جیل کی کہانی، منشیات کا جال

414

قدسیہ ملک
پاکستان میں مختلف غیر سرکاری تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں نشے کے عادی افراد کی تعداد میں ہر سال چھ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں کچھ عرصہ پہلے تک نشے کے عادی افراد خیبر ایجنسی کی سرحد کے قریب کارخانو مارکیٹ کے سامنے دیکھے جاتے تھے، لیکن اب یہ اندرون شہر تک پھیل چکے ہیں۔ اب یہ لوگ چرس یا ہیروئن ہی نہیں بلکہ کیمیائی اجزا سے ملاوٹ شدہ ہیروئن کو نشہ آور ادویات کے ساتھ ملا کر انجکشن کی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔
سرکاری سطح پر منشیات کو آگ لگانے کی تقریب سال میں ایک آدھ بار منعقد ہوتی ہے لیکن عملی طور پر منشیات کے انسداد کے لیے کہیں کوئی کام نظر نہیں آتا۔ شہر میں تعلیمی اداروں، یہاں تک کہ انسدادِ منشیات کے دفاتر کے قریب بھی منشیات کے عادی افراد نشہ کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب تک ان لوگوں کو منشیات دستیاب ہوگی، ان کی تعداد میں یونہی اضافہ ہوتا رہے گا۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں منشیات کی اسمگلنگ کے لیے پاکستان دنیا کی سب سے بڑی گزرگاہ ہے۔ رپورٹ میں ادارے کا اندازہ تھا کہ دنیا بھر میں 68 ارب ڈالر مالیت کی افیون کا سالانہ کاروبار ہوتا ہے، جبکہ کم سے کم 27 ارب ڈالر کی منشیات افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستان سے گزرتی ہیں۔ پاکستان کے انسدادِ منشیات کے حکام کے مطابق افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات کو اس کے ٹرانزٹ روٹ کے ذریعے دنیا میں جانے سے روکنے کے لیے دنیا اس کی مدد کرے، کیونکہ پاکستان اس مسئلے سے اکیلے نہیں نمٹ سکتا۔
پاکستان میں نشے کی لت میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بہت سے افراد دوستوں، کلاس فیلوز، ہم مرتبہ افراد کو نشے کی لت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر ایک تھرل کے طور پر نشے کو اختیار کرتے ہیں اور بعد میں اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ نشہ ان کی علت اور سب سے بڑی خواہش، حتیٰ کہ آخری خواہش کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایسے افراد کو نشہ کون فراہم کرتا ہے؟ نشے میں ملوث افراد کو نشہ خریدنے کے ٹھکانوں کا علم کیسے ہوتا ہے؟ ہماری تحقیق کے مطابق نشے کے عادی افراد نشہ فروخت ہونے کے سب ٹھکانوں سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں، وہ چاہے یونیورسٹی ہو، اسکول ہو،کالج ہو، یا محلہ، ڈسٹرکٹ، دیہات، تحصیل اور گاؤں… حکومت وقتاً فوقتاً ان ٹھکانوں پر چھاپے بھی مارتی ہے اور ان چھوٹے کرداروں کو گرفتار و قید بھی کرتی ہے، لیکن بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتی ہے، جس کے باعث پاکستان اس لعنت سے مکمل طور پر چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔ اگر حکومت سنجیدگی سے ان افراد کو بلاتخصیص گرفتار کرنا اور سزائیں دینا شروع کردے تو ملکِ عزیز نشے کی لعنت سے پاک ہوسکتا ہے۔
جیلوں میں نشہ فروخت کرنے والے چھوٹے افراد کو کس طرح گرفتار کیا جاتا ہے۔آج ہم معمولی ردوبدل کے بعد جیل کی کہانی نمبر 3 میں ایک ایسی خاتون کا تذکرہ کریں گے جو جانے انجانے میں کس طرح نشہ فروخت کرنے والوں کے ہتھے چڑھی، اور کیسے نشہ فروخت کرنے والی بن گئی۔
جیل میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کے ساتھ درسِ قرآن کا انعقاد کرنے والی، 22 سال سے منسلک کراچی کی سابق صدر اقبال النساء نے ہم سے یہ قصہ بیان کیا جو ہم معمولی ردوبدل کے ساتھ اپنے قارئین کی نذر کررہے ہیں:
ہمارا یہ معمول ہے کہ ہر ہفتہ جب ہم درس قرآن کا انعقاد کرتے ہیں تو وہاں آنے والی نئی خواتین سے بھی رابطہ کرتے ہیں۔ ان سے بات کرتے ہیں، ان کی کونسلنگ اور قانونی امداد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ ہم سے مانوس ہوجاتی ہیں تو ہم انہیں قرآن کی کلاس میں آنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے رب کو پہچان کر گناہوں کی دلدل میں مزید دھنسنے سے بچ سکیں۔ ہماری ملاقات وہاں ایک برمی خاتون سے ہوئی جو بڑی مشکل سے ہم سے بات کرنے پر رضامند ہوئی تھی۔ اس کے دل دہلا دینے والے انکشافات سے ہمیں اندازہ ہوا کہ کراچی میں پان کی دکانوں پر، سینٹری کی دکانوں پر یہ عورت ہیروئن بیچتی تھی۔ برمی کالونی میں ایک اڈے سے یہ منشیات لیتی اور اپنے گروہ کی مدد سے سرف کے پیکٹوں کے ساتھ ہیروئن، افیون کے پیکٹ رکھتی اور اسے پورے کراچی میں فروخت کرتی تھی۔ اس جیسی اور بہت سی عورتیں اپنے گروہ کے ایماء پر کراچی میں نشے کی یہ لعنت پھیلا رہی ہیں۔ بالآخر اسے اس کے گروہ نے بآسانی رہا کروا لیا۔ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے یہ کام کررہی تھی۔ لیکن یہاں ہم جس خاتون کا قصہ بیان کررہے ہیں وہ انجانے میں اس گروہ کے ہتھے چڑھی تھی۔
وہ ہزارہ برادری کی خوبصورت اور خاندانی عورت تھی۔ ہماری اس سے ملاقات جیل میں ایک درس کے دوران ہوئی۔ وہ بہت رو رہی تھی۔ ہم نے اُس سے اُس کے حالات جاننے کی کوشش کی تاکہ اُس کی قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ اس کی کونسلنگ اور قانونی امداد بھی کی جاسکے۔ نزہت کو آئے ہوئے ہفتہ ہی ہوا تھا، لیکن وہ ابھی تک خود کو ملنے والی سزا اور جیل کے ماحول کو دل سے قبول نہیں کرپائی تھی۔
اس کے پیچھے یقینا بہت سی وجوہات تھیں۔ وہ ہری پور ہزارہ کی رہنے والی تھی۔ اللہ نے اسے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا تھا۔ شوہر کی آمدنی محدود ہونے کے سبب اس نے ڈیفنس کے قریب ہی اپنے لیے نوکری کی بہت سی درخواستیں دے رکھی تھیں۔ سلائی کڑھائی، بیٹس ورک اور ہاتھ کی مختلف اشیاء کے سوا کوئی کام نہ جانتی تھی۔ تھوڑا بہت پڑھی لکھی تھی۔ خوش شکل و خوش مزاج تھی۔ دیکھنے والے ایک نظر میں پہچان نہ پاتے کہ یہ غریب ہوگی۔ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھے، شوہر کی محدود آمدنی میں اپنی بچیوں اور بچوں کو اسکول میں پڑھا بھی رہی تھی۔ بالآخر اس کی محنت رنگ لے آئی۔ اسے نوکری کی آفر اس کے نمبر پر موصول ہوئی۔ نوکری کے لیے انٹرویو دینے مطلوبہ جگہ دئیے گئے وقت کے مطابق پہنچی تو آفس کی بڑی عمارت اور خوبصورت کمروں کو دیکھ کر دل ہی دل میں آفس اسٹاف کی معترف ہوگئی۔ انٹرویو ہوا۔ انتہائی نفیس اور انتہائی عزت دار لوگ تھے۔ اس کے کام کو بھی بہت پسند کیا اور اسے فوری نوکری پر رکھ لیا۔ آفس کے تمام کاموں کی مکمل ذمہ داری اس پر لگائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ چھ ماہ اور کبھی پندرہ دن میں بیرونِ ملک دبئی، بحرین و دوحہ جانا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔ اس مقصد کے لیے آفس والوں نے اسے پاسپورٹ بنانے اور اس ضمن میں آنے والی تمام مشکلات میں ہر ممکن مدد کی پیشکش کی تھی۔
جاب انٹرویو کے بعد اس نے اس جاب کا تذکرہ اپنے شوہر سے کیا۔ اپنا آفس دکھایا۔ شوہر کے اطمینان کے بعد نزہت نے جاب کی ہامی بھرلی۔ یہ ایک امپورٹ ایکسپورٹ کی کلیئرنگ اینڈ فارورڈنگ کمپنی تھی، جہاں نزہت کو وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ باقی بچوں کو جنھیں وہ شوہر کی کم تنخواہ کی وجہ سے اسکول میں داخل نہیں کروا پا رہی تھی، اب انہیں بھی اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔ زندگی کی گاڑی اب بہترین طریقے سے چل پڑی تھی۔ آفس کی جانب سے ہر پندرہ دن میں ایمی ٹیشن جیولری، قیمتی پتھروں اور خوبصورت زیورات سے بھرا بیگ نزہت کے ساتھ دبئی روانہ کیا جاتا تھا۔ بیگ کے ساتھ آفس اسٹاف خود ائیرپورٹ چھوڑنے جاتا۔ دبئی جاکر بہترین ہوٹل اور خوبصورت رہائش گاہ میں نزہت کو رکھا جاتا۔ وہیں سے یہ بیگ لینے کوئی شخص آجاتا۔ اور یہ بیگ اُس کے حوالے کرکے نزہت دبئی سے واپس آجاتی۔ یہ کام مکمل نگرانی میں کیا جاتا۔ وہاں نزہت کی مدد کے لیے ایک شخص ضرور موجود ہوتا، جو اس کی مکمل دیکھ بھال اور حفاظت پر مامور تھا۔ وہ گاؤں کی ایک سیدھی سادی خاتون تھی۔ اتنا وی آئی پی پروٹوکول اور اتنے نفیس لوگ دیکھ کر اپنی قسمت پر نازاں تھی۔ وہ کسی قیمت پر اپنی یہ جاب نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ زندگی کی گاڑی بہت اچھے طریقے سے چل رہی تھی۔
نومبر کے اواخر میں پاکستان میں اینٹی نارکوٹکس فورس حرکت میں آجاتی ہے۔ یکم دسمبر کو دنیا بھر میں منشیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پورے سال کی کارکردگی سے بیرونی ممالک اور امداد دینے والے ممالک کو آگاہ کرنے کے لیے زیادہ تر انہی دنوں میں منشیات سے آگہی اور سرکاری سطح پر منشیات کی روک تھام کی عملی کوششیں کی جاتی ہیں۔
نزہت کا معمول کے مطابق دبئی کا ٹرپ شروع ہونے میں 5 دن باقی تھے۔ اس نے اپنا چھوٹا سا بیگ جس میں اس کے ضروری استعمال کی اشیاء تھیں، تیار کرلیا تھا۔آفس کا بیگ اسی دن تیار ہوتا اور اس کے حوالے کیا جاتا تھا۔ اس دن بھی آفس بیگ کے ساتھ ایک آفس ورکر نزہت کے ساتھ تھا۔ اس نے آفس سے وائٹ کیب کے ذریعے اسے ائیر پورٹ پر چھوڑا۔ آج معمول سے زیادہ چیکنگ ہورہی تھی۔ اینٹی نارکوٹکس فورس کے نمائندے پورے ایئرپورٹ پر جابجا موجود تھے۔ وہ اطمینان سے چلتی ہوئی اپنے کولیگ کے ساتھ اپنا دستی سامان چیک کروا رہی تھی۔ وہ بہت پُراعتماد تھی کیونکہ وہ بارہا سفر کرچکی تھی۔ بھاری سامان وہ لگیج کے ذریعے جہاز میں بھجوا چکی تھی۔ جہاز کو اڑنے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ اچانک ایک شخص چلتا ہوا آیا۔ حلیے سے وہ کسی فورس کا آدمی لگتا تھا۔ آتے ہی نزہت کا نام لے کر اس سے پاسپورٹ طلب کیا۔ نزہت کا کولیگ کچھ لینے کینٹین تک گیا تھا۔ اس نے اپنا پاسپورٹ دکھایا۔ اس شخص نے نزہت کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ نزہت کے سوال کرنے سے پہلے وہاں اس جیسے بہت سے دوسرے افراد آچکے تھے۔ نزہت کے کولیگ کا دور دور تک کوئی پتا نہ تھا۔ اسے تھانہ اور بعد میں حوالات میں بند کردیا گیا۔ اس کے بیگ سے 9 کلو ہیروئن برآمد ہوئی تھی جو بیرونِ ملک اسمگل ہونا تھی۔ وہ اس بات کو ماننے پر بالکل تیار نہ تھی، لیکن جب اس کو بیگ کھول کر دکھایا گیا تو یقین کرلینے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔ دھوکا دینے والے کوئی اور نہیں وہی لوگ تھے جنہیں وہ اپنا سب کچھ سمجھتی تھی۔ کراچی جیل میں آنے کے بہت عرصے بعد تک وہ اس حقیقت کو ماننے سے انکاری تھی کہ اتنے اچھے، سلجھے ہوئے، سمجھدار اور مخلص لوگ بھی دھوکا دے سکتے ہیں!
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی طرف سے اس کی کونسلنگ اور قانونی امداد کی گئی۔ اس کے بچوں کے لیے ماہانہ راشن کا انتظام کیا گیا۔ اس نے سچی توبہ کی۔ اس نے عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافی جج کے سامنے بیان کردی۔ اس کی بتائی ہوئی جگہ پر چھاپہ مارا گیا۔ لیکن وہ لوگ اس کے گرفتار ہونے کے فوری بعد اپنا آفس تبدیل کرچکے تھے۔ بالآخر وہ لوگ پکڑے گئے۔ نزہت کو باعزت بری کردیا گیا۔ اس نے گاہے بگاہے جیل میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے ہاتھ کے بنائے ہوئے بریسلٹ ’’ویٹ‘‘ کی طرف سے منعقد ہونے والی مختلف ایگزی بیشنز میں رکھے گئے۔ بالاکوٹ زلزلے کے بعد ’’ویٹ‘‘ کی جمع کی جانے والی امداد میں بھی دل کھول کر خیرات کی۔ رہا ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ کراچی میں رہی۔ لیکن پھر ہزارہ منتقل ہوگئی۔ اللہ ہم سب کو بھلائی کے راستے پر چلنے اور برائی کے بعد فوری اور سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ