ خود تحریک انصاف کی باغی رکن اسمبلی عائشہ گلالئی نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین اپنے بیٹے کے لیے دولت کے بل پر ووٹ خرید رہے ہیں۔ جہاں مال و دولت کے بل پر الیکشن لڑا جاتا ہو، وہاں سیاست میں کرپشن کیونکر ختم ہوگی! غریب کی حکمرانی کی بات کرنے والی تحریک انصاف نے بھی ارب پتی اشرافیہ کو سینیٹ کے ٹکٹ دے کر میرٹ کا قتلِ عام کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے دولت کے بل پر ایوانِ بالا میں جانے کے لیے کس قدر بے چین ہیں۔ میرٹ کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مال و دولت کا سونامی لودھراں کے ضمنی انتخاب میں دم توڑ گیا۔
سینیٹ کے انتخابات میں دولت کے بے دریغ استعمال اور ہارس ٹریڈنگ کے خلاف امیر جماعت اسلامی آواز اُٹھا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن سینیٹ انتخابات میں خریدوفروخت کا نوٹس لے۔ ارکان کی خرید و فروخت کے حوالے سے بات اُس جماعت کے سربراہ کررہے ہیں جس کے ارکانِ اسمبلی پارٹی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، جو کسی صورت بکائو مال نہیں ہوتے۔ جبکہ جن پارٹیوں کو خطرہ ہے کہ ہمارے ارکان بک سکتے ہیں، وہ یہ بات نہیں کررہیں، کیونکہ وہ پارٹیاں خود بھی جوڑ توڑ اور خرید و فروخت کی سیاست میں ملوث ہیں۔ اگر کوئی اعتراض ہے تو اسحاق ڈار پر ہے کہ وہ سینیٹ کے رکن نہ بننے پائیں اور الیکشن کمیشن میں اسحاق ڈار کے خلاف درخواست بھی دائر کردی گئی ہے، جس کے جواب میں الیکشن کمیشن نے اسحاق ڈار کے کاغذاتِ نامزدگی کو نیب کے پاس جانچ پڑتال کے لیے بھیجا ہے کہ یہ دولت اُن کے پاس کہاں سے آئی؟ ایک فرد پر اعتراض ہوا ہے تو نیب تحقیقات کرے، جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ الیکشن کمیشن کو سینیٹ کے ہر امیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی نیب کے پاس بھیجنے چاہئیں کہ ان کا کاروبار کیا ہے؟ ذرائع آمدن کیا ہیں؟ اس قدر مال و دولت، ملک اور بیرون ملک جائداد کیسے بنائی گئی؟ لیکن الیکشن کمیشن تمام اختیارات رکھنے کے باوجود دولت مند اشرافیہ کے سامنے بے بس ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ سینیٹ کی ایک نشست کے لیے اربوں روپے کی بولی لگائی جارہی ہے۔ شیخ رشید احمد کے بقول ہر صوبے کے الگ ریٹ ہیں۔ اسی لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے کہ سینیٹ انتخابات میں لوٹ کھسوٹ کرنے والے ضمیر فروش عوام کے نمائندے نہیں ہوسکتے۔ لیکن وزیراعظم صاحب! اس میں قصور بھی آپ ہی کا ہے۔ انتخابی اصلاحات نہ کرنے اور الیکشن کمیشن کو بااختیار ادارہ نہ بنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر انتخابات پر دولت مند اشرافیہ کا قبضہ ہوچکا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ دولت مند اشرافیہ سیاسی بنیادوں پر کروڑوں، اربوں کے قرضے لیتی ہے اور پھر سیاسی بنیادوں پر ہی معاف بھی کرا لیتی ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ جو حکمران قرضہ معاف کرتے ہیں وہ خود اس کے خلاف بیانات دیتے ہیں، مگر کرتے وہی ہیں جو اشرافیہ کہتی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف فرما رہے ہیں کہ نام نہاد اشرافیہ اربوں روپے کے قرض لیتی اور معاف کرا لیتی ہے۔ جبکہ یہی سیاست دان انتخابات کے وقت کہتے ہیں کہ ہم لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، مگر اقتدار میں آکر سب بھول جاتے ہیں جس طرح عدلیہ اور عوام پاناما کیس کو بھول چکے ہیں۔ اگر 434 دولت مند افراد جن کا نام پاناما کیس میں شامل تھا، اُسی وقت ان کی بیرونِ ملک دولت کا احتساب ہوجاتا تو آج سینیٹ میں خریدوفروخت اتنی آسان نہیں ہوتی۔ بہرحال عدلیہ اپنا کام کررہی ہے اور عوام کو عدلیہ پر ہی اعتماد ہے کہ وہ سیاست میں ’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ کا خاتمہ کرے گی۔ اس حوالے سے چیف جسٹس کا بیان خوش آئند ہے کہ ہم شفاف انتخابات کرائیں گے۔

حصہ