بانو قدسیہ کی یادوں کے ساتھ ایک پڑاؤ

478

سید ظفر معین بلے جعفری
(دوسرا اور آخری حصہ)
قافلے کے ایک اور پڑائو میں بانو آپا اشفاق احمد کے ساتھ آئیں۔ سید فخرالدین بلے اور اشفاق احمد خان صاحب میں تصوف پر خوب مکالمہ ہوا۔ دونوں ہی دریائے تصوف کے شناور تھے۔ اشفاق صاحب کے سوالات کانٹے کے تھے اور فخرالدین بلے کے جوابات بھی۔ منور سعید، بیگم منور سعید، شائستہ سعید کے ساتھ ڈاکٹر وحید قریشی، بیدار سرمدی، کرامت بخاری، ڈاکٹر انور سدید، سرفراز سید، کنول فیروز، ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر اجمل نیازی، علامہ غلام شبیر بخاری، حسین مجروح، افتخار ایلی، اسرار زیدی، شاہد واسطی، میرزا ادیب، ظفر علی ر اجا، ڈاکٹر آغا سہیل، ڈاکٹر وزیر آغا، حسن رضوی، نجمی نیگنوی، غلام الثلقین نقوی، نسرین شیراز اور آمنہ آصف سمیت تمام شرکائے قافلہ اشفاق احمد اور فخرالدین بلے کے مابین ہونے والے مکالمے سے خوب محظوظ ہوئے۔ اختتام پر علامہ غلام شبیر بخاری نے سید فخرالدین بلے کی غزل کا یہ مصرع پڑھ کر بحث سمیٹی ۔سوال خوب تھا ،لیکن جواب کیسا ہے؟
بانو آپا یہ کہہ کر قافلے کے پڑائو سے اٹھیں کہ آج بڑی خوب صورت گفتگو سننے کو ملی ہے۔ ایسی محفلیں سجاتے رہو اور ہمیں بلاتے رہو۔
سید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ داتاکی نگری میں تشریف لائے توان کے اعزازمیں قافلے نے پڑاو ٔڈالا، رات کو میرے والد سید فخرالدین بلے نے ان کے لیے ضیافت کا اہتمام کیا۔ نامور ادبی جوڑا بھی خصوصی دعوت پر شریک محفل ہوا۔ بات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہوتی ہوئی تربیت گاہوں تک پہنچ گئی۔ بانو آپا نے کھل کر گفتگو کی۔ کہنے لگیں علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اپنے رنگ ڈھنگ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ یہ بولیں تو ان کی تربیت بھی بولتی ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کااہتمام کرناچاہیے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے ہیں لیکن تربیتی ادارے نہیں ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں کو تربیت گاہوں میں تبدیل کرکے سماجی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ ان کا ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا بڑا اچھا لگا، مجھے ہی نہیں بھارت سے آئے ہوئے مہمان سید حامد کو بھی۔
برسوں پہلے بانو آپا کی والدہ ماجدہ شدید علالت کے باعث لاہورکے ایک اسپتال میں داخل تھیں۔ میرے والدِ بزرگوار سید فخرالدین بَلے کو پتا چلا تو وہ میری ا می محترمہ اور مجھے لے کر اسپتال پہنچے۔ اشفاق احمد خان اور ممتاز مفتی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ ان سے اسپتال کے باہرہی ملاقات ہوگئی۔ اب طبیعت کیسی ہے؟ ابو نے پوچھا تو اشفاق احمد اور بانو قدسیہ خاموش رہے۔ البتہ ممتاز مفتی نے اتناکہاکہ بَلّے صاحب! جو آیا ہے، اسے جانا ہے۔ باریاں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں ہی نہیں ہمیں بھی جانا ہے۔ اللہ سے ملاقات کا بہانہ تو ضرور بنے گا۔ ان کا لب ولہجہ بتا رہا تھا کہ وہ دونوں کو تشفی اور تسلی دینے کے بجائے جوکچھ ہونے والا ہے، اس کے لیے ابھی سے ذہنی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ پھر وہی کچھ ہوا، جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ بانو آپا کے سر سے محبتوں اور شفقتوں کا سایہ اُٹھ گیا۔ ان کی آ نکھوں میں آنسو توضرور جھلملائے لیکن وہ اللہ کے اس فیصلے پر راضی بہ رضا نظرآئیں۔ میں نے انہیں غم کاپہاڑ ٹوٹنے پر بھی پیکر ِ تسلیم پایا۔
بانو آپا اسلامی اقدار اور روایات کی امین تھیں۔ ڈھلکنے سے پہلے اپنے آنچل کو سنبھال لیتی تھیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر تصوف کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ البتہ کسی ادبی تحریک کا اثر انہوں نے لگتا ہے قبول ہی نہیں کیا۔ دائیں بازواور بائیں بازو کی تحریکیں بھی چلیں لیکن انہوں نے دائیں یا بائیں طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا کیونکہ وہ تو میانہ روی کی قائل تھیں۔ اسی کو وہ سچا راستہ کہتی اور سمجھتی رہیں۔ غور کریں تو سچائی ہی ان کی شخصیت اور فن کی پہچان ہے۔ مخلوق ِخدا کی مدد کو ساری زندگی عبادت سمجھتی رہیں اور اس عبادت کی روشنی سے ان کی زندگی کی کتاب کے اوراق روشن ہیں۔
ایڈیٹر ادب ِ لطیف کی حیثیت سے بھی کئی بار مجھے معروف ادبی جوڑے سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ادیبوں اور شاعروں کے بہت سے قصے بھی سنے۔ پوچھنے پر یہ بھی بتا دیا کرتی تھیں کہ آج کل کون کون سی کتابیں پڑھ رہی ہیں اور کون کون سی کتابیں حال ہی میں پڑھ چکی ہیں۔ خود نمائی سے کوسوں دور تھیں۔ تکلف اور تصنع انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ سادگی، مروت اور رواداری ان میں رچی بسی تھی۔ ادب ِ لطیف کی چیف ایڈیٹر محترمہ صدیقہ بیگم سے بھی میں نے آپا بانو قدسیہ کی بہت سے باتیں سنیں۔ وہ ان کی سمدھن بھی ہیں۔ دونوں میں محبتوں اور احترام کا رشتہ قائم ہی نہیں تھا، نظر بھی آتا تھا۔ اشفاق احمد صاحب کے رخصت ہو جانے کے بعد بانو آپا نے اپنی بہت سے سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ ادب سے رشتہ تو نہیں ٹوٹ پایا لیکن بینائی کمزور پڑ جانے کے باعث آخری ایام میں ان کا لکھنا لکھانا بہت کم ہو گیا۔ سلام ہے ان کے فرزندِان ِ گرامی انیس احمد خان اور اسیر احمد خان کو جو اپنی ماں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے۔ وہ واقعی اپنی ماں کی آنکھوں کا نور بنے رہے اور کسی بھی موڑ پر انہیں اپنی نظر کی کمزوری کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔
کوتاہی ہوگی اگر میں ان کی کتاب راہ ِ رواں کا ذکر نہ کروں ،جو انہوں نے اپنے مجازی خدا اشفاق احمد صاحب کے حوالے سے لکھی ہے۔اس کتاب کو پڑھ کر دو اہم شخصیات اپنے تمام تر خوب صورت خدو خال کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے آئیں گی۔ایک اشفاق خان صاحب اور دوسری شخصیت بانو قدسیہ کی ہے۔یہ محبتوں کے سفر کی زندہ کہانی ہے ،جس میں سچے جذبے کے بھرپور ترجمانی ہے۔ اس کتاب کو پڑھیے تو یہ خود بتائے گی کہ بانو آپا کے دل پر اشفاق احمد خان کی حکمرانی ہے۔
بانو قدسیہ کی زندگی کی کتاب بند ضرور ہوگئی ہے لیکن اس کے سا تھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ ان کی کتاب ِ زندگی کے اوراق دوبارہ کھلنے لگے ہیں۔
اب نئے زاویوں سے انہیں اوران کے فن کودیکھاجائے گا۔ممکن ہے ہم ان کی دودرجن سے زیادہ کتابوں سے ایک مختلف بانو قدسیہ کودریافت کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ایساہواتوان کی موت انہیں فنی زندگی میں ایک اور زندگی بخش دے گی۔

حصہ