یہ اسپتال کس کا ہے۔۔۔؟۔

270

زاہد عباس
’’میری بچی کی طبیعت خراب ہو گئی ہے‘ معدے میں شدید درد کی وجہ سے نڈھال ہو چکی ہے‘ میں اس وقت اسپتال میں ہوں‘ دعا کرنا اللہ تعالیٰ بچی کو صحت عطا فرمائے۔‘‘ بس اتنی سی بات کر کے میرے دوست نے اپنا فون بند کردیا۔
اس وقت میں جسارت اخبار کے دفتر میں تھا میرے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ میں فوری طور پر فون کر کے بچی عائشہ کی طبیعت کے بارے میں تفصیل سے بات کروں لہٰذا میں فون پر معلومات لینے کے بعد اپنے دوست کو تسلی دیتے ہوئے فوری طور پر اسپتال جانے کے لیے نکل پڑا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ کوئی بھی درد دل رکھنے والا شخص کسی دوسرے کو پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا۔ جب کہ یہاں تو میرے اُس دوست کی بچی کا معاملہ تھا جس سے میری دوستی تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے بچے مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں خاص طور پر عائشہ‘ جو اپنی باتوں سے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے لہٰذا میں تیزی سے سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی جا پہنچا۔ اسپتال میں داخل ہونے سے قبل ہی میرا استقبال گندگی کے ڈھیروں اور ابلتے گٹروں نے کیا مجھے خبر تھی کہ وہ اب تک ایمرجنسی میں ہی موجود ہیں اس لیے میں ایمرجنسی کی جانب چلنے لگا۔ مرکزی دروازے کے ساتھ جانے والی گلی کی حالت دیکھ کر اسپتال کے اندر کی صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ کسی کوڑے دان کا منظر پیش کرتی یہ گلی انتظامیہ سمیت محکمہ بلدیات کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی دیواروں پر پان خوروں کی جانب سے بنائے گئے فن پارے نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ پودے لگانے کے لیے بنائی گئی کیاریوں کو سبز ے کے بجائے پان‘ گٹکا کھانے والوں نے تھوک تھوک کر لال کر رکھا تھا۔ میں جوں جوں ایمرجنسی کی جانب بڑھتا گیا اسی قسم کی غلاظت ہی دیکھنے کو ملتی رہی۔ اندھیرے میں میرے چہرے پر مچھر اس طرح ٹکراتے جیسے کسی نے مٹھی بھر ریت میرے منہ پر دے ماری ہو۔ راہداری میں سیٹوں پر بیٹھے مچھروں سے پریشان افراد مسلسل خارش کرتے دکھائی دیے۔
کشادہ جگہ پر تعمیر کی گئی سندھ گورنمنٹ اسپتال کی اس ’’خوب صورت‘‘ عمارت میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر غلاظت اور بدحالی کے مناظر میرے لیے حیران کن نہ تھے۔ ظاہر ہے کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام کو حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی سہولیات سے ہر شخص واقف ہے۔ صحت کا محکمہ ہو یا تعلیمی سرگرمیاں بلدیاتی نظام ہو چاہے ٹرانسپورٹ سروس کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی اطمینان بخش ہو۔ اس صورت حال پر حیرت کیسی…؟ لہٰذا میں اپنے دوست کی بچی کے بارے میں فکرمند تیز تیز قدم بڑھاتا ایمرجنسی کے سامنے آن پہنچا… اُف خدایا! یہ کیا؟ یہ کون سا اسپتال ہے؟ بچوں کے لیے بنائے گئے ایمرجنسی وارڈ کو دیکھتے ہی میں حیرت زدہ رہ گیا۔ ابھی میں جن گندگی گزرگاہوں سے ہو کر آ رہا تھا اور صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے میرے ذہن میں جو بھی خیالات ابھر رہے تھے وہ اس ایمرجنسی وارڈ کو دیکھتے ہی دم توڑ گئے۔ یہاں پہنچتے ہی سب کچھ بدلا بدلا سا لگنے لگا۔ خوبصورت عمارت میں میں قائم جدید کشادہ ایمرجنسی صاف ستھرا ماحول‘ دیواریں اور فرش شیشے کی طرح چمکتے دکھائی دے رہے تھے۔ وارڈ کے مرکزی دروازے پر تعینات سیکورٹی گارڈ کا رویہ بھی قابل دید تھا۔ ایمرجنسی میں مریض کے ساتھ صرف ایک شخص کو جانے کی اجازت تھی مرکزی دروازہ شیشے کا ہونے کی وجہ سے روشنیوں سے جگمگاتی اس عمارت کا اندرونی منظر صاف دکھائی دے رہا تھا جہاں سب کچھ ایک ترتیب میں تھا کیونکہ ایمرجنسی وارڈ میں صرف ایک فرد جانے کی اجازت تھی اس لیے میرے دوست سے میری ملاقات وارڈ کے باہر ہی ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ عائشہ کی طبیعت اب قدرے بہتر ہے‘ وہ یہاں کے عملے خاص طور پر ڈاکٹروں کے رویے پر خاصا مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے اطمینان سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ یہاں ہونے والے علاج سے بھی مطمئن ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کورنگی جیسے علاقے میں نجی اور مہنگے ترین اسپتال سے بھی زیادہ سہولیات دستیاب ہوں گی۔ وہاں بیٹھے متعدد افراد نے بھی اس نئی تعمیر شدہ ایمرجنسی میں دی جانے والی سہولیات کی تعریف کی۔ چونکہ میرا سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی میں ایک عرصے بعد آنا ہوا تھا اور پھر اسپتال کے مرکزی دروازے سے یہاں پہنچنے تک جو بھی صورت حال میں نے دیکھی اس پر یہاں دی جانے والی سہولیات اور عملے کی جانب سے مریضوں کے ساتھ تعاون میرے لیے خوش گوار حیرت کا باعث تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں محکمہ صحت میں ہنگامی بنیادوں پر ہونے والی اس حیران کن تبدیلی کے بارے میں وہ انقلابی معلومات حاصل کرسکوں جس پر عمل کرتے ہوئے حکومت سندھ نے بنیادی صحت جیسے محکمے کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔
جب ہم کسی ادارے یا حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں پر کھل کر اختلافی اور تنقیدی مضامین تحریر کر سکتے ہیں تو دوسری جانب ہمارا یہ بھی فرض ہی کہ ہم حکمرانوں کی جانب سے بنائے عوام دوست منصوبوں پر بھی لب کشائی کریں یہی اصل صحافت اور اپنے پیشے سے وفاداری ہے۔ خیر اگلے روز صبح میں اسی مشن کو لیے دوبارہ سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی آیا جہاں مختلف شعبہ جات میں موجود ہزاروں مریضوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مریضوں کی آسانی کے لیے اسپتال کا عملہ لوگوں کو ہدایات دینے میں مصروف تھا۔ ساری صورت حال کو دیکھ کر مجھے سندھ گورنمنٹ پر‘ جو آئے دن کسی نہ کسی کرپشن کے باعث اخبارات کی زینت بنی ہوتی ہے‘ حیرت ہورہی تھی‘ میں اس سلسلے میں‘ خصوصاً ایمرجنسی کے بارے میں‘ مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ میرے قریب آتے ایک شخص نے میری حیرانی بھانپتے ہوئے کہا ’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘ اس کے پوچھنے پر میں نے ساری صورتحال اس کے گوش گزار کر دی۔ وہ بولا ’’حیران نہ ہوں یہ‘ چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے تحت دی جانے والی ایمرجنسی ہے جسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تذحت قائم کیا گیا۔ عوام کو صحت کی سہولت دینا ہمارے ادارے کا فرض ہے۔‘‘ اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ’’محکمہ صحت سندھ نے چائلڈ لائف فاؤنڈیشن سے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت تمام سرکاری اسپتالوں کے شعبۂ اطفال ایمرجنسی کو ٹیلی میڈیسن سے منسلک کردیا گیا ہے۔
کراچی میں ابتدائی طورپر سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی‘ نیو کراچی اور قومی ادارہ اطفال کے شعبۂ اطفال کو ٹیلی میڈیسن سے منسلک کردیا گیا ہے جہاں رات گئے آنے والے بچوں کے بارے میں چائلڈ لائف کے اشتراک سے کنسلٹنٹ سے براہ راست مشورے کیے جارہے ہیں۔ جہاں رات گئے اسپتال آنے والے بچوں کے بارے میں براہ راست کنسلٹنٹ سے مشورے کیے جارہے اس سے بچوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی ہوگی۔کوشش کی جارہی ہے کہ یہ منصوبہ سندھ بھر میں پھیلا دیا جائے تاکہ کسی بھی سرکاری اسپتال میں رات گئے آنے والے بچوں کے بارے میں بہتر طبی مشورے دیے جا سکیں۔‘‘
اس کا مزید کہنا تھا کہ ’’کراچی کی 2 کروڑ آبادی میں80 لاکھ بچوں کے لیے سرکاری و نجی اسپتالوں میں ایمرجنسی کی صورت میں صرف ایک ہزار بستر موجود ہیں جبکہ کراچی میں80 لاکھ بچوں کے لیے سرکاری اسپتالوں میں 10ہزار بستروں کی ضرورت ہے اس طرح کراچی میں یومیہ9 ہزار بچوں کو ایمرجنسی میں طبی امدادکی ضرورت پڑتی ہے جن میں سے صرف 3 ہزاربچوں کو سرکاری اسپتالوں میں لایا جاتا ہے۔ اس وقت کراچی میں قومی ادارہ اطفال برائے صحت کے شعبہ ایمرجنسی میں 55 بستروں کی گنجائش ہے۔ سول اسپتال کے شعبہ اطفال ایمرجنسی میں 25، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ناگن چورنگی میں 12 جب کہ سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال میں قائم شعبہ اطفال ایمرجنسی میں 80 بستر مختص ہیں جو سندھ کے اسپتالوں میں بچوں کی سب سے بڑی ایمرجنسی ہے۔
شعبہ اطفال ایمرجنسی چائلڈ لائف کے اشتراک سے قائم کی گئی جبکہ سندھ گورنمنٹ کے ماتحت چلنے والے سرکاری اسپتالوں لیاقت آباد اسپتال، سعود آباد، قطر اسپتال اورنگی سمیت دیگر ضلعی اسپتالوں میں شعبہ اطفال ایمرجنسی سرے سے موجود ہی نہیں جس کی وجہ سے ایمرجنسی میں لائے جانے والے بچوں کونجی اسپتالوں میں لے جایا جاتا ہے۔‘‘
اس نے مزید کہا کہ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے سندھ حکومت اور چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے تحت بدحال سرکاری اسپتالوں میں بنائے گئے چلڈرن ایمرجنسی میں ائر کنڈیشن انتظار گاہیں ، الیکٹرانک ٹوکن سسٹم اور جدید آلات سے مزین آئی سی یو بچوں کی سانسوں کو بحال رکھنے کے لیے انکیوبیٹرز کی کمی نہیں۔ مفت علاج اور مفت ادویہ کی سہولت سے والدین بھی مطمئن ہیں۔ ایمرجنسی سینٹرز چلانے والی چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کا مشن ہے کہ کراچی میں کوئی بھی بچہ ایمرجنسی رومز سے 30 منٹ کی دوری پر نہ ہو۔ مخیر حضرات کی ڈونیشن سے بچوں کی زندگی بچا رہی ہے۔
قارئین! غریب عوام کو پبلک / پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ملنے والی سہولت خوش آئندہے حکومت سندھ کے تحت چلائے جانے والے سندھ گورنمنٹ اسپتال میں جہاں ایک طرف جدید میڈیکل سائنس کی ترقی کے تحت مریضوں کے لیے سہولیات موجود تھیں تو دوسری طرف اسپتال عمارت کی راہداریوں اور عقبی دیواروں کے ساتھ تباہ حال سیوریج سسٹم اور کچرے کے ڈھیر، بیماریوں کا گھر تھے۔ حکومت سندھ نے جہاں محکمہ صحت میں پبلک / پرائیویٹ پارٹنر شپ کا نظام متعارف کروا یا جس سے لوگوں کو بہترین طبی سہولیات مہیا کیں وہیں اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر صفائی ستھرائی خاص کر تباہ حال سیوریج سسٹم کی تعمیر نو کرے تاکہ اسپتالوں کے ساتھ قائم بیماریوں کے گھر ختم کیے جاسکیں۔

حصہ