رئیس فروغ: نئی جہتیں

719

خالد معین
نئی کتابیں عام طورپر پڑھنے والوں کو خوش کرتی ہیں ،کیوں کہ اُن میں زندگی کی وسعتیں ،گہرائیاں ، اور زندگی کے عذاب و ثواب سے منسلک اہم تجربات ،مشاہدات اور تجزیوں کی جھلک ملتی ہے جب کہ معاملہ شاعری کا ہو تو شعور و حکمت،احساس ،جذبات،ظاہری و باطنی تضادات،ہم عصر مسائل سے آگہی،کھتارسس کا عمل،ذاتی و کائناتی نقطہ ء نظر اور وجدان کا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔لیکن ضروری نہیں کہ ہرنئی کتاب پڑھنے والے کو روحانی اور تخلیقی مسرت بخشے، بعض کتابیں بہت بور بھی کرتی ہیں ۔کچھ کتابیں توجھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیتی ہیں ،بعض کتابیں قاری کے صبر و تحمل کا امتحان لیتی ہیں ،بعض کے چند صفحے پڑھنا مشکل ،بعض بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ جب کہ بعض کتابیں رنجیدہ ، توکچھ وحشت زدہ کر دیتی ہیں۔کچھ قارئین کا جذباتی کھتارسس کرتی ہیں ، توکچھ اُنہیںمزید الجھا دیتی ہیں۔
کچھ کتابیں بہت مہنگی چھپتی ہیں لیکن کتاب نہیں لگتیں ،غرض مختلف شخصیات کی طرح کتابوں کے بھی مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں۔تاہم ممتاز اور ہر دل عزیز شاعر ’رئیس فروغ :نئی جہتیں ‘ پڑھنے کے بعد مجھ پر جو ابتدائی تاثر قائم ہوا ،وہ نا قابل ِ بیان ہے۔سرِ دست تو یہ جان لیں کہ اس کتاب میں رئیس فروغ کے ابتدائی بیس پچیس برس کی طے شدہ مسترد غزلوں کا ایک مختصر سا انتخاب پیش کیا گیا ہے ۔اس کتاب کی سب سے بڑی افادیت یہی ہے کہ اس میں رئیس فروغ کا ابتدائی کلام کا مختصر سا حصہ محفوظ کر لیا گیا ہے ۔یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں لیکن کیا ایسا کیا جانا ضروری تھا ۔یہ سوال اپنی جگہ ضرور موجود رہے گا ۔اس سوال کے پیچھے چھپے مسائل پر آگے چل کے بات کریں گے ۔اس سے پہلے کچھ باتیں جدید اردو غزل کے محبوب شاعر رئیس فروغ کے بارے میں کر لیتے ہیں۔
جدید اسلوب اور جدید طرز ِبیاں کے حامل رئیس فروغ یقینا میرے پسندیدہ ترین شعرا کی فہرست میں شامل ہیں ۔وہ ایک حساس،گہرے ،نازک مزاج ،خوش نظر،خوش خیال،عصری صداقتوں کے نبض شناس ،کلاسیکی شعور سے بہرہ منداورجدید حسیت کے خلاقانہ برتائو کے ساتھ لفظوں کے شاعرانہ استعمال اوراُن کی رمزیت پر نگاہ رکھنے والے شاعر ہیں ۔رئیس فروغ ستر کی دہائی میں ادبی منظر پر موجود تخلیقی نسل کے درمیان ایک جدا گانہ انفرادیت کے ساتھ نمایاں ہوئے اور جلد ہی اپنے مخصوص لب و لہجے ،طرز ِ ادا اور جمالیاتی شعور کی گہری انفرادیت کے باعث اپنے ہم عصروں میں جدا گانہ مقام بناتے چلے گئے ۔اگرچہ اُن کی شاعری کا سفر یقینا پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بھی جاری رہا ،تاہم روایتی غزل اور روایتی نظم کا وہ چولہ جو انہوں نے ساٹھ کی دہائی کے وسط تک اتارا اور اپنی گزشہ روایتی ،بے رنگ اور بے رس شاعری کو یک سر ترک کرتے ہوئے ایک نئے رئیس فروغ کی تخلیقی نشو ونما میں لگ گئے ۔
نئے رئیس فروغ کی نئی شاعری میں اپنے عہد ِ گزشتہ سے مکمل انحراف اور نئی جمالیاتی فضا میں ذات و کائنات کی نئی تفہیم ،نئی لفظیات ،نئے احساسات ،نئے تخلیقی تجربات اور نئے خیال و خواب کی تشکیل کاحیران کُن مر حلہ اپنا ظہور کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ایک روایتی شاعر سے جدید شاعر بننے کا یہ مرحلہ یقینا آسان نہ ہوگا لیکن آفریں ہے اس خوب صورت ،باشعور اوربانکے شاعر پر ،جس نے اپنی منفرد شخصیت کے بے پناہ تخلیقی امکانات کی دشت نوردی کے دوران ،خود کو پہچانا ،اپنی شناخت کے عمل کو آگے بڑھایا اور یوں جدید شعروادب کو مختصر سے عرصے میںنئے احساس ِ جمال،نئی انفرادیت اور نئے تخلیقی مزاج کی عکاس متعدد جادو بیاں غزلوں اور نظموں سے سرفراز کیا ۔5 اگست 1986 ء کوشعرو ادب کی دنیا کو اُداس چھوڑ جانے والے اور15فروری 1926ء کومراد آبادمیں آنکھ کھولنے والے رئیس فروغ نے 1950 ء میں بھارت سے بار ِ ہجرت اٹھایا، اور یوںپہلے ٹھٹھہ اور پھر کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ رئیس فروغ کے سفید اُجلے بالوں،کھلتی ہوئی گندمی رنگت ، دراز قامتی ،خوش خلقی اور تفکر آمیز کم سخنی میں سخن وری کا کوئی نہ کوئی ایساغیر معمولی اعجاز ضرور موجود تھا کہ دیگر سخن وروں کی طرح قمر جمیل جیسے با شعور ناقد اور شاعر بھی اُن کی جانب بڑی وارفتگی سے متوجہ ہوئے اور یوں رئیس فروغ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے ریڈیو پاکستان ، کراچی کے جگمگاتے ہوئے حیران کُن تخلیقی اورخالص ادبی و ثقافتی ماحول کا حصہ بن گئے۔ یہیں سے اُن کے ٖفکر و خیال کی دنیا میں ایک وسیع انقلاب پیدا ہوا ہوگا اور یہیں سے پرانے رئیس فروغ میں سے ایک نئے رئیس فروغ کی نمو داری کے وسیع امکانات کی شادابیاں تصور ات سے حقیقت تک کا برق رفتار سفر طے کر سکی ہوں گی ۔
ریڈیواور ٹیلی ویژن پر خوب صورت گیتوں کے ساتھ رئیس فروغ نے بچوں کی نظمیں بھی لکھیں اور بڑی شان دار نظمیں لکھیں ۔اس کے ساتھ نثری نظموں کی پہلی بڑی تحریک کے روح و رواں قمر جمیل کی عالمانہ صحبتوں کے زیرِ اثر ہمارے حساس اور تخلیقی شاعر نے نثری نظموں کی جانب قابل ِ ستایش پیش رفت کی ۔یہ کام یاب پیش رفت اُن کے ہم عصروں میں سب سے زیادہ متاثر کُن دکھائی دیتی ہے ،مثلا ًرسا چغتائی اور اس عمر کے دیگر پختہ غزل لکھنے والوں کے مقابلے میں رئیس فروغ اوروں کے مقابلے میں جدید حسیت کا زیادہ ادراک رکھنے والے اور مغربی ادب سے براہ ء راست شناسائی رکھنے والے بھی تھے ۔شاعری کے علاوہ ریڈیو کے لیے متعدد ڈراموں اور فیچر ز کے مقبول اسکرپٹس بھی لکھتے رہتے تھے جب کہ اُن کی نثر بھی اُن کی خوب صورت اور پُرکشش شاعری کی طرح قابل ِستایش ہے۔ رئیس فروغ نے ’رات بہت ہوا چلی ‘ میں جو مختصر نثری نظمیں انتخاب کی ہیں ،اُن کے بارے میں ایک عمومی رائے ہے کہ اگر وہ اپنی غیر معمولی جمالیاتی رنگ و رس میں ڈوبی ،نئے آہنگ کی نمایندگی کرتی اور جدید حسیت کے نئے در کھولتی ہوئی شان دار غزلوں کی موجودگی میں ،ان نثری نظموں کو جگہ نہ دیتے تو اچھا ہوتا ۔تاہم ان نثری نظموں کے بارے میں کم سے کم میں توپورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ رئیس فروغ کی نئی غزلوں کے ساتھ ساتھ اُن کی مختصر نثری نظمیں بھی اپنے منفرد اسلوب ،طرز ِ بیاں ،امیجری ،وارفتگی اور تخلیقی بہائو کے سبب قابل ِ توجہ اور قابل داد ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ’رات بہت ہوا چلی ‘ کا دیباچہ ، نثری نظموںاور جدیدغزلوں کا وہ انتخاب ،جو رئیس فروغ نے اپنی اچانک موت سے قبل ترتیب دیا،وہ شمیم نوید کی حاضر دماغی اور حق ِ رفاقت کے سبب ویسا کا ویسا ہی اشاعت پزیر بھی ہوا ،جیسا رئیس فروغ نے سوچا اور چاہا ورنہ عین ممکن تھا کہ چند نادان دوست اس مجموعے میں بھی بعض ایسے غیر ضروری اضافے اور ترمیم کر جاتے کہ اردو ادب ’رات بہت ہوا چلی ‘جیسے منفرد شعری مجموعے کی منفرد ترین ترتیب اور تہذیب سے محروم رہ جاتا ۔اس مجموعے کا ہر صفحہ اپنی جگہ ایک خاص انتخاب ہے ،ویسا ہی ورق درورق انتخاب جیسا ’عزیز حامد مدنی کا شعری مجموعہ ’دشت ِ امکاں ‘ ہے ،ناصر کاظمی کا ’برگ ِ نے ‘ ہے ،سلیم احمد کا ’چراغ ِ نیم شب ‘ ہے ، شکیب جلابی کا ’روشنی اے روشنی، (کلیات نہیں )ظفر اقبال کا ’آب ِ رواں ‘ ہے،محبوب خزاں کا ’اکیلی بستیاں ‘ہے اور بڑے تخلیقی دائرے میں چلے جائیں تو غالب کا انتخاب شدہ دیوان ہے ،خواجہ میر درد کا مختصر سا دیوان ہے ،یقینا اور بہت سے اہم شعری مجموعے بھی اس فہرست میں جگہ بنا سکتے ہیں ،تاہم یہ فہرست زیادہ طویل نہ ہوگی۔
باتیں تو اور بھی ہیں ۔ایک تو فروری کا مہینہ رئیس فروغ کے جنم دن کی خبر لاتا ہے ۔ دوسرااسی جشن کی مناسبت سے چند احباب نے اُن کی مسترد شدہ غزلوں کے انتخاب کو کتابی صورت میں چھاپ دیا ہے ۔اس کتاب کا نام ’رئیس فروغ :نئی جہتیں ‘ رکھا گیا ہے ،حالاں کہ ’رات بہت ہوا چلی ‘ کے بعد اس کتاب پر نظر کیجے تو ’نئی جہتوں ‘ والی کوئی بھی بات دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ۔اس کتاب کی اشاعت میں معروف بزرگ شاعر اشتیاق طالب کی معاونت شامل رہی ہے جب کہ اشتیاق طالب کے علاوہ حنیف عابد اور نور الہدیٰ سید جیسے قابل ِ قدر صاحبان نے اس کتاب پر اپنے تاثرات بھی رقم کیے ہیں ۔
کتاب میں شامل تمام مضامین سرسری نوعیت کے ہیں،جو محبت کے پیرائے میںلکھے گئے ہیں اور رئیس فروغ کے فن اور شخصیت پر اپنے اپنے انداز میںروشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ خود رئیس فروغ کے ایک ذہانت آمیز شعوری فیصلے، یعنی اُن کی مسترد شدہ قدیم غزلوں کے انتخاب کی اشاعت کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،تاہم ا س انتخاب کو پڑھتے ہوئے قاری بار بار رئیس فروغ کے فیصلے کی تائید پر خود کو مجبور پاتا ہے۔اگر اس کتاب میں رئیس فروغ کے مخصوص لہجے سے جڑی دس پندرہ غزلیں بھی دریافت کرلی جاتیں تو اس کتاب کا جواز از خود پیدا ہوجاتا لیکن پوری غزلیں تو غزلیں متفرق اشعار میں بھی رئیس فروغ کے معروف لہجے والی کوئی بات نہیں حتیٰ کہ ان غزلوں میں نئی فضا کو تشکیل دینے والے بنیادی تخلیقی اجزاتک دکھائی نہیں دیتے۔ دوسری جانب کتاب کے مضامین میں موضوع سے کسی حد تک سماجی دل چسپی کا اظہار تو ہوتا ہے مگر اس کے باوجود سب کچھ پھیکا پھیکا ہے،سب رنگ بکھرے بکھرے سے ہیں۔تحریر کے فطری جوہر،لفظوں کی انفرادی اور اجتماعی شان ،وہ تخلیقی رو ،حسن آرائی ،یک جائی اور زیبائی ،جو تخلیقی عبارت آرائی کی بنیاد ہے ،عمومی سطح پر ناپید سی لگی۔دوٹوک کہوں تو یہ مضامین رئیس فروغ جیسے بلند پایہ شاعر کے شایان ِ شان نہیں ۔
ان مضامین میں جدید اسلوب اور جدید حسیت کے ساتھ رئیس فروغ کی زندگی سے جڑی ہوئی حسی تصویریں،خوب صورت اور منفرد امیجریز ،جدید ڈکشن اور موضوعاتی تنوع تو چھوڑیں، رئیس فروغ کا کوئی جیتا جاگتا خاکہ تک نہیںملتا ،کم سے کم اتنا ہی ہوجاتا تو قارئین کو قرار آجاتا ۔ایک سو چھبیس صفحے کے اس مختصر انتخاب کے اختتام پر شبی فاروقی ،فرمان فتح پوری ،سحر انصاری،ساقی فاروقی اور عبید اللہ علیم سمیت کچھ اور قلم کاروںکے چند سطری تاثرات بھی ایک سرسری سا تاثر ہی قائم کر سکے ۔البتہ رئیس فروغ کے انتقال کے بعد اُن کی منفرد شخصیت اور شاعری پر جو شان دار مضامین کا مجموعہ ’رئیس فروغ ،برزخ کے وی آئی پی روم میں ‘ شایع ہوا،وہ بڑا شان دار تھا ۔ نام ور ناقدین اور شعرا نے اس کے تمام مضامین میں چاہے وہ شخصیت کے حوالے سے ہوں،یا فن کے حوالے سے ہوں، بڑے دل چسپ ،معلوماتی ہیں،دور رس اوررنگ و رس میں ڈوبے ہوئے ہیں اور عین تخلیقی فضا میں لکھے گئے ہیں،جوایک منفردشاعر کی بلند قامتی کو دیانت دارانہ اور تخلیقی خراج پیش کرتے ہیں۔
میںکراچی کے جن اہم ترین اور اپنے پسندیدہ ترین شاعروں سے نہ مل سکا ،اُن میں رئیس فروغ اور سلیم احمد دونوں شامل ہیں ،یہ میری زندگی کا ایسا ملال ہے ،جس کا کوئی مداوا ممکن نہیں ۔البتہ میری ملاقات پہلے رئیس فروغ سے بے پناہ قلبی لگائو رکھنے والے خلیق بزرگ وزیر پانی پتی سے ہوئی اور اُن کے ذریعے میں اپنے محبوب شاعر کے بارے میں تھوڑی بہت باتیں جان سکا ۔اس کے بعد ایک دن رئیس فروغ کے صاحب زادے طارق رئیس فروغ سے بھی چند برس قبل ملاقات کی صورت نکل آئی اور یوں طارق بھائی کے توسط سے ایک پرانا رشتہ مزید توانا ہوگیا ۔طارق بھائی میں کئی خوبیاں ہیں ،وہ بڑے تہذیبی آدمی ہیں ، ہمیشہ ادب اور محبت سے پیش آتے ہیں ۔مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ’رئیس فروغ ‘ نئی جہتیں‘ کی اشاعت میں طارق بھائی کی تمام تر عملی کاوشیں شریک ہوں گی اور ایسا ہونا بھی چاہیے ،لیکن محبت کی فراوانی شعرو ادب کے بعض سنجیدہ معاملات کے لیے اتنی سود مند نہیں رہتی ،جتنی محبت کرنے والے کے معصوم سے دل میں لہریں لیتی ہے ۔
اس لیے ایسے محبتی عزیزوں کے اطراف کچھ معاملہ فہم ،انصاف پسند اور سفاک دوستوں کی حلقہ بندی بھی ضروری ہے،جو انہیں احوال ِ واقعی سے باخبر رکھ سکیں ۔خیر! اب جو ہونا تھا ،وہ تو ہو چکا ،طارق بھائی آپ سدا خوش رہیں اورآپ کے پیارے احباب بھی سلامت رہیں ۔باقی رہے رئیس فروغ تو وہ اپنی منفرد شاعری کی بنیاد پر کسی اضافی حلقہ بندی کے بغیر ہی شعرو ادب کی دنیا میں پہلے بھی بے پناہ عزت اور چاہت کے ساتھ موجود تھے اور آیندہ بھی اسی وقار اور محبوبیت کے ساتھ جدید شعرو ادب کا زندہ حوالہ بنے رہیں گے ۔مجھے یقین ہے کہ دھیما مزاج اور دل نواز شخصیت والے رئیس فروغ اگرزندہ ہوتے تو بہ یک جنبشِ قلم اس کتاب کو بھی، اپنی مسترد غزلوں کی طرح مسترد کر دیتے، اور پھر میٹھی سی مسکراہٹ کے ساتھ، اپنے دوچار بے مثال شعر پڑھتے اور کہتے دوستومیں ایسا ہوں :

ذرا بھی تیز ہوا شعلۂ نوا تو یہ لوگ
یہی کہیں گے کہ درویش بے ادب ہے میاں
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت بُرا نہیں، اتنا بُرا تو میں بھی ہوں

حصہ