اپنے بھی بنے اجنبی ‘ایک عورت کی کہانی

354

افروز عنایت
اخبار میں لڑکیوں کی خرید و فروخت کی اندوہناک خبر پڑھی تو بے اختیار ماسی نذیراں کی کہانی یاد آگئی… جھریوں سے اٹا سفید اداس چہرہ، جو اپنے پر بیتی المناک داستان خاموش لبوں سے بیان کررہا تھا۔ آخر ایک دن لبوں پر جنبش ہوئی تو داستان کچھ اس طرح عیاں ہوئی:
’’نہ جانے کتنے سال بیت گئے اپنوں سے بچھڑنے کے واقعے کو… ہمیشہ کھوج میں رہتی کہ شاید مل جائیں۔ شاید سانسیں اسی انتظار میں چل رہی ہیں… وہ ایک اجنبی شخص تھا جو گائوں میں وارد ہوا۔ جلد ہی اپنی میٹھی اپنائیت والی باتوں سے اس نے سب گائوں والوں کے دل جیت لیے۔ چاچا کرم داد نام تھا اُس کا… اس کو میں کیسے بھول سکتی ہوں…! ہمارے گھر کی بیٹھک تک اس کی پہنچ ہوئی۔ بابا کے علاوہ ہم سب بچے بھی اس سے جلد ہی مانوس ہوگئے تھے۔ وہ سارے گائوں کے بچوں کا چاچا تھا۔ بچوں کے لیے مٹھائیاں، بسکٹ لاتا… بچوں کے ساتھ کھیلتا… باتیں کرتا… گائوں والوں پر جلد ہی اس کا اتنا اعتبار بیٹھ گیا کہ اس کے ساتھ آس پاس جانے کے لیے بچوں کو اس کے حوالے کردیا جاتا… پھر وہ ایک منحوس گھڑی تھی جب… سہیلیوں کے ساتھ کھیل کود کر گھر کی طرف پلٹی تو چاچا کرم دین مجھے راستے میں مل گیا، کہنے لگا ’’میں تمہارے بابا کے کھیتوں کی طرف جارہا ہوں، تم چلوگی بیٹا؟‘‘ میں نے کہا ’’اماں سے پوچھ کر آئوں؟‘‘ کہنے لگا ’’نہیں نہیں مجھے دیر ہوجائے گی، اچھا میں چلتا ہوں…
میں ایک آدھ مرتبہ چاچا کے ساتھ ابا کے کھیتوں میں کھانا دینے گئی تھی اس لیے ڈر نہ لگا، اور اماں کی اجازت کے بغیر ہی میں چاچا کے ساتھ چل پڑی۔
باتوں ہی باتوں میں وہ گائوں سے بہت دور نکل گیا، جب مجھے ہوش آیا تو میرے پوچھنے پر کہا ’’ایک کام اس طرف بھی ہے، نمٹا کر چلتے ہیں‘‘۔ پہاڑوں کے درمیان کچی پکی پگڈنڈیوں سے گزرتے ایک جگہ پہنچے جہاں چند ایک کٹیاں (جھونپڑیاں) بنی ہوئی تھیں۔ دستک دینے پر ایک کٹیا سے ایک ادھیڑ عمر خاتون نکلی۔ چاچا نے مجھے اس کے حوالے کیا کہ ابھی آتا ہوں۔ میں سمجھ نہ سکی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور وہاں سے چلا گیا۔ میرے رونے دھونے پر اس عورت نے زبردستی کچھ کھانا کھلایا کہ تیرا چاچا ابھی آجاتا ہے… پھر جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنوں سے بہت دور اس شہر میں تھی۔ مجھے دھمکایا، ڈرایا گیا کہ اگر روئی یا چیخی تو ہم تجھے مار دیں گے۔ میں سہم گئی۔ یہیں… اسی شہر میں ادھیڑ عمر امیر بخش کے ہاتھ مجھے بیچ دیا گیا۔ امیر بخش مجھے لے کر اپنے گھر گیا اور اپنی ماں کے حوالے کرکے کہا کہ تیرے لیے نوکرانی لے کر آیا ہوں۔ پھر وہ اپنی زبان میں بہت دیر تک گفتگو کرتے رہے… اس گھر میں سختی سے مجھے کہا گیا کہ گھر سے باہر قدم نہ نکالنا، نہ اپنی داستان کسی کو سنانا۔ چند برس کے بعد اماں (امیر بخش کی ماں) نے میرا نکاح اپنے بیٹے سے کروادیا۔ ماہ وسال بیتتے گئے۔ اماں کے بعد امیر بخش بھی اللہ کو پیارا ہوگیا۔ دونوں بچے بڑے ہوگئے۔ پھوپھیوں نے ان کی شادیاں کروا دیں۔ مجھے کچھ آزادی نصیب ہوئی۔ آس پڑوس میں نکلنے کی اجازت ملی تو بیٹے کی اجازت سے اپنوں کی تلاش شروع کی۔ کچھ آسرا ملا ہے۔ تم سب دعا کرو مرنے سے پہلے مجھے میری ’’پہچان‘‘ مل جائے، میرے اپنے مل جائیں، میں عزت سے مرسکوں…‘‘
ماسی نذیراں کی المناک اور دردناک کہانی سن کر ہم سب بچے اُسے بڑی حیرانی اور ہمدردی سے دیکھ رہے تھے۔ یہ ماسی نذیراں سے ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے کچھ عرصے بعد جو کچھ معلوم ہوا اس نے ہم سب کو مزید افسردہ کردیا۔
ماسی اپنوں کی محبت میں سرشار اپنے گائوں پہنچی۔ اس نے نہ جانے کتنی امیدوں کے خواب بُنے تھے کہ اپنوں کے سینوں سے لگ کر اپنی محرومی کی پیاس بجھائے گی، ان کی بانہوں میں پناہ لے کر ماضی کو فراموش کرنے کی کوشش کرے گی، لیکن سارے سپنے مسمار ہوگئے۔ اپنے ملے تو سہی، لیکن ان میں وہ گرم جوشی، محبت کی وہ چاشنی نظر نہ آئی جس کی وہ برسوں سے متلاشی تھی۔ ماں باپ تو بیٹی کی جدائی کا درد لے کر دوسری دنیاکے سفر پر روانہ ہوگئے تھے، لیکن بہن بھائیوں کے لیے وہ اجنبی تھی، ان کی عزت و غیرت کے لیے ایک سوال تھی۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ سب اس کے یہاں سے واپس جانے کے منتظر ہیں۔ وہ تو بقیہ زندگی ان سب کے سائے میں، ان کے سنگ گزارنے کے لیے تلاش و جستجو کے بعد لمباسفر کرکے یہاں پہنچی تھی۔ ان کی اس بے رخی نے اس کے دل و دماغ پر بھی کاری ضرب لگائی۔ وہ اس کا اپنا دیس تھا، لیکن اس کے اپنے سب اجنبی تھے۔ واپس آنے کے بعد بہت دن گم سم رہی، پھر اس کے دل و دماغ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ پہلے وہ حواس کھو بیٹھی، اور کچھ عرصے میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئی۔
یہ تھی ماسی نذیراں کی المناک داستان اور اس کا انجام۔ رب العزت سب کی اولادوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ماں باپ کے سائے و دامن میں حفاظت سے رکھے۔ والدین اور رشتے داروں کو اولاد کے سلسلے میں اجنبیوں پر یقین اور اعتماد نہ کرنے کی صلاحیت اور توفیق عطا کرے۔ والدین بچیوں اور بچوں کو اجنبیوں سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ بچوں کے ساتھ ایسا رشتہ و تعلق استوار کرنا والدین کے لیے نہایت ضروری امر ہے جس کی بنا پر بچے اپنی تمام باتیں اور خواہشیں والدین سے شیئر کریں۔ دنیا کی اونچ نیچ کے ساتھ دینی تعلیم کا خاص اہتمام اور دھیان رکھنا آج کے والدین کی اشد ضرورت ہے، تاکہ معاشرے میں پھیلی گندگی اور جرائم سے بچا جاسکے اور اپنے بچوں کو ہر شر سے محفوظ رکھا جاسکے۔ (آمین)۔

حصہ