کینو کے خواص و فوائد

1712

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خوشبو کے لحاظ سے عمدہ پھل قرار دیا ہے، اور اس کی خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اسے عطریات میں شامل کرتے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ مومن جو قرآن پڑھتا ہے اُس کی مثال اترج کی طرح ہے جس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے اور ذائقہ بھی لطیف اور لذیذ ہوتا ہے۔‘‘ اترج میں بے شمار فوائد ہیں کیونکہ یہ دل کے دورے کی شدت کو کم کرتا اور دل کو مضبوط بناتا ہے۔
کینو (اترج) چار اشیا کا مرکب ہے: چھلکا، گودا، جوس، بیج۔ اور ان چاروں میں ہر ایک کے فوائد علیحدہ، بلکہ اس میں بے کار کوئی چیز نہیں۔ کینو دل اور معدہ کو طاقت دیتا ہے، پیاس کو بجھاتا ہے، منشیات کے برے اثرات کو دور کرتا ہے۔ اس کے چھلکے کا جوشاندہ پکاکر ہینگ ملا کر پینے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ پیاس کی شدت کو کم کرنے کے لیے کینو کا عرق گرم کرکے شہد ملا کر دیا جاتا ہے۔ کینو میں آئسیلک ایسڈ معمولی مقدار میں پایا جاتا ہے، جن لوگوں کو گردوں کی تکلیف یا پیشاب میں جلن محسوس ہوتی ہو، وہ زیادہ مقدار میں کینو کھائیں تو ان کی جلن میں افاقہ ہوسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کینو کھانے سے وبائی امراض کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہوتی ہے، اس کے چھلکے اور پتّوں کا تیل جراثیم کُش ہے۔ کینو خون کو صاف کرتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے۔ اس کا عرق مفرح ہے۔ کھانسی، بلغم، ذیابیطس، جگر اور دل کی خرابیوں میں بڑا مفید ہے۔ صفرا کو دور کرتا ہے۔ جن بچوں کو کمزوری اور اسہال ہمیشہ رہتے ہیں ان کو کینو کا عرق ابلے پانی میں ہم وزن ملا کر چھان کر ہر تین گھنٹے بعد ایک چمچہ پلانا فائدے کا باعث ہوتا ہے۔ کینو کا چھلکا سُکھا کر دینا قے کو روکتا ہے اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہے۔ چہرے کے کیل مہاسوں پر چھلکے کو رگڑنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ کینو کے پھول ہسٹریا، گھبراہٹ اور اعصابی خلل کے لیے ایک مفید دوائی ہے۔ گٹھیا اور نقرس کے مریضوں کے لیے چھلکے سُکھاکر استعمال کرانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ پیس کر استعمال کرنے سے بدہضمی رفع ہوجاتی ہے اور پیٹ کی جلن کم ہوجاتی ہے۔ کینو کے تیل کو زیتون کے تیل میں ملا کر داغ پر لگانے سے فائدہ ہوتا ہے، اور اس کے تیل کی مالش جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔ جمال گوٹہ، کسٹرآئل اور اس قسم کے دوسرے زہروں کا اثر زائل کرنے کے لیے کینو کا عرق پینا مفید ہے۔ سر میں رگڑنے سے بفہ ختم ہوجاتی ہے۔ کینو کا عرق، عرقِ گلاب اور گلیسرین میں ملا کر چہرے کے کیل اور ہاتھوں کے کھردرے پن کو دور کرنے کا ایک مشہور نسخہ ہے۔ کینو کی خوشبو لطیف، اور ذائقے میں یہ مفرح اور طبیعت کو بحال کرنے والا ہے۔ چھلکے کی خوشبو عمدہ، گودے کا ذائقہ اچھا اور اس کے بیج زہر کا تریاق ہیں۔ اگر اس کے فوائد پر دوبارہ توجہ کریں تو یہ بالکل اس حدیث کی تصویر نظر آتا ہے جس کے مطابق قرآن پڑھنے والا مومن کینو کی مانند صفات کا حامل ہے اور اسے دیکھنا بھی فرحت کا باعث ہوتا ہے۔ کینو کے چھلکے کو پیس کر شہد کے ساتھ اگر معجون بنائی جائے تو یہ قولنج کی کمزوری دور کرنے کے علاوہ بھوک بڑھاتی ہے، پیٹ کے ریاح کو خارج کرتی اور دماغ کو طاقت دیتی ہے، اور رنج و غم، پریشانی اور نقاہت کو دور کرتی ہے، اور خاص طور پر سر درد، متلی، چکر، قے میں مفید ہے۔ اعصابی دردوں خاص طور پر کینسر کی وجہ سے ہونے والے شدید درد میں استعمال کرنا مفید ہے۔ کینو کا چھلکا پانی میں اُبال کر دینے سے آنتوں کی حرکت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے پتّا صفرا پیدا نہ کررہا ہو تو چھلکے کا جوشاندہ اسے تحریک دے کر پیدائش میں اضافہ کرتا ہے۔

کارٹونی ہیرو

تنویر فاطمہ
سردیوں کی ٹھٹھرتی راتیں ہیں، ہُو کا عالم ہے، اہالیانِ پاکستان گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ فرح اپنے نوٹس لینے کے لیے دوسرے کمرے میں جاتی ہے اور دروازہ کھولتے ہی دھک سے رہ جاتی ہے، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔
ننھی بچی فاطمہ ہیٹر کے آگے خشوع و خضوع سے بیٹھی ہے۔ دونوں ہاتھوں سے رام رام کررہی ہے۔ جی ہاں وہ آگ کی پوجا کررہی ہے۔
’’فاطمہ…!‘‘ فرح کی آواز گہرے کنویں سے برآمد ہوتی ہے۔ وہ ہولے سے پیچھے دیکھتی ہے۔ ’’یہ کیا کررہی ہو؟‘‘
’’آپی! وہ بھی تو ایسا ہی کرتا ہے ناں… وہ فلاں کارٹونز میں بھی تو ایسا کرتا ہے‘‘۔ فرح کا دل چاہا کہ اہلِِ وطن کو چیخ چیخ کر بتائے کہ بچوں کو مسلمان بنا لیں یا بچوںکو کارٹونز دکھا لیں۔
دوسری طرف ایک نامی گرامی اسکول میں پڑھنے والی ننھی بچی رات کو سونے سے قبل کارٹون ہیرو کو خدائی مقام دے کر اپنے بابا سے اُس کی شان بیان کرتی ہے۔ انتہائی ملحدانہ، نظریۂ الحاد کی بدبو سے بسا ہوا جملہ اس بچی کی زبان سے ادا ہوتا ہے تو بابا کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے۔ بابا دینی مزاج کے حامل ہوتے ہیں اس لیے اُن کی رات کروٹیں بدلتے گزرتی ہے۔ اگلے دن فوراً اکیڈمی کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں باقاعدہ کارٹون کلاس ہوتی ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ بچی اپنے حقیقی ربِّ کریم کو نہیں جانتی، نئے کارٹونی ہیرو کو خدا مانتی ہے جو سب کچھ کرلیتا ہے، جو ہر چیز پر قدرت رکھتا دکھائی دیتا ہے۔ جب چند دن قبل ان واقعات پر مشتمل ’’کلاس‘‘ میں بات رکھی گئی تو ایک خاتون کا کہنا تھا کہ کبھی ذہن میں ہی نہ آیا کہ بچوں کو اس سے بھی روکنا چاہیے۔ دوسری نے کہا کہ یہ بھی کوئی روکنے ٹوکنے والی بات ہے! بچے پھر کیا دیکھیں؟ ذرا سوچیے کیا ہر کارٹون میں میوزک نہیں ہوتا؟ کیا وہ ننھے معصوموں کے شفاف دلوں میں نفاق نہیں بھرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غنا (گانا وغیرہ) نفاق اُگاتا ہے۔‘‘
کیا کارٹونز میں بے حیائی و عدم لباسی کا سیلاب نہیں ہوتا؟ کیا حیا باختہ مناظر نہیں ہوتے؟ کیا اس طرح بچوں کو بے حیائی کا عادی نہیں بنایا جارہا؟
کارٹونز میں بدتمیزی، مائوں سے چیخ و پکار کی ادائیں نہیں سکھائی جارہیں؟ کیا بچے اونچی آواز میں بولنا، دھاڑ دھاڑ کر بولنا ایک فیشن نہیں سمجھتے؟ کیوں کہ اُن کے کارٹون ہیرو ایسا ہی کرتے ہیں۔ کیا یہ کارٹونز بچوں سے ان کے اصل ہیرو نہیں چھین رہے؟ ننھے مجاہد معاذؓ، معوذؓ، زبیر بن عوامؓ، معاذ بن جبلؒ، خالد بن ولیدؓ، ٹیپو سلطانؒ کو بچے نہ جانتے اور نہ پہچانتے ہیں۔ اگر والدین، اساتذہ اور میڈیا امتِ محمدیؐ کے ہیروز کی شان یاد دلائیں اور انہیں رول ماڈل کے طور پر پیش کریں تو یقینا بچے ان کی طرح بننا چاہیں گے۔کیا کارٹونز غیر حقیقت پسندانہ رویہ نہیں سکھاتے؟ کیا کارٹونز یہ نہیں سکھاتے کہ ماں کے ساتھ بدتمیزی کرو، ناراض رہو، وہ بھی اس بات پر کہ وہ تمہیں ڈھیروں ڈھیر من چاہی شاپنگ نہیں کروا سکتی؟ اسلام کی پاک باز بیٹیوں کو کارٹونز یہ نہیں سکھاتے کہ شن چین کی ماں کی مانند ہو تو ایسی نہ رہو۔ اس کی ہمسائی جو بے حیائی کا مرقع ہے اس کی تلقین پر شن چین کی ماں کی مانند ہمسائی کی مان لو۔ ویسے ہی حیا کے جنازے نکالو اور کوئی برائی کی تلقین کرے تو فوراً مان جائو۔ کیا کارٹونز ڈانس نہیں سکھاتے؟ کیا کارٹونز بچوں کی معصومیت سلب نہیں کرلیتے کہ وہ اپنی ماں، خالہ، پھپھو کی جانب اشارہ کرکے ہنستے ہیں اور ان کی توجہ اُن چیزوں پر ہوتی ہے جن کو کارٹون اجاگر کرتے ہیں۔ اور پھر پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تب ہم کہتے ہیں: ہائے آج کل کے بچے توبہ… ہائے یہ اتنا بدتمیز کیوں ہوگیا ہے… اس نے جینا دوبھر کردیا ہے… ہائے ایسے کام… ہائے ہم نے ایسا سوچا تک نہ تھا… ہائے اس نے ماں باپ کی عزت کا بھی بھرم نہ رکھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر بچہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں، اس کی فطرت تو وہی ہے جس پر اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا فرماتا ہے۔‘‘
بچے سب کے سانجھے، یکساں، شفات، پیار کے مستحق اور قومی و ملّی اثاثہ ہیں۔ چنانچہ بے پناہ محبت، خیر خواہی، خلوص اور داعیانہ تڑپ سے ان کی ایسی تعلیم و تربیت کی جائے کہ اس میں حکمت و دانائی کا کوئی نہ کوئی پہلو ہو۔ اس لیے بچوںکو دکھائے جانے والے کارٹونز پر کڑی نظر رکھیں۔ نیٹ پر اچھے کارٹونز اور بچوں کی اخلاقی کہانیاں وڈیو کی شکل میں موجود ہیں جو بچوں کو دکھائی جاسکتی ہیں۔
آج کل کی مائیں پڑھی لکھی ہیں، وہ بچوں کو خود کتابوں اور رسالوں سے اچھی کہانیاں پڑھ کر سنائیں۔ بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے ایسے مواقع بہترین ہوتے ہیں۔ٹی وی چینلز کو بھی پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ بچوں کے لیے اچھے پروگرام تربیت دیں۔ ترکی میں کارٹون سیریز ’’ماں‘‘ بھی بچوں کے لیے اچھی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی کارٹون سیریز بنائی جاسکتی ہیں۔ کاش حکومتوں میں رہنے والی جماعتیں اس پر توجہ دیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، ہماری نسلوں کے مستقبل کی بات ہے۔ عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ ووٹ دے کر کس کو اقتدار میں لانا ہے… کیا اُن کو جنہیں صرف اپنی جائدادوں اور بینک بیلنس بڑھانے کی فکر ہے، یا پھر انہیں، جنہیں قوم کا مستقبل عزیز ہے!!

حصہ