قلم لکھے بھی تو کیا؟۔

284

عاصم خان
کیسے لکھوں؟ کیوں لکھوں؟ کس کس کے لیے لکھوں؟ جن کے لیے کئی نے لکھا اُن کا کچھ بنا…؟ نہیں بنا کچھ بھی۔ مظلوموں کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی، حلق بھی ہاتھ جوڑ کر ذی نفس سے پناہ مانگنے لگا کہ کیوں بے حسوں، بے ضمیروں کے معاشرے میں مجھے تھکاتے ہو، کیا بھٹو خاندان سے ہو…؟ نہیں۔ پھر رائے ونڈ سے تعلقات…؟ ہرگز نہیں۔ پھول والوں سے جان پہچان…؟ نہیں بس ان سے سلیوٹ کا رشتہ ہے۔ اچھا کالے کوٹ والوں سے کوئی ڈاک خانہ ملاؤ تو شاید انصاف ملے۔ بولا: صاحب کبھی گھر کا کوئی غائب ہو یا بے گناہ مار دیا جائے تو پوچھوں گا کہ مشورے کی فیکٹریاں چلانے والے کیسے لگتے ہیں۔ جھک گیا سر، کہانی کیا خاک معلوم کرتا، بس آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ مشہور زمانہ نقیب قتل کیس کے بعد سہراب گوٹھ ایک بار پھر عالمی ذرائع ابلاغ کی نگاہوں کا مرکز بنا تو مقامی کیوں نہ پہنچتے۔ ڈبے گھمانے، چھتری والی گاڑیاں رکھنے والے تمام ہی چینلز سہراب گوٹھ ملک آغا ریسٹورنٹ کے ساتھ سروس روڈ پر ڈیرہ جما کر بیٹھ گئے۔ پہلے روز دھوپ میں کام کرنا پڑا لیکن دوسرے روز محسود قبائل کو نرم ونازک مزاج میڈیا ورکرز پر رحم آیا اور تمبو گاڑ کر سایہ کردیا گیا۔ پھر تو جی چائے، سموسے اور جوس سے تواضع دوسرے دن سے اگلے پانچ روز تک معمول بن گئی۔ شعر میں ترمیم کے ساتھ یہ مصرع فٹ بیٹھتا ہے۔ نقیب کہہ رہا ہے کہ

ہم تو نقیب بدبخت تھے لیکن جرگہ کی قسمت اچھی تھی
لوگ بھی آئے ، گرجے برسے ، میلے صبح و شام ہوئے

دو دن تک روایتی چینل رپورٹنگ سے اکتاہٹ ہوئی تو اچانک تین برس سے سویا ہوا اخباری رپورٹر جاگ اٹھا۔ دریوں پر پیاروں کی تصاویر اٹھائے بے بس لوگوں کے سامنے آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا۔ عجیب بے ہودہ سا سوال کر بیٹھا کہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ جواب ملا: پچھلے چار سال سے انصاف مانگنے ہر اُس در پر جا رہے ہیں جہاں مدھم سی بھی امید جاگے۔ عدالتوں، تھانوں، قلعہ نما ہیڈ کوارٹرز سے لے کر کالے، نیلے، پیلے لوگو دکھانے والے اداروں تک۔ بلدیہ ٹاؤن کے چار سال قبل اغوا کیے جانے والے ہدایت اللہ کی بہن نے مرے ہوئے نقیب محسود کو مسیحا قرار دے دیا۔ کہنے لگی کہ بھائی یقین کرو مجھے ایسا لگا کہ شاید رب نے ہماری اس نوجوان کے ذریعے سن لی، پہلی بار اعلیٰ پولیس افسران کے ماتحت افسران نے براہِ راست رابطہ کیا، پوری معلومات حاصل کیں۔ میں اس بہن کے چہرے پر برسوں بعد آنے والی اس خوشی کو کافور کرنا نہیں چاہتا تھا، سو خاموش ہی رہا۔ گلشن معمار کا نوجوان اپنے سگے بھائی کی تصویر اٹھائے ایسے گھومتا دکھائی دیا جیسے میلے میں ماں سے بچہ بچھڑ جائے تو وہ پھٹی نگاہوں سے تلاشتی ہے۔ محمد نور نامی نوجوان مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود جان کا جسم سے رشتہ برقرار رکھنے کے لیے سیمنٹ کا ڈپو چلاتا تھا۔ شعیب شوٹر کے نام سے شہرت پانے والے پولیس افسر نے رقم کا تقاضا کیا، نہ دینے پر اٹھا لیا اور آج تک نہ نوجوان کا اتا پتا، نہ ہی شعیب شوٹر کا۔
لیاری سے آنے والے بابا جی آنکھوں میں شکستگی کی زردی سجائے، کپکپاتے ہاتھوں سے میرا بازو تھام کر بولے: ’’واجا ہمارا بھی بات سن لے‘‘۔ پلٹا تو گہرے گندمی رنگ پر سجی ہلکی سفید داڑھی نے آئینہ دکھا دیا۔ مستقبل کو جھٹک کر پوچھا ’’جی بابا بتائیے یہ تصویر کس کی ہے؟‘‘ سوال زبان سے اور تیر کمان سے نکل جائے تو واپس نہیں آتا۔ دونوں ہی کتنی تکلیف دیتے ہیں باباجی کے جواب سے اندازہ ہوگیا۔ باباجی نے کمزور دانت زور سے کچکچائے اور بولے ’’یہ جانور ہے، اس کے لیے انصاف مانگنے آیا ہوں لیاری بغدادی سے۔ غلطی سے میرا بیٹا تھا۔ اس کو پولیس کسٹڈی میں مارا گیا۔ بولو چینل والے بابو! واپس لادو گے میرا بیٹا؟ ابھی تو بڑی بڑبڑ کررہے تھے، تم سب کے سب ملے ہوئے ہو، سب قاتل ہو‘‘۔ میں ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔ مجمع نے تالیاں پیٹنی شروع کردیں۔ باباجی کا غالباً دوسرا بیٹا ہی ہوگا، باپ کو چپ کراتے ہوئے مجھ سے معذرت کرنے لگا۔
دوپہر کے وقت سورج عین سر پر… انصاف کی آوازیں چاروں طرف… بے گناہوں کو مارنے والوں کو سزا دینے مطالبہ… قاتل ہونے کا صوتی سرٹیفکیٹ ملا تو دماغ کا فیوز اڑ گیا۔ مجمع کو چیرتا آگے بڑھا اور تیز قدموں سے جرگہ گاہ سے نکلنے کی تگ و دو کرتا رہا۔ مجمع کی آوازیں سنسناتی گولیوں کی طرح سماعتوں سے ٹکراتی رہیں۔ مجمع چیرنے میں کامیاب ہوا اور لپک کر ڈی ایس این جی وین (ٹی وی چینل کی وین) کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔
40 منٹ بعد دوبارہ سینٹرل نیوز روم سے اگلی ہدایت لیتے ہوئے ریٹنگ کا بھوکا رپورٹر بن گیا۔ کراچی سے جرگہ سمٹے ہفتے سے زیادہ وقت ہوگیا ہے۔ یہاں سنانے والے وہاں اسلام آباد جاکر بیٹھ چکے ہیں۔ شاید انہیں وہاں بھی کسی ایسے شخص کی تلاش ہو جو آلتی پالتی مار کر ان کے سامنے بیٹھے، دکھ درد سننے، آواز پہنچانے کا دعویٰ کرے… اور جب آہوں، سسکیوں کا شور بڑھے تو ننھا بن کر بس سطحی سی تحریر لکھے اور تعریفی کلمات سمیٹنے میں لگ جائے۔
مجھے لکھنے کا مشورہ دینے والے اب بھی کہیں گے کہ لکھو عاصم تم لکھو۔

حصہ