پلاسٹک آلودگی

882

ترجمہ و تلخیص: کرن اسلم
اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو کسی نہ کسی صورت میں پلاسٹک کی اشیاء ضرور ملیں گی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس فون ہے تو اس میں بہت حد تک پلاسٹک استعمال ہوا ہے۔ آپ کا کمپیوٹر، کھانے کی اشیاء پلاسٹک کی ہیں۔ شاپنگ بیگز، کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں بھی پلاسٹک سے بنی ہیں۔ چھوٹے بچوں کے کھلونے بھی زیادہ تر پلاسٹک سے ہی بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ پلاسٹک کیا ہے؟ زیادہ تر پلاسٹک مصنوعی طور پر کیمیاوی امتزاج سے بنایا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی دو اہم خصوصیات ہیں۔ اس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ اسے کسی بھی شکل میں آسانی سے ڈھالا جا سکتا ہے۔ تقریباً ہر طرح کا پلاسٹک پیٹرولیم سے بنتا ہے۔
پلاسٹک کا زیادہ استعمال اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ یہ سستے داموں میسر ہوتا ہے۔ عام گھریلو استعمال کے بہت سے برتن پلاسٹک سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ سستا ہونے کے علاوہ اس کے عام استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پائیدار ہوتا ہے۔ پلاسٹک، بلاشبہ ایک مفید اور کارآمد چیز ہے، لیکن پلاسٹک آلودگی کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ پلاسٹک کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ زیادہ تر پلاسٹک خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے کوئی چیز کھاتی ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی تقریباً تمام اشیاء ٹوٹ پھوٹ یا انحطاط کا شکار ہوجاتی ہیں، اُن جرثوموں کی وجہ سے جو قدرتی طور پر اس چیز کو خوراک کے طور پر کھا جاتے ہیں اور وہ چیز گلنا سڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی واضح مثال اسٹیل ہے جسے زنگ لگ جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ استعمال شدہ خراب پلاسٹک کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اس کا جواب واضح اور آسان ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسے ری سائیکل (Recycle) کرتے ہوئے دوبارہ استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یہ بات یقینا درست ہے مگر بہت سا پلاسٹک ایسا بھی ہے جسے آسانی سے ری سائیکل نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا پلاسٹک عموماً کوڑے دان میں، گلیوں میں، نہروں اور دریائوں میں، یا ساحلِ سمندر پر پھینک دیا جاتا ہے۔
کلورین ملا پلاسٹک جب مٹی میں شامل ہوتا ہے تو اپنے اردگرد کی مٹی میں نقصان دہ کیمیکل شامل کرتا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل زیر ِ زمین پانی اور پانی کے دیگر قریبی ذرائع کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کوڑا کرکٹ پر مشتمل زمین کی بھرائی کا ملبہ مختلف قسم کے پلاسٹک سے بھرا ہوتا ہے۔ جب اس پلاسٹک پر مشتمل ملبے سے زمین کی بھرائی کی جاتی ہے تو اس پلاسٹک سے انتہائی نقصان دہ بیکٹیریا پیدا ہوتے ہیں جن سے بے رنگ اور بے بو کی ایسی گیس پیدا ہوتی ہے جو کہ زمینی فضا میں افزائشِ حرارت کی ایک بڑی وجہ ہے۔
2012ء کے ایک اندازے کے مطابق، دنیا کے تمام سمندروں میں تقریباً 125ملین ٹن پلاسٹک کی وجہ سے آلودگی ہے۔ ساحلوں اور سمندروں میں پلاسٹک آلودگی کی ایک وجہ وہ پلاسٹک دانہ بھی ہے جو کہ سمندروں کے ذریعے درآمد اور برآمد کیا جاتا ہے۔ ہر سال کئی ارب پلاسٹک دانہ، دورانِ تجارت سمندروں میں گرتا ہے۔ اندازے کے مطابق عالمی سطح پر ساحل کی دس فی صد گندگی، پلاسٹک دانہ کی وجہ سے ہے۔ مزید یہ کہ ساحلوں پر سیر کے لیے آنے والے لوگ اپنے ساتھ لائے گئے پلاسٹک بیگز اور کھانے کے ڈبوں کو بھی وہیں پھینک دیتے ہیں۔
پلاسٹک کی وجہ سے سمندروں میں پیدا ہونے والی آلودگی سمندری حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی نہایت خطرناک اور زہریلی ہے۔ بہت سے سمندری جانور پلاسٹک کو کھانے کی چیز سمجھ کر کھا جاتے ہیں ۔ مثلاً سمندری کچھوے اکثر اسی وجہ سے مر جاتے ہیں کہ غذا سمجھ کر کھایا ہوا پلاسٹک اُن کے نظامِ انہظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی کے باعث تقریباً چار لاکھ آبی ممالیہ ہر سال مرتے ہیں۔ پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کو کس طرح روکا یا کم کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہم چار ایسے طریقے اپنا سکتے ہیں جن سے اپنے ماحول کو پلاسٹک آلودگی سے بہت حد تک بچا سکتے ہیں۔
نمبر ایک تو یہ کہ ہم کم سے کم ایسی چیزیں خریدیں جو پلاسٹک سے بنی ہوں۔ ہم پلاسٹک کے بجائے شیشے سے بنی کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں بھی خرید سکتے ہیں۔ جس کا واضح مطلب ہوگا کہ نہ پلاسٹک خریدیں گے، نہ ہی ہم استعمال کے بعد اسے گھر سے باہر پھینکیں گے۔ نمبر 2 یہ کہ کیوں ناں ماضی کی طرح اب بھی اشیاء کو محفوظ کرنے کے لیے پلاسٹک کے بجائے شیشے کی بوتلیں اور برتن استعمال کیے جائیں۔ نمبر 3 یہ کہ پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جائے۔ نمبر 4 یہ کہ پلاسٹک کے استعمال ہی سے گریز کیا جائے۔ پلاسٹک کے تھیلوں کے بجائے کپڑے کے تھیلے استعمال کیے جائیں۔ کھانے، پینے کی اشیا، جیسے کہ دودھ، دہی، چائے یا کوئی سالن وغیرہ لانے، لے جانے کے لیے پلاسٹک کے تھیلے یا بوتلیں ہرگز استعمال نہیں کرنی چاہئیں۔ انگریزی زبان میں ان چار طریقوں کو ’’ Four R’s‘‘ کہا جاتا ہے۔
سائنس دان اب اس بارے میں تحقیق کررہے ہیں کہ کسی طرح پودوں سے ایسا پلاسٹک بنایا جا سکے جس سے خریداری کے لیے تھیلے اور کھانے کی اشیاء محفوظ کرنے کے لیے ڈبے وغیرہ بنائے جاسکیں، جنھیں استعمال کے بعد پودوں کی کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ چند جرثوموں کے ذریعے انھیں تحلیل کیا جا سکے گا۔ اِسے انگریزی میں biodegradableکہا جاتا ہے۔ جب کہ پیٹرولیم سے بنا پلاسٹک غیر محلل ہے۔ اسے کسی بھی جرثومے سے تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔

عشقِ کنارہ

مغیرہ ابراہیم
’’پھول لے کر گیا
آیا روتا ہوا‘‘
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر ِ اقبالؒ سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
شہر ِ ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی

حصہ