رسا چغتائی کی یاد میں ادارہ فکر نو کا تعزیتی ریفرنس اور مشاعرہ

418

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ادارۂ فکرِ نو کے زیر اہتمام رسا چغتائی کے لیے تعزیتی ریفرنس اور مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں رسا چغتائی کی بیٹی نواسی اور بیٹے نے بھی شرکت کی۔ اس پروگرام میں رسا چغتائی کی نواسی نے رسا چغتائی کی ایک خوب صورت غزل ترنم کے ساتھ سنا کر کافی داد وصول کی۔ تقریب کے دو حصے تھے دونوں کی صدارت رشید اثر نے کی۔ سعید الظفر مہمان خصوصی تھے‘ اکرم کنجاہی مہمان اعزازی اور حامد اسلام خان مہمان توقیری تھے‘ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ یوسف چشتی نے نعت رسولؐ پڑھنے کی سعادت کی حاصل کی اس موقع پر ساقی فاروقی اور رسا چغتائی کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ رسا چغتائی پر گفتگو کرتے ہوئے انورانصاری نے کہا کہ وہ صاحبِ اسلوب شاعر تھے انہوں نے نئی نسل کے لکھنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ وہ منسکر المزاج انسان تھے ان کی رحلت ایک سانحہ عظیم ہے ان کا خلا پُر ہونا بہت دشوار ہے۔ ان کے انتقال سے کراچی کی ادبی محفلوں میں صدارتی بحران پیدا ہو جائے گا کیونکہ وہ مشاعروں کی صدارت کے لیے کوئی شرط نہیں رکھتے تھے وہ تعلق داری نبھاتے تھے وہ کراچی میں سب سے سینئر شاعر تھے اس لیے کسی کو بھی ان کی صدارت میں مشاعرہ پڑھنے پر اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ پروفیسر شاہد کمال نے کہا کہ محتشم علی بیگ مرزا انتقال کر گئے لیکن رسا چغتائی ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ ان کی شاعری زندگی سے جڑی ہوئی ہے ان کے بے شمار اشعار حغالتِ سفر میں ہیں وہ ندگی بھر ادبی منظر نامے پر جگمگاتے رہے۔ انہوں نے کسبِ معاش کے لیے کمشنر آفس میں جاب کی‘ عدالت میں پیش کار ہوئے اور روزنامہ حریت کراچی میں بھی ملازمت کی۔ انہوں نے 1977ء میں الیکشن بھی لڑا لیکن اپنی سادہ لوحی کے باعث ہار گئے۔ وہ زندہ دل انسان تھے بچوں سے خصوصی طور پر پیار کرتے تھے انہوں نے زندگی بھر تمام رشتوں کو نبھایا۔ پروفیسر شاہد کمال نے مزید کہا کہ رسا چغتائی کی شاعری میں ڈکشن‘ اسلوب اور غنائیت ہے انہوں نے سہل ممتنع میں بڑے بڑے مضامین بیان کرکے اپنے ہم عصروں میں ایک مقام بنایا۔ وہ ایک عہد ساز شاعر تھے انہوں نے اپنی علامتوں‘ تشبیہات استعاروں کے ذریعے اردو غزل میں چار چاند لگائے۔ عالمی اردو مرکزہ جدہ کے روح رواں حامد اسلام خان نے کہا کہ انہوں نے جدہ میں اپنے تنظیم کے ایک عالمی مشاعرے میں رسا چغتائی کو بلایا تھا۔ انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے مشاعرے میں ایک سماں باندھ دیا لوگوں نے تادیر انہیں سنا اور فرمائش کرکے کئی غزلیں سنیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ رسا چغتائی‘ منفرد لب و لہجے اور چھوٹی بحر میں شعر کہنے والے درویش صفت شاعر تھے ان کی شاعری کا سکہ جاری و ساری رہے گا۔ اکرم کنجاہی نے کہا کہ مرنے والوں کو مستحسن الفاظ میں یاد کرنا انسانیت ہے رسا چغتائی سے کسی کو بھی کوئی شکایت نہیں ہوئی وہ ملن سار آدمی تھے وہ غزل کے بے تاج بادشاہ تھے انہوں نے مناظرِ قدرت سے استعارے مستعار لے کر غزل کے روایتی مضامین کو نئی زندگی بخشی۔ وہ 1928 میں بھارت کی ریاست راجستھان کے ضلع سوائی مادھوپور میں پیدا ہوئے تھے ان کی بقیہ زندگی کراچی میں گزری ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں پندرہ سولہ سال قبل ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا تھا اس کے بعد دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی اس دار فانی سے کوچ کرچکے انہوں نے زندگی کے صدمات سہے لیکن اُف نہ کی وہ جواں مرد تھے۔ پروفیسر شاہد کمال نے مزید کہا کہ رسا چغتائی کی ادبی خدمات کے پیش نظر حکومتِ پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا ہے۔ وہ پاکستان کے علاوہ بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں مشاعرے پڑھ رہے تھے ان کا کوئی نعم البدل ہمارے پاس نہیں ہے۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسا چغتائی ایک بلند قدوقامت شاعر تھے انہوں نے اردو غزل کو بے شمار یادگار اشعار کا تحفہ دیا ان کی شاعری میں ہجرت کا درد نمایاں ہے کیونکہ انہیں اس ملک سے جو امیدیں وابستہ تھیں‘ جو خواب انہوں نے اس ملک کے لیے دیکھے تھے وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہوئے۔ وہ معاشرتی ناہمواریوں پر غم زدہ رہتے تھے لیکن انہوں نے غزل کے میدان میں خوب نام کمایا تاریخ ادب انہیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اس موقع پر محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جب کہ قاسم جمال نے کلماتِ تشکر ادا کیے اس پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس میں رشید اثر‘ سعید الظفر صدیقی‘ اکرم کنجاہی‘ سید آصف رضا رضوی‘ ظفر محمد خان ظفر‘ فیاض علی فیاض‘ غلام علی وفا‘ انورانصاری‘ پروفیسر شاہد کمال‘ وسیم ساغر‘ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ اختر سعیدی‘ اقبال خاور‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ رشید خاں رشید‘ نثار احمد نثار‘ یوسف چشتی‘ کشور عدیل جعفری‘ محسن سلیم‘ احمد سعید خان‘ شاہد اقبال شاہد‘ اسحاق خان اسحاق‘ بشیر احرام‘ تنویر سخن‘ سخاوت علی نادر‘ شاہ روم ولی اور یاسر سعید نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔

٭…دبستان غزل کا مشاعرہ…٭

ادیب اور شعرا معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ یہ وہ طبقہ ہے جو کہ اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھتا ہے‘ وقت اور حالات کی نزاکتوں کو سمجھتا ہے‘ جو معاشرہ قلم کاروں کو نظرانداز کر دیتا ہے وہ مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سعید الظفر صدیقی نے دبستانِ غزل کے مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ اچھی شاعری کے لیے مطالعہ او مجلسی علم ضروری ہے ان دنوں کراچی اور دبستانِ لاہور میں شاعری کی محفلیں اپنے عروج پر ہیں تاہم یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کہاں اچھی غزلیں کہی جارہی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے قلم کو اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کریں۔
دبستانِ غزل کا یہ مشاعرہ حسن آرا منزل گلشن اقبال کراچی میں منعقد ہوا جس میں گلنار آفرین مہمان خصوصی تھیں۔ مسعود علی خان اور قادر بخش سومرو مہمانانِ توقیری تھے۔ شاہد اقبال شاہد نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ رشید خان رشید نے تلاوتِ کلام ِمجید کی سعادت حاصل کی۔ ظفر محمد خان ظفر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے استقبالیہ کلمات ادا کیے ان کا کہنا تھا کہ 1976ء میں دبستان غزل قائم ہوئی تھی اس ادبی تنظیم کے پہلے صدر مجنوں گورکھپوری تھے اور یہ تنظیم اپنی مدد آپ کے تحت ہر مہینے مشاعرہ ترتیب دے رہی ہے ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا انہوں نے صاحبِ صدر سعید الظفر کے بارے میں کہا کہ وہ ایک قادر الکلام شاعر‘ محقق اور کیمیا دان تھے ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں انہوں نے قرآنی مضامین پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا کی تدوین کی ہے سات ہزار صفحات پر مشتمل یہ انسائیکلو پیڈیا علمی خزانے میں گراں قدر اضافہ ہے۔
آج کے مہمان خصوصی گلنار آفرین کے چھ شعری مجموعے‘ دو افسانوں کے مجموعے‘ ہائیکو اور گیتوں کے مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں یہ کراچی میں رہتی تھیں تاہم اب کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اس مشاعرے کے پہلے مہمان توقیری قادر بخش سومرو اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر‘ شاعر بھی ہیں‘ یہ اپنے ادارے کے تحت اردو‘ سندھی زبانوں کے فروغ میں معروف ہیں جب کہ دوسرے مہمان توقیری مسعود خان ایک علم دوست شخصیت ہیں وہ ظفر محمد خان کے کلاس فیلو ہیں اور 45 سال کے بعد ظفر محمد خان سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ اس مشاعرے میں شریک پروفیسر اوجِ کمال نے کہا کہ مشاعروں کے روایتی انداز میں تھوڑی سی تبدیلی کی جائے مثلاً سامعین میں سے بھی کسی سامع کو اظہار خیال کا موقع دیا جائے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ مشاعرہ کس حد تک کامیاب ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کی جائے کہ مشاعرے میں سامعین موجود ہوں۔
دبستان غزل کے تاحیات جنرل سیکرٹری ظفر محمد خان ظفر نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں علمی و ادبی پروگرام ہو رہے ہیں‘ نئے لکھنے والے سامنے آرہے ہیں لیکن 2018ء میں رسا چغتائی اور ساقی فاروقی اس انتقال کر گئے یہ سانحہ عظیم ہے کہ اہم قلم کار دھیرے دھیرے رخصت ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج بہت اچھی شاعری پیش کی گئی امید ہے کہ اردو ادب کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔
مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان توقیری (قدر بخش سومرو) اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام سنایا ان میں رونق حیات‘ انورانصاری‘ اختر سعیدی‘ وضاحت نسیم‘ رشید خان رشید‘ ڈاکٹر نثار‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ حمیدہ راحت‘ روبینہ تحسین بینا‘ عثمان دموی‘ تبسم زہرہ رضوی‘ یاسر سعید صدیقی اور شاہدہ عروج شامل تھے۔

٭… نیاز مندان کراچی کا مذاکرہ…٭

جمعہ 2 فروری 2018 کی شام گلنار آفرین کی رہائش گاہ پر منظور ایوبی کی صدارت میں ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی کے زیر اہتمام ایک مذاکرہ ترتیب دیا گیا جس میں اکرام الحق شوق مہمان خصوصی تھے ان کے علاوہ ڈاکٹر جاوید منظر‘ رونق حیات‘ افروز رضوی‘ الطاف احمد‘ وقار زیدی‘ سعد الدی‘ میر جمالی‘ شاہدہ عروج‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ تبسم صدیقی‘ سلمان صدیقی‘ گلنار آفرین‘ ناہید عزمی بھی اس مذاکرے میںشریک تھے۔ افروز رضوی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس مذاکرے کا عنوان تھا ’’کراچی کے ادیبوں اور شاعروں کے مسائل‘‘ اس موضوع پر ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا ہ وہ چالیس برس سے اربابِ قلم کے مسائل پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی میرا ساتھ نہیں دے رہا۔ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کہا کہ جب تک تمام قلم کار متحد نہیں ہوں گے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس وقت کراچی میں ادبی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن جینوئن شاعر اور ادیب کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی‘ انجمن ستائش باہمی کی بنیادوں پر اپنے اپنے لوگوں کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ کراچی کے قلم آپس میں لڑ رہے ہیں مختلف ادبی گروہ ادب کی خدمت کے بجائے اپنے اپنے معاملات میں لگے ہوئے ہیں‘ حکومت نے قلم کاروں کے مسائل کے حل کے لیے جو محکمے بنائے ہیں ان کی کارکردگی پر ہمیں تحفظات ہیں۔ بنیٰ عکس نے کہا کہ سینئرشعرا کا فرض ہے کہ وہ جونیئرز کی ہمت افزائی کریں اور چھوٹڑوں کو چاہیے کہ وہ بڑوں کا احترام کریں انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس وقت بے شمار مسائل کا شکار ہیں حکومتِ وقت قلم کاروں کے مسائل میں دلچسپی نہیں لے رہی لیکن ہمیں اپنی آواز بلند کرتے رہنا ہوگی تب بات بنے گی۔ گلنار آفرین نے کہا کہ جو معاشرہ ادیبوں اور شاعروں کی عزت نہیں کرتا وہ ترقی نہیں کرسکتا ہمارے معاشرے میں قلم کاروں کی قدر کم ہوتی جارہی ہے ان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افروز رضوی نے کہا کہ وہ 8 مارچ 2018 یوم خواتین کے موقع پر ایک شان دار پروگرام منعقد کریں گی جس میں ادا جعفری ایوارڈ جاری کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم قلم کاروں کے مسائل کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ ہماری راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ اردو کو حکومتی سطح پر رائج کرنے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا ہے کہ لیکن آج تک اس سلسلے میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو رہی ہمارے مسائل اس وقت حل ہوں گے جب ہم اپنے اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر جِمع ہوں گے۔ نیاز مندانِ کراچی کے چیئرمین رونق حیات نے کہا کہ دبستان کراچی کی اہمیت سے ہر شخص واقف ہے ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں میں جوش ملیح آبادی‘ صبا اکبر آبادی‘ استاد قمر جلالوی‘ محشر بدایونی اور کئی دوسرے اہم و معتبر قلم کار شامل ہیںجنہوں نے اردو ادب میں چار چاند لگائے لیکن وقت و حالات کے تحت ادبی منظر نامہ تبدیل ہوتا جارہا ہے آج یہ صورت حال ہے کہ اکیڈمی آف پاکستان میں سفارشی افراد بھرتی ہو رہے ہیں اس ادارے سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں‘ غیر ادبی لوگ ادب کی خدمت نہیں کرسکتے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی مخصوص لوگوں کے مفادات دیکھتی ہے۔ انجمن ترقیٔ اردو میں راجو جمیل کی نگرانی میں پروفیسر سحر انصاری کام کر رہے ہیں جب کہ وہ ایک بلند قامت شخصیت ہیں۔ سابق وزیراعظم نے قلم کاروں کے لیے جس پچاس کروڑ روپے کا اعلان کیا تھا وہ رقم کہاں گئی؟ اس کا حساب دیا جائے۔ قلم کاروں کی ویلفیئر کے لیے کون سا حکومتی ادارہ مخلص ہے ہر آدمی اپنے مفاد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے نیاز مندانِ کراچی کے تحت ’’قلم کار کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا تھا جس میں شاعروں اور ادیبوں کی مشکلات پر گفتگو ہوئی تھی ہم نے اربابِ قلم کے لیے جو تجاویز دی تھیں ان پر عمل نہیں ہوا‘ آج کا اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ قلم کاروں کے مسائل حل کرے۔ اس طبقے کے لیے فنڈز مہیا کیے جائیں‘ علاج معالجے کی سہولت دی جائیں‘ غریب و نادار‘ شاعروں اور ادیبوں کے مسودے شائع کرائے جائیں‘ ان کے بچوں کو تعلیمی سہولیات دی جائیں‘ بے روزگار قلم کاروں کو باعزت روزگار مہیا کیا جائے۔

حصہ