شاپنگ

441

صبا عقیل
(دوم انعام یافتہ)
آمنہ خوب ساری شاپنگ کرکے لدی پھندی چلی آرہی تھی، تھکن سے برا حال ہوچکا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر زینت سے رہا نہ گیا۔ زینت آمنہ کی بڑی بہن بھی تھی اور جیٹھانی بھی۔ آتے ہی سوال کر ڈالا ’’آج ہی سارا بازار خرید کر لے آئیں کیا؟‘‘
آمنہ بولی ’’آپی بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں لینی تھیں، سب ہی ختم ہوگئی تھیں جن کو لیے بغیر میرا گزارا نہیں تھا، اس لیے اتنا ٹائم بھی لگا، اور آپ کو تو پتا ہے شاپنگ مالز میں ایک چیز ایک کنارے پر ہوتی ہے تو دوسری دوسرے کنارے پر۔ بندہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک ہی جاتا ہے، اسی لیے شاپنگ نے ادھ موا کردیا۔ ٹھیریں میں آپ کو سب دکھاتی ہوں۔ آپ تو سارے جھمیلوںسے فارغ ہوئی بیٹھی ہیں۔ کتنیی ہی ناگزیر چیزیں ہوتی ہیں جن کی آپ کو خبر بھی نہیں۔‘‘ آمنہ نے بگڑتے ہوئے کہا۔
زینت اس کے بگڑنے کی وجہ تو سمجھ رہی تھی لیکین اس وقت سنی اَن سنی کردینے ہی میں عافیت تھی۔ دراصل دو دن پہلے ہی آمنہ، زینت سے جھگڑا کر بیٹھی تھی۔ باہر کی کمپنیوں سے بگڑ کر زینت نے امپورٹڈ شیمپو اور کاسمیٹکس کا استعمال چھوڑ دیا تھا۔ آمنہ سے اسی بات پر خاصا بحث و مباحثہ ہوا تھا کہ ہم مظلوم مسلمانوں کی مدد پر تو قادر نہیں ہیں مگر اُن پر قہر برپا کرنے والوں کی اشیاء خرید کر انہیں فائدہ پہنچانے والے کیوں بنیں؟ دنیا بھر کے مسلمان اگر مغربی اشیاء کا مکمل بائیکاٹ کردیں تو وہ گھٹنے ٹیکنے پر آجائیں۔ جب آمنہ کو یہ پتا چلا کہ زینت نے غیر ملکی شیمپو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے اور ایک پاکستانی اچھا معیاری شیمپو اپنا لیا ہے تو وہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوگئی۔
’’آپی، پاکستانی شیمپو…! آپ کے بال تو گئے…‘‘
وہ نِک سِک سے پاک رہنے والی آپی کے اس پینڈوپن پر جھنجلا اٹھی تھی۔ خیر یہ باتیں پہلے ہوچکی تھیں، اس لیے ابھی صرف آمنہ کی شاپنگ دیکھنے میں مزا آرہا تھا۔
اس نے ایک ایک لفافہ کھول کر خریداری اور اس کی اہمیت و ضرورت پر بھرپور روشنی ڈالنی شروع کی۔ ایسے میں وہ اپنی ساری تھکن بھی بھول گئی تھی۔ زینت نے تو کچھ چیزیں اپنائی تھیں جنہیں چھوڑنے میں اسے زیادہ دقت محسوس نہ ہوئی، مگر یہاں تو سرتاپا دھلنے دھلانے کے بے شمار سامان پھیلے ہوئے تھے۔ صرف دانت صاف کرنے تک کا معاملہ تو نہ تھا جو کہ ایک سادہ مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے حل ہوجاتا، اس کے لیے جراثیم کُش اور معطر کرنے کو مائوتھ واش بھی تھا۔ اس کے علاوہ پیپرمنٹ وغیرہ جیسی اشیاء پرس میں رکھنے کے لیے علیحدہ سے لی گئی تھیں۔ صفائی ستھرائی کے لیے سامان میں صابن تو ایک معمولی سی حیثیت رکھتا ہے، یہاں تو دیگر لوازمات کی بے شمار ٹیوبز بھی تھیں، طرح طرح کی بدیسی، خوب صورت لیبلز سے آراستہ۔
غسل خانے کے شیلفوں پر دھرا یہ بے شمار سازوسامان اب ضروریاتِ زندگی کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ منہ، سر، ہاتھ، پیر، جسم… سبھی الگ الگ قسم کے واش مانگتے ہیں۔ آدھا گھنٹہ تو ان ٹیوبز کو کھولنے، بند کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ غسل کی سنتیں، فرائض، مستحبات تو اب ان ٹیوبز میں گھِر کر رہ گئے۔ ابھی تو صرف ظاہری حسن کا سامان کھولا تھا کہ اتنا وقت گزر گیا۔ کچھ نمازوں کا وقت چلا گیا۔ شاپنگ میں اور تھکن کی وجہ سے باقی نمازیں ادا کرنے کی ہمت ہی نہیں۔ ابھی سارا سامان بھی ترتیب سے رکھنا ہے۔ دکھایا تو صرف ظاہری حسن کا سامان تھا، بقیہ راشن میں شامل سامان تو ایک طرف پڑا تھا۔ زینت اپنی بہن کی ان فضول خرچیوں پر حیران بھی تھی اور وقت کے زیاں کی کوئی پروا نہ ہونے پر پریشان بھی، کہ آمنہ تو صرف دنیاوی زندگی میں اتنی مگن ہے کہ اسے یہ خیال ہی نہیں کہ میں اس فانی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے چکر میں اپنی ابدی زندگی کے لیے کچھ جمع ہی نہیں کررہی ہوں۔ یہ دنیا تو جیسے تیسے گزر ہی جائے گی لیکن کل کیا ہوگا؟ جہاں کچھ چہرے روشن ہوں گے، حسین، گورے چٹے… اور کچھ کالے سیاہ… اور یہ چہرے دائمی ہوں گے۔ حسن و جمال بھی ابدی، اور سیاہی مائل بھی ابدی۔ آج کیل مہاسے، جھائیوں کی اتنی فکر، اور کل کی…! کیا اس بے فکری کی حالت میں جنت کے حق دار بنیں گے؟ دنیا کے داخلوں کا تو میرٹ معلوم ہے، اور جنت میں داخلے کا میرٹ…؟ جب کہ جنت گناہ کا دھبہ گوارا نہیں کرتی، اسی لیے ہمیں روح کے لیے بھی کچھ شاپنگ اور پلاننگ کی ضرورت ہے۔
پرفیوم،‘ عطریات، میک اَپ، فیس واش وغیرہ سے فارغ ہوکر باری آگئی گھر کے راشن کی… تو بھیا سیدھا سادا کھانا کھانے کے بجائے چائنیز، رشین، سنگاپورین… پتا نہیں کون کون سے کھانے بنانے کے لیے نت نئے مسالہ جات کا استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ان کی خریداری۔
بچوں کو چکن کے نام پر بنے ہوئے نگٹس، چکن فلیورڈ نوڈلز، چکن کیوبز جس سے بنے مزیدار دال… اللہ جانے کس طرح سے یہ سب بنایا جاتا ہے، بچے جن کے عادی ہوتے چلے جارہے ہیں۔ زبان کے چٹخارے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ سادا کھانا دیکھ کر تو سب کی بھوک ہی اُڑ جاتی ہے۔ ساس بھی آمنہ کی شاپنگ دیکھ رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ میرے بیٹے کے پیسے تو یہ انہی اللے تللوں میں اڑا دے گی، اس کو میانہ روی سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔
پھرکپڑوں کی شاپنگ شروع ہوئی تو کپڑوں کا ڈھیر لگا دیا۔ الماریوں میں کپڑے رکھنے کی جگہ نہیں ہے اور اتنے ہی کپڑے مزید خرید لائیں۔ ’’امی آپ کو تو پتا ہے آج کل پرنٹڈ سوٹ پہننا کتنا آسان ہوگیا ہے، جب بھی جائو کسی نہ کسی برانڈ کے کپڑوں پر کچھ نہ کچھ آف لگا ہی ہوتا ہے‘‘۔ آمنہ نے جتنے شوق سے شاپنگ کی ہوگی اتنے ہی شوق سے امی کو دکھائے جارہی تھی۔ ’’امی یہ دیکھیں، یہ تو مجھے اتنا سستا مل گیا، آپ حیران ہی ہوجائیں گی‘‘۔ اُسے کیا پتا ساس تو اتنے پیسے خرچ کرنے پر پہلے ہی خاصی حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی تھیں کہ بازار تو اصل میں ہے ہی شیطان کا گھر، اور شیطان کی تو ہمہ وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے شکنجے میں ایسا کس کے رکھے کہ اسے اپنے مقصدِ حیات کا ہوش ہی نہ رہے۔ لیکن آمنہ کو یہ سب سمجھانا خاصا مشکل کام تھا۔ شاپنگ کرنا اس کی ضروریات سے بڑھ کر اس کے شوق کا حصہ تھا۔
اس غیر ضروری شاپنگ کے شوق پر تو اس کی امی بھی اسے ہمیشہ سمجھایا کرتی تھیں، مگر آمنہ نے اپنی امی کی کسی نصیحت پر کبھی کان نہ دھرے تھے۔ اِس دفعہ جب آمنہ نے اپنی امی کو نئی شاپنگ کے بارے میں بتایا تو وہ اس پر برس پڑیں، اسے عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دیا، پھر امی نے اسے نرمی اور پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا:
’’بیٹا شکر ادا کرو تمہارا شوہر ایسا نہیں ہے، مگر تم اُس کے مال و متاع کی امین ہو، تمہیں اس طرح کی خریداریوں میں اُس کی محنت کی کمائی کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ یہی پیسہ تم جمع کرسکتی ہو، تمہارے بچے ہیں، ان کی پڑھائی یا پھر کوئی دوسری ضرورت پڑنے پر اپنے شوہر کو بچائی ہوئی رقم جب تم دو گی تو وہ تمہارے اس سگھڑاپے سے خوش ہوگا، اس کے دل میں تمہاری محبت اور قدر بڑھے گی، یا اسی پیسے سے جب تمہاری جائز ضروریات پوری ہوجائیں تو تم کسی غریب کی مدد کردو، اگر اللہ نے تمہیں تمہاری ضرورت سے زیادہ نوازا ہے تو اس میں بھی تمہاری آزمائش ہے میری بچی۔‘‘
آمنہ نصیحتوں سے عاجز آکر بولی ’’ارے امی آپ کو کچھ نہیں پتا، زمانے کے ساتھ چلنے کے لیے یہ سب کرنا، ہر لحاظ سے اَپ ڈیٹ رہنا کتنا ضروری ہے۔ آپ سمجھتی ہی نہیں۔ جب میرے شوہر کو کوئی اعتراض نہیں تو آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں! وجیہ تو مجھے کبھی کچھ نہیں کہتے کہ اتنے پیسے خرچ کردیے، فضول میں خرچ کر دیے، کیوں خرچ کردیے؟ آپ کیوں فکر کرتی ہیں اتنی۔‘‘ اس نے حسبِ معمول امی کی نصیحتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا۔
آج صبح ہی سے پتا نہیں کیوں آمنہ کا دل بہت گھبرا رہا تھا، وہ روزانہ بچوں کو اسکول اور شوہر کو آفس بھیج کر ٹی وی لگا لیتی تھی اور مختلف چینلز کے مارننگ شوز دیکھتے ہوئے ناشتا کرتی تھی، مگر آج نہ تو ناشتے کا مزا آرہا تھا اور نہ ہی ٹی وی دیکھنے میں دل لگ رہا تھا۔ وہ بے دلی سے چینل بدل رہی تھی کہ اچانک اس کا ریموٹ ایک نیوز چینل پر ٹھیر گیا، کسی حادثے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ اسکول وین سے آئل ٹینکر ٹکرا گیا تھا، ہر طرف شعلے ہی شعلے نظر آرہے تھے۔ کچھ مزید خبروں سے اندازہ ہوا کہ یہ تو وہی وین ہے جس میں اس کے دونوں بچے اسکول جاتے ہیں۔ اس نے حواس باختہ ہوکر چیخنا چلاّنا شروع کردیا۔ اس کی ساس اور آپا گھبرا کر آئیں۔ پریشانی اور ٹینشن سے آمنہ کا برا حال تھا، اس کی آپا نے اس کے شوہر کو تمام تفصیل سے آگاہ کیا۔ تمام خاندان والے اسپتال پہنچے ہوئے تھے۔ حادثہ بہت اندوہناک تھا۔ خاصی اموات ہوئی تھیں، مگر کچھ بچے انتہائی زخمی حالت میں تھے۔ ان کے جسم بری طرح جھلسے ہوئے تھے، مگر جان بچ گئی تھی۔ تفصیلی معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے آمنہ اور اس کے شوہر کو بتایا کہ بچوں کی پلاسٹک سرجری ہوگی جس کے لیے ایک بڑی رقم درکار ہے۔ آمنہ نے جب اپنی بچت کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ اس کے پاس تو چند ہزار روپوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آخر اس کے شوہر نے خاندان والوں اور دوستوں سے قرض لے کر بچوںکا علاج کروایا۔ طویل اور صبر آزما علاج کے بعد بچوں کی حالت بہتر ہوگئی، مگر اس حادثے نے آمنہ کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ جو بات وہ ماں کی نصیحتوں، ساس اور بہن کے سمجھانے سے سمجھ نہ سکی تھی وہ قدرت نے اس حادثے کے ذریعے سمجھا دی۔ اب اسے بہت اچھی طرح سے احساس ہو گیا تھا کہ برا وقت پوچھ کر نہیں آتا اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے، اس لیے اپنی آمدنی میں سے فضول خرچ کرنے کے بجائے کچھ نہ کچھ پس انداز بھی ضرور کرنا چاہیے تاکہ اپنی یا اپنوں کی جائز ضروریات میں اس بچت سے کام لیا جاسکے۔

عزت کا راستہ

انتخاب: ترجمان القرآن از پروفیسر خورشید احمد
قرآن پر ایمان اسی وقت مفید اور معنی خیز ہوسکتا ہے جب ہم قرآن کے پیغام کو سمجھیں اور اس کی دعوت پر لبیک کہیں، قرآن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے اور اس کی ہدایت کے ذریعے اپنے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔ آج عالم اسلام جن مسائل اور مصائب سے دوچار ہے ان سے نکلنے، ترقی اور عزت کی راہ پر پیش قدمی کرنے کا راستہ صرف یہی ہے، اور صادقِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلقین کی تھی۔
رسولؐ اللہ: خبردار عنقریب ایک بڑا فتنہ سر اٹھائے گا۔
حضرت علیؓ: اس سے نجات کیا چیز دلائے گی یا رسولؐ اللہ!
رسولؐ اللہ: اللہ کی کتاب۔
٭ اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں۔
٭ تم سے بعد میں ہونے والی باتوں کی خبر ہے۔
٭ اور تمہارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے۔
٭ اور یہ ایک دوٹوک بات ہے، کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں۔
٭ جو سرکش اسے چھوڑے گا، اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا۔
٭ اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو ہدایت کا ذریعہ بنائے گا اللہ اُسے گمراہ کردے گا۔
٭ خدا کی مضبوط رسّی یہی ہے۔
٭ یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاددہانی ہے۔
٭ یہی بالکل سیدھی راہ ہے۔
٭ اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں۔
٭ اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔
٭ اہلِ علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا۔
٭ اسے کتنا ہی پڑھو، طبیعت سیر نہیں ہوتی۔
٭ اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
٭ جس نے اس کی سند پر کہا، سچ کہا۔
٭ جس نے اس پر عمل کیا، اجر پائے گا۔
٭ جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا، اس نے انصاف کیا۔
٭ جس نے اس کی دعوت دی، اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔ (مشکوٰۃ)

جلد کی حفاظت کے لئے موزوں نسخے

موسم کی تبدیلی اور گردوغبار کی وجہ سے جلد بے حد متاثر ہوتی ہے اور اگر اسے نظرانداز کیا جائے تو یہ جلد کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوسکتا ہے۔ جلد کی حفاظت کے لیے ایسے بہت سے نسخے ہیں جنہیں گھر پر بآسانی تیار کیا جاسکتا ہے جو کہ محفوظ ہوتے ہیں اور جن کا آپ کے بجٹ پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ صندل وڈ پائوڈر اور ملتانی مٹی کو پانی یا عرقِ گلاب میں بھگو کر پیسٹ تیار کرلیں اور اسے اپنے چہرے پر لگا کر خشک ہونے دیں۔ ماسک خشک ہوجائے تو صاف پانی سے دھو لیں۔ یہ آپ کے چہرے سے زائد روغن جذب کرلے گا اور جلد کے اوپر جمے گردوغبار کو صاف کرکے جلد کو نرم و ہموار بنادے گا۔ شہد اور جئی کے دلیے کے مکسچر سے تیار شدہ فیس ماسک بھی مؤثر رہتا ہے، اسے اپنے چہرے پر لگا کر ایک گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں، پھر سادے پانی سے دھوکر صاف کرلیں۔

حصہ