حضرت شعیب ؑ اور ان کی قوم

937

دوسرا حصہ
(تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر83-76، سورۃ ہود حاشیہ نمبر 96-95)
سچ ہے کہ انسان کی فطرت تبدیل نہیں ہوسکتی… یہ کہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرتا ہے… یہ کہ وہ اچھا کرکے خوش ہوتا ہے اور برا کرنے پر اسے افسوس ہوتا ہے… یہ کہ اس میں عزم کی کمی ہے… یہ کہ وہ جلدی حاصل ہوجانے والی چیز کے پیچھے بھاگتا ہے… یہ کہ وہ شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے… یہ کہ وہ ظاہر کے دھوکے میں آجاتا ہے… یہ کہ وہ قیاس و گمان پر چلتا ہے… یہ کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دھن میں لگا رہتا ہے… یہ کہ اسے کوئی بھی ترقی اور دوام کا لالچ دے کر بہکا سکتا ہے… یہ کہ وہ اپنے سے بالاتر طاقت کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے اور جسے اپنے سے بالاتر مان لے، اُس کے آگے جھک جاتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق ہر قوم میں انبیا علیہم السلام بھیجے گئے۔ احادیث کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے… لیکن قرآن مجید میں نمونے کے طور پر چند قوموں اور چند انبیاؑ کا ذکر ہے… جتنی قوموں کا ذکر ہے اُن کی تفصیلات دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی انسان ویسا ہی ہے جیسا پہلے کسی بھی زمانے میں تھا… اور جتنے بھی انبیاؑ کی دعوت اور تعلیمات ہمیں ملتی ہیں وہ بھی سب ایک جیسی ہیں، کوئی نئی بات نہیں… پھر ان کی دعوت کے جواب میں انسانوں کا ردعمل بھی ایک ہی جیسا رہا ہے… یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں جتنی قوموں کے قصے بیان کیے گئے ہیں، ہر قصہ ان حالات و واقعات کے مطابق ہے جو اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی قوم کے درمیان پیش آرہے تھے۔ ایک طرف نبی ہے جس کی تعلیم، دعوت، نصیحت و خیر خواہی، اور ساری باتیں بالکل وہی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں۔ اور دوسری طرف حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے… جس کے عقیدے کی گمراہی، اخلاق کی خرابی، جاہلانہ ہٹ دھرمی، جس کے سرداروں کا تکبر اور غرور، اور انکار کرنے والوں کا اپنی گم راہی پر ڈٹ جانا، سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا۔ ان قوموں کا انجام دکھاکر قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی تو آخرکار تمہیں بھی اسی تباہی و بربادی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ آج بھی اسلام کی دعوت وہی ہے اور انسانوں کا رویہ وہی ہے، فرق اور بہت بڑا فرق جسے سمجھنا بہت ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جو قوم اللہ کے نامزد کردہ نمائندے سے براہِ راست دعوت سنے اُس کی اخلاقی اور قانونی حیثیت اُس قوم سے مختلف ہوتی ہے جس کے پاس خدا کا پیغام براہِ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچا ہو… کیونکہ جس قوم میں نبی پیدا ہوا، اور وہ خود ان ہی کی زبان میں نہ صرف خدا کا پیغام پہنچائے… بلکہ اپنی زندگی میں اس کا کامل نمونہ پیش کرے… اب اس جھٹلانے والی قوم کے لیے بچت کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی… بلکہ وہ اس کی حق دار ہوجاتی ہے کہ اس کا فیصلہ کردیا جائے۔ جب کہ جن کے پاس خدا کا پیغام براہِ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچا ہو، ان کے معاملے میں اس بات کا امکان ہے کہ دعوت وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق نہ پہنچائی گئی ہو… دعوت پہنچانے میں کمی رہ گئی ہو… خود دعوت دینے والوں کا عمل اس کے مطابق نہ ہو۔ آج پیغمبر نہیں تو فیصلہ بھی یہاں نہیں ہوگا، روزِ حشر ہوگا، جہاں دیکھا جائے گا کہ دعوت دینے والوں نے کس حد تک دعوت پہنچائی، اور دعوت سننے والوں نے کیا رویہ اختیار کیا… دعوت دینے والوں کو ان کی کوشش اور سیرت و کردار کے مطابق جزا ملے گی نتیجہ کچھ بھی ہو!!! اور انکار کرنے والوں کو اُن کے انکار کی شدت کے مطابق سزا ملے گی۔ دوسری اہم بات ان قصوں کو پڑھنے سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ حق اور باطل کا فیصلہ تعداد سے نہیں ہوتا… حق حق ہے چاہے اسے کوئی نہ مانے… اس لیے حق اور باطل کا جائزہ لیتے ہوئے تناسب کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ حق کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم، بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سرو سامان کے اُس باطل کے خلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کے پیچھے بڑی بڑی قوموں اور حکومتوں کی طاقت ہوتی ہے… پھر بھی آخرکار وہی غالب آکر رہتا ہے۔

ایک صادق و امین:

جب ملک کی اعلیٰ عدالت کا جج کسی شخص کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ اگر صداقت اور دیانت کو معیار بنایا جائے گا تو پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی شخص بچے گا… یہ جملہ اس لیے نہیں کہا گیا کہ واقعی لوگوں کو صداقت اور امانت کے اس اعلیٰ معیار کو اپنانے کی تاکید کی جارہی تھی… اور نہ ہی یہ مقصد تھا کہ ملک کے عوام اب اُس شخص اور اُس کے ساتھیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ملکی معاملات اُن کے حوالے کردیں… اور نہ ایسا ہوا نہ ہوگا کہ لوگ جوق در جوق اُس کے پیچھے چلنے لگیں۔ یہ تو ایک بیماری کی تشخیص تھی، جس کو معیار بنانے اور اختیار کرنے کا نتیجہ سسٹم کی تباہی اور بربادی ہے۔ اور اس جملے سے قوم کو وارننگ دی جارہی تھی کہ اگر تم نے صداقت اور امانت کو معیار نہ بنایا تو سسٹم لپیٹنا پڑے گا… اور یہ کوئی نیا جملہ نہیں، اس سے پہلے بھی صداقت و امانت کی دعوت دینے والوں اور صدق و صفا اور خلوص و وفا کا پیکر بننے والوں کے ساتھ یہی کیا گیا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا گیا کہ’’اے شعیبؑ، ہم تجھے اور اُن لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے نکال دیں گے، ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملّت میں واپس آنا ہوگا۔‘‘ اس سے تقریباً چھ سات سو سال پہلے حضرت لوط علیہ السلام کو بھی ان کی قوم پاک بازی کا طعنہ دیتی تھی اور بستی سے نکالنے کی دھمکی دے چکی تھی۔ آج کی دنیا نے بھی فیصلہ یہی کیا ہے کہ دیانت اور صداقت کے علَم برداروں کو اپنی بستی سے نکال دو یا قتل کردو… اور وہ اس پر عمل بھی کررہے ہیں۔ جہاں قتل کرسکتے ہیں وہاں قتل، جیسے بنگلہ دیش اور مصر… اور بڑے پیمانے پر اسلام کو سوسائٹی سے غیر متعلق کرنے کی کوشش کی جارہی ہے… چاہے اس کے لیے اہلِ اسلام کے جذباتی عنصر کو ابھارکر القاعدہ اور داعش کی شکل میں لاکھوں اپنے اور بے گانے انسانوں کا خون کرنا پڑے، کوئی حرج نہیں! اور اب مایوسی اور خوف میں مبتلا کرنے کے بعد تصوف کے تنِ مُردہ میں پھر جان ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ یہ خوف زدہ اور مایوس لوگ اس گوشۂ عافیت میں جاکر اسلام کے حرکی تصور کو نہ صرف بھول جائیں بلکہ برا بھلا کہنے لگیں… اس طرح بہت تھوڑے لوگ بچ جائیں، جنہیں تنہا کرکے گھیرنا آسان ہوجائے۔ ایسے حالات میں اہلِ حق کے لیے صبر کے ساتھ اپنے مخلصانہ اجتہاد کے مطابق کام کرتے رہنے کے سوا کوئی راہ نہیں۔ اللہ جلد ہی آسانی کی کوئی راہ نکالے گا ورنہ انہیں اپنے پاس بلا لے گا۔ واپسی میں اب دیر ہی کتنی ہے! ایک اور اہم بات جو ذہن میں بٹھا لینی چاہیے وہ سورہ ہود میں حضرت شعیب علیہ السلام کا قول ہے۔ آیت نمبر 86 میں ارشاد ہوا : ’’اور بہرحال میں تمہارے اوپر کوئی نگرانِِ کار نہیں ہوں‘‘۔ یعنی ہم تو بس خیر خواہ ہیں… زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتے ہیں کہ اچھی طرح سمجھانے میں کوئی کمی نہ کریں۔ آگے اختیار انسانوں کا ہے، چاہیں تو مانیں، نہ چاہیں تو نہ مانیں، ہماری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں ہوسکتی، نہ ہم اپنا خوف بٹھانا چاہتے ہیں… اصل چیز روزِ حشر خدا کی جناب میں پیشی کا خوف ہے۔ اگر اس خوف سے لوگ اپنے عقیدے اور طرزِ فکر و عمل کو تبدیل کرتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ خدا کے حضور وہ اپنا جواب خود دیں گے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ