متحدہ قومی موومنٹ؟۔

311

محمد انور
مارچ 1984 میں الطاف حسین کی بنائی ہوئی ایم کیو ایم اب ٹوٹ پھوٹ کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھرنے لگی ہے۔ اگرچہ یہ عمل جون 1991 سے آفاق احمد اور عامر خان کی الطاف حسین سے بغاوت کے بعد شروع ہوا تھا مگر اس کو توڑنے میں سب سے اہم کردار خود الطاف حسین نے ہی 22اگست 2016کو پاکستان کے خلاف نعرے لگوا کر کیا تھا۔ مہاجروں کو حقوق دلانے کے نام پر شروع کی گئی اس تحریک کے نتیجے میں الطاف حسین لندن میں عیش و عشرت سے اپنی زندگی کے باقی ایام گزاررہے ہیں جبکہ ان کی ایم کیو ایم سے ٹوٹ کر تخلیق پانے والی پارٹیاں اپنی بقاء کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلسل جدوجہد کے باوجود اس سے جڑے رہنے اور جڑے ہوئے افراد آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں 30, 32سال پہلے تھے ۔سب سے زیادہ تکالیف میں وہ مخلص مگر سادہ کارکن ہیں جنہوں نے اپنے ’’حق پرست ‘‘ لیڈروں کی باتوں میں اپنی زندگیوں کے حسین لمحات کو بھی غارت کیا اور آج مختلف جیلوں ہیں میں یا در بدر ہیں۔
23اگست 2016کو لفظ پاکستان لگاکر نیا روپ دھارنے والی ایم کیو ایم سے وابستہ لیڈرز ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے آج بھی نئی غلطیاں کررہے ہیں ۔ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سب ایک ہونے کا دعویٰ تو کررہے ہیں مگر وہ اپنی ہی تشکیل کردہ رابطہ کمیٹی کے ایک دو نہیں اکثریت سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے آپ کو اپنے گھر پیر کالونی تک محدود کرچکے ہیں۔فاروق ستار کو ان ہی کارکنوں پر بھروسہ ہے جنہوں نے اپنا تن من دھن نچھاور کرکے الطاف حسین عزیز آباد کے ایک سو بیس گز کے گھر سے لندن کے عالیشان بنگلوں میںبھجوایا اور خود جیلوں میں ہی نہیں بلکہ جانوں سے بھی جانے سے گریز نہیں کیا۔اسی طرح ان کی حتمی رائے بلکہ حکم سے اختلاف کرنے والے رہنما کی اکثریت کو بھی ان ہی مخلص کارکنوں اور ووٹروں پر بھروسہ ہے ۔
ایم کیو ایم جس شان سے آگے بڑھی تھی اسی ’’بان‘‘(خصلت، عادت)کی وجہ سے اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ایم کیو ایم کی اس حالت کا سب سے زیادہ دکھ مہاجرں کو ہے ۔صرف وہی اس کے ٹوٹنے سے تشویش کا شکار نہیں جنہوں نے اس کے لیے کام کیا بلکہ وہ بھی پریشان ہیں جو اس کے متحد ہونے اور ایک عرصے تک رہنے اپنے حقوق ملنے اور اچھے دنوں کی آس لگائے ہوئے تھے ۔ حالانکہ اس ایم کیو ایم کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ان مہاجروں کا ہی ہوا ۔
ایم کیو ایم الطاف حسین کی ’’ گرفت ‘‘ میں 32 سال تک جس طرح چلتی رہی مگر دعوے جمہوریت کے کرتی رہی وہ دراصل کسی ظالم ڈکٹیٹرشپ سے کم نہیں تھی۔ہر فیصلے الطاف حسین کیا کرتے تھے مگر ان کی رابطہ کمیٹی اس کا اعلان کرتی اور اسے جمہوری عمل قراردیا کرتی تھی۔اور کوئی بھی دوسرا لیڈر ان سے اختلاف نہیں کرسکتا تھا ۔ ان کا فیصلہ ابتدائی ہو تو بھی حتمی ہوا کرتا تھا۔کیونکہ سب ہی جانتے تھے کہ ان کی کسی بھی بات کی مخالفت کرنے کا انجام کیا ہوگا۔ایم کیو ایم کے یہ لیڈرز اور کارکن الطاف حسین کی بات صرف ایک رہنما کے طور پر ہی نہیں بلکہ اپنے ’’روحانی باپ ‘‘ کے طور پر بھی تسلیم کیا کرتے تھے ۔اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب خلوص محبت کا باعث ہو ا کرتا تھا یا خوفناک انجام کا۔
فاروق ستار نے اپنے ساتھیوں خصوصاََ اراکین قومی و صوبائی اور سینیٹ کے ساتھ انتہائی غیر یقینی حالات میں دو سال قبل الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرکے اور پوری ایم کیو ایم کو سنبھال کر یقینا ایک بڑا اور ہمت والا کام کیا تھا۔اس ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ بننے کے بعد ممکن ہے کہ وہ بھی اپنے سابقہ قائد کی طرح نئی ایم کیو ایم پاکستان کا سربراہ بننا چاہتے ہوں۔تب ہی انہوں نے سینیٹ کے انتخاب کے لیے چار متوقع نشست میں سے ایک سیٹ پر اپنی مرضی کا امیدوار لانے کی ٹھان لی ہو ۔اور کامران ٹیسوری کو اس نشست پر کھڑا کرنے کے لیے ضد کی اور پوری بھی کی۔یہ اور بات ہے کہ اس ضد کے نتیجے میں اب ایم کیو ایم پاکستان واضح طور پر ایم کیو ایم فاروق ستار اور ایم کیو ایم عامر خان میں تبدیل ہوچکی ہے۔
ویسے بھی یہ ایک دن ہونا ہی تھا کیونکہ22 اگست2016کے بعد سے ہی ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت کے حوالے سے مایوس کن خبروں کی بازگشت ہونے لگی تھی۔ڈاکٹر فاروق ستار کے حوالے سے یہ تاثر عام ہے اور تھا بھی کہ وہ قائدانہ صلاحتیں نہیں رکھتے ہیں جبکہ عامرخان نے ماضی میں اپنی سربراہی میں ایم کیو ایم حقیقی کا ایک گروپ چلاکر یہ ثابت بھی کرچکے ہیں کہ ان میں ’’ لیڈر‘‘ بننے کی صلاحیت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور عامرخان دونوں ہی کچھ انفرادی نوعیت کی خوبیوں کے حامی ہیں ۔تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں کوئی خامیاں نہیں ہیں۔انسان خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان میں اگر چہ ایک نئی شخصیت کو اہمیت دینے کی وجہ سے درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں افراد کی دل آزاری ہورہی ہے مگر یہ سوچنا ان افراد کا کام ہے جو ایسا کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔اب خوف کا وہ ماحول بھی نہیں ہے کہ ہر کوئی ہر لیڈر کی جائز و ناجائز بات بحالت مجبوری سن لے اور برداشت کرلے۔ حقیقی جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پارٹیوں میں سب کی باتوں اور مؤقف کو نہ صرف تحمل سے سنا جائے بلکہ اس پر غور بھی کیا جائے اور پھر اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا جائے ۔
ایم کیو ایم اگرچہ آج اپنی خامیوں کی وجہ سے’’ زبان زد خاص و عام ہے ‘‘کہ اس کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ یہی موقع ہے کہ شخصیات پرستی کے لیے اپنی انا کی قربانی دینے کا اور پارٹی میں مکمل جمہوریت نافذ کرنے کا ۔اگر ایم کیو ایم کے بڑے رہنما بڑائی کا اور بہترین رہنماء ہونے کا ثبوت دیکر اکثر و اہم خصوصاََ سینئر ساتھیوں اور رابطہ کمیٹی کے اکثر ارکان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کی بات کو تسلیم کرلیں اور فیصلہ کردیں تو ایم کیو ایم پورے ملک کی بلا مبالغہ جمہوری پارٹی کی طرف بڑھنے لگے گیاور یہ جماعت اسلامی کے بعد دوسری جماعت بن جائے گی۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ایم کیو ایم کے خاتمے کی ذمے داری بھی ان ہی لیڈر کو قبول کرنی پڑے گی۔جن کی وجہ سے یہ سارے معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔
راقم نے کسی پارٹی کی محبت میں پہلی بار کارکنوں کو روتا ہوا دیکھا
اگر چہ ایم کیوایم کی وجہ سے اس کے متعلقین نے بہت صدمات دیکھیں ہیں مگر اس کے باوجود سب نے یہ منظر بھی یقینا پہلی بار دیکھا ہوگا کہ پارٹی میں اختلاف کے بعد اسے ٹوٹنے کے خدشات کے باعث رہنما سطح کی شخصیات رونے لگیں۔ فیصل سبزواری اگرچہ نازک مزاج ہیں لیکن سب نے جمعرات کی رات پی آئی بی کالونی میں مزاکرات کی ناکامی پر میئر کراچی وسیم اختر کو بھی رونے کی حد تک افسردہ دیکھا ہے۔پارٹی یا پارٹی کے لوگوں کی محبت میں آنسو نکلناقدرتی عمل ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کتنے ہی ایسے کارکن محبتوں کی تقسیم کے صدمے سے آنسو بہارہے ہونگے ۔اور کون ان کے آنسوئوں کو خوشی کے آنسوئوں میں تبدیل کرتا ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ اس صورتحال کے باوجود سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن واضح طور پر اب تک صرف ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں۔ایسے لوگ یقینا ہر ایک کے لیے قابل احترام ہوتے ہیں۔
سینیٹ کے انتخاب کے لیے فاروق ستار کے اختیارات کا معاملہ
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے سینیٹ ، قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر حتمی امیدواروں کے ناموں کے فیصلے کا اختیار اپنے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سمیت ہر شخص سے واپس لے لیا ہے ۔ اس لیے ڈاکٹر فاروق ستاریا کسی اور کے دستخط سے جاری ہونے والے ناموں کی نامزدگی تسلیم نہ کی جائے ۔یہ بات ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر کنور نوید کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں بتائی گئی ہے ۔اس خط کے ساتھ کنور نوید نے سینیٹ کے لیے چار حتمی ناموں سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا ہے جس کی منظوری رابطہ کمیٹی نے حتمی طور پر حاصل اختیارات کے تحت دی ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے اس مراسلے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ رابطہ کمیٹی نے نہ صرف اپنے سربراہ کے اختیارات واپس لے لیے بلکہ ان کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات کے لیے نامزد کیے گئے ناموں سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے۔تاہم دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے خط کا جواب دے دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار کے نام پر رجسٹرڈ ہے، تمام اختیارات بھی انہی کے پاس ہیں، جس ٹکٹ پر فاروق ستار کے دستخط ہوں گے وہ ہی قبول کیے جائیں گے۔الیکشن کمیشن کے اس تحریری مؤقف کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اگر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے ارکان میں تصفیہ نہ ہوسکا تو (جس کے امکان کم ہیں) رابطہ کمیٹی کے رکن اور سینیٹ کی نشست کے لیے رابطہ کمیٹی کی جانب سے نامزد کیے جانے والے بیرسٹر فروغ نسیم ہنگامی بنیادوں پر قانونی کارروائی کی طرف بڑھیں گے ۔ایسی صورت میں ایم کیوایم کی تنظیمی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی یہی نہیں بلکہ ایک نئے دھڑے کا قیام بھی ممکن ہوسکے گا۔چونکہ ایم کیو ایم فاروق ستار کے نام رجسٹرڈ ہے ۔اس لیے ایم کیوایم کے نام پر کوئی دوسرا گروپ سامنے نہیں آسکتا۔ اس کے لیے ایک نیا نام کا انتخا ب کرنا پڑے گا۔ سنڈے میگزین کی کاپی پریس جانے تک فاروق ستار اور عامر خان گروپ دونوں ہی اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے تھے ۔اس لیے حتمی بات فی الحال نہیں کی جاسکتی۔

حصہ