انجام گلستان کیا ہوگا؟۔

204

فرحت طاہر
یہ خیال ہمیں اس وقت پریشان کر گیا جب جوہر نشر و اشاعت کے گروپ میں جوق در جوق اضافہ ہونے لگا۔۔ اس پریشانی کو ہم نے عائشہ جلال سے شیئر کیاجو نگران کی حیثیت سے شاید پھولے نہ سمارہی ہوں!
ٹھہریں بات اس سے پہلے شروع ہوتی ہے۔ پچھلے ماہ تربیت گاہ میں اپنے شعبہ جات کاتعارف بھی رکھا۔۔
*شعبہ اطفال *شعبہ نوجوان* شعبہ ابلاغ
ہم کارکنان ان تمام جہتوں میں کام کرتے ہیں۔۔ رپورٹ فارم اٹھا کر دیکھ لیں۔۔۔ یہ کالمز موجود ہیں نا؟ تو بس اس پروگرام کے دوران ہر عمر کی خواتین کی دلچسپی نے فوری طور پر واٹس آپ گروپ بنانے کی فرمائش کر ڈالی جو پہلے سے موجود تھا چنانچہ پروگرام کے اختتام تک سب اس میں شامل ہوچکی تھیں اور جو نہ ہوئیں انہوں نے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے نمبر شامل کروادیے اور لسٹ دیکھ کر ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ کیونکہ اس میں تمام تر کارکنان کے نام نہیں تھے! جی ہاں! یہ تھی وہ تشویش ناک صورتحال کہ اگر سب اس کام میں لگ گئے تو بقیہ کام کون کرے گا؟ جیسا کہ کسی نے کہا:
“شکر ہے قیام پاکستان کے وقت سوشل میڈیا نہ تھا ورنہ یہ کہا جاتا کہ اس پوسٹ کو اتنا شئیرکرو کہ انگریز بھاگ جائے”
سچی بات ہے ہمیں تو خوف آیا کہ اب کسی ذمہ دار کا فون آئے گا کہ آپ کس کام میں لگ گئیں؟ اپنی اصل ذمہ داری پر توجہ دیں مگر شاید وہ اس بات پر کنونس تھیں کہ یہ کام ہمارے معاشرتی اصلاح کے پروگرام کے عین مطابق ہے کہ فرد کے بگاڑ کا ٹھیکہ میڈیا نے ہی اٹھا رکھا ہے۔ تو پہلے اس کی اصلاح ضروری ہے! وجہ کچھ بھی ہوبہرحال گروپ پروان چڑھتا رہا مگر ہنوز توجہ طلب بات کہ کام کیا کرنا ہے؟ اس پریشانی میں ہم نے عائشہ کو نشست رکھنے کا مشورہ دیا جو پہلے سے طے تھی۔ یکم فروری کی صبح بہن نسرین خلیل کے گھر!
یکم فروری کی صبح موسم بدلنے کی نوید لے کر طلوع ہوئی۔۔ بہتی ناک، گلے کی سوزش اور تپتے جسم نے آرام کا مشورہ دیا۔ آج کی نشست سے معذرت کر لی جائے مگر تھوڑی دیر میں عائشہ کا فون آگیا۔ ایجنڈا ڈسکس کرتے ہوئے ہماری موجودگی کو ناگزیر سمجھا گیا۔۔ چنانچہ ہم نے بھی آرام کے تقاضے کو رد کرتے ہوئے فائلیں درست کیں، لیپ ٹاپ سنبھالا اور تیار ہونے لگے۔
اس اثنا میں ڈرائیور حضرات کے فون آنے لگے۔۔ اس نشست کے شرکا ء اتنے مختلف النوع تھے کہ وہ بے چارے چکرا رہے تھے۔ نیپ اسے صفورا تک پھیلے علاقے سے خواتین کو جمع کرنا واقعی آسان نہ تھا۔۔ اور زیادہ پریشانی اس غلط فہمی کے باعث ہوئی کہ فرحانہ فرحت باجی کے گھر کے قریب رہتی ہیں اور بضد کہ انہیں لے کر جانا ہے! یہ وہ فرحانہ نہیں ہیں۔ ڈرائیور کا اصرار اور ہماری تکرار! قریب تھا کہ وہ بال نوچنے لگتا ہم نے گروپ چیٹ میں سے فرحانہ کا پتہ نکال کر دکھایا تو بات سمجھ میں آئی۔ اف! کسی غلط معلومات کو مٹا کر درست کرنا کتنا مشکل کام ہے!
نشست گاہ پہنچے تو ٹھیک 11 بج رہے تھے۔ میزبان اور پہلے سے موجود خواتین سے سلام دعا میں کچھ وقت لگا۔ سانسیں درست کیں اور تھوڑی ہی دیر میں مزید شرکاء کی آمد شروع ہوگئی۔۔ عائشہ کی ہدایت پرنشست کا آغاز سلمہ بانو کی تلاوت سے ہوا۔ سورۃ النصر ہے تو مختصر سی سورت مگر اس میں چھپا مفہوم شرکاء کی جوق در جوق آمد سے بڑا بر وقت محسوس ہوا اور دل خود بخوداللہ کی بزرگی اور شکر ادا کرنے پر مائل تھا۔ ذہن جو ابھی تک سفری مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ تمام شرکاء کے بخیر و عافیت پہنچنے پر یکسو ہوا تو ناظمہ زون کے لیے دعا نکلی جن کے تعاون اور دلچسپی سے یہ نشست ممکن ہوئے۔ تعارف کا مر حلہ مکمل ہوا تو تحاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔
ہماری نشست کا بنیادی تھیم تھا ’’رابطو‘‘ یعنی آپس میں ربط قائم کرنا اور تمام کاموں کو ہم آہنگ کرکے موثر بنانا
(جیسا کہ بہت سی شعاعیں ایک جگہ مرکوز کر دی جائیں تو لیزر کی شکل میں بڑے سے بڑے کام کر دیتی ہیں)
اپنے کاموں کو مضبوط، مربوط اور منظم کرنا
ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ ہم سب کم از کم ایک دفعہ مل بیٹھیں تو یوں یہ محفل سجائی گئی تھی۔
یہاں کچھ بہنوں سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئے جن میں نجمہ نسیم، فرحانہ اور رابعہ شامل ہیں۔ کچھ اس محفل میں پہلی دفعہ شریک ہوئے حالانکہ تعلقات اور شناسائی عرصے سے ہے ان میں کنول، ثوبیہ، ماہن، شفق اور شاہدہ ہیں۔۔ اور صباحت جن کا فون دوران محفل آنے لگا مگر ہم اٹینڈ نہ کرسکتے تھے کہ بعد میں بات کر لیں گے مگر محفل کے عروج پر وہ بھی آپہنچیں۔۔۔ اور خوشگوار حیرت اس وقت اور بڑھ گئی جب انہوں نے اپنا ایک خوبصورت افسانہ اشاعت کے لیے ہمارے حوالے کیا۔۔ یا اللہ کیسے کیسے ہیرے موتی ہمارے اندر چھپے ہیں! سچ ہے جو کام کر رہے ہیں وہ ہر جگہ ہی کر رہے ہیں (ابھی کل شام ہی تو ہماری ملاقات دعوت دین کورس کی اختتامی تقریب میں ہوئی تھی اور نئی کلاس شروع کرنے پر رات کو بات ہوئے تھی) باقی عافیہ، عائشہ، سلمہ، طاہرہ اور نسرین سمیت ہم تو عرصے سے اس عنوان سے یکجا ہوتے رہے ہیں۔۔ کچھ کی غیر حاضری محسوس ہوئے جن میں طیبہ شاکر اور طیبہ اکرام، رقیہ احسان، شہلا عبد الجبار شامل ہیں!۔۔ اور اس محفل کی روح رواں صائمہ عاصم نائب نگران ضلع ہیں جو کاموں کو مربوط کرنے کے لیے مضطرب اور کوشاں رہتی ہیں۔ ان کے آتے ہی محفل جاندار ہوگئی۔
تحاریر لکھنے سے اشاعت تک کے مراحل زیر بحث آئے۔ کچھ نکات پوچھے اور بتائے گئے۔ کیا لکھا جائے؟ اس موضوع پر بھی گفتگو رہی۔ تحاریر کے بعد سوشل میڈیا کا نکتہ زیر بحث آیا گویا کہ طوفان کا بند کھل گیا اور دراصل اس کی یلغار نے ہی تمام خواتین خصوصاً ماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہوا تھا۔۔ میڈیا نے ہماری اقدار پر بھاری ضرب لگائے ہے اس کو لگام دینے کے لیے خواتین کی جذبات بہت بپھر رہے تھے۔ سب نے اپنے اپنے حصے کی بھڑاس نکالی جن میں نمایاں ثوبیہ کی آواز تھی ۔کنول نے ایک ملین ڈالر کا سوال رکھا کہ کیا کوئی بھی پروگرام اس قابل ہے کہ اس کو دیکھا جائے؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہے کہ خبریں تک آلودگی سے پاک نہیں! تو کیا کیا جائے؟ لیکن بہرحال ہمیں اس طوفان کے آگے اپنا چڑیا برابر کردار ادا کرنا ہی ہے! اس مانیٹرنگ کے حوالے سے گروپ بنا کر طریقہ کار طے کیے گئے۔۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کام کو سہل اور بر وقت بنانے کی بات کی گئے۔۔ اللہ ہمارے ان سب وسائل کو ہمارے حق میں حجت بنائے آمین
محفل کا اختتام نسرین خلیل کی کہانی اور کھانے سے ہوا جس سے لطف اندوز ہونے کے لیے انہوں نے ہم سب کے ہاتھوں میں چمچے اور پلیٹیں پکڑا دی تھیں۔ جی نہیں خالی نہیں بلکہ میٹھی اور نمکین سویوں (اسپاگیٹی) کے ساتھ گجریلا! واہ کیا عقلمندی تھی ہماری بہن کی کہ سب کھانے میں مصروف ہوکر خاموشی سے سنیں گے مگر کہانی اتنی دلچسپ اور بر جستہ تھی کہ اگرچہ اس کی ضرورت نہیں تھی مگر لذت کام و دہن کے ساتھ مزہ دوبالا ہوگیا تھا۔ اس دوران اذان بھی ہوگئی جس کے بعد صائمہ عاصم کی پرسوز دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔
شرکاء امنگیں اور امیدیں لیے گھروں کو لوٹے اگر چہ تشنگی رہی مگر بہر حال یہ تو اطمینان ہوا کہ انجام گلستاں بخیر ہوگا کیونکہ چڑیائیں چہچہانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ جی ہاں! چڑیا کی چہکار (ٹوئیٹ) پر ایک آن لائن بریفنگ طے ہوگئی تھی جو اگلے چند دنوں میں منعقد ہونا تھی۔

حصہ