واقعی۔۔؟ ہمیں کیا!۔

179

افسانہ مہر
اکثر لوگوں سے سنا کہ نظام کی تبدیلی سے ہمیں کیا سروکار۔۔ ہمیں تو اپنی دال روٹی سے مطلب بس۔لیکن ہم سب کی عملی زندگی اس قول سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتی۔گزشتہ دنوں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے میری سوچ میں کئی سوال کھڑے کر دیے۔ہوا یوں کہ۔۔ہم ملاقات کے لیے ایک واقف کار کے گھر گئے ،ابھی جا کے بیٹھے ہی تھے کہ اْن کے موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی ،انہوں نے ہم سے تھو ڑی دیر کے لیے معذرت طلب کی اور کال ریسیو کی۔۔ لیکن ایک منٹ کے بعد ہی زور زور سے چلاّنے لگے۔انداز بتا رہا تھا کہ کوئی متعلقین میں سے ہے اور کسی نا خوشگوار صورتحال کا شکار ہے۔تھوڑی دیر بحث کے بعد واقف کار نے حتمی احکام دے کر فون بند کر دیا۔لیکن پریشانی کے اثرات اب ان کے انگ انگ سے عیاں تھے۔ہمارے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ان کے صاحبزادہ کو جو یونیورسٹی سے آ رہا تھا ایک ٹریفک پولیس والے نے روک لیا ہے اور اس کے پاس تمام کاغذات پورے ہونے کے باوجود تعاون کا مطالبہ محض اس بات پر ہے کہ کاغذات کی فوٹو کاپی کیو ں؟ اصلی لے کر کیں نہیں نکلے تھے ؟ اس تعاون کی اصطلاح سے آپ سب بھی واقف ہوں گے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ واقف کار کا برخوردار ’’ تعاون ‘‘ اور ’’چائے پانی‘‘ کو حرام گردانتے ہوئے اس بات پر مصر تھا کہ میں یہ نہیں دوں گا۔۔اور واقف کار اپنے بیٹے کی اس اصولی دیانت کوبے وقوفی گردانتے ہوئے ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ آج کے زمانے میں یہ اصول وصول سب کتابی باتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا دے دلا کے جان چھڑاؤ، بلا وجہ ان لوگوں سے پنگا مت لو۔۔ خیر معاملہ بیٹے کی ہار اور والد کی جیت پر اختتام پذیر ہوا۔۔ لیکن آپ بتائیں کیا معاملہ ختم۔۔؟؟؟ کیا غیر قانونی اور غیر اخلاقی معاملات کوآج کے دور کے نام پر استثناء حاصل ہوگیا ہے؟؟ کیا ان معاشرتی معاملات کے ہم پر اور ہمارے بچوں پر جو اثرات پڑ رہے ہیں ہم ان کے ذمہ دار نہیں؟؟
تعاون باالبروتقوی ولاتعاون باالاثم والعدوان اور نیکی اوربھلائی کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو اور گناہ کے کاموں میں مددگار نہ بنو۔
اللہ کی یہ ہدایت ہم بھول جائیں؟ یا کتابی باتیں گردان کر ان سے صرف نظر اختیار کرلیں تو معاشرہ میں کس طرح امن و سکون برقرار رہ سکے گا۔ بے شک قوانین کا نفاز حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بے اصولی اور بد اخلاقی کے مظاہر سے صرف نظر بھی معاشرے کی بدحالی کا سبب ہے۔ آج اداروں کی نا اہلی ہم سب عوام کا ایک بڑا مسئلہ بن کر کھڑی ہے اور اس کا ایک سبب عوام کا لا تعلقی کا رویہ بھی ہے۔ عوام ہی معاشرہ اور قوم کی اکائی ہیں عام آدمی کا رویہ مضبوط ہو جائے تو معاشرہ میں سر اٹھانے والے ان مسائل سے بھی چھٹکارا ممکن ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کو بدلنے کا

اگر ہم اپنے اطوار میں ڈھلی چھوٹی چھوٹی باتوں کو درست کرنے کا عزم کرلیں تونہ صرف ارد گرد پھیلی بے ضابطگیوں پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ اپنی نسلوں کو بھی روزآنہ ملنے والی ازیتوں سے بچا سکتے ہیں۔

حصہ