بات یہ ہے

368

عبدالرحمن مومن
سینما لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ فلم شروع ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔
چوتھی قطار میں بیٹھے تین لڑکے کسی چوتھے کا انتظار کررہے تھے۔
وہ آپس میں باتیں کررہے تھے ۔ ان کا گروپ ممبر احمد ابھی تک نہیں آیا تھا۔
معین نے کہا:’’تم سے کہا تھا احمدنے کہ میرا ٹکٹ نہیں لینا‘ میرے ابو منع کرتے ہیں۔‘‘
ارسلان نے جواب میں کہا:’’یار ابو تو میرے بھی منع کررہے تھے لیکن میں تو آگیا۔ ابو کون سا ہمیں ہر وقت دیکھتے ہیں۔‘‘
’’تمہارے ابو ہوسکتا ہے نہ دیکھتے ہوں۔ احمد کے ابو ہر وقت اس پر نظر رکھتے ہیں۔‘‘
معین نے بتایا تو شفیع نے بھی اس کی تائید کی او رکہا:’’ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔ احمد تو خود بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ فلم دیکھے۔ احمد بھی وہی چاہتا ہے جو اس کے ابو چاہتے ہیں۔‘‘
’’احمد کے ابو کی نظر ہی ہے جس کی وجہ سے احمد ان کی خوشی میں خوش رہتا ہے۔‘‘ معین نے کہا اور علامہ اقبال کا شعر سنایا۔

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل‘ کو آدابِ فرزندی

غرور کا خاتمہ

حذیفہ عبداللہ
علی اپنے اسکول کا ایک بہترین مقرر تھا شہر کے اسکولز میں ہونے والے تقریری مقابلوں میں ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کرتا اسی کے اسکول کا فراز دوسری پوزیشن حاصل کرتا، پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے باعث ان کے اسکول کی بڑی شہرت تھی اور اسکول کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔ فراز کی کوشش ہوتی کہ وہ زیادہ محنت کرے اور بہتر انداز میں اپنے خیالات پیش کرے اس طرح علی اور فراز میں مقابلے کی مثبت فضا قائم تھی جس کے باعث نتیجہ اچھا آتا علی کی پہلی اور فراز کی دوسری پوزیشن نے اسکول کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے ان کے اسکول کی جس مقابلے میں شرکت ہوتی شرکاء پہلے ہی بتا دیتے نتیجہ کیا ہو گا۔
اسکول کے مقررین کی جوڑی شہر کے اسکولز ہی میں نہیں بلکہ بیرون شہر ہونے والے مقابلوں میں شریک ہوتے اور انعامات کے متحق قرار پاتے۔ استاتذہ ان کی خصوصی تیاری کراتے، مطالعے کے لیے کتب تجویز کی جاتیں، تقریر کے انداز کی مشق ہوتی، اصلاح کا عمل ہوتا اس طرح بھرپور تیاری سے مقابلے میں شریک ہوتے اور اول، دوم انعامات کے علاوہ ٹرافی کے حق دار ان کا ہی اسکول قرار پاتا۔
کچھ عرصے سے محسوس ہو رہا تھا کہ علی کی توجہ مطالعے اور مقابلے کی تیاری کی طرف ہٹتی جا رہی تھی دراصل اس کے ذہن میں یہ بات پیدا ہو گئی تھی کہ اس سے کوئی مقابلہ نہیں جیت سکتا اس کا مطالعہ بہت ہے اور اپنی بات کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا سلیقہ اسی کے پاس ہے۔
لہٰذا کوئی اس سے اول انعام کا حق نہیں چھین سکتا بیرون شہر سے ایک بڑے تقریری مقابلے کی دعوت آئی جس کے لیے اساتذہ نے تیاری اور مشق کا پروگرام بنایا لیکن علی نے اس میں شرکت نہیں کی اور کہا کہ وہ ہر وقت ہی تیار رہتا ہے اس کی تیاری بھرپور ہے اسے کسی مزید تیاری کی ضرورت نہیں۔
آخر مقابلے کا دن آگیا فراز نے اساتذہ کی رہنمائی میں بھرپور تیاری کی جبکہ علی اس گھمنڈ میں رہا کہ اس سے بہتر کوئی مقرر ہے ہی نہیں۔
تقاریر کا آغاز ہوا کئی مقررین نے اچھی تقاریر کیں اور سامعین سے داد پائی فراز کی تقریر بھی اچھی تھی اور اس کی تقریر پر بھی خوب داد ملی جب علی کا نام پکارا گیا تو اسٹیج پر آتے ہی محسوس ہوا کہ علی کچھ نروس ہے اور سوچ رہا ہے کہ وہ تقریر کا آغاز کیسے کرے چند جملے ادا کیے اور پھر خاموشی۔ پھر اٹک اٹک کر چند جملے ادا کیے لیکن علی جس طرح تقریر کیا کرتا تھا اس انداز سے تقریر نہ کر سکا وہ سامعین سے داد تو کیا وصول کرتا اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مقابلے کے نتیجہ کا اعلان ہوا تو فراز اول انعام کا حق دار قرار پایا اور دوسرا اور تیسرا انعام کسی اور ایک اسکول کے حصے میں آئیں اور وہ اسکول ٹرافی کا حق دار بھی ٹھہرا۔
مقابلے کے اختتام پر علی شرمندہ شرمندہ سا اپنے اساتذہ کے ساتھ واپسی کے لیے روانہ ہوا علی کے کلاس ٹیچر نے علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی آج تمہاری وجہ سے اسکول کا اعزاز چھن گیا ہے جو تمہاری ہی وجہ سے حاصل تھا اگر تم بھرپور تیاری کرتے اور اس غرور میں مبتلا نہ ہوتے کہ تم سے اچھا کوئی مقرر نہیں تو آج ہمارا یہ اعزاز برقرار رہتا۔ علی بیٹا کسی بھی معاملے میں غرور کرنا اچھی بات نہیں۔ اور کبھی بھی کوشش کا عمل ترک نہیں ہونا چاہیے آپ نے کوشش ترک کردی، مقابلے کی تیاری نہیں کی۔ اور اس کا انجام یہ ہوا کہ ہمارا اسکول جو ٹاپ پر تھا آج اس مقام سے محروم ہو گیا ہے۔
علی نے اساتذہ سے معذرت کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ اپنے کیے پرناکام ہے اور آئندہ مقابلے میں بھرپور تیاری سے شریک ہوگا اور اسکول کا اعزاز واپس حاصل کرے گا۔

چیزوں کی کہانی

ڈاکٹر آصف فرخی
صبح سویرے جب اٹھتے ہیں تو صابن اور پانی سے ہاتھ منہ دھوتے ہیں، برش یا مسواک سے دانت مانجھتے ہیں اور کنگھے سے بال بناتے ہیں۔ کھانے کے وقت میز کے سامنے کرسی رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں، ضرورت پڑنے پر چمچہ استعمال کرتے ہیں۔ جو کھانا آپ کھاتے ہیں، چولھے پر پکتا ہے اور پکنے کے بعد برتنوں میں آپ کے سامنے لایا جاتا ہے۔ ڈونگے سے رکابی میں کھانا نکالتے ہیں پھر اطمینان سے کھاتے ہیں۔جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو آپ بتی جلاتے ہیں۔ گرمی لگتی ہے تو پنکھے کی رفتار تیز کر دیتے ہیں۔ جب گھڑی بتاتی ہے کہ سونے کا وقت ہو گیا، تو آپ کپڑے بدلتے ہیں، لیٹنے کی تیار کرتے ہیں اور پلنگ پر لیٹ کر گہری نیند سو جاتے ہیں۔صابن اور پانی، برش، مسواک، کنگھا، کرسی اور میز، چھری اور چمچہ، بتی اور کنگھا، گھڑی اور پلنگ۔ ہم صبح سے لے کر رات تک کتنی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ چیزیں اب ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہیں کہ ہم ان کے بارے میں غور بھی نہیں کرتے۔
مگر ایک زمانہ ایسا تھا جب لوگوں کو اس طرح کی بس تھوڑی سی سہولتوں کے ساتھ گزارہ کرنا پڑتا تھا اور اس سے پہلے ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ان میں سے کوئی بھی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس وقت ہر آدمی کو سخت گیر فطرت کے خلاف جدوجہد کرنی پڑی تھی اور زندہ رہنا اسی جدوجہد کا نام تھا۔ اپنے ذہن کو استعمال کرکے آدمی نے رفتہ رفتہ اپنے روز و شب کو آسان بنا لیا۔ اس نے موسم کی سختی پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈے، کام آسان بنانے کے لیے اوزار ڈھالے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، لوگوں نے زندگی کو سہل اور آسان بنانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈلیے۔ انہوں نے مٹی سے برتن بنائے جس میں کھانا پکا سکیں اور پکا ہوا کھانا رکھ سکیں۔ بیٹھنے کے لیے کرسی اور لیٹنے کے لیے پلنگ بنائے۔ طرح طرح کی میزیں بنائیں۔ گھروں کی اور سامان کی حفاظت کے لیے تالے بنائے اور تالے کھولنے کے لیے چابیاں، وقت کا دھیان رکھنے کے لیے گھڑی ایجاد کی اور وقت کے بہتر استعمال کے لیے کاغذ، قلم اور کتاب۔
لیکن یہ ساری چیزیں ایک دن میں حاصل نہیں ہو گئیں۔ چیزیں بھی لوگوں کی طرح بڑھتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ اس کتاب میں چیزوں کی یہی کہانی بیان کی گئی ہے۔
پرانے زمانے کے لوگوں کے برخلاف آج کا انسان اپنی زندگی کا ایک دن گزارنے کے لیے کتنی ساری چیزیں استعمال کرتا ہے۔ ہم ان چیزوں کی سہولت کے عادی ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ چیزیں ہمیشہ سے موجود نہیں تھیں۔ انسان کو اپنی ضرورت کے لیے چیزوں کو ایجاد کرنا پڑا۔ چیزوں کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ مختلف زمانوں میں انسان نے کیسے ان چیزوں کو بنایا اور تبدیل کیا۔ مختلف ملکوں اور مختلف زمانوں سے ہوتی ہوئی چیزیں آخر اس شکل میں کیسے پہنچیں جس سے ہم مانوس ہیں۔
بتی:
ابتدا میں، سورج اور چاند اور ستارے، انسان کے لیے روشنی کا واحد ذریعہ تھے۔ جب اندھیرا ہو جاتا تو لوگ جو بھی کام کر رہے ہوتے اسے چھوڑ دیتے اور سونے کی تیاری کرنے لگتے۔ اس وقت روشنی محدود تھی، اندھیرا بہت خوف ناک اور طاقتور تھا۔
دھیرے دھیرے یہ اندزاہ ہوا کہ آگ جلاننے سے اندھیرے کو فرو کیا جا سکتا ہے۔ سلگتی ہوئی لکڑی کے ذریعے روشنی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھی لے جایا جا سکتا تھا۔ اندھیرا کونے کھدروں میں سمیٹنے لگا۔ سرو کی لکڑی یا چربی میں ڈبوئے ہوئے سینٹھے سے بنائی ہوئی مشعل زیادہ دیر تک جلتی تھی اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں انگلیوں کی پوریں جلنے کا خطرہ نہیں تھا۔
دھڑ دھڑ جلتی ہوئی مشعلیں لے کر انسان اندھیرے کی نامعلوم سلطنت فتح کرنے نکلا۔ اب دنیا اس کے سامنے روز روشن تھی۔
روشنی کے لیے چراغ سب سے بہتر تھا۔ یہ پتھر کے دور کے کسی آدمی کی ایجاد ہے۔ پہلا چراغ بس اتنا سا تھا کہ کھوکھلے پتھر یا مٹی کے پیالے میں چربی بھر دی گئی۔ اسے کہیں بھی رکھا جا سکتا تھا اور خالی ہو جانے پر دوبارہ بھرا جا سکتا تھا۔ اب روشنی انسان کے اختیار میں آگئی تھی۔
دھات اور چینی کے بنے ہوئے چراغ قدیم یونانیوں اور رومیوں کے گھر میں روشنی کرتے تھے۔ وہ لوگ چراغ جلانے کے لیے تیل کا استعمال کرتے تھے اور چراغ میں بتی ڈالتے تھے جس سے دھواں کم اٹھتا تھا اور شعلہ بھڑکتا کم تھا، جس کی وجہ سے روشنی مستحکم رہتی تھی۔
رومیوں سے بہت پہلے قدیم چین کے باشندوں نے لالٹین بنالی تھی جسے گھر کے باہر بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ روشنی کی لو موسم اور تیز ہوا سے محفوظ تھی اور لالٹین کے اندر سے چھن چھن کرآتی تھی۔ چینیوں نے خوبصورت نقش و نگار کے ساتھ لالٹین کو بہت دلکش بنا دیا۔ لالٹین کی صورت میں روشنی کو ایک گھر مل گیا۔
نئے سال کی آمد اور دوسرے تہواروں پر وہاں اب بھی لالٹین روشن کی جاتی ہیں اور گھروں میں لٹکائی جاتی ہیں۔
جن علاقوں میں تیل آسانی سے نہیں ملتا تھا وہاں لوگ روشنی کے لیے دوسرے ذرائع پر انحصار کرتے تھے۔ پرانے زمانے کے محل اور قلعے قندیل اور مشعل سے روشن ہوتے تھے۔ یورپ کے محلات میں ایسی ٹوکریاں رکھی جاتی تھیں جن میں آگ جلائی جاتی تھی۔
گھروں کے باہر جانے کے لیے لالٹین بہت مفید ثابت ہوئی۔ بڑے بڑے شہروں میں خاص مقامات پر آگ کی ٹوکریاں رکھی جانے لگیں تاکہ جو لوگ اندھیرے کے وقت چل پھر رہے ہیں انہیں مشکل نہ ہو۔
شہد کی مکھیوں کے جمع کیے ہوئے موم کو جلا کر روشنی کرنے کا طریقہ قدیم روم کے زمانے میں بھی دریافت ہو چکا تھا، لیکن شمع کا رواج اس وقت عام ہوا جب چربی کی صورت میں موم کا سستا مترادف مل گیا۔ پگھلی ہوئی چربی کی شمعوں کا رواج بہت عرصے تک عام رہا۔
شمع کے عروج کے زمانے میں چراغ بھی جلتا رہا۔ تیل کے دیے اور چراغ آج تک باقی ہیں۔ اٹھارویں صدی میں چراغ کو ایک نئی شکل اس وقت مل گئی جب اس میں مٹی کا تیل جلایا جانے لگا۔ بعد میں اس کے چاروں طرف شیشے کی نلکی اور بغیر دھویں کی بتی لگا دی گئی۔ یوں وہ پہلی مصنوعی روشنی تیار ہوئی جس کا شعلہ خوب روشن تھا اور بغیر کسی بو کے جلتا تھا۔
اٹھارویں صدی میں گیس لیمپ کو فروغ حاصل ہوا۔ ان کا رواج انگلستان میں ہوا۔ نیو یارک شہر کی سڑکوں پر گیس لیمپ نصب کر دیے گئے۔ گیس کی روشنی نے دنیا کے بڑے بڑے شہروں کو روشنی کے شہر بنا دیا۔
گیس کا چراغ اس وقت گل ہو گیا جب بجلی کی روشنی دریافت ہو گئی۔ تھامس ایڈیسن نے ایسا بلب ایجاد کیا جو تار کی مدد سے اور شعلے کے بغیر جلتا تھا اور روشنی دیتا تھا۔ بجلی کے بلب کے سامنے چراغ اور لالٹین سب کی روشنی ماند پڑ گئی۔ گھر اور کارخانے جگمگا اٹھے۔ رات میں دن کا سماں ہو گیا۔ جدھر دیکھیے اجالے ہی اجالے ہیں۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا، سائنس داں جو ابھی تک بہتر روشنی کی تلاش میں سرگرداں ہیں، ایک حیرت انگیز دریافت سامنے لے کر آئے۔ یہ فلوریسنٹ روشنی ہے۔ Fluorescent شیشے کی سیل بند نلکی میں روشنی چھوڑنے والا ایک مادہ ہے جو برقی رو سے منور ہو جاتا ہے اور پھر بہت عرصے تک جل سکتا ہے۔
ایک چھوٹا سا کھٹکا دبانے سے آج کا انسان رات کو دن اور اندھیرے کو اجالا بنا سکتا ہے۔ تاریکی کو دفع کرنے کے لیے روشنیاں ہی روشنیاں ہیں۔ علامہ اقبال نے لکھا تھا:
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
(تو نے رات بنائی، میں نے چراغ بنایا)
یہ چراغ انسان کی تلاش کا ایک کارنامہ ہے۔ چھوٹا سا کھٹکا دبا کر آپ جو روشنی بکھیر دیتے ہیں، اس تک پہنچنے میں انسان کو کئی صدیاں لگیں۔ دنیا کے اندھیرے کا خوف پرانے زمانے کے انسان میں اس طرح بیٹھ گیا ہوگا کہ ہم آج بھی خوشی کا اظہار روشنیاں جلا کر کرتے ہیں۔

مسکرائیے

٭ کنجوس مالک (ملازم سے) وہ کون سی چیز ہے جو محنت کے باوجود حاصل نہیں ہوتی۔
ملازم: جناب میری تنخواہ
٭٭٭
٭ استاد (راشد سے) کتاب کے موضوع پر تمہارا اور اختر کا موضوع ایک جیسا ہے۔
راشد سر ہم دونوں کی کتاب ایک ہی ہے۔
٭٭٭
٭ ریس دیکھتے ہوئے ایک سردار نے دوسرے سے پوچھا پہلا انعام کس کو ملے گا۔
دوسرا سردار: سب سے آگے والے کو۔
پہلا سردار: تو پھر پیچھے والے کیوں دوڑ رہے ہیں۔
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے) بتائو بچاس میں سے کیا نفی کریں تو بقایا پانچ بچیں۔
عامر (جلدی سے) جناب صفر
٭٭٭
٭ ایک بھکاری کی لاٹری نکل آئی تو اس نے مسجد بنوا دی دوسرا بھکاری تو نے مسجد کیوں بنوائی؟
پہلا بھکاری اس کے سامنے میں اکیلا ہی بھیگ مانگوں گا۔

حصہ