برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

395

قسط نمبر 123 پہلا حصہ
اپریل 1958ء میں کراچی میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ جماعت اسلامی کے لیے یہ انتخابات بہت اہمیت کے حامل تھے، اس لیے کہ کچھ عرصہ قبل ہی جماعت اسلامی اپنے اندرونی محاذ پر ایک سخت ترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ نکل تو آئی تھی مگر اس کو انتخابی سیاست میں اپنے مؤقف کو منوانا ضروری ہوگیا تھا۔ کراچی کے عوام نے اس انتخاب میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ جماعت اسلامی نے 23 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے، جن میں سے 19 امیدواروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ باوجود اس کے کہ دو تین امیدواروں کو ایک رات پہلے گھر سے اغوا کرکے نامعلوم مقام پر رکھا گیا تھا، اور دورانِ انتخاب بدترین دھاندلی اور کارکنانِ جماعت پر تشدد بھی ہوا، اس کے باوجود جماعت اسلامی کو غیر معمولی کامیابی ملی۔ (اسی انتخاب میں کراچی سے پروفیسر غفور احمد مرحوم بی ڈی ممبر منتخب ہوئے تھے )، جماعت کی اس کامیابی سے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا تھا اس بارے میں 7اور8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی شب امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ موچی گیٹ لاہور کے ایک بہت بڑے عوامی جلسے میں اس بات کا اشارہ دے چکے تھے کہ ’’ملکی حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ صبح اٹھیں تو معلوم ہو کہ بساطِ آئین لپیٹی جا چکی ہے اور اقتدار پر کوئی فردِ واحد مسلط ہے!‘‘
اور یہ وہی رات تھی جب آخری پہر اسکندر مرزا کے حکم پر ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی جاچکی تھی، دستور کو معطل کیا جاچکا تھا، مرکزی اور صوبائی حکومتیں توڑ دی گئی تھیں، اور پاکستان کے کمانڈر انچیف میجر جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور مسلح افواج کا سپریم کمانڈر مقرر کردیا گیا تھا۔ اسی رات یہ حکم نامہ بھی جاری ہوا کہ مارشل لا قوانین کے تحت عدالتیں قائم ہوں گی۔ اور نئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے اعلان ہوا کہ تمام اخبارات آئندہ احکامات ملنے تک مارشل لا پر کسی بھی نوعیت کا تبصرہ نہیں کرسکتے۔
اس دوران اسکندر مرزا اور ایوب خان نے ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکا کے نمائندے کو الگ الگ وقت میں انٹرویو دیئے اور جمہوریت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں مارشل لا کے حوالے سے کہا گیا کہ مسائل کا مقابلہ جمہوریت سے نہیں ہوسکتا۔
27 اکتوبر 1958ء کی صبح جسٹس محمد منیر کا ایک حیرت انگیز فیصلہ سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’کامیابی کے ساتھ حکومت کا تختہ الٹ دینا دستور تبدیل کرنے کا مسلمہ بین الاقوامی طریقہ ہے۔ اس کے بعد انقلاب قانون کا ماخد بن جاتا ہے اور عدالتیں اس کی معینہ حدود کے اندر کام کرسکتی ہیں‘‘۔ اس فیصلے نے ایوب خان کے جاری کیے ہوئے آرڈیننس اور فیصلوں کو قانونی تحفظ فراہم کردیا تھا۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ منسوخ شدہ دستورِ پاکستان کے تحت لوگوں کو حاصل تمام حقوق ختم ہوتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی رٹ بھی دائر نہیں ہوسکتی۔
ایوب خان نے صدر بننے کے ساتھ ہی وزیراعظم کا عہدہ ختم کردینے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی منظورِ نظر گیارہ رکنی کابینہ کا اعلان کیا۔ پہلے دن حلف اٹھانے والے آٹھ وزرا میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کابینہ کے سینئر وزیر مقرر ہوئے۔
27 اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان پورے کروفر کے ساتھ اقتدار کے راج سنگھاسن پر براجمان ہوئے۔ انہوں نے پاکستان کی صدارت سنبھالتے ہی اپنے پیشرو جنرل اسکندر مرزا کو معزول کردیا۔ اقتدار پر قبضے کے ساتھ ہی ایوب خان کا پہلا کارنامہ یہ تھا کہ کابینہ کے جو بھی آرڈیننس اور حکم نامے جاری ہوئے ان میں صرف حکومتِ پاکستان کا حوالہ دیا جانے لگا، بجائے اس کے کہ ان آرڈیننس اور حکم ناموں پر ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا ذکر ہوتا، صرف ’’حکومتِ پاکستان‘‘ تحریر ہونے لگا تھا۔
ایوب خان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’’جنرل ایوب خان کو جب اس جانب توجہ دلائی گئی کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کے بجائے صرف ’’حکومتِ پاکستان‘‘ لکھا جارہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ٹائپنگ کی غلطی (مسٹیک) ہو؟‘‘ اس پر ایوب خان کی وضاحت اس طرح آئی کہ انہوں نے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کو مخاطب کرکے کہا ’’تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی، بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر یہی طے کیا ہے کہ ’اسلامک ریپبلک آف پاکستان‘ سے ’اسلامک‘ کا لفظ نکال دیا جائے۔‘‘
جس کے جواب میں قدرت اللہ شہاب نے پوچھا کہ ’’یہ فیصلہ ہوچکا ہے یا ابھی کرنا ہے؟‘‘
ایوب خان نے نہایت غصے میں قدرت اللہ شہاب کی جانب دیکھا اور سخت لہجے میں کہا ’’ہاں ہاں، فیصلہ ہوگیا ہے۔ کل صبح پہلی چیز مجھے ڈرافٹ ملنا چاہیے، اس میں دیر نہ ہو۔‘‘
اس اقدام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنرل ایوب خان کو کس مقصد کے لیے پہلے پاکستان کی کابینہ میں شامل کروایا گیا؟ اور کن قوتوں کے اشارے پر یہ سب کھیل کھیلا جاتا رہا؟ نہایت ہوشیاری اور بیرونی سازش کے بل بوتے پر پاکستان کو اس کے اصل مقصد سے دور کردیا گیا، اور یہ سوال کھڑا کردیا گیا کہ جدوجہدِ پاکستان میں ہزاروں لوگوں کی قربانیاں کس کے لیے تھیں؟ کلمہ ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ اور اسلام کی بنیاد پر بننے والے ملک پاکستان میں اسلام کی حکمرانی ہوگی یا چوکیداروں کی؟
بیک جنبش قلم پاکستان سے اسلامی پاکستان کی شناخت غائب کروا دی گئی، اور ایسا غیر ملکی آقاؤں کی رضامندی کے بناء ممکن ہی نہیں تھا، اور اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں تھا کہ اس قسم کا نامعقول فیصلہ کسی بھی نوعیت کی جمہوری حکومت میں کروایا جاسکتا۔ چنانچہ ایک خاص مقصد اور سازش کے تحت لیاقت علی خان کے بعد وجود میں آنے والی حکومتوں کے ذریعے پہلے تو پاکستان کو طویل عرصے تک سیاسی انارکی اور عدم استحکام کا شکار بناکر جمہوریت کو مفلوج کیا گیا، اور جب عوام مروجہ ناکام جمہوریت سے تنگ آنے لگے تو پہلے سے تیار شدہ ’’وردی میں ملبوس گھوڑے‘‘ کو سیاسی اصطبل میں اتار دیا گیا۔
قدرت اللہ شہاب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس فیصلے کے ساتھ ہی اپنا استعفیٰ الگ کاغذ پر لکھ کر اپنی جیب میں رکھ لیا تھا، تاکہ بوقتِ ضرورت ایوب خان کو پیش کیا جاسکے، جس میں خرابیٔ صحت کو بنیاد بناتے ہوئے لکھا گیا تھا ’’میں خرابیٔ صحت کے باعث کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے میرا استعفیٰ منظور کرکے مجھے ریٹائر ہونے کی اجازت دی جائے۔‘‘
(مگر انہیں تحریر شدہ استعفیٰ پیش کرنے کی کبھی نوبت نہ آسکی اور ایک سرکاری ملازم اپنے اندر وہ جرأت و ہمت پیدا نہ کرپایا جو اُس وقت کا تقاضا تھا)
ایوب خان نے سب سے پہلے اخبارات پر سخت قسم کا سنسر لگوا دیا جس میں مارشل لا اور اس کے قوانین کے خلاف، یا حکومتِ وقت کے خلاف کوئی بھی بات کرنا سخت ترین جرم قرار پایا۔ یہی نہیں بلکہ اُسی دور کی بات ہے کہ چائے خانوں اور عوامی جگہوں پر تختیاں / بورڈ آویزاں کرنے کا حکم تھا جس پر تحریر ہوتا کہ ’’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔
ساتھ ہی ساتھ ایوب خان نے اپنے مارشل لا کو عوامی بنانے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر نظامِ حکومت (سسٹم) میں اصلاحات لانے کا اعلان کیا۔ ایوب خان کے خیال میں ملک کا تمام سسٹم بیکار اور فرسودہ ہوچکا ہے اور اس میں ضروری ترامیم کے بغیر ملک کو اپنی مرضی کے بغیر چلانا ممکن نہیں ہے۔ اس طرح دوسرے الفاظ میں وہ پاکستان کے ریفارمر بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے اور خبروں میں رہنے کے کچھ بہانے تھے جو کہ تراشے جارہے تھے۔ ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے جو کمیشن ایوب خان نے تشکیل دیے، ان کی تفصیل اس طرح ہے:
زرعی اصلاحات کمیشن، جہازرانی کمیشن، اسلحہ قانون کمیشن، انتظامیہ کی تنظیمِ نو کمیٹی، قومی تعلیم کمیشن، صدر مقام کے محلِ وقوع کی کمیٹی، کمیشن برائے قرضہ جات، غذائی و زرعی کمیشن، سائنس کمیشن، پولیس کمیشن، کمپنی قانون کمیشن، میڈیکل کمیشن، کھیل و ثقافت کمیشن، آئین کمیشن، قیمتوں کا تعین کرنے کا کمیشن، فلمی بورڈ، فالتو افراد (سر پلس۔ سرکاری ملازمت میں) کا بورڈ، سماجی برائی کمیشن، بجلی کمیشن، مالیاتی کمیشن، قومی آمدنی کمیشن، اقلیتی کمیشن، پریس کمیشن، شکر کمیشن، شادی بیاہ کا عائلی کمیشن وغیرہ وغیرہ۔
جبری طور پر اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی ایوب خان نے بھی وہی کچھ کیا جو اس قبیل کے دوسرے آمر کرتے چلے آئے ہیں۔ ایوب خان نے دو قوانین فوری طور پر نافذ کروائے۔ پہلا قانون ’’پوڈو‘‘ (public office disqualification order) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس قانون کا اطلاق سیاسی عہدیداروںاور سرکاری ملازمین پر ہوسکتا تھا، جس کی سزا پندرہ سال تک تھی۔
اس کے ساتھ اس قانون کا خوف دلاکر ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں پر اس سے ملتا جلتا قانون نافذ کیا جو ’’ایبڈو‘‘ (Elective bodies disqualification order) کے نام سے مشہور ہوا۔ ایبڈو کے جرم میں سزا پانے والے سیاست دانوں کو چھ برس تک کی سزا تجویز کی گئی تھی، مگر اس میں ایک رعایت یہ بھی حاصل تھی کہ سیاست دان ازخود چھ سال کے لیے سیاست سے اپنی دست برداری کا حلف جمع کروائے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے قومی و صوبائی سطح پر 98 سیاست دانوں کو (جو کسی نہ کسی وقت حکومت کا حصہ رہے تھے) نامزد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ ان میں سے 70 سیاست دانوں نے رضاکارانہ طور پر چھ سال کے لیے سیاست سے دست برداری کا اعلان کیا۔ سیاست سے توبہ کرنے والوں میں پنجاب سے میاں ممتاز دولتانہ، سندھ سے ایوب کھوڑو، سرحد سے خان عبدالقیوم خان کے نام قابل ذکر ہیں، جبکہ 28 سیاست دانوں نے اگلا رائونڈ کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی صفائی کا مقدمہ لڑا، جن میں سے 22 کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور صرف چھ سیاست دان ایسے تھے جو اس عجیب و غریب قانون کی گنگا سے ’’پاک صاف‘‘ ہوکر نکل سکے۔
ان 98 سیاست دانوں کے علاوہ بھی کم سطح یا دوسرے درجے کے دو ہزار سے زیادہ سیاست دان اس قانون کی بھینٹ چڑھے۔
جو سیاست دان’’ایبڈو‘‘ کی زد میں آئے تھے، ایوب خان ان کے خلاف تمام ریکارڈ حاصل کرکے اس کو منظرعام پر لانے کے خواہش مند تھے۔ مگر ثبوت اس قدر بودے اور لو پروفائل تھے کہ ان کو منظرعام پر لاکر سوائے جگ ہنسائی کے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ مثلاً سرکاری ٹیلی فون کا بے جا استعمال، مہمانوں کی خاطر مدارت میں سرکاری فنڈ کا استعمال وغیرہ وغیرہ۔ ملک دشمنی جیسے الزامات کی بھی جو تفصیلا ت حاصل ہوئیں اُن میں بھی کوئی جان نہیں تھی۔ چنانچہ ان کو منظرعام پر لانے کی خواہش دم توڑ گئی۔
(جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد۔ میاں طفیل محمدؒ)
(حوالہ: شہاب نامہ۔ قدرت اللہ شہاب)
(جاری ہے )

حصہ