نادرا کی نادر کاریاں، دفاتر کے گرد میلے کا سماں

596

زاہد عباس
پچھلے ہفتے لکھے گئے کالم میں میری ملاقات (خواب میں) حافظ نعیم الرحمن سے ہوئی۔ میرے سوالوں پر اُن کی طرف سے دیئے گئے جوابات پر نادرا دفاتر پر کیا صورتِ حال بنی، یہ دیکھنے کے لیے میں علاقائی نادرا آفس جا پہنچا، جہاں لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے یہ ٹھان لی کہ میں اس بھیڑ کو جو کسی جمعہ بازار کا منظر پیش کررہی ہے، قریب جاکر دیکھوں کہ کیا معاملہ ہے؟ جب قریب جاکر دیکھا تو شناختی کارڈ بنوانے والے عوام کا ایک ہجوم تھا۔ رش اتنا تھا کہ اگر کوئی شخص مرکزی دروازے تک پہنچنے میں کام یاب ہو بھی جاتا تو پہلے سے دفتر کے اندر موجود لوگوں کی وجہ سے اسے مجبوراً دفتر کے مرکزی دروازے پر ہی رکنا پڑتا۔ بات بھی ٹھیک تھی، جو لوگ اندر موجود تھے، جب تک وہ باہر نہ آجائیں، کوئی بھلا کس طرح اندر داخل ہوسکتا ہے! میں بڑی کوششوں کے بعد لوگوں کے ہجوم کو چیرتا ہوا دفتر کے اندر جاپہنچا۔ اندر داخل ہوتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے، ہر طرف لوگوں کا جمگھٹا تھا۔ مرد وزن اپنی اپنی باری کے انتظار میں تھے۔ جتنے لوگ زمین پر بیٹھے دکھائی دیے، اس سے کہیں زیادہ قطار میں لگے کائونٹر تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے۔ عوام کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوچکا تھا کہ قطار میں لگے اور زمین پر بیٹھے لوگ ایک ہی کام کے سلسلے میں یہاں موجود ہیں، یعنی ایک شخص قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کررہا ہے، تو دوسرا اس کی مدد کے لیے بیٹھا ہے کہ قطار میں کھڑا شخص اگر تھک جائے تو وہ اُس کی جگہ قطار میں کھڑا ہوجائے۔ گویا ایک کام کے لیے دو افراد نادرا آفس میں موجود تھے۔
اس طرح قطار میں کھڑے لوگوں کو دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آگئے جب کوئی فلم ہٹ ہوتی تو پاکستانی سنیما گھروں میں ٹکٹ کے حصول کے لیے ایسی ہی قطاریں لگا کرتیں۔ نادرا آفس میں لوگوں کے ہجوم سے بھی ایسا ہی ظاہر ہورہا تھا جیسے کسی مشہور و مقبول فلم کی نمائش جاری ہے اور وہ اسے دیکھنے کے لیے ٹکٹ کے حصول کی خاطر جمع ہیں۔ کچھ لوگ وقت پاس کرنے کے لیے موبائل پر چیٹنگ کررہے تھے، بزرگ خواتین اپنی ہم عمروں کے ساتھ گھریلو باتوں میں مصروف تھیں۔ غرضیکہ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن دکھائی دیا۔ شور شرابے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس قدر شور شرابے میں میرے کانوں میں اپنے دوست اشرف طالب کا یہ شعر گونجنے لگا ؎

اک شور یوں اٹھا کہ میرا دل دہل گیا
پھر رفتہ رفتہ آپ ہی سب کچھ سنبھل گیا

عوام کی پریشانی دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہورہا تھا۔ میں اس صورتِ حال میں کر بھی کیا سکتا تھا، سوائے خاموش رہنے کے! سو میں خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھتا رہا جو نادرا آفس میں عملے کی بدانتظامی کی وجہ سے ہورہا تھا۔ عوام میں سے کوئی بھی سکون میں نہ تھا، ہاں اگر سکون میں کوئی تھا تو وہ اس دفتر کا عملہ تھا، جو بڑ ے آرام سے لوگوں کو کائونٹر پر بلاتا اور کبھی بڑی اور کبھی بڑی گرمی سے انہیں صبر کی تلقین کرتا… ساتھ ساتھ کہتا جاتا ’’بڑے بے صبرے لوگ ہیں‘‘۔ ساری بُرائی نادرا عملے کو ان غریبوں ہی میں نظر آرہی تھی۔ اسے اس بات کا بالکل بھی احساس نہ تھا کہ لوگ گھنٹوں سے کھڑے اپنی باری کے منتظر ہیں، جو اب تک نہ آئی تھی۔ انسان کا انسان سے یہ سلوک دیکھ کر مجھے شدید غصہ آرہا تھا۔ میرا بالکل بھی یہ ارادہ نہ تھا کہ یہاں لوگوں کو کچھ کہہ کر مشتعل کروں، لیکن اتنا ضرور چاہتا تھا کہ انہیں کسی ایسے طریقے سے ڈیل کیا جائے جس سے ان کی پریشانیوں میں کمی ہو، نہ کہ اضافہ۔ سلیقے سے کیے جانے والے کام ہی پائیدار ہوا کرتے ہہں۔ نادرا آفس میں معمول کے اس کام میں اس قدر بدنظمی انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ باہر آیا تو مرکزی دروازے پر ایک الگ ہی منظر دکھائی دیا، یہاں تو پورا ٹھیلا بازار لگا ہوا تھا۔ مختلف قسم کے کھانے فروخت ہورہے تھے۔ لوگوں کا رش بتا رہا تھا کہ ان ریڑھی والوں کا کاروبار دفتر میں آنے والوں کے دم سے ہی چلتا ہے۔ بریانی، چھولے، روٹی، سگریٹ، چائے، پان… ہر چیز یہاں لوگوں کی تواضع کے لیے موجود تھی۔ یہ ماحول کسی بڑے ریلوے اسٹیشن کا منظر پیش کررہا تھا۔ اتنی دیر یہاں رہ کر میں بہت کچھ دیکھ چکا تھا۔ اب میرے پاس دو ہی راستے تھے، خاموش ہورہوں یا پھر اس پر آواز اُٹھائوں۔ چناں چہ میں نے عوام کے ساتھ ہونے والے اس ناروا سلوک پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔
قارئین! اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ میں خود نادرا آفس آکر لوگوں کی مشکلات کا جائزہ لوں تاکہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوسکے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے کسی ایسے شخص کی تلاش شروع کردی جو مجھے میرا شناختی کارڈ بنوانے میں مدد دے (میں نے فرضی طور پر معلومات کی حد تک شناختی کارڈ بنوانا تھا)، لہٰذا میں اس جستجو میں دفتر کے اندر اور کبھی باہر چکر لگانے لگا اور اپنی نظروں کو چاروں طرف گھماتا رہا، مجھے اس بات کا پوری طرح یقین ہوچکا تھا کہ یہاں پر کام گھنٹے کا نہیں بلکہ کئی گھنٹوں کا ہے، اس لیے میری ساری توجہ اس طرف تھی کہ کوئی مجھے اُس راستے کا پتا بتادے، جس پر چل کر میں منزل تک پہنچ جائوں… (یعنی فرضی شناختی کارڈ بنوانا، وہ بھی آرام وسکون کے ساتھ) میرا ارادہ صرف اس بے ترتیبی کو سمجھنا تھا۔ میرے ذہن میں کئی قسم کے سوالات ابھررہے تھے کہ ایک نوجوان میرے قریب آکر بولا: ’’انکل،کیا ہوا پریشان لگ رہے ہو؟‘‘
آواز سنتے ہی میں نے سارا مسئلہ ایک آہ کی صورت فوراً اُس کے سامنے رکھ دیا۔ میری رُودادِ غم سن کر اُس نے مجھے ایک بڑی اہم بات بتائی جو میں نے غور سے سنی اور اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔ شام ہوتی جا رہی تھی، میں اس کی بات پر مطمئن ہوکر گھر کی جانب چل دیا۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ نے مجھے تھکاکر رکھ دیا تھا، اس لیے جلد سے جلد گھر پہنچ کر آرام کرنا چاہتا تھا۔ نوجوان کے بقول صبح فجر سے پہلے آنے والے کو ٹوکن ملتا ہے، دیر سے آنے والوں کا کام نہیں ہوسکتا، جس کے پاس ٹوکن ہوگا، وہی قطار میں کھڑا ہوسکتا ہے، ورنہ بغیر ٹوکن کے یہاں آنا بے کار اور ٹائم خراب کرنے والی بات ہے، آپ کو میرا مشور ہ ہے صبح صادق آکر نادرا دفتر کے باہر بیٹھ جائیں، جب ٹوکن ملنے کا وقت شروع ہوگا تو پہلے آنے کی وجہ سے ٹوکن مل جائے گا۔ نوجوان نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہا کہ میری بات پر عمل کریں اور یہی طریقہ اپنائیں۔ اگلے دن مجھے ایک بڑا محاذ سر کرنا تھا، اس لیے رات کو مشاعرے میں جانا منسوخ کرکے جلد سونے کو ترجیح دی تاکہ فجر سے پہلے نادرا کے آفس جاکر ٹوکن لے سکوں۔
اگلی صبح منہ اندھیرے، بغیر منہ دھوئے نادرا آفس پہنچ گیا اور نوجوان کی بتائی ہوئی مقررہ جگہ پر جاکھڑا ہوا۔ مجھ سے پہلے کئی لوگ وہاں موجود تھے، مجھے اس بات کی تسلی تھی کہ جلد آنے کی وجہ سے مجھے ٹوکن ضرور ملے گا۔ اب میں اور میرے ساتھ بیٹھے لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی اور کام نہ تھا کہ صبح آٹھ بجنے کا انتظار کیا جائے۔ میں سوچ رہا تھا کہ کب سورج نکلے اور دفتری عملہ آکر ہمیں ٹوکن دے۔ وقت گزاری کے لیے لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے، ہر شخص کی اپنی ایک کہانی تھی۔ ایک شخص احسان نے بتایا کہ میں نے تو نادرا دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر اپنی جوتیاں تک گھس دیں لیکن میرا کام نہ ہوا، اب کسی نے ٹوکن کے ذریعے کام کا کہا ہے، مجھے ٹوکن اپنے بیٹے کے لیے چاہیے، اس لیے یہاں بیٹھا ہوں۔ وہاں موجود ایک ادھیڑ عمرشخص نے مجھے بتایا کہ اسے اپنی بیٹی کا رجسٹریشن فارم بنوانا تھا، کئی روز دفتر کے دھکے کھانے کے بعد بالآخر ایجنٹ کو 1500روپے دے کر ٹوکن حاصل کرنے کے بعد مسئلہ حل ہوا۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ نادرا عملہ اور ایجنٹوں کے درمیان رسّاکشی جاری ہونے کی وجہ سے اکثرکام خراب ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ پچھلے دنوں ایک ایجنٹ اور نادرا کے ایک افسر کے درمیان رقم کے لین دین کے تنازعے پر میری بیٹی کا رجسٹریشن فارم منسوخ کردیا گیا جو بعد ازاں میں نے ملیر ڈسٹرکٹ آفس سے کلیئر کروا یا۔ ایک غریب مزدور سے میں نے ازراہ ہمدردی اس کام کی نوعیت معلوم کی جس کے نہ ہونے پر وہ اس قدر بددل تھا، کہنے لگا: ’’بھائی، میرے شناختی کارڈ میں میرے والد کے نام کے ساتھ اضافی نام لگادیا گیا، اب میرے شناختی کارڈ کی میعاد ختم ہوچکی ہے، میں نے دوبارہ شناختی کارڈ بنانے کو دیا تو اپنی غلطی میرے متھے لگا کر میری درخواست پر اعتراض لگا دیا گیا۔ نہ کارڈ بنتا ہے نہ اعتراض ختم ہوتا ہے، مجھے دنیا میں اس کے علاوہ اور بھی کام ہیں، روزی کمائوں یا ان چکروں میں پڑوں! میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ شناختی کارڈ سے زیادہ اہم میرے بچے ہیں، لہٰذا میں ان کی روزی روٹی کو ترجیح دیتا ہوں، کارڈ کا کیا ہے، ویسے بھی ہم بغیر کارڈ کے دنیا میں آئے تھے، واپس بھی چلے جائیں گے، اللہ کے دربار میں جانے کے لیے تو کسی نادرا آفس میں انٹری کروانے کی ضرور ت نہیں‘‘۔ اس شخص کی دکھ بھری داستان سن کر مجھے اس پر ترس آرہا تھا، افسوس بھی ہورہا تھا کہ اس کے مسئلے پر حکام بالا کو توجہ دینی چاہیے تھی، کیوں نہ دی گئی یہ سمجھ سے باہر ہے۔ اس شخص کا وہ جملہ ’’خدا کے دربار میں جانے کے لیے کسی شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘ میرے کانوں میں اب تک گونج رہا تھا۔ میرے قریب ایک بزرگ بھی تھے، انہوں نے بتایا کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، اپنے جاننے والوں کا کام فوراً ہوجاتا ہے، غریب کی کوئی نہیں سُنتا، یہاں ٹوکن دیے نہیں بلکہ فروخت کیے جاتے ہیں، ایجنٹ سے ملو،گھر بیٹھے پیسے لے کر ٹوکن آپ کو لا دے گا۔ میں نے ان صاحب سے کہا: ’’بزرگو، دفتری عملہ آتا ہے تو ٹوکن ہمیں بھی مل جائے گا، پریشان نہ ہوں‘‘، تو وہ بزرگ کہنے لگے: ’’ میاں کیا پہلی مرتبہ آئے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں‘‘، تو بولے ’’تبھی تو ایسی باتیں کررہے ہو بھائی، کوئی ضمانت نہیں کہ ٹوکن ملے یا نہ ملے۔‘‘
مجھے ان کی باتوں سے بے چینی ہونے لگی، میں نے کہا ’’ایسا نہیں ہوگا۔‘‘
ہماری بات چیت جاری تھی اور وقت گزرتا جارہا تھا۔ اب وہ مرحلہ آنے والا تھا جس کے انتظار میں لوگ صبح سے ہی یہاں آکر جمع تھے۔ کچھ خواتین بھی ہمارے سامنے والی دیوار کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔ میں دل ہی دل میں نادرا کے نظام کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ یہاں کئی راز، کئی بند گرہیں کھل رہی تھیں، جنہیں جان کر مجھے بہت افسوس ہورہا تھا۔
باتوں باتوں میں سورج نکل چکا تھا، قریباً آ ٹھ بجے سے کچھ پہلے سب کو ایک ایجنٹ کا دیدار نصیب ہوا۔ اُس نے بڑی تیزی کے ساتھ واقعی 1500سکہ رائج الوقت لے کر ٹوکن تقسیم کیے۔ اب مجھے یہ بات کنفرم کرنی تھی کہ ٹوکن مافیا کس حد تک نادرا آفس کے عملے کے ساتھ کرپشن میں ملوث ہے۔ میرے مشاہدے میں آنے والی ہر بات سچی ثابت ہورہی تھی۔
قارئین!آپ کو یہ سن کر انتہائی دکھ ہوگا کہ صرف ایک ہی نادرا آفس نہیں بلکہ کراچی شہر کے تمام دفاتر میں یہ حق تلفی کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نادرا کے ایک ناراض ملازم نے بتایا کہ ہمارے تمام ہی افسران اس بہتی گنگا میں اشنان کررہے ہیں، ایجنٹ اور افسران کی اس کرپشن میں عوام کچلے جارہے ہیں، اگر ایجنٹ افسر کو طے کی گئی رقم نہ دے تو فارم پر کوئی بھی اعتراض لگاکر فارم مسترد کردیا جاتا ہے، اس مافیا کی بلا سے درخواست دہندہ جتنے مرضی دھکے کھائے۔ زیادہ تر اعتراض کچی آبادی کے مکینوں پر لگائے جاتے ہیں، جب کہ افغانیوں کے شناختی کارڈ پر رشوت کا ریٹ سب سے زیادہ ہے، یعنی یہ رقم ہزاروں تک وصول کی جاتی ہے، کسی بھی غیر ملکی کو پاکستانی بنانے کا یہ مکروہ دھندا شہر بھر کے نادرا دفاتر میں چوری چھپے زور وشور سے جاری ہے۔
کراچی میں قائم کچی آبادیوں کو نادرا نے ریڈ زون میں ڈال رکھا ہے، جب کہ ان آبادیوں میں بسنے والے لاکھوں شہریوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ان علاقوں میں رہنے والوں کو اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ وہ غریب کچی آبادیوں کے مکین ہیں، درخواست دہندہ سے تیس سے چالیس سال پہلے کے کاغذات کے ساتھ پرانا یعنی پیلا شناختی کارڈ بھی طلب کیا جاتا ہے اور اس طرح اُس کی شناخت مشکوک بنادی جاتی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ میں جتنے دن نادرا دفاتر میں لوگوں سے معلومات حاصل کرنے گیا، شہر کراچی میں بسنے والے کسی امیر کبیر شخص کا دیدار نصیب نہ ہوا، اور نہ ہی کوئی لمبی گاڑی میں بیٹھے شناختی کارڈ کے دفتر آتا دکھائی دیا۔ نہ جانے ان امیروں کے شناختی کارڈ کن دفاتر سے بنتے ہیں! شاید اس کلاس کے لیے کوئی الگ قانون بنادیا گیا ہو۔
نادرا جو کہ آج Online محکمہ ہے، وہاں لوگوں کو پریشان کیا جانا حیران کن ہے۔ ہر شہری جانتا ہے کہ آن لائن سسٹم کے تحت اگر نادرا مختلف کلیکشن پوائنٹ بنادے تو دفاتر سے رش ختم ہوجائے گا اور اس طرح کرپشن مافیا اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نادرا کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ ہر علاقے میں قائم یونین کونسل دفاتر میں اپنا ایک مرکز بنادے۔ درخواستوں کی وصولی جب یونین کونسل میں ہوگی تو لازمی طور پر نادرا آفس سے قطاروں کا خاتمہ ہوگا۔ یو نین کونسل دفاتر سے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور نکاح نامے کا اجرا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ طریقہ کام یاب ہے۔ حکومت عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے نہ کہ مشکلات۔ نادرا حکام کو اس پر فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت لوگوں کو قطاروں میں کھڑا کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرے، کچی آبادیوں کے نام پر طبقاتی تفریق کو ختم کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے، جس کی بنیاد پر لوگوں میں تیزی سے امیر غریب کا فرق اور احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ امید ہے کہ نادرا کے اعلیٰ حکام ضرور ان مسائل پر سر جوڑ کر بیٹھیں گے تاکہ اس حساس ادارے کو کرپشن جیسے نا سور سے بچایا جاسکے۔
ملک میں جاری آپریشن، سیاست دانوں کی کوتاہیاں، عوام کی پریشانیاں اور آج ملک کی سرحدی صورتِ حال اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ تمام اداروں، خاص طور پر نادرا کے بدعنوان عملے پر کڑی نظر رکھی جائے، ایسا نہ ہو کہ پھر کسی غیر ملکی دہشت گرد کی جیب سے وطن عزیز کا شناختی کارڈ برآمد ہو!!

حصہ