کسی مسلم ملک میں آج اتنی طاقت نہیں کہ سود کے خلاف جنگ کرسکے‘ ڈاکٹر ضیاالحسن

319

صاحبو! زندگی میں ہم بے شمار لوگوں سے ملتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ مختلف ادبی محفلوں میں جاتے ہیں۔ان ادب کی محفلوں میں معتبر لکھنے والوں کی گفتگو سنتے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں،سیکھتے ہیں۔انھی لکھنے والوں میں مختلف اصناف ادب کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔کچھ لوگ اپنی ذات میں ایسی علوم کا مجموعہ ہوتے ہیں کہ آپ ان سے کسی بھی صنف پر بات کر لیں وہ آپ کو علم سے اتنا بھر دیں گے کہ اس کے بعد شاید ہی کسی کتاب کوپڑھنے کی ضرورت پیش آئے۔میرا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ کتاب کی اہمیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔میری مراد یہاں ایسی ہی صاحب ِ علم شخصیت کے بارے میں ہے جن کی پہچان بنیادی طور پر شاعری ہے۔ڈاکٹر ضیاالحسن صاحب معلم بھی ہیں اور تنقید نگار بھی۔یوں درجہ بندی کی جائے تو شاید ہی کوئی علم بچا ہوجس کے بارے میں آپ نہ جانتے ہیں یا آپ کا مطالعہ نہ ہو۔ ہم انھیں بہ طور شاعر زیادہ جانتے ہیں۔ ڈاکٹر ضیاالحسن صاحب سے پہلی ملاقات اجمل سراج صاحب کے توسط ہوئی اور کھلا کہ دونوں بہترین دوست ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بھی۔ آپ ج

ب کراچی میں ہونے والی عالمی معیار کی اردو کانفرنسز کے سلسلے میں تشریف لاتے ہیں تویقینی طور پر باقی کا وقت ہمارا ایک ساتھ گزرتاہے۔ہر بارہماری ان سے کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو ضرورہوتی پھر وہ بتاتے جاتے اور ہم یکسوئی سے ان کی گفتگو سنتے جاتے ۔بعض اوقات تو یہ گفتگو مغرب سے پہلے شروع ہوتی اور فجر تک ایسے ہی جاری رہتی۔ڈاکٹر ضیا الحسن صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔اُن کی شخصیت کے بہت سارے پہلو ہیں لیکن عاجزی اور انکساری کا عنصر اِن میں نمایاں ہے۔کچھ دنوں قبل جب وہ کراچی یونیوسٹی میں ہونے والی کانفرنس کے سلسلے میں تشریف لائے تو میں نے اور عمران شمشاد نے طے کیا کہ اِس بار ہم اُن کا انٹرویو کریں گے۔ٹھیک شام کو جب وہ کانفرنس سے فارغ ہوئے تو ہم اُن کے کمرے میں پہلے سے موجود تھے ۔عبدالرحمن مومن بھی ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ تھے۔آج کا انسان تنہائی، ٹوٹ پھوٹ اور کنفیوژن کا شکار کیوں ہے؟ خاندان کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟تہذیبیں اور ثقافتیں بدل رہی ہیں۔پاکستان کے دورافتادہ گاؤں دیہات میں جہاں علم نہیں پہنچا ،تعلیم نہیں دی جاتی وہاں انٹرنیشنل برانڈ کی پراڈکٹ کیسے پہنچ جاتی ہے؟بین الاقوامی سطح پر اردو ادب کی کیا حیثیت ہے ؟کچھ اس قسم کے سوالات تھے جسے سننے کے بعد انھوں نے اپنی ایک نشست کی گفتگوہی میں سمیٹ دیا۔رات کے بارہ بج چکے تھے۔ ڈاکٹر ضیاالحسن صاحب سے ہونے والی اس طویل گفتگو کا پہلا حصہ آپ احباب کی خدمت میں پیش ہے۔
دنیا نے ایک گاؤں کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس گاؤں میں سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو جکڑا ہوا ہے۔یہ معاشرہ جو بنا وہ ایک جیسی چیزوں کا معاشرہ ہے ۔یعنی یہ سگریٹ یہ کروڑوں میں بنتی ہے۔پہلے تو حقہ تھا۔ہر حقہ دوسرے حقے سے مختلف ہوتا ہے ۔حقہ جب بنایا جاتا تھا ہردفعہ نیا بنتا تھا۔ وہ اس میں تمباکوکم یاگڑ کم زیادہ ڈالتے تھے۔ ان ساری چیزوں کے difference تھے کیوں کہ انسان کرتا تھا ہاتھ سے، تو وہ ایک جیسا ہو نہیں سکتا تھا۔انڈسٹری نے ایک جیسے سگریٹ بنا کر آپ کو دے دیے ۔اسی طرح ہر شئے کثرت میں بہت زیادہ ہو گئی ۔اس کے اثرات آدمی پر بھی پڑے ہیں۔آدمی پر کس طرح پڑے کہ جیسے کوئی نظریہ مغرب میں پیدا ہوتا ہے تو وہ ساری دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ اس نظریے کے اثرات ہوتے ہیں۔اب دیکھیں جو نیا کلچرہمارا بنا ہے وہ رواج کے حوالے سے کھانے پینے کے حوالے سے بنا ہے۔کھانے پینے کے حوالے سے دیکھیں ساری دنیا میں کے ایف سی ،میکڈونلڈ ،پزا وغیر ہ کھائے جاتے ہیں۔ مجھ سے نہیں کھائے جاتے پزا ،شوارما،برگر وغیرہ اورہمارے بچوں سے اس کے علاوہ اور کچھ اور نہیں کھایا جاتا۔یعنی ہمارے بچے اس کلچر کے انسان ہیں جو گلوبلائز کلچر ہے۔پیپسی ہے چائے ہے ہر جگہ پی جاتی ہے۔پیپسی تو من و عن ہی ہے لیکن چائے میں ہم دودھ ڈال لیتے ہیں۔پیپسی جیسی چیزیں جو ملٹی نیشنل کمپنیاں یا مالیاتی کارپوریشز بنا رہی ہیں وہی ساری دنیا کو پہنچ جاتا ہے۔ان چیزوں کو جو ملٹی نیشنل مالیاتی کارپوریشنز جو بنا رہی ہیںیہی سب کو پہنچ رہا ہے۔
انڈسٹری میں چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مجھے ابھی تک یاد ہے چین میں TiananmenSquare طالب علم ہزاروں کی تعداد میں اپنی حکومت کے خلاف جمع ہوئے ۔ان میں تین ہزارکے قریب طالب علم ماردیے گئے تھے۔ اس کا اثر یہ تھا کہ چینی حکومت نے پیپسی پر پابندی لگا دی اور امریکیوں کو کہا فوری طور پر ملک چھوڑ جاؤ۔ امریکا ایک نئی دنیا کا representative علامت بن چکا ہے۔ وہ نئی دنیا آزاد نہیں ہے۔ جیسی وہ چاہتا ہے ویسی دنیا بنتی ہے۔حتٰی کہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کون سا ملک اپنی کتنی product exportکرے گا۔کتنی کر سکے گا ،کتنی نہیں کرے گا۔ کس کو کر سکے گا، کس کو نہیں کرسکے گا۔اب دیکھیں عجیب ہے کہ جو industrial product ہیں کوئی ملک روک نہیں سکتا۔ایک زمانے میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں نے ایک موومنٹ چلائی تھی۔ انھوں نے مسترد کردیا ان کے مال کو۔بائیکاٹ کیا انھوں نے ۔اقوام متحدہ بھی نہیں بنا تھا او ر یہ نئی دنیا ابھی بننے کے مراحل میں تھی، بنی نہیں تھی۔اب آپ چاہیں تو کر ہی نہیں سکتے۔
سب کو معلوم ہے سود لینا حرام ہے لیکن اب کسی مسلمان ملک میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔کسی مولوی میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ سود کے خلاف جنگ کر سکے۔ اس لیے کہ پوری دنیاکی معیشت کا دارومدار سود پر ہے ۔مذہب جو بھلے مرضی کہتا رہے آپ کے مذہب سے زیادہ طاقت ور اور بڑا یہ نظام ہے۔یہ جو نئی دنیا کا نظام بنا ہے اس نے کس طرح کا انسان پیدا کیا ہے۔اس میں ایک مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ وہ اس ہجوم میں اکیلا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اور پہلے بھی دنیا کے ہرادب میں تنہائی کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ یہ ہیلے نیشن کے بعد مغائرت کا جو تجربہ تھا ،بہت بڑا تجربہ تھا انسان کا۔ یہ اس دنیا نے پیدا کیا پچھلی دنیا میں اس کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔industrial revolution نے اس نظام میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ وہ نظام جو پچھلا تھا اسے خالی کرنے لگا اور اس کی جگہ یہ نیا نظام پیدا کیا گیا۔ اس نظام کی اپنی انسانی اخلاقی قدریں تھیں۔اور موجود ہ نظام کے متصادم تھیں۔اس نظام میں وقت کا بڑا مسئلہ تھا۔اب جو نظام ہے یہ چوبیس گھنٹے کانظام ہے۔پچھلا نظام مہینے کا نظام تھا۔اس کی بنیاد تھی زراعت پر۔ اور زراعت کا کام کیا ہے پہلے ہل چلایا،بیج بو دیا اور اس کے بعد آپ آرام سے بیٹھ گئے۔چوپال میں جا بیٹھے تازہ حقہ بنایا،پیا اور گفتگو کررہے ہیں۔مل رہے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات ہیں ،قربت ہے ۔وہ معاشرہ تھا انسان کا انسان سے تعلق کا معاشرہ۔
اب جونیا معاشرہ بنا اس میں وقت نہیں ہے کیوں کہ انڈسٹری نے چوبیس گھنٹے چلنا ہے ۔اُس نظام میں آپ نے مہینے بعدپانی لگایا، پھر مہینے بعد پانی لگایااور پھر فصل کاٹ دی۔ پہلے سولہ سولہ گھنٹے کی شفٹ کام کرتی تھی اب یہ آٹھ گھنٹے تک آ گیا ۔ایک تو وہ جوانسان کی جسمانی مشقت تھی کم ہو گئی بہ ظاہر یہ بہت بڑیachievementلگتی ہے۔اب جب کمپیوٹر اور اسی طرح کی چیزیں آ گئیں تو آپ کی ذہنی مشقت بھی کم ہو گئی۔پہلے لوگوں کی یادداشتیں بہت ناقابل یقین ہوتی تھیں جس پر یقین نہیں آتا تھا۔ برسوں کی باتیں یاد رکھتے تھے۔اب یاد کا یہ عالم ہے کہ آپ سے کوئی آپ کا نمبر پوچھیں تو بعض اوقات بھول جاتے ہیںاور کہتے ہیں اچھا دیکھ کر بتاتا ہوں ۔تو یہ تبدیلی ہوئی جس کا اٹھارہویں صدی سے آغاز ہوا اور اب آپ تک آتے آتے وہ اپنے کمال تک پہنچ گئی ہے۔اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم بدل گئے ہیں۔ ہم اس طرح کے نہیں رہے ۔ ابھی ہمارے ہاںوہ موقع نہیں آیا کہ ہم کسی سے طے کرکے جائیں کہ ہم سات بجے آئیں گے۔ساڑھے آٹھ بجے چلے جائیں گے یا پونے آٹھ بجے چلے جائیں گے۔ہم ابھی اس طرح کے نہیں بنے ہیں جس طرح کے یورپ اور امریکا بن چکا ہے۔اس کے باوجود ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں تو انڈسٹری کے ساتھ الٹ حساب ہوا کہ ماضی کی نسبت جتناہم آگے ہیں ،ہماری انڈسٹری تباہ ہوتی گئی ہے تو ہم اس طرح کے انڈسٹریل ہو نہیں سکے۔اب ہم صرف globalizationکے ذریعے ایک ہیں۔ یعنی ہم produce تو نہیں کرتے لیکن انڈسٹریل کے عہد کی product کے consumer ہیں۔ دنیا بھر میں جو چیز بھی بنتی ہے وہ سب پاکستان میںavailableہے ۔ اب دیکھیں ناکہ یہ جو مکینس ہے یہ والی کہ ٹویوٹا گاڑی جاپان میں ہوگی ،پاکستان میں ہوگی،انڈیا میں ہوگی۔ یا پیپسی کا ٹن ہر جگہ ملے گا ۔ یہی گولڈ لیف انگلینڈ میں بھی بنے گا،ہمارے ہاں بھی بنے گا ۔کہتے ہیں نا کہ ساری دنیا ایک طرح مکینیکلی ہے۔اب یہ جو نئی دنیا ہے اس دنیا کا آدمی پرانی دنیا سے بالکل مختلف ہے ۔اس کی قدریں بھی بالکل مختلف ہیں۔ ہماری اقداریارویے ان سے بالکل مختلف ہیں ۔اب اِن کو کون پیش کرے ؟ ان کو پیش کرنے کے لیے جو ہمارے پاس ذریعہ ہے دنیا نے جو نئی صنف ایجاد کی۔ افسانہ اورناول کی۔ ایک اٹھارہویں صدی کے اوائل میں لکھی جانی شروع ہوئی ۔دوسری انیسویں صدی کے اوائل میں لکھی جانا شروع ہوئی۔ اس سے پہلے اُدھر بھی داستانیں لکھی جاتی تھیں۔ ہمارے ہاں بھی داستانیں لکھی جاتی تھیں۔اُدھر بھی شاعر پیدا ہوتے تھے جو بڑے ادیب تھے وہ شاعر تھے۔ حتیٰ کہ ڈراما نگار بھی شاعری میں ڈرامے لکھتے تھے۔ منظوم ڈرامے لکھتے تھے۔ شاعری دنیا بھر کے اظہار کا بڑا ذریعہ تھی۔ اس کی شکلیں جیسی بھی رہی ہوں اصناف تو اپنے اپنے تہذیب کے مطابق ہوتی ہیں ۔ ان اصناف کوآپ کا کلچر پیدا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بیسویں صدی کے وسط تک بھی جب تک ن م راشد ،میرا جی، مجید امجد جیسے بڑے شاعر زندہ رہے ہیں‘ اس وقت بھی آپ سمجھیں کہ شاعری کے ذریعے ہی سے اظہار ہو رہا تھا۔ یہ تو تقریباً پچھلے پچاس برس میں ہمارے ہاں تبدیلی آئی ہے۔ اب تبدیلی کس طرح سے آئی ہے کہ وہاں بھی افسانے سے ناول کی طرف آئے ہیں۔ یہ تصورکہ افسانہ چھوٹا ہوتا ہے اس زمانے میں پیدا ہوا جب وقت ہمارے پاس کم تھا ایسا نہیں ہے۔ پہلے وہاں افسانہ لکھا گیا۔ ہمارے ہاں بھی افسانہ لکھا گیا۔ ناول بعد میں آیا۔ دنیا کے سارے بڑے ناول نگار انیسویں اور بیسویں صدی کے ہیں۔ انیسویں صدی کے بھی نصف زیادہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ اصل میں بیسویں صدی ہے۔ بیسویں صدی کے بھی نصف آخر میں دنیا کے جتنے بھی بڑے بڑے مختلف زبانوں میں،خطوں میں اورملکوں میں ناول نگار پیدا ہوئے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں بیسویں صدی کے نصف اول میں نہیں تھے۔ انیسویں صدی میں نہیں تھے ۔حالانکہ تھے کچھ بڑے نام لیکن کیا ہوا کہ بڑے عظیم fictional تخلیقی تجربے کا اظہار ہے وہ پھیل گیا، زیادہ ہوگیا۔ زیادہ خطوں تک پھیل گیا۔ جیسے ترکی میں بڑے ناول نگار پیدا ہوگئے۔ عرب میںبڑے ناول نگار پیدا ہوگئے۔افریقا میں بہت بڑے ناول نگار پیدا ہو گئے ۔ہرجگہ آپ کو بڑے ناول نگار نظر آتے ہیں۔ہمارے ہاں نہیں ہے پاکستان میں جبکہ بھارت میں آپ کو مل جاتے ہیں ۔ہندی کے بھی کچھ فکشن کے رائٹر ہیں۔ہندی میں بھی اوران کی ریجنل زبانوں میں بہت کمال کا فکشن کا تجربہ موجود ہے۔ ان میں سے کچھ کبھی کبھی ہم تک جن کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے پہنچ جاتاہے تو ہم پڑھتے ہیں ۔پھر ہمیں اندازہ ہوتا کہ اچھا ایسے لوگ ہیں بہت کمال کے ناول ہیں۔مثال کے طور پر نرمل ورما اور ونود کمار شُکّل ہیں۔ ان کے ناول ہندی میں تھے جو اردو میں ترجمہ ہو کر ہم تک پہنچے ہیں۔ جیسے یش پال ہیں۔ ’’آج ‘‘نے دو ناول چھاپے تھے ایک ناول تھا ’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی ہے‘ دوسرا ناول تھا’نوکر کی قمیض‘دونوں ہی بڑے عجیب و غریب قسم کے ناول ہیں ۔اردو کے ناول نگار ایسے ناول لکھنے کی ابھی تک سوچ بھی نہیں سکتے۔ہندوستان کی ریجنل زبانوں میں جیسے Malayalam وغیرہ ان میں بڑا کام ہوا ہے۔ایک اُن کے ویکوم محمد بشیربڑے فکشن رائٹر ہیں ۔بہت ہی دلچسپ اور کمال کے آدمی ہیں ۔’آج‘ والوں کا بہت شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ایسی کمال کی تحریریں ہمیں پڑھنے کودیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں انڈیا سے آئیں کچھ پاکستان سے گئیں ۔ان کے ہاں کیوں ہوئیں؟ کیوں کہ وہindustrially طورپر ہم سے بہترہیں۔اُن کے ہاں انڈسٹریل سوسائٹی بنتی ہوئی نظر آرہی ہے جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔ہمارے ہاں کراچی سب سے بڑاindustrial شہرہے۔فکشن کے اعتبار سے کراچی اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں بہت زمین آسمان کا فرق ہے۔ (جاری ہے)

حصہ