ترقی۔2

295

سیدہ عنبرین عالم
جو سوال مجھ سے سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ یہ ہے کہ کیا ہمیں اللہ کو راضی کرنے کے لیے موجودہ طرزِ زندگی ترک کردینا چاہیے؟ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر ایک نے کہہ دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ جناب اسی لیے میں نے قرآنی آیت اپنے مؤقف کی حمایت میں تحریر کردی تھی، جس سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ فطری طریقۂ زندگی کو ہی پسند فرماتا ہے۔
’’تو تم ایک طرف کے ہی ہوکر دین پر چلو (یعنی) فطرتِ الٰہی، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ جو اللہ نے بنایا اُس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہی سیدھا دین ہے اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ (سورۃ الروم، آیت 30)
ہم اسلام کو دینِ فطرت کہتے ہیں، یعنی فطرت سے قریب تر دین۔ جب آپ اپنے آس پاس کے ماحول کا درجہ حرارت اپنی مرضی سے تبدیل کرلیں اور جو قدرتی موسم ہے اسے آپ اپنے پاس پھٹکنے نہ دیں تو کیا یہ ’’دینِ فطرت‘‘ میں جائز ہوسکتا ہے؟
چلیے اللہ معاف کرے، میں کیوں جائز اور ناجائز کا فیصلہ کروں؟ مجھے کیا حق ہے؟ لیکن ہم عقل کی کسوٹی پر تو اس بات کو پرکھ سکتے ہیں۔ اللہ نے غوروفکر کا حکم دیا ہے۔
سب سے پہلے میں اُن خواتین کی غلط فہمی دور کردوں جو سمجھتی ہیں کہ ہم دوبارہ فطری زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔ چین نے اپنی 40 فیصد صنعتیں آلودگی کی خطرناک صورتِ حال کی وجہ سے بند کردی ہیں، جبکہ پاکستان میں یہ حال ہے کہ دریائے سندھ کا پانی کئی مقامات پر کالا اور بدبودار ہوچکا ہے، صنعتوں کے فضلے کی مہربانی سے اوزون لیئر اس بری طرح زخمی ہے کہ دنیا کا ہر حصہ فضا اور زمینی عدم توازن کے باعث قدرتی آفات کا شکار ہے، اور کئی ممالک کو مجبور کیا جارہا ہے کہ صنعتیں بند کریں۔ صورتِ حال اتنی نازک ہوچکی ہے کہ اگلے 20 سے 25 سال کے عرصے میں ان شاء اللہ تمام صنعتیں بند ہوچکی ہوں ورنہ انسانی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ اب غور کریں کہ جو دریا بدبودار اور کالا ہوچکا ہے، اُدھر کی مچھلیاں کس قدر کیمیکل زدہ اور زہریلی ہوچکی ہوں گی۔ کوئی پرندہ یہ مچھلی کھائے گا تو وہ بھی اسی زہریلے پن کا شکار ہوگا۔ پھر جو بڑا پرندہ اُس پرندے کو کھائے گا وہ بھی مر جائے گا۔ یعنی جو قدرتی سائیکل ہے حیاتیات کی، وہ مکمل طور پر متاثر ہورہی ہے۔ یہ سائیکل اس قدر مکمل ہے کہ ہر نباتات، حیوانات اور انسان کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔ صرف گِدھ غائب ہوجائیں تو دنیا تباہ، صرف تمر کے جنگلات غائب ہوجائیں تو دنیا تباہ۔ مزید کئی مثالیں ہیں، اس لیے صنعتیں بند کرنا ہی واحد حل ہے۔ اس کے ساتھ ہی سب انجینئرز، MBA’s اور C.A’s بے روزگار۔ پھر وہی کمائے گا جو دست کاری جانتا ہے، یعنی جو ہاتھ کے کام کا کوئی ہنر رکھتا ہے بغیر مشین کے، آگئی فطرت واپس؟ مشینیں بھی فیکٹریوں میں بنتی ہیں۔
ایک سوال مجھ سے فرنیچر کے بارے میں کیا گیا کہ کیا یہ بھی فطرت کی خلاف ورزی ہے؟ کسی مسلمان کو ایسے سوال کرنا زیب نہیں دیتا جن کا جواب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے بآسانی مل سکتا ہے۔ پورے عرب کے مالک تھے میرے پاک نبیؐ، کیا ان کے کمرے میں کوئی کرسی یا تخت یا ڈائننگ ٹیبل تھی؟ اگر اس کا جواب ’’نہیں‘‘ ہے تو کسی مسلمان کو سوائے مجبوری کے، لکڑی کا فرنیچر استعمال نہیں کرنا چاہیے، یہی سنت ہے۔ اب میں آپ کو اس کی عقلی دلیل بھی دے ڈالوں۔ آج ہر دلہن کو 4 سے 5 لاکھ روپے مالیت کا فرنیچر دیا جارہا ہے، جب کہ جس عمر میں شادی ہوتی ہے، کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔ کیا چٹائی پر نبیؐ اور بی بی عائشہؓ کی طرح گزارا نہیں کیا جاسکتا؟ پچھلے 70 سال میں دنیا کے 80 فیصد جنگل اس فرنیچر کی عیاشی کی خاطر کاٹ دیے گئے۔ درخت جتنے زیادہ ہوں، ان کی جڑیں زمین کے اندر پھیل جاتی ہیں اور اس قدرتی مضبوطی سے زمین کو جکڑ لیتی ہیں کہ زلزلے وغیرہ کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔ جب آپ 80 فیصد درخت کاٹ دیں گے تو قدرتی آفات کی وہی صورتِ حال ہوگی جو آج ہے۔ سیلاب بھی درختوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے قابو میں آجاتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان دینے کو سب تیار ہیں لیکن اس چٹائی پر سونے کو کوئی تیار نہیں جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی اور تمام عمر چٹائی پر گزاری۔ انگریزوں کی جو ایجاد ہے تباہ کن ہے۔ ہندوستان میں بھی زمین پر فرش بچھانے کا رواج تھا۔ لکڑی سے دروازے، الماریاں وغیرہ بنا لیے جاتے تھے، مگر انگریزوں نے دفتر سے لے کر گھروں تک، دکانوں سے لے کر اسپتال تک ہر جگہ لکڑی کا اس قدر استعمال کیا کہ دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، اور ہم جیسے بے عقل بس انگریز کی نقالی کو ہی فیشن سمجھتے ہیں۔ پوری دنیا میں نہ تیل کا استعمال تھا نہ طلب، ان انگریزوں نے عربوں کے تیل کے کنویں سُکھا دیے، اور اب تو تیل کے پیچھے بڑی بڑی جنگیں ہورہی ہیں۔ مگر یاد رکھیے، دنیا کے تیل اور گیس کو اس بے دردی سے استعمال کیا گیا ہے کہ بس کچھ عرصے کی کہانی ہے، پھر ان چیزوں کے خاتمے کے بعد ہمیں اونٹ اور گھوڑوں کی طرف ہی پلٹنا ہوگا… ایسے آئے گی فطرت واپس۔
پانی کی لائنوں پر میں نے اعتراض کیا تو کئی خواتین سیخ پا ہوگئیں اور میرے ذہنی توازن پر شک کرنے لگیں۔ حالانکہ مٹکوں اور بالٹیوں میں پانی بھر بھر کر لے جانے کا فطری نظام آج کراچی کے کئی علاقوں میں دیکھا جاسکتا ہے، اور جو لوگ 15 بالٹی پانی سے ہر اتوار کو اپنے گھر کی دھلائی کرتے ہیں وہ بھی جلد ہی اس نظام سے منسلک ہوجائیں گے، بلکہ ماحولیاتی تباہی کے نتیجے میں گوروں کے ملکوں میں بھی اتنی آفات آئیں گی کہ وہ بھی میٹھے پانی کے ذخائر سے محروم ہوجائیں گے اور بالآخر مسز ٹرمپ بھی لائن میں لگ کر مٹکے میں پانی بھر کر لا رہی ہوں گی۔ یہ سب بدشگونی نہیں ہے، حقیقت ہے… اور حقیقت آنکھیں بند کرلینے سے تبدیل نہیں ہوجاتی۔ کراچی میں تو کبھی گیس کی لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی تھی، اب ہوتی ہے ناں؟ جب آپ سیدھے طریقے سے اللہ کی بات نہیں مانیں گے تو قدرت اتنی طاقتور ہے کہ زبردستی آپ کو اپنی مرضی کے مطابق چلائے۔ جیت تو آخر میں اللہ ہی کی ہونی ہے… بہت مزے کرلیے۔
اب خوراک پر سوالات! اگر آپ کی بیٹی بلینڈر میں لکڑی کے ٹکڑے ڈال کر چلائے تو آپ کیا کہیں گی؟ بلینڈر لکڑی پیسنے کے لیے نہیں بنایا گیا، لکڑی پیسنے سے خراب ہوجائے گا۔ آج ہر گھر میں کینسر، شوگر، گردہ، دل اور بلڈ پریشر کے مریض موجود ہیں۔ ہاضمے کی خرابی تو ایک مشترکہ مسئلہ ہے، ذرا سا گر گئے تو فوراً ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ خوراک کے ذریعے جسم میں وہ چیزیں داخل کررہے ہیں جن کے لیے جسم نہیں بنایا گیا، اور اس کے نتیجے میں جسم کا کوئی نہ کوئی عضو خراب ہوکر کام کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پورے عرب کے بادشاہ تھے، کیا وہ ایک کلو اصلی گھی میں ایک کلو بکرے کا گوشت بھون کر نہیں کھا سکتے تھے؟ ایک سے ایک باورچی نوکر رکھ سکتے تھے، مگر آپؐ پیٹ سے نہیں دماغ سے سوچتے تھے، اور آپؐ کے دماغ نے آپؐ کو بتایا کہ جَو کی روٹی اور کھجور کھا کر سو جائو۔ سب صحابہؓ زیادہ تر بھوکے رہتے، ورنہ کھجور، روٹی اور پانی میں پکا ہوا گوشت صرف نمک کے ساتھ کسی اہم موقع پر کھا لیا تو کھا لیا۔ ایسی عمدہ صحت تھی کہ ایک بادشاہ نے تحفتاً طبیب بھیجا تو وہ چھ مہینے بے کار بیٹھا رہا، کوئی مریض اُس کے پاس نہ آیا۔ آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا ’’ہم بیمار نہیں ہوتے۔‘‘
زہریلی فضا، زہریلا پانی، ہر وقت کی ٹینشن، کھانے کو کیمیکل بھری خوراک… ابھی یہ عالم ہے بیماریوں کا تو اگلے بیس سال میں کتنی خطرناک بیماریاں خدانخواستہ ایجاد ہوں گی جو ہمارے تصور میں بھی نہیں۔ آج جتنے لوگ ڈاکٹر بن رہے ہیں، وہ بھی بے کار ہیں، ایسی بیماریاں ہوں گی جو کسی ڈاکٹر کے بس میں نہ ہوں گی۔ آج کی تازہ بیماریاں نیگلریا، ڈینگی، کانگو، چکن گونیا، ایڈز، SLE، گردہ سکڑنا وغیرہ کا کیا علاج ہے؟ صرف ڈاکٹروں پر پیسے پھینکتے رہو، طفل تسلیاں ہیں سب۔
ایک دن آئے گا کہ جو قسم قسم کے ہوٹل کھل گئے ہیں، ایک سے ایک کھانے کی ترکیبیں، نئے نئے پکوان جو لوگوں کو نفسیاتی بنا چکے ہیں کہ سوائے کھانے کے کچھ سوچتے ہی نہیں، وہ اپنی صحت سے ایسے محبور ہوجائیں گے کہ صرف تازہ کچی سبزیاں، پھل اور آگ پر بھنا ہوا گوشت ہی کھائیں گے، ان کی زندگی کا مقصد کھانا نہیں رہ جائے گا، بالکل حضرت آدم علیہ السلام کے گھر والوں کی سی خوراک، بالکل فطری، بالکل اصلی، دینِ فطرت۔ جیسے شمع بجھنے سے پہلے بھڑکتی ہے یہ ترقی کے نظارے بھی اسی طرح جوبن پر ہیں۔ ہر دور میں انسان کے پاس کوئی نہ کوئی کمال ہوتا ہے، جیسے فرعون کے زمانے میں تعمیرات، کیمسٹری اور جادو بہت اونچائی پر تھے۔ قوم عاد کے پاس پہاڑ تراشنے کا کمال تھا۔ آج ہمارے پیرومرشد گوروں نے بھی سائنس اور دیگر شعبوں میں کچھ کمالات حاصل کرلیے، جو صرف ایک آزمائش ہے۔ چند دنوں کی تفریح اور غرور۔ چاہتے تو اسے نفع والا علم بناتے اور اللہ کی عطا کو اللہ کو راضی کرنے کے لیے استعمال کرتے، مگر ہم نے اسے صرف شیطان کے اتباع میں استعمال کرکے ہر جاندار اور زمین کو تباہ کر دیا۔ یہ زمین ہمارے پاس امانت تھی، جیسی رب نے دی تھی ویسے واپس کرنی تھی۔ اب امکان اسی بات کا ہے کہ جیسے پچھلی اقوام اپنے اوپر اللہ کے احسانات کا غلط استعمال کرکے اللہ کو ناراض کر بیٹھیں، ہم بھی اسی غضب کا شکار نہ ہوجائیں۔ کمالات تو بہرحال واپس لے ہی لینے چاہئیں تاکہ مزید تباہی روکی جاسکے۔
ہمارے نبیٔ محترم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے پہلے حکم دیتے تھے کہ کھیت یا درخت کو نقصان نہ پہنچے۔ پانی آلودہ نہ ہو۔ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو تکلیف نہ ہو۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے ان دیوتائوں نے تو دنیا ہی رہنے کے قابل نہ چھوڑی، ایسا بم مارتے ہیں کہ نیچے اسکول ہو یا اسپتال، سب ملیامیٹ۔ پھر حقوقِ انسانی کے چیمپئن بھی یہی۔ پہلے دور میں کم از کم اتنی آسانی تو تھی کہ تلواروں سے جنگ ہوتی تھی اور آبادیاں صفحہ ہستی سے نہیں مٹا دی جاتی تھیں۔
بجلی… یہ بھی ختم ہوجائے گی۔ اگر یہ اتنی اچھی چیز ہوتی تو تمام کے تمام انبیاء اس کے بغیر ہی دنیا سے رخصت نہ ہوجاتے۔ اس فتنوں سے پُردور میں جب کسی پیغمبر کا بھی آسرا نہیں، اس بجلی کو دنیا میں کیوں چھوڑے، جو سارے فساد کی جڑ ہے۔ آپ نے قرآن میں دیکھا کہ ہر صورت جوڑوں کی شکل میں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے۔ اسی طرح وہ دور ضرور واپس آئے گا جو فطرت پر مبنی تھا اور جس میں بجلی نہیں تھی۔ جیسے بالکل یہودیوں کی ٹکر پر امتِ مسلمہ کو پیدا کیا گیا، جیسے ہر قرآنی سورۃ میں آیتیں بار بار آتی ہیں، اسی طرح فطری دور ضرور واپس آئے گا۔ دنیا اپنی اصل پاکیزگی میں بحال ہوگی اور اللہ کا دین مکمل فہم کے ساتھ تمام دنیا میں رائج ہوگا۔
جی! ایک سوال کا پہلے ہی جواب دے دوں Manual machine کم تباہ کن ہوتی ہے، یعنی وہ مشین جو ہاتھ سے چلائی جائے، کیونکہ وہ آلودگی کا سبب نہیں بنتی۔ اگر تیل والے چولہے استعمال کیے جاتے تو جو تیل 70 سال میں گاڑیوں اور صنعتوں میں جلا کر برباد کیا گیا ہے، وہ 700 سال صرف چولہے جلانے میں استعمال ہوسکتا تھا۔
اب سوال ہے بینکنگ نظام کا، تو جناب عرض یہ ہے کہ امریکا اور چین قرضوںکے بوجھ تلے بری طرح دبے ہوئے ہیں۔ یورپ میں کئی ریاستیں دیوالیے کے قریب ہیں، عرب ملکوں کا ایسا برا حال ہے کہ لاکھوں ملازمتیں ختم ہوگئیں اور غیر ملکی ملازم بڑی تعداد میں واپس بھیجے جارہے ہیں۔ سود، تیل اور ہتھیاروں کی تجارت پر منحصر یہ معاشی نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیپٹل ازم کی مدح سرائی کرنے والے ریاستی مدد سے بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہے ہیں۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں کیپٹل ازم صرف اُس وقت جائز ہے جب ’’ضرورت سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے دینے‘‘ کا سورۃ آل عمران کا اصول مکمل follow کیا جارہا ہو، ورنہ یہ کیپٹل ازم ایک ایسی بلا ہے جو غریبوں کا خون چوس کر امیروں کی تجوریاں بھرتی ہے، اور جو کیپٹل ازم اس وقت رائج ہے وہ قطعاً اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ صرف ہتھیار بیچنے کے لیے جنگیں کرانا، دوائیں بیچنے کے لیے نئی نئی بیماریاں لوگوں میں منتقل کرنا، زیادہ منافع کمانے کے لیے لوگوں کو بری عادات میں مبتلا کرنا کسی صورت جائز نہیں۔
آپ دیکھیں تو سہی کہ نبیؐ اور صحابہؓ کی زندگی کتنی آسان تھی۔ ایک کمرے میں گزارا، ایک چٹائی، ایک مٹکا اور ایک چکی ہو تو نئی زندگی کا آغاز ہوجاتا تھا۔ صفائی کرنی ہو تو چٹائی جھٹک کر دوبارہ بچھا دی۔ کھانا چاہیے تو کھجور اور دودھ کا استعمال، دعوتوں میں یا خاص مواقع پر جانور ذبح کیا تو کیا، ورنہ ولیمے پر بھی صرف چھوہارے تقسیم کرنے کا رواج تھا۔ تعلیم بھی ہو تو مفت تعلیم کا رواج تھا، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیا کرتے تھے یا کسی صحابیؓ کو مقرر فرما دیتے۔ چلو بھئی ہوگیا کام… اب آپ اپنی زندگی کا سوچیے، آپ انگریزوں کی سنت پر چلنے والے ہیں۔ ایک کمرہ صوفے ڈالنے کے لیے چاہیے، ایک کمرہ ڈائننگ ٹیبل کے لیے، دو تین کمرے بیڈ ڈالنے کے لیے۔ اگر آپ سنتِ نبویؐ پر عمل کرتے تو ایک ہی کمرے میں چٹائی پر بٹھا لیا تو یہ ہوگیا آپ کا ڈرائنگ روم۔ یہ جو کھیتوں کو روند کر ہائوسنگ اسکیمیں بنائی جارہی ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم کو ایک کمرہ کافی نہیں ہوتا، ہم انگریز بننا چاہتے ہیں اور سنتِ نبویؐ اپنانے میں ہماری عزت گھٹ جاتی ہے۔ اب صفائی… کبھی پردے دیکھو، کبھی چادریں، کبھی پینٹ کی دھلائی کرکے دیواریں چمکائو، کبھی پنکھا صاف کرو، قالین ڈرائی کلین کرائو، ایک ایک مشین کو رگڑ رگڑ کر چمکائو، چاہے ٹائلوں پر پھسل پھسل کر ہڈیاں تڑوا لیں گے مگر پکا فرش نہیں چاہیے، ٹائل چاہیے۔ اس کو تیزاب سے رگڑ کر صاف کرتے ہیں، کبھی AC خراب، کبھی لائٹ فیوز، کبھی بلینڈر نہیں چل رہا، تو کبھی مائیکرو ویو خراب۔ آدھی زندگی اس جہنم بھر سامان کی صفائی میں گزر جاتی ہے، اور آدھی اس سامان کی مرمت میں۔ پھر کہاں وقت ہوگا کہ دین کی ترویج ہو، کسی بیمار کی مدد ہو، یا اللہ کی عبادت کی جائے۔ 1,000 روپے میں دو کلو گوشت پک سکتا ہے، نہیں پیزا چاہیے جو آٹا ہی آٹا ہے، صرف چار، پانچ بوٹیاں اوپر رکھ دی جاتی ہیں اور پیٹ بھی نہیں بھرتا۔ ایک سے ایک ترکیب کے گھنٹوں برباد کرنے والے کھانے… تعلیم بھی سب سے مہنگے اسکول میں دلانی ہے، بس بچہ کسی طرح انگریز بن جائے اور ایمان کی رمق بھی باقی نہ رہے۔ الحمدللہ اتنا عمدہ تعلیمی نظام تھا برصغیر کا کہ تمام ہندوستان میں مدرسے قائم تھے، جہاں فیس تو درکنار، بچوں کی رہائش اور خوراک کا ذمہ بھی مدرسہ لے لیتا، اور اتنے خودکفیل لوگ تھے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں داخل ہونے سے پہلے اپنا جاسوس بھیجا تو وہ لکھتا ہے کہ ’’پورے ہندوستان میں ایک فقیر بھی نہیں پایا جاتا، اور کوئی کسی کی چوری نہیں کرتا‘‘۔ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہندوستان کا دنیا کی GDP میں حصہ 55 فیصد تھا، اور جب انگریز ہندوستان چھوڑ کر گئے تو ہندوستان کا دنیا کی GDP میں حصہ 4 فیصد رہ گیا تھا۔ یہ ہے اس ترقی کی حقیقت جس نے انسان کو جانور بنا چھوڑا۔ آج انسان کی حالت ICU میں موجود مریض کی سی ہے۔ ہم بھی مشینوں کے بغیر کچھ نہیں کر پاتے، جیسے وہ مریض مشینوں کے بغیر سانس نہیں لے سکتا، ہم بھی محتاج ہیں مشینوں کے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام اپنی آزادی سے کرسکتے تھے۔ آج شام، لیبیا، فلسطین اور برما کے مسلمانوں کو پتھر کے دور میں پہنچایا جا چکا ہے۔ اب بھی آپ انگریزوں پر اور اُن کے ایجاد کردہ نظامِ زندگی پر بھروسہ کرتے ہیں، انتظام کررہے ہیں کہ وہ آپ کو پتھر کے دور میں دھکیلیں۔ آپ خود اپنی مرضی سے سنتِ نبویؐ اور دین ِفطرت نہیں اپنائیں گے۔
یہ تمام جدید علوم اللہ کی طرف سے تحفہ تھے اور انہیں اللہ کو پہچاننے کے لیے استعمال کیا جانا تھا، مگر ہم اس آزمائش میں پورے نہیں اترے۔ ہم قومِ فرعون اور قومِ عاد سے کم نہیں۔ شیطان جیت گیا، اس نے ثابت کردیا کہ یہ انسان تو ایک زمین کو نہ سنبھال سکا، یہ بھلا تیری نیابت کیا خاک کرے گا۔ آدم علیہ السلام ایک نافرمانی پر جنت سے نکال دیے گئے اور ہم نے اتنی نافرمانیاں کیں کہ اپنی جنت جیسی زمین کو جہنم بنا ڈالا۔
آج جس فوگ سے ہم پریشان ہیں کہیں وہ سورۃ دخان کا وہ دھواں تو نہیں جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے تنہا بادشاہ ہونے کے باوجود صرف دو جوڑے رکھتے تھے۔ ایک دھوتے اور ایک پہنتے۔ ہماری الماریوں سے کپڑے گررہے ہوتے ہیں مگر50 جوڑوں کے مالک ہوکر ہم کہتے ہیں تقریب میں پہننے کے لیے کوئی جوڑا نہیں ہے۔ اس بری طرح سے سنت کو ٹھکرانے کے بعد بھی اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہم پر برسے، تو شاید ہم غلط ہوں۔
اب بھی میں سوچتی ہوں کہ دینِ فطرت پر ہم پلٹ بھی آئیں تو کیا اوزون کا شگاف پُر ہوجائے گا؟ کیا وہ زمینیں جو ہم نے کیمیکل کھاد ڈال ڈال کر بنجر کردیں، کیا پھر سونا اُگل سکیں گی؟ کیا ہمارے کالے اور بدبودار دریا اور سمندر پھر سے زندگی کی آس بن سکیں گے؟ ہم زمین کے اندر کے سارے خزانے جلا چکے ہیں، آگے ہم کون سا بندھن جلا کر اپنی خوراک کا انتظام کریں گے؟ اب تو اتنی لکڑی بھی جنگلوں میں نہیں بچی کہ بوڑھوں اور بیماروں کے لیے تخت اور کرسیاں بنائی جاسکیں۔ جنگ اور صرف جنگ مسلمانوں کو اس قدر پامال کرچکی ہے کہ اب کوئی موقع ہی نہیں بچا نبیؐ کی سنتیں اپنانے کا۔ پوری زمین کھنڈر بنتی جارہی ہے، اللہ نہ کرے اب تو بیت اللہ کی سرزمین بھی خطرے میں لگتی ہے۔ کیا واقعی انسان کے پاس واپسی کا راستہ ہے؟ کیا اللہ ہمیں ایک اور موقع دے گا؟ یا ہم قیامت کو کھینچ کر اپنے قریب لے آئے ہیں؟ یہی 21 ویں صدی تھی جس کی شیطانیت کی وعیدیں پیارے نبیؐ سے لے کر ناسٹر ڈیمس (Nostardemus) تک سب نے سنائیں۔ یا اللہ ہمیں معاف کردے اور ہمیں سیدھی راہ دکھا، آمین۔

حصہ