کائنات کا ماخذ اور مقدر

1126

تلخیص و تحقیق: خرم عباسی
ماضی کی نسبت ہمارا زمانہ نہایت حیران‌کُن ہے۔‏ نئی خلائی دریافتیں ماہرینِ‌فلکیات کو کائنات کی ابتدا کی بابت اپنے نظریات پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔‏ بہت سے لوگ نظامِ‌کائنات سے حیران ہیں اور ہماری موجودگی کی بابت وہی قدیم سوالات دہرا رہے ہیں:‏ کائنات اور زندگی کا آغاز کیسے اور انجام کیسے ہوگا ؟کائنات کی ابتدا ء کو قرآن کریم کی اس آیت سے واضح کیا جا سکتا ہے:’’ وہ ( اللہ) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔‘‘ (سورۃ الانعام:101) ،پھرکائنات کے توسیع ہونے کے عمل کو بیان فرمایا ۔’’ آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایاہے اور یقیناہم کشادگی کرنے والے ہیں۔‘‘( سورۃ الذٰریٰت:47). کائنات کے اس خاتمے کا ذکر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں: ’’جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دئیے جاتے ہیں۔جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے(ہی) رہیں گے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء :104)
سٹیون ہاکنگ “وقت کا سفر”اس باب میں مزید لکھتے ہیں کہآئن سٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریے نےخود یہ پیشین گوئی کی ہے کہ مکاں-زماں کا آغاز بگ بینگ کی اکائیت پرہواتھااور اس کا اختتام عظیم چرمراہٹ اکائیت پر ہو گایا بلیک ہول کے اندر ہی ایک اکائیت پر ہو گا (اگر کوئی مقامی خطہ مثلاً ستارہ زوال پذیر ہوا) اس میں گرنے والا ہر مادہ اکائیت کے باعث تباہ ہو جائے گا اوراس کی کمیت کا محض تجاذبی اثر ہی باہر محسوس کیا جاتا رہےگا، دوسری طرف کوانٹم اثرات کا بھی جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ مادے کی کمیت اور توانائی بالآخر بقیہ کائنات کو لوٹا دی جائے گی اور بلیک ہول اپنے اندر کی اکائیت کے ساتھ بھاپ کی طرح اڑے گااور پھر غائب ہو جائے گا، کیا کوانٹم میکینکس بگ بینگ اور بگ کرنچ کی اکائیوں پر اتنے ہی ڈرامائی اثرات مرتب کرے گی؟ کائنات کے بالکل ابتدائی یا انتہائی مراحل کے دران کیا ہوتا ہے جب تجاذبی میدان اتنے طاقتور ہوں کہ مقداری اثرات کو نظر انداز نہ کیا جا سکے؟ کیا کائنات کی در حقیقت کوئی ابتداء یا انتہاء ہے؟ اگرایسا ہے تو ان کی نوعیت کیا ہے ؟
کائنات کے ماخذ یا آغاز اور اس کے مقدر کے بارے میں کوانٹم میکینکس کے ممکنہ اثر کے بارے میں، میرے اور دوسرے لوگوں کے خیالات کی تشریح کے لیے ضروری ہے کہ گرم بگ بینگ ماڈل کے مطابق کائنات کی عام تسلیم شدہ تاریخ کو پہلے سمجھ لیا جائے، اس کا مفروضہ یہ ہے کہ فرائیڈ مین ماڈل کے ذریعے کائنات کی تشریح واپس بگ بینگ تک جا سکتی ہے.خود بگ بینگ کے وقت کائنات کی جسامت صفر سمجھی جاتی رہی، یعنی لا متناہی طور پر گرم رہی ہو گی، مگر کائنات کے پھیلنے کے ساتھ اشعاع درجہ حرارت کم ہوتا گیا، بگ بینگ کے ایک سیکنڈ کے بعد یہ تقریباً دس ارب درجے تک گرگیا ہو گا مگر سورج کے مرکز پر درجہ حرارت سے یہ تقریباً ا یک ہزار گنا زیادہ ہے مگر ہائیڈروجن بم کے دھماکوں میں درجہ حرارت یہاں تک پہنچ جاتا ہے.
کائنات کے ابتدائی گرم مرحلے کی یہ تصویر سائنس دان جارج گیمو نے اپنے شاگرد رالف الفر کے ساتھ مشترکہ مقالے میں 1948ء میں پیش کی تھی، گیمو کی حسِ ظرافت بھی اچھی تھی، اس نے نیوکلیر سائنس دان ہانس بیتھے کو اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ وہ بھی اس مقالے کے مصنفین میں اپنا نام شامل کرے کیونکہ الفر، بیتھے اور گیمو یونانی حروف تہجی کے پہلے تین حروف الفا، بیٹا،گاماسےمماثلت پیداہوجائےجوآغازِکائناتپرلکھےجانےوالے مقالےکےلیےبہت موزوں ہے ، اس مقالے میں انہوں نے یہ غیر معمولی پیشین گوئی کی کہ کائنات کی ابتدائی اور بہت گرم حالت سے خارج ہونے والی اشعاع کاری فوٹون کی شکل میں اب بھی موجود ہونی چاہیے مگر اس کا درجہ حرارت کم ہو کر مطلق صفر سے چند درجے اوپر(273C-) ہو گا، اس اشعاع کاری کو پینزیاس اور ولسن نے 1965ء میں دریافت کیا، جس وقت الفر، بیتھے اور گیمو نے اپنا مقالہ لکھا تھا نیوٹرونوں اور پروٹونوں کے نیو کلیر تعامل کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں.زمین ابتداء میں بے حد گرم اور کرہ ہوائی کے بغیر تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اور چٹانوں سے گیسوں کے اخراج سے اس نے ایک ہوائی کرہ حاصل کر لیا، یہ ابتدائی ہوائی کرہ ایسا نہیں تھا جس میں ہم رہ سکتے ، اس میں کوئی آکسیجن نہیں تھی مگر بہت سی دوسری زہریلی گیسیں تھیں جیسے ہائیڈروجن سلفائیڈ (Hydrogen Sulphide) تاہم زندگی کی دوسری ابتدائی شک لیں ہیں جو ان حالات میں بھی پروان چڑھ سکتی ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سمندروں میں پروان چڑھیں، ممکن ہے بڑے امتزاجات (large combinations) میں ایٹموں کے اتفاقی ملاپ نے بڑے سالمے (Macro Molecules) تشکیل دیے ہوں جو سمندروں میں دوسرے ایٹموں کو اسی طرح ملانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اس طرح انہوں نے اپنی افزائش کی ہو اور کئی گنا بڑھ گئے ہوں….یہ تصویر جس میں کائنات انتہائی گرم حالت سے شروع ہوئی اور پھیلنے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی گئی، آج ہمارے تمام مشاہداتی ثبوتوں سے مطابقت رکھتی ہے ، پھر یہ بھی کئی اہم سوالوں کو بغیر جواب دیے چھوڑ دیتی ہے :(١ ) ابتدائی کائنات اتنی گرم کیوں تھی؟ (٢) کائنات بڑے پیمانے پر اتنی یکساں کیوں ہے ؟(٣) کائنات وسعت پذیری (expansion) کی اس فیصلہ کن شرح سے کیوں شروع ہوئی کہ جو ڈھیر ہو جانے والے ماڈلوں کو مسلسل پھیلنے والے ماڈلوں سے الگ کرتی ہے ، یہاں تک کہ اب دس ارب سال بعد بھی یہ اسی فیصلہ کن شرح سے پھیل رہی ہے ؟ اگر بگ بینگ کے ایک سیکنڈ کے بعد پھیلاؤ کی شرح ایک لاکھ کھرب میں ایک حصہ بھی کم ہوتی تو کائنات اپنی موجودہ جسامت تک پہنچنے سے پہلے ہی دوبارہ ڈھیر ہو چکی ہوتی۔(۴) اس حقیقت کے با وجود کہ کائنات بڑے پیمانے پر اتنی یکساں اور یک نوعی ہے اس میں مقامی بے ترتیبیاں جیسے ستارے اور کہکشاں موجود ہیں، خیال ہے کہ یہ ابتدائی کائنات کے مختلف حصوں میں کثافت کے معمولی فرق سے پیدا ہوئی ہو گی، کثافت کی اس کمی بیشی کا ماخذ کیا تھا؟ اضافیت کا عمومی نظریہ اپنےطور پر ان خصوصیات کی تشریح نہیں کر سکتا یا ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکتا کیونکہ اس کی پیشین گوئی کے مطابق کائنات بگ بینگ کی اکائیت پر لا متناہی کثافت سے شروع ہوئی، اکائیت پر عمومی اضافیت اور دوسرے تمام طبعی قوانین ناکارہ ہو جائیں گےاور یہ پیشین گوئی نہیں کی جا سکے گی کہ اکائیت سے کیا برآمد ہو گا، جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے اس کامطلب ہے کہ بگ بینگ اوراس سےپہلےکےواقعات کو نظریےسےخارج کیا جاسکتاہے کیونکہ وہ ہمارے زیرِ مشاہدہ واقعات پر اثر انداز نہیں ہو سکتے، بگ بینگ کےآغاز پر مکان – زمان کی ایک حد ہو گی۔ ایک ممکن جواب یہ کہنا ہے کہ خدا نے جن وجوہات کی بنا پر کائنات کی ابتدائی تشکیل کا انتخاب کیا ہم انہیں سمجھنے کی امید نہیں کر سکتے ، یہ یقیناً قادرِ مطلق کے اختیار میں ہو گا، لیکن اگر اس نے اس کی ابتداء اتنےناقابلِ فہم انداز میں کی ہے تو پھر اسےان قوانین کے مطابق ارتقاء پذیر کیوں نہیں ہونے دیا جنہیں ہم سمجھ سکتے ہیں؟ سائنس کی پوری تاریخ اس کا بتدریج اعتراف ہےکہ واقعات از خود رونما نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک مخصوص پوشیدہ ترتیب کی غمازی کرتے ہیں جو الہامی بھی ہو سکتی ہے اور نہیں بھی! یہ فرض کرنا فطری ہو گا کہ یہ ترتیب صرف قوانین ہی پر لاگو ہو گی، ہو سکتا ہے مختلف ابتدائی حالات کےساتھ بہت سے کائنات ماڈل ہوں جو سب قوانین کےتابع ہوں مگر کوئی تو اصول ہونا چاہیے جو ایک ابتدائی حالت منتخب کرے اورہمارے کائنات کی نمائندگی کےلیےایک ماڈل چنے ۔ کائنات اگر واقعی مکاں میں لا متناہی ہے یا اگر بے شمار کائناتیں ہیں تو شاید کہیں کچھ بڑے خطے ہوں جو ہموار اور یکساں انداز میں شروع ہوئے ہوں.فرض کریں کہ صرف ہموار خطوں میں کہکشاں اور ستاروں نےجنم لیا اور ہمارے جیسے پیچیدہ خود افزائشی نامیے کےارتقاء کےلیےحالات سازگار ہوئے جو یہ سوال پوچھنے کی صلاحیت رکھتے تھے کہ۔۔۔ کائنات اتنی ہموار کیوں ہے ؟ یہ بشری اصول کےاطلاق کی ایک مثال ہے جس کا مفہوم دوسرے لفظوں میں کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے ’چونکہ ہم موجود ہیں اس لیے ہم کائنات کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسی کہ وہ ہے ‘۔
یہ پیشین گوئی کرنے کے لیے کہ کائنات کس طرح سے شروع ہوئی ہو گی ہمیں ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو وقت کے آغاز پر لاگو ہو سکیں اگر عمومی اضافیت کا کلاسیکی نظریہ درست تھا تو میرے اورراجر پن روز کی ثابت کردہ اکائیت کی تھیورم یہ ظاہر کرتی ہے کہ وقت کا آغاز لا متناہی کثافت اور لا متناہی مکانی – زمانی خم سے ہوا ہو گا، ایسے نقطے پر تمام معلوم قوانینِ سائنس ناکارہ ہو جائیں گے ، یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ اکائیتوں پر لاگو ہونے والے نئے قوانین تھے ! مگر ا یسے قوانین کو وضع کرنا اور وہ بھی اسی بڑے طرزِ عمل والے نقاط پرخاصہ مشکل ہو گا اور مشاہدے سے ہمیں اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہیں ملے گی کہ وہ قوانین کیسے ہوتے ہوں گے.
اگر اقلیدسی مکان – زمان لا متناہی فرضی وقت تک پھیلا ہوا ہے تو کلاسیکی نظریے کی طرح ہمیں اس میں بھی کائنات کی بنیادی حالت کے تعین میں اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا، خدا ہی جانتا ہو گا کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا مگر ہم اس سوچ کے لیے کوئی خاص جواز فراہم نہیں کر سکتے کہ کائنات ایسے نہیں بلکہ کسی اور طریقے سے شروع ہوئی تھی، دوسری طرف تجاذبی کوانٹم نظریے نے ایک نئے امکان کو پیدا کر دیا ہے جس میں مکان – زمان کی کوئی حد نہیں ہے ، لہذا اس کی ضرورت نہیں ہے کہ حد کے طرزِ عمل کی وضاحت کی جائے ، کوئی ایسی اکائیت ہوئی ہی نہیں جہاں سائنس کے قوانین ناکارہ ہو جائیں اور نہ ہی مکان – زمان کا کوئی ایسا کنارہ ہو گا جس پر خدا سے درخواست کرنی پڑے یا کوئی نیا قانون بروئے کار لانا پڑے جو مکان – زمان کی حدود کو متعین کر دے ، کہا جا سکتا ہے ’کائنات کی حد یہ ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں ہے ‘ کائنات مکمل طور پر خود کفیل ہو گی اور کسی بیرونی چیز سے متاثر نہیں ہو گی، یہ نہ تخلیق ہو گی، نہ تباہ ہو گی، یہ بس موجود ہو گی۔
میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ مکاں اور زماں کا کسی حد کے بغیر متناہی ہونا محض ایک تجویز ہے ، اسے کسی اور اصول سے اخذ نہیں کیا
جا سکتا اور سائنسی نظریوں کی طرح اسے بھی ابتدائی طور پر جمالیاتی یا ما بعد الطبیعاتی وجوہات کےلیے پیش کیا جا سکتا ہے،مگر اصل آزمائش یہ ہے کہ آیا یہ خیال ایسی پیشین گوئیاں کرتا ہے جو مشاہدے سے مطابقت رکھتی ہوں.
مجموعۂ تواریخ میں ہر تاریخ نہ صرف مکان – زمان کی تشریح کرے گی بلکہ کائنات کا مشاہدہ کر سکنے والے انسانوں جیسے نامیوں سمیت اس میں موجود ہر شئے کی تشریح کرے گی، یہ بشری اصول کے لیے ایک اور جواز فراہم کرتا ہے کہ ا گر یہ سب تواریخ ممکن ہیں تو جب تک ہم کسی ایک تاریخ میں موجود ہیں اس بات کی تشریح کی جا سکتی ہے کہ کائنات اب اپنی موجود حالت میں کیوں پائی جاتی ہے ، یہ بات واضح نہیں ہے کہ جن تواریخ میں ہم موجود نہیں انہیں کیا معنی دیے جائیں، تاہم تجاذب کا کوانٹم نظریہ کہیں زیادہ اطمینان بخش ہو گا، اگر ہم مجموعۂ تواریخ استعمال کرتے ہوئے یہ بتا سکیں کہ ہماری کائنات ممکنہ تواریخ میں سے صرف ایک نہیں ہے بلکہ یہ ان میں سے ایک ہے جس کا امکان سب سے زیادہ ہے ، ا یسا کرنے کے لیے ہمیں کوئی حد نہ رکھنے والے تمام ممکنہ اقلیدسی مکان – زمان کے لیے مجموعۂ تواریخ پر عمل کرنا پڑے گا۔
کسی حد کے نہ ہونے کی تجویز کے تحت یہ امکان بہت کم ہے کہ کائنات اکثر ممکنہ تواریخ کی پیروی کرتی ہوئی پائی جائے ، لیکن تواریخ کا ایک خاص خاندان ہے جو دوسروں کی نسبت زیادہ امکانی ہے ، ان تواریخ کی تصویر یوں کھینچی جا سکتی ہے کہ یہ تواریخ زمین کی سطح کی طرح ہوں جس میں قطبِ شمالی سے فاصلہ فرضی وقت کو ظاہر کرے اور اس کے ساتھ یہ بھی دکھائے کہ قطبِ شمالی سے مستقل فاصلے کے دائرے کی جسامت کیا ہے اور یہ کائنات کے مکانی فاصلے کی نمائندہ ہو، کائنات قطبِ شمالی پر ایک واحد نقطے کی طرح شروع ہوتی ہے ، جنوب کی طرف بڑھتے ہوئے قطبِ شمالی سے مستقل فاصلے پر عرض بلد دائرے بڑھتے جاتے ہیں جو فرضی وقت کے ساتھ پھیلتی ہوئی کائنات سے مطابقت رکھتے ہیں.
تاہم حقیقی زمان یا وقت میں کائنات کی تاریخ بہت مختلف نظر آئے گی، تقریباً دس یا بیس ارب (ہزار ملین) سال پہلے یہ کم سے کم جسامت کی حامل ہو گی جو فرضی وقت میں تاریخ کا زیادہ سے زیادہ نصف قطر ہے ، بعد کے وقتوں میں کائنات لیندے کے پیش کردہ انتشاری افراطی ماڈل کی طرح پھیلے گی (اب یہ فرض نہیں کرنا پڑے گا کہ کائنات کس طرح صحیح حالت میں تخلیق ہوئی تھی) کائنات بہت بڑی جسامت تک پھیل جائے گی اور بالآخر ڈھیر ہو کر حقیقی وقت میں اکائیت کی طرح نظر آنے لگے گی، یوں ایک طرح سے ہماری تباہی یقینی ہے چاہے ہم بلیک ہول سے دور ہی رہیں، صرف اگر ہم کائنات کو فرضی وقت کے حوالے سے دیکھیں تو پھر یہ امکان ہے کہ کوئی اکائیت نہ ہو۔
حقیقی وقت میں جس میں ہم رہتے ہیں اگر واپس جایا جائے تو پھر اکائیتوں کا گمان ہو گا، بے چارہ خلا نورد جو بلیک ہول میں گرے گا تباہی سے دوچار ہو گا صرف اگر وہ فرضی وقت میں رہے تو وہ کسی اکائیت کا سامنا نہیں کرے گا۔
اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ معروف فرضی وقت ہی دراصل حقیقی وقت ہے اور جسے ہم حقیقی وقت کہتے ہیں وہ محض ہماری تصوراتی اختراع ہے ، حقیقی وقت میں کائنات کا آغاز اور انجام اکائیتوں پر ہے جس سے مکان – زمان کی حد بندی ہوتی ہے اور جس میں
سائنس کے قوانین بے کار ہو جاتے ہیں، مگر فرضی وقت میں اکائیتیں یا حدود نہیں ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ جسے ہم فرضی وقت کہتے ہیں در حقیقت زیادہ بنیادی ہو، اور جسے ہم حقیقی وقت کےنام سےپکارتے ہیں محض ایک تصور ہو جو ہم نے کائنات کی تشریح میں مدد حاصل کرنے کے لیے ایجاد کیا ہو، مگر پہلے باب میں میرے موقف کے مطابق ایک سائنسی نظریہ محض ایک ریاضیاتی ماڈل ہوتا ہے اس لیے یہ پوچھنا بے معنی ہے کہ حقیقی کیا ہے ؟ حقیقی اور فرضی وقت کیا ہے ؟ یہ سادہ سی بات ہے کہ کون سا تشریح کرنے کے عمل میںزیادہکار آمد ہے ۔ (بشکریہ :سٹیون ہاکنگ،وقت کا سفر،ترجمہ:ناظر محمود).

حصہ