برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

353

قسط نمبر124۔
1959 میں ایوب خان نے بنیادی جمہوری اصلاحاتی پروگرام کو ہوئے جمہوری نظام کو نچلی سطح تک اتا رنے کا فیصلہ کیا اور یونین کونسلوں کا نظام تشکیل دیا۔اور اس مقصد کے لیے ایک آرڈیننس کے ذریعے جمہوری قانون کو عملی شکل دی۔ اور یوں ایک سال کے اندر اندر پاکستان میں بنیادی جمہوریت کا نظام جاری ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنے لیے ایوان سے منظوری حاصل کرکے فیلڈ مارشل لا کا عہدہ بھی حاصل کرلیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اقتدار کے ساتویں آسمان پر محو پرواز تھے۔ ان کے پیشروؤں نے ملک کے سیاسی حالات اس قدر پیچیدہ کردئیے تھے کہ اس میں سدھار کی کو ئی فوری سبیل دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ایوب کے اصلاحاتی پروگرام کی اخبارات اور ریڈیو کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی جارہی تھی۔
اس نظام کو ڈھال بناتے ہوئے ایوب خان نے اپنے مارشل لا کو جمہوریت کی چھتری میں لانے کا پروگرام بنایا۔ سیاسی جلسوں کی پابندی کا جو آرڈیننس تھا اس میں ترمیم کرکے سیاسی جلسوں کی محدود پیمانے پر اجازت دی۔مگر اس اجازت کا تمام تر فائدہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ہی حاصل کیا۔ دیگر جماعتوں کو جلسے کرنے کے لیے اجازت حاصل کرنے کے لیے ایسے مراحل سے گزارا جاتا کہ جلسے کی مجوزہ تاریخ ہی گزر جاتی۔
1959 میں ایوب خان نے عوامی رابطے کا پروگرام بنایا اور اس مقصد کے لیے ٹرین مارچ کا آغاز کیا اور مغربی پاکستان کا دورہ کرکے اپنے لیے صدراتی انتخاب کے لیے رائے عامہ ہموار کی جاسکے۔
اسی دوران دارالحکومت کی تبدیلی کا بھی فیصلہ کیا گیا اور ان کے آبائی گاؤں ” ریحانہ ” کے قرب و جوار کی جگہ جو اسلا م آباد کے نام سے بسائی گئی۔اسے پاکستان کا دارلحکومت قرار دیا گیا۔ اس تبدیلی کے فیصلے سے مشرقی پاکستان میں اور کراچی میں شدید ترین ردعمل دیکھنے میں آیا۔ مگر اب اس فیصلے کا تدارک ممکن نہیں تھا۔
ایوب خان نے اپنی کٹھ پتلی کابینہ کے ذریعے ایک قرارداد منظور کروائی جس میں ان پر اعتماد کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کابینہ میں جناب منظور قا در خارجہ امور اور جناب محمد ابراہیم وزیر قانون لیفٹننٹ جنرل کے ایم شیخ وزیر داخلہ اور جناب ذوا لفقار علی بھٹو ( زلفی ) وزیر اطلا عات ونشریات نے دن رات کی انتھک محنت اور مہم چلانے کے بعد صدر مملکت کے لیے مصنوعی جمہوری سائبان فراہم کیا۔ جس کا احسان ایوب خان نے خوب نبھایا۔
1960 میں ایوب خان کے لیے خوشی کا وہ لمحہ بھی آگیا جب الیکشن کمیشن کے حکم کے ذریعے انہیں اس بات کا اختیار دے دیا گیا کہ وہ دستور پاکستان کے تحت ملک میں صدارتی انتخابات کروا سکتے ہیں۔ مغربی پاکستان میں ٹر ین مارچ کے کامیاب تجربے اور رائے عامہ اپنے حق میں خاصی حد تک ہموار دیکھ کر ایوب خان نے ڈھاکا پہنچ کر پورے مشرقی پاکستان کے دورہ کرنے کا اعلان کیا۔ اور ڈھاکا سے جمہوریت مارچ کا آغاز کرڈالا۔ اس ٹرین مارچ کے ذریعے انھوں نے مشرقی پاکستان کے سترہ اضلاع کا ہنگامی دورہ کیا اور ہر ضلع عوامی جلسوں سے خطا ب فرمایا۔ ان تقاریر میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور اسلام پر مبنی آئین کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے گا۔
جبکہ حقیقت میں صورتحال اس کے بالکل برخلاف تھی۔ شدید ترین سیاسی جبر اور گھٹن تھی جو بدستور قائم تھی۔ پولیس کے نظام کو جمہوری نمائندوں کے ماتحت کردیا گیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وڈیرے اور چودھریوں نے اپنی اپنی پولیس فورس بنا کر اس پولیس کو اپنے مقصد کیلیے استعمال کیا اور مخالفین کو بدترین مظالم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اب ایوب خان کو اپنے اقتدار کے دوام کی خطر آخری داؤ کھیلنا تھا۔ اور وہ تھا صدارتی چناؤ کا۔ چناچہ قانون و دستور جسے پہلے ہی معطل کیا جا چکا تھا۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے صدراتی چناؤ ریفرینڈم ا اعلان ہوا۔ جس کے واحد امیدوار ایوب خان ہی تھے۔ ملک بھر میں انتخابی ڈرامے کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور بیلٹ پیپر جس میں واحد امیدوار ایوب خان کی تصویر پرنٹ تھی تقسیم کروایا گیا۔ اس رائے شماری کے سرکاری نتائج کے مطابق مشرقی و مغربی پاکستان کے 99 فیصد رائے دہندگان کی رائے ایوب خان کو بطور صدر تسلیم کرنے کے حق میں تھی۔
صدر منتخب ہونے کے ساتھ ہی ایوب خان نے دستور میں اصلاحات کا اعلان کیا اور اپنی مرضی سے نئے قوانین کی منظوری کا منصوبہ بنا تے ہوئے ایک آئینی کمیشن تشکیل دیا ، جسٹس شہاب الدین کی سربرا ہی میں کمیشن قائم ہوا جس میں ایک سا بق جج محمد شریف بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ جو افراد بھی شامل کیے گئے وہ قانون کی الف بے سے بھی وا قف نہیں تھے۔ کمیشن میں زیادہ تر صنعتکار اور بزنس میں شامل تھے۔
دستور میں اپنے مطلب کی ترامیم کرنے کے بعد اس کی منظوری کے لیے سوالنا مہ بنایا گیا تاکہ صدارتی ریفرنڈم ریفرنڈم کی طرح رائے لی جائے۔ مگر اس اہم ترین موقع پر جماعت اسلامی نے ایوب خان کی آمریت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور قانونی نکات کی تیاری کے لیے مولانا مودودی کی تجویز پر جماعت نے سینئر وکلاء اور قانونی ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی۔ اور جید علمائے کرام کو ساتھ ملا کر اس غیر آئینی و غیر اسلامی ترامیم کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا اعلان کیا۔اور جماعت اسلامی نے علماء کرام کے ساتھ ملکر ان مجوزہ ترامیم کے خلاف ایک مدلل دستاویز تیار کی جس میں کہا گیا تھا کہ
* چونکہ قیام پاکستان کے بعد سے لیکر آج تک حقیقی جمہوری نظام رائج ہی نہیں ہوا تو اس کی ناکامی کا فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ؟ چند افراد کے ہاتھوں میں اقتدار منتقل ہو جانا اور من پسند افراد کی وزارتوں کی تبدیلی کے نام پر چند افراد کو تبدیل کرکے دیگر کو موقع دیتے چلے جانا حقیقی جمہوریت نہیں۔ اصل اختیارات کا حا مل اس ملک کے شہری کو ہونا چاہیے اور ملک میں پارلیمانی نظام کا احیاء ہونا چاہیے۔
* مسلم اور غیر مسلم دو الگ قومیں ہیں ، اسی بنیاد پر علیحدہ وطن حاصل کیاگیا تھا لہذا آئندہ انتخابات جداگانہ طرز پر کرائے جائیں۔
* انتخاب بالغ رائید ھی کی بنیاد پر ہوں
* عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے براہ راست طریقۂ انتخاب ہونا ضروری ہے اس دستاویز اور مطالبے کو سرکاری سطح پر دباؤ ڈال کر اخبارات میں رکوایا دیا گیا۔ تاہم جماعت اسلامی کے ترجمان ماہنامہ ایشیا میں یہ دستاویز اور سرکاری آئینی کمیشن کا سوالنامہ شائع ہوا۔
مزید یہ کہ امام حسینؓ کی شہا دت کے حوالے سے ایک جگہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودی نے شہادت امام حسین پر روشنی ڈالتے ہوئے سا معین سے سوال کیاکہ ” آخر کیا وجہ ہے کہ امام عالی مقام یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ؟ ” کیا اس وقت ملت کا دین تبدیل ہوگیا تھا ؟ یہ لوگ خدا کے منکر ہوگئے تھے ؟ یا وہ نبی کے منکر ہوچکے تھے ؟ کیا قا نوں شریعت پر عمل ترک کردیا گیا تھا ؟ ظاہر ہے ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ اس کی روح اور اصل مقصد تبدیل کردیا گیا تھا۔ اور ان حالا ت میں امام عالی مقام صورت حال کی اصلاح کے لیے اٹھے تھے۔ ”
حالات ایوب خان کی شخصی آمریت کے لیے سازگار ہوتے چلے جارہے تھے۔ اب ایوب خان نے سیاستدانوں کو زور زبردستی اور جبری قوانین میں پھنسا کر خاموش کروانا شروع کردیا تھا۔اور اصلاحات کی ڈگڈگی بجاتے بجاتے مسلم عائلی قوا نین پر بھی اپنا ہاتھ صاف گیا۔ اسی اثنا میں ہندوستان کے پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اور دریائی پانی کے حوالے سے رسمی سے مذاکرات ہوئے۔ اور ایک گھنٹے کے اندر ایک مشترکہ اعلامئے پر دستخط کردیے گئے جس میں سندھ طاس معاہدے کے نام سے پاکستان کو بہت سے دریاؤں کے پانی سے محروم ہونا پڑا۔
سرکاری اعلان کے مطابق ” پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پاگیا ”
اس معاملے پر دونوں ممالک نے اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کئے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان نے گھاٹے کا سودا کیا تھا۔
معاہدے کے تحت طے پایا کہ بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اْس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔
اور جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب اور جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
معاہدے میں پاکستان کے ساتھ صریحا زیادتی ہوئی مگر اس وقت ایوب خان اور اس کے وزراء نے پاکستان کے لیے اس معاہدے کو نعمت قرار دیا۔ مگر آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ ایوب خان نے محض اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے پنڈت نہرو کے آگے گٹھنے ٹیک کر اس دستاویز پر دستخط کئے تھے۔ اور اس ناکامی کو اپنی کامیابی قرار دیا تھا۔
(جاری ہے )

حصہ