افغانستان میں آگ اور خون کا کھیل

271

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل
سال2018ء کا پہلا مہینہ جنوری افغانستان خاص طور پر کابل کے شہریوں کے لیے تباہی و بربادی کا پروانہ لے کر آیا۔ یکے بعد دیگرے ہونے والے دہشت گرد حملوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ 27 جنوری کو کابل میں وزارتِ داخلہ کے پرانے دفتر پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوئے۔ یہ بہت خوف ناک حملہ تھا جس میں خودکش بمبار دو چیک پوسٹوں سے گزر کر آیا اور ہجوم میں گھس کر اُس نے دھماکا کردیا۔ یہ دارالحکومت میں ہائی سیکورٹی زون تھا، اور اس کے قریب یورپی یونین کے دفاتر اور کئی ملکوں کے سفارت خانے واقع ہیں۔ حملہ آور دھماکا خیز مواد سے بھری ایک گاڑی کو وزارتِ داخلہ کے دفتر کے مین گیٹ پر لانے میں کامیاب ہوا اور وہاں دھماکے سے اس کو اڑا دیا۔ یہ ایک ایمبولینس تھی جس کو دھماکا خیز مواد سے بھرا گیا تھا، اور یہ راستے میں کئی چیک پوسٹوں سے گزر کر آئی تھی۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ خودکش حملہ آور نے پہلی چیک پوسٹ پر بتایا کہ وہ ایک مریض کو لے کر جمہوریت اسپتال جارہا ہے۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس سے قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا، جب کہ آسمان پر دھویں کے گہرے بادل چھا گئے اور پورے کابل میں دھماکے کی آواز سنی گئی۔ افغان طالبان نے اسی دن دھماکے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں یورپی یونین کے وفد اور وزارتِ داخلہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ عینی شاہدین کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر راہ گیر بچے، خواتین، مرد اور دکاندار وغیرہ شامل ہیں۔
اسی دن افغانستان کے صوبے ہلمند میں ضلع نادعلی میں ایک چیک پوائنٹ پر خودکش کار بم حملے میں 6 سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمے داری بھی تحریک طالبان نے قبول کی ہے۔
29 جنوری کو دوسرا بڑا حملہ کابل میں فوجی اکیڈمی پر ہوا۔ مارشل فہیم ڈیفنس یونیورسٹی پر علی الصبح داعش تنظیم کے عسکریت پسندوں نے دھاوا بول دیا، جس میں سے ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس حملے میں 11 سے زائد اہلکار ہلاک اور 16 زخمی ہوئے۔ کُل حملہ آوروں کی تعداد 5 بتائی جاتی ہے جس میں سے 4 کو ہلاک کردیا گیا اور ایک کو گرفتار کرلیا گیا۔ وزارتِ دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ صبح 5 بجے حملہ آوروں نے اکیڈمی پر حملہ کردیا اور دو نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا، جب کہ باقی نے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی۔ ترجمان نے بتایا کہ کوئی بھی حملہ آور اکیڈمی کے پہلے گیٹ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اسی اکیڈمی پر گزشتہ سال بھی حملہ ہوا تھا جس میں 15 زیرتربیت کیڈٹ ہلاک ہوگئے تھے، اس کے بعد سے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، اس کے باوجود اِس بار بھی حملہ آور زیادہ تیاری سے آکر نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ شدت پسند گروہ کی نیوز ایجنسی اعماق کے مطابق دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کے لیے تیاری کی تھی۔
اسی دوران 24 جنوری کو پاکستان کے قبائلی علاقے میں اس سال کا پہلا امریکی ڈرون حملہ ہوا جس میں ایک مہاجر کیمپ میں واقع گھر کو نشانہ بنایا گیا جو تحصیل ٹل کے قریبی علاقے سیبل ٹل میں واقع ہے۔ امریکی دعوے کے مطابق افغان طالبان کے ایک کمانڈر ناصر محمود عرف حامدی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ ضلع ہنگو میں بھی حملے کی اطلاعات ہیں، جب کہ ڈپرماموزئی میں بھی حملے کی خبر ہے۔ تاہم اورکزئی ایجنسی اور کرم ایجنسی نے اپنی حدود میں حملے کی تصدیق نہیں کی ہے، جب کہ افغان مہاجر کیمپ پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ڈی ایس پی ہنگو شوکت بخاری نے بتایا کہ بدھکہ ضلع ہنگو کی حدود سے باہر واقع ہے۔ 2 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے اور گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے جس پر ڈرون سے 2 میزائل داغے گئے تھے۔ صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکیوں کے بعد یہ پہلا ڈرون حملہ ہے جو پاکستان کے علاقے میں کیا گیا ہے۔
30 جنوری کو کرم ایجنسی ہی میں ایک گاڑی برساتی نالے میں ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی، جس میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد جن میں 3 خواتین بھی شامل تھیں، جاں بحق ہوگئے۔ مقتولین کے نام اویس خان، امین بادشاہ اور بادشاہ خان ہیں۔ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور صرف ایک شخص سیدا جان زخمی حالت میں زندہ بچا ہے۔
27 جنوری کے خوف ناک حملے سے پہلے جنوری ہی میں کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پر بھی طالبان نے حملہ کیا تھا جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے، اور جلال آباد میں سیکورٹی فورس پر داعش کے حملے میں 5 اہلکار ہلاک ہوئے تھے، لیکن وزارتِ داخلہ پر ایمبولینس کے ذریعے حملے نے پوری دنیا میں ایک ارتعاش پیدا کردیا، تمام ممالک نے اس کی شدید مذمت کی اور افغان عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ پاکستان، بھارت اور ایران کی حکومتوں نے بھی دہشت گردی کے اس واقعے کی مذمت کی اور افغان قیادت کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ افغان میڈیا میں ایک بار پھر پاکستان کو اس واقعے پر موردِ الزام ٹھیرایا گیا۔ ایک خبر یہ بھی چلی کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے فون پر بات کرنے سے معذرت ظاہر کی، جس کی پاکستان میں افغان سفیر عمر زخیوال نے تردید کی۔ بدھ کو ایک اعلیٰ سطحی وفد کابل سے اسلام آباد پہنچا جس میں افغانستان کے وزیر داخلہ اور سیکورٹی چیف شامل ہیں۔ اس وفد نے وزیراعظم پاکستان اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں اور معلومات کا تبادلہ کیا۔ افغان میڈیا کے مطابق یہ وفد ان تمام دھماکوں میں پاکستان کے کردار کے بارے میں مواد لے کر گیا ہے جس پر پاکستان سے جواب مانگا جائے گا۔ جب کہ پاکستانی حکام نے کہا کہ یہ خیرسگالی نوعیت کا وفد ہے جس سے دونوں ممالک میں جاری دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات پر بات کی جائے گی۔ انہی دنوں میں پاکستان نے یہ خبر بھی جاری کردی کہ گزشتہ سال اکتوبر میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ افغانستان کے بعد پاکستان نے 27 افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے افراد کو افغانستان کے حوالے کیا تھا جو اُن کو مطلوب تھے۔ البتہ ان افراد کے بارے میں مزید تفصیل یا ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس عمل کے بعد بھی افغان قیادت اور امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر دبائو ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ان حملوں کے وحشیانہ اور غیر انسانی ہونے کے علی الرغم عالمی مبصرین اس کو امریکی صدر ٹرمپ کی اُس سخت گیر پالیسی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں جس کے تحت انہوں نے مسئلہ افغانستان کا سیاسی حل ڈھونڈنے کے بجائے جنگی آپشن کو اختیار کیا ہے۔ افواج کی تعداد میں اضافہ اور طالبان سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ بیک فائر کررہا ہے۔ چین، روس اور پاکستان نے مل کر طالبان قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے جو تازہ کوشش کی تھی، ٹرمپ نے اس کو سبوتاژ کیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی اب اعلان کردیا ہے کہ وہ طالبان کو میدانِ جنگ میں شکست دیں گے اور ان سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ یہ بھارتی قیادت کی بھی پالیسی ہے۔ وہ کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتے کہ طالبان کے ساتھ افہام و تفہیم کی حکمت عملی اختیار کی جائے اور ان کو شریکِ اقتدار کیا جائے۔ گزشتہ سال جب سابق افغان جہادی کمانڈر گلبدین حکمت یار کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد امن معاہدہ ہوا اور وہ اپنی روپوشی ختم کرکے کابل پہنچے تو یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اسی نوعیت کا معاہدہ طالبان قیادت کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
ماہِ جنوری ہی میں پاکستان کے 880 علمائے کرام اور مفتیانِِ عظام نے ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کے خلاف خودکش حملے اور بم دھماکے جیسے اقدامات ازروئے شریعت حرام ہیں۔ اس فتوے کو سرکاری طور پر جاری کیا گیا تھا اور پورے ملک میں اس کو سراہا گیا تھا۔ اس پر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے تنقید بھی کی تھی کہ یہ فتویٰ صرف پاکستان کے لیے کیوں ہے، افغانستان پر بھی اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔ حالانکہ افغان صدر خود افغانستان میں موجود علمائے کرام اور مدارس کے شیوخ القرآن والحدیث و مدرسین سے بھی اس طرح کے فتوے کے لیے رجوع کرسکتے ہیں اور پاکستان کے اس فتوے کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ اتفاق سے پاکستان اور افغانستان میں عوام اور علماء دونوں حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، خاص طور پر علمائے دیوبند کا افغانستان پر خاصا اثر رسوخ ہے، جب کہ دیگر مسالک فقہ جعفریہ اور اہلِ حدیث وغیرہ بھی موجود ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے افغان حکومت اپنے مقامی علمائے کرام سے رجوع کرے۔ اس کام کے لیے وہ بھارت میں موجود دیوبند کے مرکز سے بھی تعاون حاصل کرسکتی ہے۔ افغان علماء بھی عوام کی طرح اس صورتِ حال سے نالاں ہوں گے، البتہ وہ اپنے فتویٰ میں خودکش حملوں کے ساتھ غیر ملکی مداخلت پر بھی بات کرسکتے ہیں۔

حصہ