خود کو بدلیں مگر اپنا خیال بھی رکھیں

317

عبدالرحمن آفتاب
یہ لوگ اتنے بے حس کیوں ہوگئے ہیں! جہاں بھی نظر دوڑائیں عجیب سی جھنجھلاہٹ اور نفسانفسی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے حال سے خوش نہیں ہے۔ آگے سے آگے کی جستجو نے انسان کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ نہ ذہنی سکون ہے اور نہ ہی جسمانی، بس ایک ہی بات کی لگن ہے کہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرلیا جائے۔ اس زیادہ کی طلب نے ہر آدمی کو مشین کا پہیہ بناکر رکھ دیا ہے جو گھومتا ہی رہتا ہے۔ اس گھومنے کے چکر میں نہ دین کی خبر ہے اور نہ دنیا کی۔ بس اپنے آسائش و آرام کو پورا کرنے کی فکر لگی ہے۔ اپنی خواہشات کو کم کرنے کے لیے کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان خواہشوں کو پورا کرتے کرتے چاہے بندہ خود اگلے جہاں کیوں نہ چلا جائے۔ اب ایسے لوگوں سے اگر پوچھا جائے کہ آپ دن رات اپنی ہمت سے بڑھ کر اتنا کام کیوں کرتے ہیں؟ اللہ کا دیا سب کچھ تو ہے آپ کے پاس، پھر بھی آپ اپنے حالات سے مطمئن نہیں ہیں! نہ اپنی صحت کی فکر ہے نہ اہل و عیال کے لیے وقت ہے، اور نہ عزیز و اقارب سے ملنے کی فرصت ہے۔ اتنا سب کچھ آپ کس کے لیے کررہے ہیں؟ تو ان کا جواب ہوگا کہ بھئی یہ وقت کی ضرورت ہے جو ہم کو پہیّے کی طرح گھما رہا ہے۔ دنیا والوں کے ساتھ چلنا پڑتا ہے، اگر ہم وقت کے ساتھ نہیں چلیں گے تو دوسروں سے بہت پیچھے رہ جائیں گے، اور پیچھے رہ جانے والوں کو کوئی بھی مڑ کر نہیں دیکھتا، آگے بڑھنے والے کے سب ساتھی ہوتے ہیں۔
یہی اصولِ دنیا ہے، اس لیے وقت کے ساتھ چلنا ضروری ہوگیا ہے۔ جتنی تیزی سے وقت بدل رہا ہے اتنی ہی تیزی سے ہماری زندگی کے معیار بدل رہے ہیں۔ اگر وقت کی رفتار کم ہوتی تو شاید ہمارے معیاراتِ زندگی بھی کم ہوتے۔ ہم اگر وقت کے ساتھ نہیں چلتے تو لوگ باتیں بناتے ہیں کہ فلاں آدمی کو تو کچھ پتا ہی نہیں، وہ ابھی تک اسی پرانی ڈگر پر چل رہا ہے اور وقت کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ نہ لباس میں تبدیلی ہے، نہ رہن سہن میں کوئی نیا پن ہے، اتنی پرانی سوچ کے لوگوں سے کون میل جول رکھے۔ اب آپ ہی بتائیں کیا وقت کے مطابق نہیں چلنا چاہیے؟
جی بالکل چلنا چاہیے، لیکن ایک بات آپ بھی سمجھ لیں کہ وقت نہیں بدلا، وقت کی کیا مجال کہ وہ خود سے بدل جائے! جب تک کسی چیز کو بدلا نہ جائے یا پھر اس کو حرکت نہ دی جائے وہ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح سے وقت بھی اپنی رفتار کے مطابق چل رہا ہے جیسے پہلے دن سے چل رہا تھا۔ آج بھی وہ اسی مدار میں گھوم رہا ہے جس مدار میں کل گھوم رہا تھا، اور آنے والے کل میں بھی یوں ہی گھومے گا۔ یہ کوئی موٹر کار کی اسپیڈ تو ہے نہیں جس کو اپنی مرضی سے کم یا زیادہ کرلیا جائے۔ درحقیقت بدل ہم لوگ خود گئے ہیں، اور الزام وقت کو دیتے ہیں کہ بدل گیا ہے۔ تبدیلی تو ہمارے طرز زندگی میں آگئی ہے۔ اپنی تہذیب، ثقافت، رسم و رواج کو چھوڑ رہے ہیں اور جدیدیت کے رنگ میں ڈھل رہے ہیں۔ پہلے ہم لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، لیکن آج کے انسان کے پاس وقت ہی نہیں دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہونے کا۔
پہلے لوگ سادہ اور ہر بناوٹ سے عاری تھے، اب تو یہ حال ہے کہ اپنے پرانے حلیے اور لہجے کو بدلے بغیر گزارہ ہی نہیں ہوتا۔ لہجوں میں اتنی بناوٹ ہے کہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ بندہ کہیں اظہارِ ہمدردی کے بجائے طنز تو نہیں کررہا۔ اب اس سب میں کس کا قصور ہے، ہمارا یا پھر وقت کا؟
قصور ہمارا اپنا ہے جو دن بدن زنگ آلود ہوتے جارہے ہیں ظاہری اور باطنی طور سے۔ آگے سے آگے بڑھنے کی جستجو نے ہمارے دل مُردہ کردیے ہیں، اور پھر بار بار کہتے ہیں وقت بدل گیا ہے۔ وقت تو وہی ہے جو خالقِ کائنات نے روزِ اوّل بنایا۔ وہی دن سے رات، رات سے دن کا سفر، وہی سورج کا طلوع و غروب ہونا، وہی چاند کی چاندنی کا رات کی تایکی میں روشنی بکھیرنا۔ پرندوں کا رزق کی تلاش میں دن بھر ایک شاخ سے دوسری شاخ پر منڈلانا اور پھر شام کے سائے پھیلنے تک اپنے گھونسلوں کی جانب رخ کرنا بھی وہی ہے جو پہلے دن سے تھا۔ ہم لوگ تو ان پرندوں سے بھی گئے گزرے ہو گئے ہیں… ہم اپنی پہچان ہی بھول گئے ہیں اور وقت کے بدلنے کا رونا روتے ہیں۔
پوری بات کا لبِ لباب یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا چاہیے مگر اپنی پہچان کو نہیں… اور نہ اپنی رفتار اس قدر تیز کریں کہ خود کو ہی بھول جائیں۔

حصہ