زینب کے قاتل عوام ہیں

273

سید اقبال چشتی
(دوسری اور آخری قسط)
پاکستان میں آئے روز ہونے والے ظلم و زیادتی کے واقعات پر عوام حکمرانوں سے انصاف مانگتے ہیں۔ کیا عوام نے بھی اپنے ساتھ انصاف کیا ہے؟ اگر کوئی دکاندار کم تولے یا بدتمیزی کے ساتھ پیش آئے تو ہم دوبارہ اس دکاندار کے پاس نہیں جاتے، لیکن بار بار دھوکا دینے والے کرپٹ سیاست دانوں کو حکمرانی کے منصب پر ایک سے زائد بار بٹھانا کون سا انصاف ہے! معاشرے سے عدل و انصاف کا اُٹھ جانا ہماری ہی کوتاہیوں کی وجہ سے ہے، جس برطانیہ سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی آج بھی اُسی کا قانون ہمارے ملک میں رائج ہے۔ جو قانون انڈیا میں ہے وہی قانون پاکستان میں ہے۔ ہندو ثقافت اور برطانوی استعمار سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی، آج کے پاکستانی معاشرے کو دیکھا جائے تو اس میں مغربی اور ہندوانہ کلچر ہی نظر آئے گا جو ہمارے اخلاقی زوال کی نشانی ہے۔ اب تو حد ہی ہوگئی ہے کہ سانحہ قصور کو جواز بناکر ہمارے ہی معاشرے اور حکمرانوں کی طرف سے یہ آواز اُٹھائی جارہی ہے کہ سیکس ایجوکیشن کے ذریعے ہم اپنا اور بچوں کا مستقبل محفوظ کرسکتے ہیں۔ اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس تعلیم سے معاشرے میںآگاہی پیدا ہوگی تو کیا اس تعلیم کی بات کرنے والوں نے اُن ممالک کی صورتِ حال کا مطالعہ کرلیا ہے جہاں سیکس ایجوکیشن کے بعد معاشرے میں اچھائی کا عنصر پروان چڑھا یا برائی مزید پھیل گئی؟ اگر ہم نے کسی بھی سطح کی یہ جنسی تعلیم اپنے ملک میں شروع کی تو اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، کیا حکمرانوں اور اُن لوگوں نے جو اس تعلیم کے حامی ہیں، اُن ممالک کا ہر لحاظ سے جائزہ لے لیا ہے جہاں یہ تعلیم دی جاتی ہے؟ نئی نسل اُن ممالک کے ہاتھ میں رہی یا نئی نسل نے اپنے مذہب اور معاشرتی اقدار ہی سے بغاوت کردی؟ دور نہ جائیں، بھارت جو ہمارا پڑوسی ملک ہے، جس میں لوگوں کی کثیر تعداد ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے، اس مذہب کے دیوی دیوتا کے مجسمے برہنہ حالت میں ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اُس معاشرے میں شرم و حیاء ایک فطری عمل ہونے کی وجہ سے موجود ہے۔ جہاں خاندان اور شرم و حیاء کے حوالے سے مشرقی رواج عام ہے۔ جہاں آج بھی ہندو عورت اپنے سر کو ڈھانک کر رکھتی ہے۔ مذہبی طور پر بھی آزادی حاصل ہونے کے باوجود ہندو مذہب کو ماننے والے مادر پدر آزادی کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لیکن مغرب کو خوش کرنے کے نتائج یہ نکلے کہ آج بھارت بچوں اور عورتوں کے عدم تحفظ کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎

اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

اپنی تہذیب اور تمدن کو چھوڑ کر مغرب کو خوش کرنے کے نتائج ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ امریکا کے ہر حکم کی تعمیل کرکے بھی کوئی عزت نہیں ملی، بلکہ ڈومور ہی کا مطالبہ ہورہا ہے۔ اب تعلیمی نصاب پر حملہ کرکے نئی نسل کو بے حیائی کی تعلیم دینے کی بات کی جارہی ہے۔ انسان بچپن سے لڑکپن اور جوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہو ئے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو پروان چڑھاتا ہے، اسی لیے اسکولوں میں چھوٹی عمر کے بچے ایک ساتھ پڑھتے ہیں، ایک ساتھ کھیلتے ہیں، مگر والدین کو اعتراض نہیں ہوتا، اس لیے کہ ان کے ذہنوں میں ابھی مخالف جنس کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن وقت کے ساتھ جب بچے بڑے ہوتے ہیں اور لڑکا لڑکی کا تصور اور مخالف جنس کے حوالے سے آگاہی ہوتی ہے تو فرد میں خودبخود تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے جو قدرتی عمل ہے، اور یہی وہ صحیح وقت ہے جب والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت علم و آگاہی کے ذریعے کریں کہ بچے کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ اور یہ والدین ہی کی ذمہ داری ہے، نہ کہ ہر چیز اسکول میں سکھائی جائے۔ علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم سے ایک ٹی وی پروگرام میں سوال کیا گیا کہ ہمارا معاشرہ مخلوط تعلیم اور سیکس ایجوکیشن کا مخالف کیوں ہے؟ اس پر مولانا نورانی نے فرمایا کہ کیا آپ اس بات کے حامی ہیں کہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی ہزاروں بچے ناجائز پیدا ہوں؟ اس ایک جملے میں سب کچھ بیان کردیا گیا تھا، کہ اگر ہم مغربی تہذیب کو اپنے ملک میں لائیں گے تو ہمارے معاشرے کا کیا حال ہوگا۔ اس کی مثال ترکی سے لے لیں کہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے مذہب پر وار کیا تھا، مسجدوں کو تالے لگا دیئے گئے تھے، اذان دینے پر پابندی تھی، اسلامی لباس پہننا اور داڑھی رکھنا جرم تھا، مگر آج ترکی کے عوام ہر طرح کی مغربی آزادی کے مزے لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم جو چاہیں کرلیں، مگر ہمیں کہیں سکون میسر نہیں آئے گا اور نہ ہی یہود و نصاریٰ ہم سے خوش ہوں گے۔ اس لیے ترکی کے عوام نے اس راز کو پالیا کہ ہماری بقاء اور نجات دینِ اسلام کو اپنانے اور اس دین کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں ہے۔ جب ترکی کے عوام نے کرپشن سے پاک قیادت یعنی اسلام پسندوں کو اقتدار تک پہنچایا تو انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اسلام میں کتنی برکت ہے۔ اس برکت کے ثمرات ترکی میں نظر آرہے ہیں۔ لوگ اسلام کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں ہر خاص و عام کی آمدنی میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ترکی کی حیثیت کو تسلیم کیا جارہا ہے، کیونکہ وہاں کی حکومت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بحالی کے لیے کوشش کررہی ہے، اور ایک ہمارا دانشور اور حکمران طبقہ ہے جو اپنے ملک میں بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے کے نام پر فحاشی و عریانی پھیلانا چاہتا ہے حالانکہ اس سے خود مغرب پریشان ہے کہ کس طرح اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ پہلے ہی مغربی تعلیم اور طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے معاشرتی طور پر یہ قوم تقسیم ہوکر اپنے آپ اور دین سے دور ہوگئی ہے، اس پر جنسی تعلیم کا یہ فتنہ معاشرے کو بگاڑنے کا مزید سبب بنے گا۔ شاعر نے شاید اسی مناسبت سے کہا تھا ؎

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی، اولاد بھی، جاگیر بھی فتنہ

مغربی ممالک اور بھارت کا انجام اس تعلیم کے سبب ہمارے سامنے ہے، جہاں ہوس کے پجاری مزید وحشی درندے بن گئے۔ پاکستانی عوام بھی دو کشتیوں کے سوار ہونے کے بجائے ایک فیصلہ کریں کہ ہمیں کیا کرنا ہے… مغربی اقدار اور ثقافت، یا دینِ اسلام؟ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آزادی مغرب کی حاصل ہو اور تحفظ دینِ اسلام کا حاصل ہو۔ جیسا ملک میں نظام رائج ہوگا ویسا ہی معاشرہ پروان چڑھے گا۔ فحاشی کے کلچر کو فروغ دینے کی حکمرانوں کی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صرف ایک قصور شہر میں ایک سال کے اندر گیارہ معصوم بچیوں کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا اور عوام ظالم حکمرانوں سے ہی اپنے تحفظ اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یاد رکھیے صرف خواہشوں سے تبدیلی نہیں آتی۔ ظلم کے نظام کے خلاف میدانِ عمل میں اُترنا پڑتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ چہرے نہیں نظام کو بدلو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں مبعوث ہوئے تھے وہ جہالت، ظلم اور برائی پر مبنی معاشرہ تھا، طاقت ور انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں کو غلام بنایا ہوا تھا۔ قحبہ گری، چوری، ڈاکے ڈالنا پیشہ شمار ہوتا تھا۔ لیکن جب دینِ اسلام کو لوگوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور معاشرے کی اصلاح کے لیے طویل جدوجہد کے ساتھ قربانیاں دیں تو اللہ نے بھی اپنی رحمت کے دروازے کھول دیئے۔ کل کے زانی شرابی عصمتوں کے رکھوالے بن گئے۔ چور اور ڈاکو امانت دار بن گئے۔ آدھی دنیا پر حکمرانی ہونے کے باوجود امن و امان تھا، خوشحالی تھی، اس لیے کہ حکمرانوں نے اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کیا تھا۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم مصیبت کے وقت اللہ اور رسولؐ کی شریعت کو یاد کرتے ہیں لیکن دینِ اسلام کو اقتدار تک نہیں پہنچاتے اور سب کچھ اچھا ہوجائے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ کیا ہمارا معاشرہ مکہ کے قبل از اسلام کے دور سے بھی برا ہوچکا ہے؟ یقینا نہیں۔ الحمداللہ 98 فیصد پاکستانی مسلمان ہیں۔ مگر عوام پریشان ہیں مہنگائی سے، بدامنی سے، چوری ڈاکے اور ظلم سے، ناانصافی سے، بے حیائی اور قتل و غارت گری سے… کیونکہ وہ ظلم کے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے گھروں سے نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا تو اس پاکستان میں ترقی، خوشحالی اور پُرامن معاشرہ کوئی فراہم کرسکتا ہے تو وہ دین اسلام ہے جس کے نفاذ ہی سے یہ ممکن ہے۔ اسلام کے معاشی اور معاشرتی نظام کو نافذکیے بغیر ہم سکون حاصل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح اسلامی قوانین ہی ظلم و زیادتی پر مبنی واقعات کا تدارک کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے شرط یہی ہے کہ پوری قوم مایوسی اور نااُمیدی سے دامن چھڑا کر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے عملی طور پر جدوجہد کرے، کیونکہ اسلامی پاکستان ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔ بقول اقبالؒ ؎

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

حصہ