غور کرنے والے

352

قاضی مظہر الدین طارق
ہزار کھرب روپیہ کا سوال ہے،زمین پر زندگی کہاں سے آئی؟
خالقِ کائنات اللہ ربّ العٰلمین نے قرآن میں پندرہ سو سال پہلے انسان سے کو چیلنج کیا تھا کہ’’ معلوم کرو کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے اس کی تخلیق ابتداء میں نے کیسے کی؟(سورۃ عنکبوت آیت ۲۰)۔
انسان کو اتنی ترقی اور کھربہا کھرب ڈالر لوٹانے اوربہت سے انسانوںکی اپنی پوری پوری زندگی گنوانے کے باوجود آج تک اس سوال کا جواب نہ ملا۔
کہتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء ’بگ بینگ‘ سے ہوئی۔بڑے سے بڑے سائنسدانوں کے مطابق’’ہم یہ تو بتا سکتے ہیں کہ بعدِ ’بگ بینگ‘ سکنڈ کے اربویں حصے سے کائنات کیسے ارتقاء پائی،مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ اس سے پہلے کیا تھا، اور اس کی ابتداء کیسے ہوئی!‘‘مزید کہتے ہیںبگ بینگ سے پہلے کچھ نہ تھا،یعنی اپنی بات کی خود تردید کرتے ہیں،جب کہہ دیا کہ ’’ہم نہیں بتا سکتے کہ کیا تھا!‘‘ پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ’’ کچھ نہیں تھا!‘‘
کائنات کی ابتداء کے بارے میں معلوم کرنا تو دور کی بات ہے،البتہ ان لوگوں نے زمین پر ابتدائے حیات کے بارے میں جوبہت سے نظریات پیش کیے ہیں،مگراب تک حق کے مطابق سائنسی دلائل سے حتمی طور پرصحیح ثابت نہیں کر سکے ہیں۔
انّیسویں صدی کے اوائل میں، کہا گیا کہ جیسے گندگی میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں ایسے زندگی کی ابتدا ہوئی ،مگر جلد ہی سائنسی طور پر ثابت ہوگیا کہ یہ ممکن نہیں۔
پھر بیسویں صدی کے اوائل میں’ا سٹنلے ملّر‘ نے کچھ غیر نامیاتی مرکّبات(اِن آرگنک کمپائونڈز)ایک شیشے کی صراحی میں ڈالے اور اس میں سے بجلی گذاری،ایک ہفتے بعد اس میںاس میں ایک نامیاتی مرکّب بناجو اتنانازک(اَن اسٹیبل)تھاکہ چند لمحوں بعد ہی تحلیل ہو گیا،کہاگیا کہ یہ ایک امائینو ایسڈ تھا،جس سے بعد میں پروٹین اور انزائیم بنے۔سوچیئے اگر ایک امائینو کے بننے میں ایک ہفتہ لگاجو باہرنکالتے ہی تحلیل بھی ہوگیا،ایک سادہ ترین پروٹین کی تیاری کیلئے ایسے بیس قسم کے سیکڑوں امائینو کی ضرورت پڑتی ہے۔پھر جبکہ پروٹین بھی نہیں بنا نہ خَلیہ(سَیل) بنا،تو کیا زندگی کے پہلی مرتبہ پیداہونے کا ثبوت مل گیا ؟
پھر سائنسی بنیاد پرکیا ثابت ہوا، زمین پر فطری ماحول میں تو ایک بھی امائینو نہیں بن سکتا۔بڑے دنوں بعد خود ’ملّر‘ نے یہ بات تسلیم کی کہ میں نے صراحی میںجو مرکّبات ڈالے تھے وہ زمین پر اُس وقت اِس تناسب میں موجود ہی نہیں تھے۔
علمی بدیانتی ہے کہ اب تک اسٹنلے ملّر کی کامیابی کا ڈنکا بجایاجارہاہے ،اسکولوں میں بچوں تک کو پڑھا رہے ہیں!صد افسوس۔
کچھ لوگ اب بھی پہلی مرتبہ زمین پر زندگی بننے کے ثبوت کیلئے اَندھیرے میں تیرتُکّے چلا رہے ہیں،مگر اُنکو اِسکا سِرا ہی نہیں مل رہا کہ کس چیز سے حیات کی ابتدا ہوئی۔ ڈی،این،اے /آر،این،اے/ اَمائینو یا پروٹین سے؟جبکہ انزائیم بھی پروٹین کی ایک قسم ہے۔
یہاں انسان کا سر چکرانے لگا،ایک خاص قسم کا انزائیم نہ ہو تو ان میں سے کوئی کچھ کام نہیں کر سکتا!
آر ،این ،اے نہ ہو تو کوئی انزائیم نہیں بن سکتا!!
کوئی بھی پہلے یا بعد، نہیں پیداہوسکتا!!!
توسب نے اس زمین پر ایک ساتھ نازل ہو نا تھا،بلکہ ایک منصوبہ ساز (ڈیزائینر)کو اپنے منصوبے کے مطابق تخلیق کر کے زمین پر بھیجنا تھا۔
واقعی اُس نے اِنکو آسمانوں سے نازل کیا۔
توجہ کیجیئے کس طرح!!!
زمین کی تشکیل کے بعدجب یہ گرم تھی،اِسکی فضا ’کاربن‘ اور’سلفر‘ کے زہریلے مرکبات سے بھری ہوئی تھی،آکسین زندگی کو رواں رکھنے کیلئے کافی نہ تھی ، ایسے وقت خالقِ ارض و سماء نے دو بیکٹیریہ زمین پر اُتارے۔ دو بکٹیریا نہیں! اِنکی دو نسلیں تھیں،اِنکو خالقِ کائنات نے ہی یہ صلاحیت بھی دی تھی کہ یہ اپنی نسل بڑھاسکتے تھے،پھر یہ زمین پر پانی کے ہر قطرے میں لاکھوں کی تعداد میںپھیل گئی تھیں۔
ان دونوں نے اُس وقت کے خوفناک ماحول کو آئندہ آنے والی حیات کیلئے جینے اورپنپنے کے قابل بنایا۔
’آرکیہ‘نے ’سلفر‘ کی زہریلی گیسوں سے زمین کی فضاکو صاف کیا۔’سائینو‘ نے کاربن کی گیسوں کو اس قدر محدود کیا کہ یہ زندگی کے لئے ضرر رساں نہ رہیں۔
حیرت انگیز! اِن دونوں کی نسلیں اَب بھی زمین پر موجود ہیں۔خاص طورپر ’آرکیہ‘سمندر کی گہرائیوںمیںجہاں دڑاڑوں اور آتشفشانی پہاڑوںسے لاوہ اُبل رہا ہے، درجۂ حرارت اس قدر زیادہ ہے کہ تیل اُبل جاتاہے ،قلعی (ٹِن )اور سیسہ(لَیڈ)پگھل جاتا ہے،آکسیجن ناپید،مکمل اندھیرا،اور سخت دبائو ہے ۔
یہ نہ صرف’ سلفر‘ کو استعمال کرکے خود زندہ ہیں بلکہ وہاں بسنے والی مخلوق کیلئے غذا بھی بنا رہے ہیں۔سطح زمین پر بھی یہ گرم پانی کے چشموں میں گندھک کے ساتھ موجود ہیں،یہ خلّاقیت کی اِنتہا ہے کہ اس جگہ مخلوق بھی پیدا کی ،اِنکا رزق بھی،وہ کیسا علیم و خبیر ہے !اگر وہ اِنکو یہاں نہ پیدا کرتاتو کیا ہوتا؟سارہ سمندر گندھک کے زہر سے بھر جاتا،توکیا یہ زمین زندگی کے قابل رہتی؟
جبکہ اِن دونوںکے رَکاز(فوسلز)قشرِ ارض کی ایک ہی تہہ میں ملے ہیں،اسلئے سرتوڑ کوشش کے باوجود پتہ نہیں چل سکا کہ کون کس کا جَدّ(اَینسسٹر) ہے ،تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ ارتقا ہوا۔مگرجب یہ اُنہی خصوصیات کے ساتھ آج بھی موجود ہیںتو اِرتقا ء کب ہوا؟کیا ارتقاء نہیںہوا؟
پھر وہی بد دیانتی ،ارتقاء جس کا اب تک کوئی سائنسی ثبوت نہیں مل سکا، مگر پھر بھی سائنس کی کتابوں اس طرح پڑھایا جاتا ہے جیسے یہ سائنسی حقیقت ہے ۔
کیا سائنس ثبوت کی محتاج نہیں؟؟؟؟
توجہ کیجیئے! ان کو شک کیا یقین ہوچلا ہے کہ حیات کی ابتداء زمین پرنہیںہوئی ہے ۔جب ہی توانہوں نے آسمان کا رُخ کیا ہے،آفاقی حیاتیات(اَیسٹڑوبایولوجی)کے نام سے ایک نیامضمون تخلیق کیا ہے۔ اور شہابیوں،سیّارچوں،دُمدارتاروںاور سیاروں کے چاندوںپرسیکڑوںمصنوعی سیّارچے بھیج رہے ہیں، جوکسی کے قریب سے گذر کرکسی کے مدار میں چکّر لگا کر اور کسی کے اوپر اُتر کر زندگی کا کھوج لگا رہے ہیں۔
اس شک کی ابتداء ۱۹۶۹ء؁ میں ہوئی جب آسٹریلیا کے ایک گائوں ’مارچیسَن‘میںایک شہابیہ (مِیٹیؤرائٹ) وارِدہوا اوراس کا تجزیہ’ریڈیو میٹرک ڈیٹینگ‘ سے کیا گیا تو حیرت میں ڈوبا ہوا انکشاف ہوا کہ اس کی عمرزمین کی عمر سے بھی زیادہ ہے۔یعنی یہ ہمارے نظامِ شمسی سے بہت دور کسی اور ہی نظام میں بنا۔ جب اس کی اندرونی ساخت کا مشاہدہ اور مطالعہ کیاگیاتو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیزانکشاف ہوا ،معلوم ہوا تھا کہ اس میں وہ(ملٹی اِیٹومک مالیکیولز) موجودتھے کہ جن سے بعد میںحیات کی بنیادی اِکائی، زندہ خَلیے بنے۔
پھر۱۹۹۷ء؁ میںبھی جب ایک شہابیہ(میٹیورائٹ ؛اُس سیارچے کو کہا جاتاہے جو زمین پرگر جاتا ہے!)جس کا نام(ALH-84001)رکھا گیا تھا زمین پر گرا،اس شہابیے میںکچھ بکٹیریا کے آثار پائے گئے،اور یقین کی حد تک شک ہو گیا کہ زندگی زمین پر نہیں بنی بلکہ آسمان سے نازل ہوئی۔مگر عرصے تک اس بات کو ثابت نہ کیا جا سکا۔
ان شکوک کو دور کرنے کے لئے ۲۰۰۴ء؁ میں ’اسٹار ڈسٹ‘ کے نام سے ایک خلائی جہازجو ایک سیّارچے’وائیلڈدوّم‘ سے نمونے حاصل کر کے اس میں بھی موجود حیاتیاتی مرکّبات کے ثبوت فراہم ہوئے۔
اس کے بعد تو یہ سلسلہ آگے ہی بڑتا جارہا ہے کئی ’اسپیس پروبز‘بھیجے گئے۔اسی سال یوروپیئن اسپیس ایجنسی نے ایک روبوٹک جہاز ’روزیٹّہ‘ کو ایک دُمدار تارے’چُریُموف،جِراسی مِنکو‘ کو پکڑنے کیلئے دَوڑایا،جس کی گود میں ایک چھوٹا سا روبوٹک جہاز’فیلائی‘بھی تھا۔ ’روزیٹّہ‘دس سال کا سفر کر کے نومبر ۲۰۱۴ء ؁ کو دُمدار تارے کے گرد مدارمیں گومنے لگی،اورپھر چھوٹے جہاز’فیلائی‘ کو ’چُریُموف،جیراسی مِنکو‘ کی سطح پر اُتار دیا۔ روزیٹّہ میں گیارہ اور فیلائی میںتجربے اور تجزیے کر نے کے دس آلات تھے۔
ان دونوں نے اس کی بیرونی اوراندرونی ساخت کا تجزیہ کیا اور روزیٹّہ یہ نتائج زمین پرستمبر ۲۰۱۵ء؁ تک بھیجتی رہی،جن سے انسان کومعلوم ہوا کہ اس دُمدار تارے میں وافر مقدار میںپانی موجود ہے،اس کے علاوہ بہت سے نامیاتی(آرگینک) مرکبات بھی پائے جاتے ہیں۔
۲۰۰۷ء؁ میں ’ناسا‘نے ایک جہاز’ڈان‘ کے نام سے بھیجا،پہلی مرتبہ اس کے دو اَحداف رکھے گئے تھے،پہلے اس نے ۲۰۱۱ء؁ سے ۲۰۱۲ء؁ کے درمیان چودہ ماہ تک سب سے بڑے سیّارچے’ویسٹا‘کے مدار میں گھومتا رہا،اس کی تصاویر اور تجزیہ زمین پر بھیجتا رہا۔
پھرتین سال کا مزید سفر کرکے مارچ ۲۰۱۵ء ؁ کویہ ’سیّارچوی پَٹّی‘کے سب سے بڑے وجود ایک بونے سیّارے’سیریس‘کے مدارمیںپہنچا اور اب تک اس کے اطراف گھوم رہا ہے،اس سال جون تک یہ ہم کو معلومات بھیجتا رہے گا اوراسکا ایندھن ختم ہو جائے گا توہمارا رابطہ اس سے ٹوٹ جائے گا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ربّ ،خالق،رازق اورالٰہ ماننے والے، ان سب معلومات سے کیااَخَذ کرتے ہیں!!!
٭…٭…

حصہ