افروز رضوی کی غزلوں کا مجموعہ ’’زمن افروز‘‘ شائع ہوگیا

399

افروز رضوی اسکرپٹ رائٹر‘ ڈراما نگار‘ افسانہ نویس اور شاعرہ ہیں‘ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ’’سخن افروز‘‘ 2014ء میں شائع ہوا تھا۔ ’’زمن افروز‘‘ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو کہ دسمبر 2017ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکا ہے۔ افروز رضوی آج کل کراچی ریڈیو سے وابستہ ہیں۔ ان کی ادبی تنظیم شاعراتِ پاکستان کے کریڈٹ پر کئی شان دار پروگرام ہیں۔ ان کی تازہ ترین تخلیق زمن افروز کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ ہر شخص مختلف تجربات و مشاہدات سے گزرتا ہے یہ تجربات خوش گوار بھی ہوسکتے ہیں اور درد ناک بھی۔ ہر صورت میں انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی ترسیل کسی دوسرے وجود تک بھی ہو‘ اس طرح اس کے لیے کتھارسس کا ایک ذریعہ نکل آتا ہے جو زندگی گزارنے کے عمل میں ایک ضروری عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترسیل جذبات کا سب سے مؤثر ذریعہ شاعری کو مانا گیا ہے۔ تخلیق شعر‘ وجدانی عمل ہے اکتسابی نہیں افروز رضوی کے کلام کے مطالعے سے مجھے یہ انداز ہوتا ہے کہ وہ ترسیل جذبات کو شاعری سمجھتی ہیں اور اس تناظر میں بہت کامیاب شاعرہ ہیں۔ ہر عہد کے شعرا کے یہاں مضامین اور موضوعات میں یکسانیت نظر آتی ہے‘ اب سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی انفرادیت کو کس پیمانے سے ظاہر کیا ہے۔ افروز رضوی کے یہاں محبت بھی ہے‘ زندگی کا حسن بھی‘ اپنے عہد کے مسائل بھی ہیں اور ذاتی طرز احساس بھی۔ نسائی جذبات اور موضوعات کو بھی انہوں نے اپنی غزلوں میں سلیقے سے بیان کیا ہے انہوں نے نسائی جذبات کے شعری اظہار میں کہیں بھی حدود سے تجاوز نہیں کیا ہے یہ افروز رضوی کے کامیاب سفر کا ایک نیا باب ہے۔ امجد اسلام امجد نے افروز رضوی کے بارے میں لکھا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں خواتین شعرا کی تعداد میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا ہے وہ خوش آئند ہونے کے ساتھ ساتھ کئی سوالات بھی لایا ہے جس میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کتنی شاعرات کا مسئلہ صرف شاعری ہے اور کتنی شاعرات شہرت اور پہچان کے لیے اس بھیڑ کا حصہ بنی ہیں۔ میری ذاتی رائے مین بہت کم خواتین ایسی ہیں جنہیں صحیح معنوں میں ادب سے دلچسپی اور لگائو ہے۔
افروز رضوی کی تخلقیات کو میں نے پڑھا اور مجھے انداز ہوا کہ انہیں ہر صنفِ سخن سے دلچسپی اور لگائو ہے کیونکہ انہوں نے حمد‘ نعت‘ منقبت‘ غزل‘ نظم‘ ہائیکو یہاں تک کہ افسانے اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ یہ ان کی ادب دوستی کا ثبوت ہے۔ افروز رضوی کیونکہ ایک بہترین صدا کار بھی ہیں اس لیے انہیں لفظوں کو برتنے کا شعور ہے انہیں الفاظ کی ادائیگی‘ توازن اور تناسب سے آگاہی ہے اگر وہ محنت اور لگن سے شاعری کو جاری رکھیں گی تو بہت جلد وہ اپنا منفرد مقام حاصل کر لیں گی۔ محسن اعظم محسن ملیح آبادی کہتے ہیں کہ افروز رضوی کی فکر اور احساسِ جمال جان دار ہے اور قوتِ اظہار میں نیا پن ہے۔ ان کی شاعری میں ابلاغ و ترسیل پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے ان کے یہاں فن اور نکات ِشاعری کا احترام نظر آتا ہے‘ انہیں زبان و بیان پر خاص دسترس ہے یہ بنیادی طور پر رومان پرور شاعرہ ہیں ان کے یہاں غزل کا رچائو زیادہ ہے۔ ان کے یہاں داخلی اور خارجی کیفیات و مشاہدات نظر آتے ہیں انہوں نے جہاں نسائی جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے وہیں اپنی ثقافت اور مشرقی روایات کو بھی نظم کیا ہے ان کے یہاں انسانی نفسیات اور جبلی تقاضوں کی بات کی گئی ہے‘ ان کی قوتِ آخذہ تیز ہے وہ مشاہدے اور جذبات سے مقصدی امور استباط کرنا جانتی ہیں ان کی غزلیات کا کینوس بہت فراخ تو نہیں ہے لیکن اس پر جو تصویریں بنائی ہیں وہ پورا چہرہ رکھتی ہیں جن میں لفظ و معنی کا مکمل ادراک ملتا ہے وہ اپنی فکر و جذبات کی اچھی مصورہ ہیں‘ سماجیات اور جمالیات ان کی شاعری کے دو مضبوط شعبے ہیں انہوں نے معاشرتی رویوں پر گہری نظر ڈالی ہے وہ بدلتے موسموں سے آشنا ہیں ان کی غزلیں نفسیاتی‘ نسائی‘ لمسیاتی و جمالیاتی‘ ہیجانی اور لذت طلبی کی صورت گر ہونے کے ساتھ معاشرتی اتار چڑھائو کا آئنہ بھی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے افروز رضوی کی کتاب ’’زمن افروز‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی شاعری میں ترکیب سازی اور لفظی بازی گری کا فن بہ درجہ اتم موجو دہے ان کے لب و لہجے میں شہد کی مٹھاس ہے‘ ان کے یہاں تازگی‘ حلاوت‘ بے خودی اور نفاست پائی جاتی ہے۔ ان کا اندازِ فکر‘ اردو غزل کو توانائی عطا کر رہا ہے۔ انہوں نے غزل کے تمام مضامین لکھے ہیں۔ اعتبار ساجد نے افروز رضوی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بڑی وضع دار اور شائستہ خاتون ہیں ان کی شاعری احساست و جذبات کی خوب صورت ترجمان ہے یہ ان شاعرات سے کہیں بہتر و برتر ہیں جو لابنگ کے ذریعے نمودار ہوتی ہیں اور کچھ عرصے بعد غرقاب ہو جاتی ہیں۔ یہ چونکہ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ ہیں اس لیے صوتی آہنگ کے اسرار و رموز سمجھتی ہیں۔ موسیقی سے بھی دلچسپی ہے لیکن نمائش و ستائش سے گریز کرتی ہیں۔ ان کا کلام ہمارے عہد کاجیتا جاگتا منظر نامہ ہے۔ افروز رضوی کے بارے میں رونق حیات کہتے ہیں کہ موجودہ ادبی منظر نامے میں افروز رضوی کا نام نہایت قابل احترام ہے انہوں نے جدید و قدیم شاعری کا تجزیہ کیا ہے یہ ابتدائی مراحل سے گزر کر ارتقائی مراحل میں داخل ہوچکی ہیں‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ ان کا لب و لہجہ اس بات کا غماض ہے کہ انہیں معاشرتی رویوں کا ادراک ہے۔ انہوں نے سماجی‘ خاندانی روایتوں کی شکست و ریخت اور تہذیبی اقدار کی گراوٹ کو بھی اپنی شاعری کے موضوعات میں شامل کیا ہے ان کے اشعار دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں یہ ایک جہاں دیدہ شاعرہ ہیں ان کے تجرباتِ زندگی ان کی نظموں اور غزلوں میں نظر آتے ہیں ان کی زبان اور انداز بیان فطری ہے۔ سہل ممتنع میں بھی انہوں نے اپنا مافی الضمیر بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے ان کے کلام میں زندگی کے تمام رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ یہ عروضی اور فنی رموز سے واقف ہیں ان کے کلام میں شائستگی اور غنائیت کے ساتھ ساتھ گہرائی اور گیرائی نظر آتی ہے‘ مجھے امید ہے کہ مزید عزت و شہرت پائیں گی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے افروز رضوی کے بارے میں کہا ہے کہ ’’زمن افروز‘‘ خوب صورت غزلوں پر مشتمل دستاویز ہے اس کتاب کا انتساب افروز نے اپنے بچوں اور شوہر کے نام کیا ہے اس سے ان کی مشرقیت ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی غزلیں مشرقی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہیں ان کی غزلوں میں بے ساختگی اور والہانہ پن ہے ان کے اشعار دل میں اترتے ہیں یہ ایک صدا کار بھی ہیں ان کی آواز میں جھرنے کا ترنم اور محبت کی نرمی ہے ان کے اشعار میں جذبوں کی سچائی اور تخیل کی جولانی اور دل ربائی ہے انہوں نے اپنی شاعری میں خواتین کے مسائل اجاگر کیے ہیں‘ چھوٹی بحروں میں کمال کی شاعری کی ہے ان میں جرأت اظہار کا حوصلہ ہے انہوں نے زندگی کو نہایت توجہ سے دیکھا ہے ان کے یہاں معاشرتی ناہمواریاں نمایاں ہیں انہوں نے اپنے قلم سے اصلاح معاشرہ کا کام لیا ہے انہوں نے لطیف پیرائے میں اپنا نکتۂ نظر بیان کیا ہے۔

آن لائن عالمی اخبار کے تحت پانچ کتابوں کی تعارفی تقریب

گزشتہ ہفتے آن لائن عالمی اخبار کے زیر اہتمام کراچی میں چار خواتین رائٹرز غزالہ رشید‘ شاہین اشرف‘ دلشاد نسیم اور ڈاکٹر نگہت نسیم کی کتابوں بالترتیب نہاں اور عیاں‘ چراغ در چراغ‘ زیرِ لب دعائوں کے چراغ اور زادِ راہِ عشق کی پہلی تقریب رونمائی منعقد ہوئی اس تقریب کی صدارت انجم انصار نے کی۔ مہمان خصوصی رضیہ سبحان اور مہمان اعزازی مقبول فاطمہ تھیں جب کہ ڈاکٹر ثروت رضوی نے نظامتی فریضہ انجام دیا۔ محمد احمد ترازی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حال کی۔ صغیر احمد جعفری نے نعت رسولؐ پیش کی۔ صدر تقریب انجم انصار نے کہا کہ آج کے دور میں خواتین بھی اردو ادب کی تدوین و ترویج کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں اردو ادب کی ترقی کے لیے لازم ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں تاکہ نئی نسل بھی اردو سے واقف ہو۔ آپ اپنے بچوں کو انگریزی ضرور پڑھائیں لیکن انہیں اردو کی تعلیم بھی دیں‘ اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے لازمی ہے کہ نئی نسل بھی اردو سے واقف ہو‘ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو انگلش میڈم اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں جس کے باعث ہماری نئی نسل اردو سے دور ہوتی جارہی ہے جب کہ اردو ہماری مادری زبان ہے‘ ہماری قومی زبان ہے خدانخواستہ اس طرز عمل سے اردو کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ رضیہ سبحان نے کہا کہ شاعری آسان کام نہیں ہے یہ خونِ جگر مانگتی ہے آج جن کتابوں کی تعارفی تقریب ہو رہی ہے میں ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں مجھے یقین ہے کہ یہ کتابیں اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ نگہت نسیم نے کہا کہ آج کی تقریب میں جن شاعرات کی کتابیں رکھی گئی ہیں یہ تمام خواتین اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ انہوں نے بہت عمدہ شاعری کی ہے اور نثر نگاری بھی لاجواب ہے۔ سائرہ غلام نبی نے غزالہ رشید کے افسانوں کے مجموعے نہاں اور عیاں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرتی رویوں کو بے نقاب کیا ہے ان کے افسانے کے موضوعات‘ تھیم‘ کردار سب کے سب لاجواب ہیں انہوں نے معاشرے کو بہت غور سے دیکھا ہے ان کے یہاں جدید لفظیات‘ نئے نئے استعارے نظر آتے ہیں جس کے باعث ان کی تحریریں بہت جان دار ہوگئی ہیں۔ محمد احمد ترازی نے کہا کہ دعائوں کے چراغ کے ذریعے ڈاکٹر نگہت نسیم نے کامیابی اور فلاح و بہبود کی نئی جہتیں متعین کی ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں لوگوں کو نیکی کی ترغیب دی ہے ان کا انداز بیان سادہ اور دل نشین ہے ان کے اشعار میں غنائیت ہے۔ انہوں نے علم عروض کے مطابق اپنے اشعار کہے ہیں۔ ان کے یہاں خوب صورت الفاظ پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر پروفیسر بشیر احمد خورشید نے کہا کہ اردو ادب میں خواتین نے اپنی شاعری اور نثر نگاری میں اپنے محب وطن ہونے کا اظہار کیا ہے۔ خواتین کی شاعری میں غمِ جاناں‘ غمِ دوراں کے ساتھ ساتھ نسائی مسائل بھی موجود ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ نگہت نسیم نے اپنی دوسری کتاب زادِ راہِ عشق میں شاعری کے جوہر دکھائے ہیں ان کی شاعری ہر دور کی شاعری ہے کیونکہ انہوں نے زمینی حقائق بیان کیے ہیں انہوں نے اپنے اردگرد جو کچھ بھی دیکھا اسے شاعری میں ڈھال کر عوام الناس تک پہنچا دیا ہے بلاشبہ یہ ایک قابل قدر بات ہے اس موقع پر حیدر ضیا‘ غزالہ رشید‘ مسرت بانو نے بھی اظہار خیال کیا۔ ان تمام نے کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے۔ آج جن خواتین کی کتابوں کی تقریب اجرا کا اہتمام ہے وہ سب کی سب ادب میں مزید ترقی کریں گی اس قسم کی تقریبات سے شاعروں اور ادیبوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اس موقع پر ڈاکٹر نسیم نگہت نے آن لائن روزنامہ عالمی اخبار کے مدید اعلیٰ صفدر ہمدانی کی علمی و ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا انہوں نے مزید کہا کہ اردو شاعری تنزلی کا شکار نہیں ہے بلکہ ترقی کی جانب رواں دواں ہے اس وقت کراچی اور لاہور اردو ادب کے بڑے مراکز ہیں لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کہاں بڑی شاعری ہو رہی ہے ہر شاعر و ادیب اپنے علاقائی مسائل لکھتا ہے کراچی والے جن مسائل کا شکار ہیں وہ تمام یہاں کے شعرا میں نظر آتے ہیں۔ پنجاب کے رہنے والے شعرا اپنے اردگرد کے ماحول کو نظم کر رہے ہیں اس تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی کی تھی۔

مارچ 2018ء میں ثقافتی کانفرنس منعقد کی جائے گی‘ احمد شاہ

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ مارچ 2018 میں آرٹس کونسل کراچی کے زیراہتمام قومی ثقافتی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں پاکستان کی پہلی کلچر پالیسی بھی ترتیب دی جائے گی جو کہ 70 سال سے نہیں بن سکی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے تمام صوبوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار محمد احمد شاہ نے آرٹس کونسل کراچی میں لوک ورثہ کے تعاون سے ڈاکٹر فوزیہ سعید کی کتاب ’’فوک ہیریٹیج آف پاکستان‘‘ کی تقریب اجراء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کراچی ایک عالمی شہرت یافتہ ادارہ بن گیا ہے اب ہر مثبت کام کے حوالے سے ادارہ کا نام روشن ہے ہم نے فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوںکو پروموٹ کیا ہے۔ ہم دستیاب وسائل سے ادب کی خدمت کر رہے ہیں‘ ہمیں قلم کاروں‘ فنکاروں کے مسائل سے آگاہی ہے‘ ہم حتی الامکان ان کے مسائل کے حل کے لیے سرگرم عمل ہیں‘ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مرکز‘ چاروں صوبوں‘ کشمیر و گلگت اور بلتستان کے نمائندوں پر مشتمل ایک ایسی کلچر پالیسی بنائی جائے جس میں ہر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی رائے بھی شامل ہو۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو برابر کے حقوق دینے کا اعلان کیا تھا یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر فوزیہ نے تین سال میں لوگ ورثہ کے شعبے میں گراں قدر کام کیا ہے وہ اس حوالے سے اپنی شناخت بنا چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں پاکستان کی تاریخ بیان کی ہے جس میں کلچر‘ ثقافت‘ صوفی ازم‘ میلے‘ مذہبی تہوار اور دوسری اہم موضوعات شامل ہیں جن سے پاکستان کا کلچر دنیا بھر کے سامنے آئے گا۔ اس موقع پر مہتاب راشدی نے کہا کہ لوک ورثے کو جس طرح ڈاکٹر فوزیہ نے روشن کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اس کتاب سے پاکستان کا کلچر روشن ہوگا۔ غازی صلاح الدین نے کہا کہ ڈاکٹر فوزیہ کی کتاب سے پاکستان کا معاشرتی نظام نمایاں ہوگا اس کتاب کے ذریعے پاکستان کی حقیقی روح کا پتا چلتا ہے۔ مجاہد بریلوی نے کہا کہ ہم لوگوں کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کرتے میرا مشاہدہ ہے کہ جب عورت کسی ادارے کی سربراہ بن جاتی ہے تو وہ اس کو اپنے گھر کی طرح چلاتی ہے۔

حصہ