یوسف اور گھڑی

215

مریم شہزاد
یوسف ایک بہت پیارا اور چھوٹا سا بچہ تھا، بہت پیاری پیاری باتیں کرتا تھا اس کو ابھی ٹائم تو دیکھنا نہیں آیا تھا مگر گھر میں دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھنے میں اس کو بہت مزا آتا، رات کو سوتے وقت وہ پتلی والی سوئی کو غور سے دیکھتا رہتا وہ جب ٹک ٹک کر کے ایک نمبر سے دوسرے اور پھر تیسرے نمبر پر جا تی اور پھر ایک چکر پورا کر کے دوسرا چکر شروع کر دیتی تو وہ بہت حیران ہوتا کہ یہ کبھی تھکتی نہیں؟ اور جب وہ سو کر اٹھتا وہ پھر اسی طرح چل رہی ہوتی ۔
وہ سوچتا کہ صرف اس سوئی کا ہی پتا چلتا ہے کہ چل رہی ہے دوسری دونوں کا تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کب 1سے 2پر گئی اور کب 6س7پر کبھی بڑی سوئی کہیں ہوتی ہے تو چھوٹی کہیں۔
ایک دن وہ گھبرا یا ہوا امی کے پاس آیا “امی امی، گھڑی کی ایک سوئی ٹوٹ گئی ہے “۔
“کیسے ٹوٹ گئی “امی نے پوچھا ۔
آپ آکر دیکھیں نا، میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، صرف دیکھ رہا تھا “۔
امی اس کے گھبرانے پر جلدی سے آئیں تو دیکھا تینوں سوئیاں موجود ہیں امی نے ٹائم دیکھا تو 12بج کر 5 منٹ ہوئے تھے امی نے یوسف کو بتایا کہ چھوٹی سوئی بڑی سوئی کے پیچھے چھپ گئی تھی وہ بہت حیران ہوا کہ گھڑی میں چھپن چھپائی بھی ہوتی ہے ۔
شام کو پھر ایک عجیب بات ہوئی جب یوسف نے گھڑی کو دیکھا تو پتلی والی سوئی ایک جگہ رکی ہوئی تھی اس نے سوچا شاید تھک گئی ہے مگر جب رات تک وہ نہیں چلی تو اس نے امی سے پوچھا وہ سوئی سو گئی ہے کیا؟
امی نے بتایا گھڑیاں سیل سے چلتی ہیں اور جب سیل کی طاقت ختم ہو جاتی ہے وہ رک جاتی ہے۔
تو اس کی طاقت واپس کیسے آئے گی؟ یوسف نے پوچھا ۔
“ہم پرانا سیل نکال کر نیا سیل لگا دیں گے اور گھڑی واپس چلنے لگے گی، جس طرح آپ کو بھوک لگتی ہے تو آپ رونے لگتے ہیں اور کھانا کھا کر اور دودھ پی کر آپ میں طاقت آجاتی ہے اور آپ پھر سے کھیلنے لگتے ہیں اس طرح گھڑی بھی چلنے لگتی ہے ۔
اب یوسف کی سمجھ میں بات آگی اور وہ خوشی خوشی کھیلنے لگا اور ہاں اب اس نے ٹائم دیکھنا بھی سیکھنا شروع کر دیا ہے ۔

فرانس

محمد جاوید بروہی
فرانس براعظم یورپ میں واقع ہے اس کے مشرق میں اٹلی، جرمنی، سوئٹزرلینڈ شمال مشرق میں لکسمبرگ، بحیرۂ شمال اور بیلجئم جنوب مشرق میں بحرۂ روم شمال میں انگلستان اور آبنائے ڈوور مغرب میں اوقیانوس اور جنوب میں اسپین اور انڈورا واقع ہیں فرانس کا سرکاری نام جمہوریہ فرانس ہے یہاں سیاسی نظام جمہوری ہے فرانس کے موجودہ اور فرانس کی تاریخ کے سب سے کم عمر صدر امینول میکرون 8 مئی 2017ء کو صدر منتخب ہوئے۔ فرانس کا پرانا نام گال تھا۔ یہاں کا دارلحکومت پیرس ہے جسے فرانس کی دلہن اور خوشبوئوں کا شہر کہا جاتا ہے فرانس کے اہم شہر پیرس، نیس، مارسیلز بوکس سٹراسبرگ، لیونناوپولوس ہیں مارسیلز کا پرانا نام سالیہ اور پیرس کا پرانا نام لوئشیا تھا لیونز ریشم کا شہر کہلاتا ہے فرانس کو رنگیلے لوگوں کا ملگ کہا جاتا ہے یہ یورپ کا ایک اہم اور ترقی یافتہ ملک ہے فرانس کا رقبہ 551000 مربع کلو میٹر ہے۔ یہاں کی آبادی تقریباً 60 کروڑ 70 لاکھ نقوس پر مشتمل ہے یہاں کی سرکاری زبان فرنچ ہے یہ یورپی یونین میں شامل ملکوں میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے فرنچ زبان دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں چھٹے نمبر پر ہے فرنچ زبان کے حروف تہجی میں چھبیس حروف ہوتے ہیں فرنچ باسٹھ ملکوں میں بولی جاتی ہے اور انتیس ملکوں کی سرکاری زبان ہیں فرانس میں صدر سات سال کے لیے منتخب ہوتا ہے جنگ عظیم دوم میں جب جرمنوں نے پیرس پر قبضہ کیا تو فرانس کا دارالخلافہ vichy تھا دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ شہر 4 سال کے لیے جرمنی کے قبضہ میں آگیا تھا تیس فرانس کے صوبہ ایپلس میری ٹائس کا صدر مقام ہے فرانس میں شامل ہونے سے پہلے اٹلی میں شامل تھا 1860ء میں ٹریٹی آف تورین معاہدہ کے بعد یہ شہر فرانس کے حوالے کر دیا گیا تھا مارسیلز کی خوشحالی میں اضافہ ہنر سوئز کے کھلنے سے ہوا یہ شہر رومیوں کے عہد میں ایک آزاد جمہوریہ تھا مارسیلز چونے کے پتھروں کی پہاڑیوں کی وجہ سے مشہور ہے فرانس میں اکثریت کا مذہب عیسائیت ہے یہاں کی کرنسی یورو ہے فرانس دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ہر سال فرانس جاتے ہیں فرانس میں سیاست کا شعبہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ایفل ٹاور پیرس میں ہے 1930ء تک اسے دنیا کی سب سے اونچی عمارت کہا جاتا تھا 1889ء میں تعمیر کیا گیا اس کا نام اس کے موجد الیگزینڈر کشاف ایفل کے نام پر رکھا گیا فرانس کا وقت پاکستان کے وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے یہاں کا جھنڈا تین رنگوں سرخ، سفید اور نیلے رنگوں پر مشتمل ہے یہاں کا قومی ترانہ لامارسو لائیسی ہے یہاں قومی دن 14 جولائی کو منایا جاتا ہے فٹ بال فرانس کا مقبول ترین کھیل ہے۔

مل کر رہنا اچھا ہے

کرن اسلم
گھر کے سامنے پارک میں کھیلتے ہوئے احمر نے اچانک انور کو دَھکّا دے کر گرا دیا۔ انور کی امّی احمر کے گھر میں صفائی کا کام کرتی تھیں۔ جب سے جماعت میں نئے لڑکے،عدیل سے دوستی ہوئی تھی، تب سے احمر کو انور اچھّا نہیں لگتا تھا۔ اب وہ انور کو اکثر یہ کہہ کر دَھکّا دے دیتا کہ تم غریب ہو۔ انور اِس بات پر بہت اُداس ہو جاتا تھا۔ اُس کا دل دُکھ جاتا تھا۔ لیکن احمر کو کوئی پروانہیں تھی۔
انور ، احمر سے ایک سال بڑا تھا۔ وہ تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔وہ سچّ مُچ احمر سے پیار کرتا تھا۔ایک دِن عدیل، احمر سے ملنے آیا۔ احمر نے ابھی اسکول کا کام نہیں کیا تھا۔عدیل کی ضد پر وہ اُس کے ساتھ شام تک کھیلتا رہا۔ انور نے ایک بار اُسے کہا بھی کہ اسکول کا کام کر لے۔ ایسا نہ ہو کہ کل اُسے اُستاد صاحب سے سزا مل جائے۔ احمر نے انور کی بات سُنی اَن سُنی کر دی۔عدیل شام کو واپس چلا گیا تھا۔ کھیل کھیل کر احمر بہت تھک گیا تھا۔ اور وہ بھول گیا کہ اسکول کا کام بھی کرنا ہے۔
اگلی صبح احمر کی آنکھ کھُلی تو اُسے یاد آیا کہ اسکول کا کام نہیں کیا۔وہ بہت پریشان ہوا۔کیوں کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔وہ ہمیشہ اسکول کا کام وقت پر کرتا تھا۔ اُسے اساتذہ نے کبھی نہیں ڈانٹا۔آج وہ کیا بہانہ کرے گا؟ اس سوچ نے اُسے پریشان کر دیا تھا۔پھر اُسے ایک ترکیب سُوجھی۔ اُس نے پیٹ درد کا بہانہ بنا کر اسکول سے چھُٹّی کر لی۔ اپنی ترکیب کامیاب ہونے پر وہ بہت خوش ہوا۔
احمر نے جھوٹ بول کر اسکول سے چھُٹّی کیا کی، وہ شام تک سچ مُچ بیمار ہو گیا۔اُس کے پیٹ میں واقعی بہت دردہوا۔ انور اُس کی تیمارداری کے لیے آیا۔ احمر کو اب احساس ہو رہا تھا کہ اُسے جھوٹ بولنے اور انور کا دل دُکھانے کی سزا ملی ہے۔ اب اُسے سمجھ آیا کہ انور واقعی اُس کا دوست ہے۔عدیل کام چور اور گندہ بچہ ہے۔ اُسے روزانہ کام نہ کرنے پر اسکول میں سزا ملتی تھی۔ امّی نے بھی احمر کو سمجھایا کہ غریب ہونا بُری بات ہرگز نہیں ہے۔ امیر ہو یا غریب اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب برابر ہیں۔اللہ تعالیٰ کو انسانوں کا مِل جُل کر رہنا پسند ہے۔
احمر سمجھ گیا تھا۔ انور سے اب اُس کی خُوب دوستی تھی۔ امتحان کی تیاری میں بھی انور نے مدد کی۔ جب رزلٹ آیا تو انور اور احمر اپنی اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن پر تھے۔ عدیل انگلش اور سائنس میں فیل ہو گیا تھا۔ اگر وہ بھی مِل کر رہنا اور کام کرنا جانتا تو کامیاب ہو جاتا۔

حصہ