ایک شام دوستوں کے نام

3098

سیمان کی ڈائری
کسی بھی ملک ،شہر یا گاؤں میں ہونے والی ادبی تقریبات اس بات کا ثبوت ہیںکہ وہ قومیں زندہ ہیں اوراپنی تہذیب،ثقافت اوراپنے کلاسیک سے جڑی ہوئی ہیں اور اس کی آبیاری میں نئے رنگ وبو کا اضافہ کرنے میں پیش پیش ہیں اور ان کا ادب محفوظ ہاتھوں میں ہے جو نسل در نسل آگے منتقل ہو رہا ہے۔آج کل شہر کراچی میں بھی اردو ادب کی بہار کا عالم ہے۔کراچی لٹریری فیسٹیول جو تاحال جاری ہے اور اس میں اردو ادب سے متعلق مختلف سیشن رکھے گئے ہیں اور مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔اس طرح کی تقریبات اب شہر کراچی میںہر سال تواتر کے ساتھ جاری ہیں، جیسے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ایک ایسا ادبی گہوارہ بن چکا ہے جس نے اب تک دس عالمی اردو کانفرنسز کا انعقاد کیا ہے اور صرف یہی نہیں آرٹس سے جڑے ہوئے ہر شعبے کو عالمی سطح پر فروغ حاصل ہے۔
بلا شبہ اس گہوارے کو پروان چڑھانے اور عروج تک پہنچانے میں احمد شاہ صاحب کی بھرپور کوششیں اور دن رات کی انتھک محنت شامل ہے۔ انھی کی کوششوں سے شہر کراچی کو نئی زندگی ملی ہے ۔ شہریوں میں شعور بیدار ہوا ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی جہاں کسی زمانے میں کوئی بیٹھنے کو تیار نہیں تھا۔ اب وہی جگہ فیملیز کے معیار کے مطابق ہے جہاں والدین اپنے بچوں کو آزادی اور اطمینان کے ساتھ مختلف فیسٹیول میں شرکت کے لیے بھیجتے ہیں اور انھیں میں نیا ٹیلنٹ اپنے تخلیقی جوہر کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ کراچی لٹریری فیسٹیول بھی اب ہر سال باقاعدگی سے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد کیا جانے لگا ہے۔ اس طرح کے فیسٹیولز یا کانفرنسز میں صرف ایک چیز جو مدنظر رکھنے والی ہے کہ کیا وہی جو کلاسک میں موجود ہے ہم اسی کو دہرا رہے ہیں یا پھر اس میں کچھ نیا بھی ہے اور اگر کچھ نیا ہے تو اس کا معیار کیا ہے؟ یامحض تعلقات کے فروغ کے لیے انھیں ناموں کو بلایا جاتا ہے۔ جیسے مشاعرہ ہے اور اس کی فہرست جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے انھوں نے اس میں نیا اضافہ کیا کیا ہے۔بس منتظمین اس بات کو اگر مدنظر رکھتے ہیں تو پھر اس طرح کے فیسٹیول ضرور اور زیادہ سے زیادہ ہونے چاہئیں۔
اسی رنگا رنگی کے دوران دیار غیریعنی کینیڈا سے آئے ہوئے تین مہمان،عظمیٰ محمود، رشید ندیم اور عرفان ستارکے اعزاز میں مختلف ادبی دوستوں نے تقریبات کا اہتمام کیا۔ ایک تقریب جو بزم سائبان کے زیر اہتمام ڈیفنس اتھارٹی کلب میں منعقد کی گئی۔اس بھرپور نشست کومیزبان معروف ڈراما نگار اور شاعرہ محترمہ سیما غزل نے سجایا۔عظمیٰ محمود کی کتاب’’مکاں سے لامکاں تک‘‘ کی تقریب رونمائی کی صدارت سابق شیخ الجامعہ کراچی جناب ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صاحب نے کی ۔معروف شاعرہ شاہد حسن،عرفان ستار اور رشیدندیم صاحب اور آخر میں صدر محفل جناب ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے عظمی محمود کی کتاب پر گفتگو کی۔مقررین کی گفتگوکے بعد عظمٰی محمود سے ان کی شاعری سنی گئی جسے حاضرین محفل نے سراہا۔اس کے بعد حاضرین کی خواہش کے مطابق محترم عرفان ستار،رشید ندیم اور محترمہ شاہدہ حسن سے بھی ان کا کلام سنا گیاجسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔تقریب کے بعد سیما غزل کی جانب سے مہمانوںکے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔
تقریب ختم ہوئی تو ہمارے دیرینہ دوست عرفان ستارنے مجھ سے کہا کہ بھائی دوستوں کا اکھٹا کروکہیں بیٹھ جاتے ہیں۔عرفان ستار اگر نہ بھی کہتے تو بھی میں نے سوچا ہوا تھا کہ ایک نشست ایک شام ہم دوستوں کو جمع کرکے کہیں بیٹھ جائیں گے اور اس میں پرانی یادوں کو تازہ کیا جائے گا اور عرفان بھائی سے ان کی تازہ غزلیں سنیں گے۔اس پروگرام میں جناب خواجہ رضی حیدر بھی شامل تھے۔ سو طے پایا کہ جمعرات کی شام یعنی اگلے روزآرٹس کونسل کے کیفے گل رنگ میں دوستوں کو اکھٹا کرتے ہیں ۔اب تمام ذمے داری مجھ پر تھی۔ میں نے سوچا رات تو بہت ہوچکی ہے اور اس وقت کسی بھی دوست کو فون کرنا مناسب نہیں رہے گا۔چنانچہ صبح ہوتے ہی دوستوں کو مطلع کریں گے۔ اگلے روز دن میں سب سے پہلے اجمل سراج بھائی کوفون کیا اورانھیںبتایا کہ مہمان دوستوں کے ساتھ نشست کا ہنگامی بنیادوں پر پروگرام بناہے کیا کِیاجائے؟اجمل بھائی خوش ہوئے اور انھوں نے حسب معمول کہا کہ پرواہ نہیں کروسب ہو جائے گا ۔تم بھی جتنے دوستوں سے کہہ سکتے ہو کہہ دو، میں بھی فون کرتا ہوں۔ میں نے دوستوں کو فون اور میسجز کیے۔ اچانک اطلاع پر کچھ دوستوں نے معذرت کی،کچھ نے آنے کا وعدہ کیا۔شام ہوئی تو میں نے آرٹس کونسل کا رخ کیا اور کیفے گل رنگ میں ایک جگہ ڈیرہ جمالیا کہ یہاں سب دوست مل بیٹھیں گے۔ اسی دوران مجھے احمد شاہ صاحب دکھائی دیے۔ مجھے دیکھتے ہیں انھوں نے محبت بھرے انداز میں ’’کیا حال ہیں پیارے‘‘ کہا اور گلے لگا لیا۔ جیسا کہ وہ اپنے عزیزدوستوں کے ساتھ اسی طرح محبت سے پیش آتے ہیں۔میں نے ہمت کرکے عرض کی کہ کچھ مہمان دوستوں کے ساتھ ایک شعری نشست ہے اور ہمیں گل رنگ ہال میں بیٹھنا ہے۔ انھوں نے خوش دلی سے کہا کہ بھائی سکون سے اندر ہال میں اپنی نشست کرو۔ کچھ ہی دیر میں مہمان شعرا،عظمٰی محمود،رشید ندیم اور عرفان ستار، خواجہ رضی حیدر اوران کے دیرینہ دوست معروف آرٹسٹ یوسف تنویر صاحب تشریف لے آئے۔ہم لوگ وہیں باہر بیٹھے اور دیگر دوستوں کا انتظار کیا۔
عرفان ستار نے اپنے ساتھ آئے ہوئے مہمان شعراعظمی محمود اور رشید ندیم کو آرٹس کونسل کے بارے میں بتایااور اپنے وقت کی باتیں بتائیں جب وہ یہاں کراچی میں مقیم تھے۔اسی دوران خواجہ رضی حیدر صاحب سے ان کی نظمیں سنی گئیں۔ ہمارے پیارے دوست معروف شاعرو صحافی علاؤالدین خانزادہ بھی تشریف لے آئے ۔ چونکہ انھیں آفس کی مصروفیت تھی لیکن میرے کہے پر انھوں نے اپنی حاضری کویقینی بنایااورکچھ دیرہمارے درمیان رہے ۔مہمانوں کو انھوں نے اپنا مجموعہ کلام ’’محبتوں کا سفر‘‘پیش کیا۔اسی اثنا میں میں میرا پیارا دوست معروف اینکرصحافی اور خوبصورت شاعر وجیہ ثانی بھی آگیا اور دوستوں میں اپنی محبتیں نچھاور کیں۔ معروف شاعر خالدمعین بھائی کا فون آیا کہ وہ بھی راستے میں ہیں اور کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔ عمران شمشاد بھی اپنے کام کاج سے فارغ ہو کر پہنچنے والا تھا۔ نوجوان شاعر سانی سید بھی آگیا۔ توقیر تقی کا فون آیا کہ ان کی والدہ ماجدہ کی طبیعت ٹھیک نہیںہے، انھوں نے آنے سے معذرت کی۔ اللہ پاک ان کی والدہ صاحبہ کو تندرستی عطافرمائے،آمین۔ نعمان جعفری کی طبیعت خراب تھی‘ خانزادہ بھائی رخصت ہوئے توکچھ دیرمیں اجمل بھائی اور زاہدعباس بھی تشریف لے آئے۔تب کہیں جا کر مجھے کچھ حوصلہ ملا ۔عرفان ستار نے مہمان شعرا کا اجمل سراج سے تعارف کروایا اور ماضی میں ایک ساتھ گزارے ہوئے ان لمحات کویاد کیا اور ہمیں اپنے عہد کے قصے سنائے۔ گفتگو کے دوران عزم بہزاد مرحوم بھائی کوبھی یاد کیا۔اب تقریباکورم پورا ہوچکا تھا۔کیوں کہ ہمارے دوست عظیم حیدرسیداور نوجوان شاعرہ گل افشاں بھی آ چکی تھیں۔ہم لوگ گل رنگ ہال میں چلے گئے۔وجیہ ثانی اور سانی سید نے محبت سے احباب کے لیے نشستیں بنائیں ۔ اندر ہال میں پہنچنے کے بعد آرٹس کونسل کراچی کی لائبریری کمیٹی کے چیئرمین اور نظم کے عمدہ شاعر جناب سہیل احمد ، حمیدہ کشش،انجم وفا ، معروف آرٹسٹ وصی حیدر،جناب خالد معین صاحب اور میرا پیار دوست شاعرعمران شمشاد بھی آ گیا۔اب دل کو اطمینان ہوا اورشعری نشست کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔
مہمان شعرامحترمہ عظمی محمود،رشید ندیم اور عرفان ستارکے اعزاز میں اس شعری نشست کی صدارت جناب خواجہ رضی حیدر صاحب نے کی۔نظامت کے لیے میں نے اجمل بھائی سے درخواست کی جو انھوں نے قبول کی۔ اجمل سراج اپنی شاعری کی وجہ سے ملک میں اور ملک سے باہر تو مقبول ہیں ہی اور اس میں کوئی شک نہیںکہ ہمیں ان جیسا محبت کرنے والا مہرباں دوست نصیب ہوا جس کی قربت میں ہم ایسوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور سیکھتے ہیں۔ان کی نظامت بھی دوستوں کو معلوم ہے کہ وہ کتنی خوبصورت کرتے ہیں۔ میری درخواست پر اجمل سراج بھائی نے نظامت قبول کی اور میزبان ہونے کے ناطے سب سے پہلے میں نے شروعات کی ۔پھر نوجوان شاعرہ گل افشاں صاحبہ کو دعوت دی گئی،سانی سید،حمیدہ کشش، زاہد عباس، عمران شمشاد، وجیہ ثانی، عظیم حیدر سید، اجمل سراج، خالد معین، وفا صاحب نے اپنی شاعری سنائی۔ طے تو یہ ہوا تھا کہ کینیڈاسے آئے ہوئے مہمان شعرا سے ان کا کلام سناجائے گا لیکن مہمانوں کی خواہش تھی کہ یہ شعری نشست ہونی چاہیے۔سانی سید، وجیہ ثانی ،عظیم حیدرسیدکی شاعری کو شعرا کرام نے بھرپور سراہا۔عمران شمشاد سے ان کی مشہورنظم ’سڑک‘ سنی گئی جو کئی نظموں کے برابر اور ان کی نمائندہ نظم ہے۔اجمل سراج بھائی اور خالدمعین بھائی سے فرمائش پر ان کی بہترین غزلیں سنی گئیں۔
اب باری تھی مہمان شعرا کی توسب سے پہلے عظمی محمود سے ان کا کلام سنا گیا ۔عظمی محمود سے قبل عرفان ستار نے دونوں مہمانوں کا تعارف کروایا اور گفتگو کی۔عظمی محمود صاحبہ سے ان کی غزلیں سنی گئیں۔اسی دوران وجیہ ثانی نے ترنم کی فرمائش کی۔اس پر عرفان بھائی نے بتایا کہ عظمی محمود پنجابی زبان میں بھی بہت اچھا لکھتی ہیں۔ عظمی محمود صاحبہ نے پنجابی کلام ترنم سے سنایا جس میں شام کے مختلف رنگ نمایاں تھے۔عظمی محمود کے خوبصورت ترنم کے بعد دوسرے مہمان شاعر رشید ندیم صاحب سے ان کی غزلیں سنی گئیں۔ان کی شاعری میںصوفیانہ اندازاور فکر بہت نمایاں تھی، جسے شعراکرام نے خوب سراہااور دل کھول کر داددی۔ صدرمحفل سے پہلے اب باری تھی ہمارے پیارے دوست جناب عرفان ستار کی جن کے دو مجموعہ کلام اردوادب میں اپنا رنگ جماچکے ہیں۔عرفان ستار،خالد معین اور اجمل سراج کے بعد کراچی کے عہد موجود کی اردو شاعری کا اثاثہ ہیں۔وہ جتنے پاکستان میں مقبول ہیں اسی قدر ملک سے باہر بھی اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ ہماری دعائیںہمیشہ ان کے ساتھ ہیں کہ اللہ تعالی انھیں مزید عزت اورکامرانیاں عطا فرمائے‘ آمین۔ عرفان ستار سے ان کی تازہ غزلیں سنی گئیں۔ آخر میں صدر محفل جناب خواجہ رضی حیدر صاحب سے ان کا منفرد مجموعہ کلام سنا گیا۔
اس یادگار نشست کو سجانے میں بلاشبہ ان تمام دوستوں کا ہاتھ تھا جنھوں نے اس میں بھرپور شرکت کی ۔ بہت دنوں بعد ایسی شاندارنشست ہوئی جس میں شعرا ہی سامع تھے۔تمام شعرا ئے کرام کے کلام کو یکسوئی سے سنا گیا۔نظامت کے بارے میں کیا کہوں ،سوائے اس کے کہ اجمل بھائی تو اجمل بھائی ہیں۔انھوں نے ہر شاعر کی آمد سے قبل اُنھیںاپنے مخصوص انداز میں مدعو کیا اوراُن کا تعارف بھی کراتے رہے ۔تقریب کے اختتام پر احباب کا فوٹوسیشن بھی ہوا اور ایک دوسرے کو اپنی اپنی کتابوں کے تحائف بھی پیش کیے۔ میری آج کی ڈائری کا موضوع دراصل تعزیتی اجلاس سے متعلق اور اس بات کی طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا تھا کہ ہم اپنے معاصرین میں خاص کر جو ہمارے سینئرز ہیں جن میںجناب سحر انصاری،ڈاکٹرپیر زادہ قاسم ،خواجہ رضی حیدر،افضال احمد سید اور اسی قبیل کے اور اساتذہ کرام شامل ہیں‘ ان کے ساتھ اُن کی زندگیوں میں کوئی شام ،کوئی جشن ،کوئی بھر پورتقریب کب منعقد کی جائے گی جس میں اُن کے اردو کے فروغ کے لیے کیے جانے والے مختلف اصناف ادب پر کام کے حوالے سے مضامین ہوں ،گفتگو ہو۔کیا ہم بھی اُن کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا انتظار کررہے ہیں ؟کہ اُن کے بعد محض ایک تعزیتی اجلاس بلاکر جتنا جمع ہے خرچ کریں گے اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فراموش کردیں گے۔

حصہ