دکھ سکھ

305

مریم شہزاد
(سوم انعام یافتہ)
چوتھی بیٹی کی پیدائش کے بعد تو جیسے ناعمہ بالکل ڈھے سی گئی تھی۔ اتنی خوب صورت چاروں بیٹیوں کے ہوتے ہوئے بھی بیٹا نہ ہونے کا دکھ اُسے اندر سے کھوکھلا کررہا تھا، جب کہ آفاق کو، یا اُس کی ساس کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ بیٹا ہو یا بیٹی، مگر وہ سمجھتی تھی کہ سب اس کا دل رکھنے کے لیے اس طرح سے کہہ رہے ہیں۔ اس نے اپنے آپ پر توجہ دینا بھی چھوڑ دی تھی۔ اس کی ساس اور امی دونوں ہی اسے سمجھاتیں کہ جب تمہارے میاں کو کوئی پریشانی نہیں تو تم کیوں ہلکان ہورہی ہو؟ مگر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
ایک دن اس کی امی نے ٰغصے سے کہا ’’بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے تو نہیں البتہ تمہاری یہ روتی صورت دیکھ کر ضرور آفاق تم سے دور ہوجائے گا‘‘۔ تب وہ کچھ سنبھلی، مگر دل ابھی بھی بیٹے کے لیے تڑپتا ہی رہتا تھا۔
ساس نے بھی کہا ’’بیٹیاں جیسے ماں کو دیکھتی ہیں خود بھی ویسی ہی ہوجاتی ہیں، تم اُن کے سامنے اس ملگجے حلیے میں رہوگی تو اُن کو کون سمجھائے گا! اور پھر تم یہ بھی تو دیکھو کہ تم کو تو پلے پلائے بیٹے مل جائیں گے دامادوں کی شکل میں‘‘۔ اس پر وہ پھیکی سی ہنسی ہنس دی۔
آج بھی وہ کھانا پکاکر بچیوں کے اسکول سے آنے کا انتظار کررہی تھی، چھوٹی بیٹی ماہرہ اندر سورہی تھی کہ فائزہ باجی آگئیں درس کی دعوت دینے۔ وہ اکثر آجاتی تھیں، مگر وہ کبھی نہیں گئی تھی، ہمیشہ ٹال جاتی تھی۔ آج بھی آئیں تو شاید اُس کا کسی سے باتیں کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔ اس نے باجی سے چائے کا پوچھ لیا۔ جتنی دیر میں چائے کا پانی پکتا وہ اُن کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’کیا بات ہے، چہرہ کیوں اترا ہوا ہے؟‘‘ باجی نے پوچھا۔
ناعمہ بہ مشکل چہرے پر مسکراہٹ لائی اور بولی ’’نہیں تو…‘‘
مگر اُن کو بھی دل ہلکا کروانا آتا تھا، دو چار باتوں کے بعد ہی وہ بول پڑی ’’بیٹی ہوئی ہے میرے ہاں…‘‘
’’ماشاء اللہ، مبارک ہو‘‘۔ انہوں نے دل سے دعا دی۔ ’’اللہ نصیب اچھے کرے۔‘‘
’’آپ بھی مبارک باد دے رہی ہیں؟ چوتھی بیٹی ہے‘‘۔ ناعمہ نے کہا۔
’’کیوں، اللہ نہ کرے کیا وہ نارمل نہیں ہے؟‘‘ باجی نے پوچھا۔
’’اللہ نہ کرے…‘‘ وہ ہول گئی ’’بالکل نارمل ہے۔‘‘
’’اچھی شکل صورت نہیں ہوگی، یا کچھ اور…؟‘‘ انہوں نے کریدا۔
ناعمہ کو بہت برا لگا، فوراً ہی بولی ’’کوئی نہیں، بہت پیاری ہے۔‘‘
’’پھر مبارک باد پر منہ کیوں بنا رہی ہو؟‘‘
’’چوتھی ہے… اس سے پہلے بھی تینوں بیٹیاں ہی ہیں‘‘۔ ناعمہ نے وضاحت کی۔
’’تو تم کو چار بیٹیوں کا دکھ ہے…‘‘
ناعمہ نے اثبات میں گردن ہلا دی۔
’’اچھا تم چائے تو لائو پھر بات کرتے ہیں…‘‘
ناعمہ چائے لے کر آئی، تو انہوں نے پھر بات شروع کردی: ’’اچھا تو تمہارے میاں نے باتیں سنائی ہوں گی کہ اب اگر بیٹا نہ ہوا تو تم کو چھوڑ دے گا!‘‘
’’کیا ہوگیا ہے آپ کو؟‘‘ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان کو چلتا کردے۔ بولی ’’بہت محبت کرتے ہیں وہ مجھ سے بھی اور بیٹیوں سے بھی۔‘‘
’’اچھا… اچھا تو پھر ساس نے خوب لتّے لیے ہوں گے کہ میرے بیٹے کا وارث نہیں آیا، اب تو بیٹے کی دوسری شادی کرا دوں گی۔‘‘ باجی نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’پڑھی لکھی ہیں میری ساس، کوئی جاہل عورت نہیں ہیں‘‘۔ ناعمہ نے چڑ کر کہا۔
’’ارے بی بی! کچھ سمجھ نہیں آئی، بیٹیاں تمہاری خوب صورت، تن درست، میاں تمہارے محبت کرنے والے، ساس بھی عمدہ خاتون، پھر تم نے اپنے آپ کو کیوں ماتم زدہ بنایا ہوا ہے! ماں بھی نہیں سمجھاتیں کیا تمہاری؟‘‘
’’سمجھاتی ہیں… مگر چار بیٹیاں ہونا کیا دکھ نہیں ہے؟‘‘ اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’اچھا، کیا دکھ کی بات ہے؟‘‘ انہوں نے زچ کیا۔
ناعمہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کرے، وہ ہوتی کون ہیں اتنی جرح کرنے والی! لیکن اس نے خود ہی تو اُن کو اپنا دکھ بتایا تھا، اور یہ اس کی تربیت نہیں تھی کہ مہمانوں سے بدتمیزی کرے۔
’’تم کو بتائوں دکھ کیا ہوتا ہے؟‘‘ وہ گویا ہوئیں ’’کسی کے اولاد نہ ہو یہ دکھ ہے، کسی کی اولاد نارمل نہ ہو یہ دکھ ہے، اولاد بچھڑ جائے یا پیدا ہوکر فوت ہوجائے یہ دکھ ہے، ہم تم تو بہت سُکھ میں ہیں۔ برما، کشمیر، فلسطین ان جگہوں پر دیکھو، کیسے ماں باپ کے سامنے اُن کے بچوں کو مار دیا جاتا ہے، یا وہ بھوک اور خوف سے مر جاتے ہیں… یہ دکھ ہوتا ہے، آیا سمجھ میں…؟‘‘
ناعمہ کی آنکھوں میں اُن کی باتیں سن کر آنسو آگئے، اس نے ہاں میں گردن ہلا دی۔
’’بی بی! بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں، ان کی اچھی تربیت کرو گی اچھی قوم بنے گی۔ انہیں دین و دنیا کا علم دو۔ تم نے نہیں سنا بیٹی تو ’’ٹین سن‘‘ یعنی دس بیٹوں کے برابر ہے‘‘۔ اور ناعمہ روتے روتے ہنس پڑی۔
’’شاباش، اب کل درس میں ضرور آنا اور بچیوں کو بھی لانا، بیٹیاں دکھ سُکھ کی ساتھی ہیں‘‘۔ انہوں نے چلتے چلتے کہا۔
دوسرے دن ناعمہ درس میں گئی تو درس کے بعد خاتونِ خانہ سے پتا چلا کہ باجی کی چھ بیٹیاں ہیں اور ان کے شوہر نے چھٹی بیٹی کی پیدائش پر ان کو چھوڑ دیا تھا، پھر انہوں نے دین کے رستے پر چلتے ہوئے اتنی اچھی پرورش کی کہ اب بیٹوں سے بڑھ کر تین داماد ہیں۔ ایک بیٹی ڈاکٹر بن رہی ہے، دو ابھی پڑھ رہی ہیں۔
ناعمہ نے دل ہی دل میں اُن کی عظمت کو سلام کیا اور ایک نئی، پُرعزم ناعمہ جی اٹھی جس کو اپنی بچیوں کی باپ کی شفقت اور محبت کی چھائوں میں بہترین پرورش کرنی تھی تاکہ وہ بھی عظیم مائیں بن سکیں جو ہمیشہ اچھا سوچتی ہیں۔
واقعی اس کے ہر طرف سُکھ ہی تو ہے… دکھ تو اور ہی ہوتے ہیں۔

حصہ