کمیٹیوں کا پاکستان

248

تنویر اللہ خان
تیس برس ہونے کو آئے ہیں جب پہلی مرتبہ عوامی سطح پر محترم قاضی حسین احمدؒ نے 5 فروری کے دن ’’یومِ یک جہتیٔ کشمیر‘‘ منایا تھا۔ اس دن جماعت اسلامی کے کارکنان نے پورے ملک جگہ جگہ کیمپ لگائے۔ ان کیمپوں سے ملّی نغمے سنائے جارہے تھے، جب کہ گاہے بگاہے مسئلہ کشمیر سے متعلق بھی عوام کو آگاہی دی جارہی تھی۔ قانون کے مطابق عام تعطیل کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے، لیکن چھٹی کا یہ حکومتی اختیار اگر حزبِ اختلاف یا حکومتی گروہ سے باہر کا کوئی سیاسی رہنماء استعمال کرے تو اسے عرفِ عام میں ہڑتال کہا جاتا ہے، لیکن اب یہ روایت بھی بدل چکی ہے اور حکومت کی جانب سے بھی احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا جانے لگا ہے۔ بہرحال پانچ فروری کے دن پہلی بار قاضیؒ مرحوم کے اعلان پر عام تعطیل یا عام ہڑتال کی گئی تھی۔
اس دن کراچی کے شہریوں نے بھی ’’رضاکارانہ‘‘ اپنے کاروبار بند رکھے، پبلک ٹرانسپورٹ سو فیصد بند رہی، کراچی اور سری نگر میں سرحدی تقسیم سے بالا ایک جیسا سماں دیکھنے میں آیا۔ بعد کے برسوں میں کراچی رضاکارانہ کے بجائے جابرانہ ہڑتالوں سے دوچار رہا، اور یہ ہڑتالیں دوچار دن نہیں بلکہ تیس برسوں تک کراچی پر مسلط رکھی گئیں۔
پرویزمشرف اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرتے ہوئے کشمیریوں کی جدوجہد کو جہاد قرار دیتے تھے، لیکن پھر امریکی مفادات نے پلٹا کھایا اوراُس کے تعلقات بھارت سے مزید اچھے ہوگئے، لہٰذا امریکیوں کے بدلتے مزاج کو دیکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے بھی کشمیر کا ذکر کرنا چھوڑ دیا اورکشمیر کمیٹی کو مولانا فضل الرحمان کے حوالے کردیا، اور مولانا نے کشمیر کمیٹی کو ذاتی کمیٹی بنا کر مسئلہ کشمیر کے حل کے بجائے اپنے مسائل حل کرنے تک محدود کردیا ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کا جو کام بھارت نہ کرسکا وہ پاکستان کی کشمیر کمیٹی نے کر دکھایا۔ دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے۔
پاکستان میں طرح طرح کی کمیٹیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک کمیٹی جس کی سربراہ جوڑتوڑ کی ماہر محلے کی کوئی خاتون ہوتی ہے جو محلے کے کمیٹی ممبرز سے پیسے جوڑ جوڑ کر کمیٹی قانون کے مطابق پہلی کمیٹی خود لیتی ہے، یہ فوقیت اسے انتظامی سربراہی کے عوض ملتی ہے۔ اس کمیٹی کی شکل لکی کمیٹی نے بگاڑ دی جس کا فارمولا مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کمیٹی کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کی کمیٹی نکل آتی ہے وہ اپنے پیسے لے کر فارغ ہوجاتا ہے اور اُسے مزید کوئی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔ جب کہ ہر ماہ کمیٹی نکلنے کے دن منتظم کمیٹی کی طرف سے کمیٹی نہ نکلنے پر اپنا سا منہ لے کر جانے والے اپنے سُوجے منہ کے ساتھ تحفے لے کر جاتے ہیں۔ اس لکی کمیٹی کا خاتمہ اکثر منتظم کے غائب ہونے پر ہوتا ہے۔
ایک کمیٹی تحقیقاتی کمیٹی ہوتی ہے۔ یہ کمیٹی اگر کوئی غیر حکومتی جماعت بناتی ہے تو اس کمیٹی کا ’’Understood Mandate‘‘ کمیٹی اور مسئلے کو تاقیامت زندہ رکھنا ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی ممبرز حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی تحقیق کار کی لذت انجوائے کرتے رہتے ہیں اور سائل کمیٹی سے ’’امید‘‘ لگائے رکھتا ہے کہ کب فیصلہ ’’جنم‘‘ لیتا ہے۔ اس طرح نہ سانپ مرتا ہے اور نہ لاٹھی ٹوٹتی ہے۔ یہ ہے نظریاتی سیاست کا عملی مظاہرہ۔
یہی تحقیقاتی کمیٹی اگر حکومتی سطح پر بنائی جاتی ہے تو اس کا بھی ’’Understood Mandate‘‘ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ اور کمیٹی دونوں حکومت کی زندگی تک زندہ رہیں تاکہ کمیٹی ممبرز سرکاری خزانہ انجوائے کرتے رہیں اور ملزم کو بھی سزا نہ ملے۔
اسی طرح دیگر کمیٹیوں میں بلدیاتی کمیٹی، محلہ کمیٹی، پنچایت کمیٹی، قومی اسمبلی و سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی، انتظامی کمیٹی، رابطہ کمیٹی اور نہ جانے اردو کے کس کس طرح کی کمیٹیاں۔
کمیٹیوں کی اس بہتات کو دیکھتے ہوئے میں نے ایک داستان گو تاریخ ساز سے پاکستان میں کمیٹیوں کی تاریخ کے بارے میں دریافت کیا تو اُنھوں نے بتایا’’قیام پاکستان کے بعدکراچی کو ملک کا پہلا دارالحکومت بنایا گیا تھا، تصّور کریں، 1947ء کا کراچی جوگاڑیوں کے ہجوم اور شور سے محفوظ تھا، شہر میں آج کے مقابلے میں بہت کم آبادی تھی، بند ایئرکنڈیشنڈ کمروں کے بجائے سب کا قدرتی ہوا پر تکیہ ہوتا تھا، لہٰذا گھر اور دفتر کشادہ اور ہوادار بنائے جاتے تھے، اس طرزِ تعمیر کے مطابق پاکستان کی پہلی اسمبلی بھی کھلی، ہوادار، بڑی کھڑکیوں اور اُونچے دروازوں سے مزّین تھی، ماضی میں درخت خوروں کا وجود نہیں تھا، لہٰذا اسمبلی کی عمارت درختوں سے گھری ہوئی تھی۔ ان گھنے اور سرسبز درختوں پر چڑیوں کا اپنے گھونسلوں میں بسیرا تھا۔ نومولود پاکستان کے کھلے اور آزاد ماحول میں ان درختوں پر لاکھوں چڑیوں کے چہچہانے کا شور اسمبلی کے عملے اور معزز ارکانِ اسمبلی کو گراں گزرتا تھا، لہٰذا ان چڑیوں کو بھگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ اسمبلی کے احاطے میں موجود درختوں کو کاٹ دیا جائے، اس طرح وہ شاخ ہی نہیں رہے گی جس پر چڑیوں کے آشیانے قائم ہیں۔ اس مشورے پر اعترض آیا کہ ایسا کرنا درخت دشمنی ہوگی۔ کسی نے کہا چڑیوں کا شکار کرکے کھا لیا جائے۔ کراچی اگر آج کا گوجرانوالہ ہوتا تو شاید اس تجویز پر عمل کرلیا جاتا، کیوں کہ گوجرانوالہ کے لحیم شحیم پہلوان منحنی سی چڑیا کا بال برابر گوشت بہت شوق سے کھاتے ہیں، لیکن اُس وقت کے رحم دل لوگوں نے یہ طریقہ بھی پرندوں کے ساتھ ظلم قرار دے کر مسترد کردیا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ایک چڑیا کو مارکر اُس کی کھال میں بھُس بھر کر لٹکا دیا جائے، اس طرح دوسری چڑیائیں اس مُردہ نشانِ عبرت سے ڈر کر بھاگ جائیں گی، لیکن پاکستان میں کھالیں اُتارنے کے موجد جناب الطاف حسین اُس وقت موجود نہ تھے لہٰذا یہ تجویزبھی ناقابلِ عمل قرار دے دی گئی۔ جب چڑیوں سے نجات کا معاملہ مشوروں اوراعتراضات کی سُولی چڑھتا نظر آیا تو کسی ڈیڑھ ہوشیار نے وقتی طور پر صورت حال کو سنبھالنے اور ٹالنے کے لیے مشورہ دیا کہ اس مسئلے کے حل کے ممکنات اور ناممکنات، فائدے، نقصان کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی بنادی جائے۔ اس طرح نومولود پاکستان کی پہلی کمیٹی تشکیل پائی جس کا نام ’’چُڑیا کمیٹی‘‘ رکھا گیا‘‘۔ چڑیا کمیٹی چڑیوں کو بھگانے میں کامیاب ہوئی یا نہیں، اس بارے میں واقعہ بیان کرنے والا بھی لاعلم تھا اور عوام کو بھی اس بارے میں کچھ علم نہیں ہوا۔ لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن… ہم حالات کو وقتی طور پر سنبھالنے اور ٹالنے کی پالیسی پر کاربند ہیں، یعنی کمیٹی، اسٹینڈنگ کمیٹی، تحقیقاتی کمیٹی، تجاویز کمیٹی، نفاذ کمیٹی، پلاننگ کمیٹی، جائزہ کمیٹی… اور ان سب پر نگراں کمیٹی۔ نہ جانے ہم کس کس طرح کی کمیٹیوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اورچڑیا کمیٹی کی طرح ان کمیٹیوں کے عملی کام، ان کے انجام اور اختتام سے لاعلم رہتے ہیں۔
جس طرح حکومت کی کشمیر کمیٹی اپنے ٹریک پر نہیں ہے، اسی طرح میں بھی ڈی ٹریک ہوگیا، لہٰذا اس گم راہی کے بعد راہ پر آتے ہیں۔
بھارت کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ جمہوری نظام کا مطلب ہے انسانوں پر انسانوںکی حکومت انسانوں کے لیے۔ اس نظام میں اکثریت کی مرضی کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اگر اکثریت طے کرے کہ کام رات کے وقت ہوگا اور دن کے وقت آرام ہوگا، تو یہ قانون بن سکتا ہے۔ کشمیرکے عوام بھی اپنا جمہوری حق چاہتے ہیں، جب کہ کشمیریوں کے اس حق کو اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے، لیکن بھارت سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے بعد بھی کشمیریوں کی اکثریت کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
کشمیر دُنیا کا بڑا اور ایشیا کا سب سے بڑا تنازع ہے، جب تک یہ انصاف کے مطابق حل نہیں ہوگا اُس وقت تک بھارت سے کوئی ورکنگ ریلیشن یا کوئی تجارتی، علمی یا فلمی تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ اس تنازعے کے ہوتے ہوئے دونوں ممالک بارود کے ڈھیر پر بیٹھے رہیں گے۔ جس طرح عام زندگی میں بعض لوگوں کے تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ ایک جملے کی چنگاری اُن کا اگلا پچھلا سارا جلا کر رکھ دیتی ہے، اسی طرح مسئلہ کشمیر کے ہوتے ہوئے ان دونوں ممالک کے تعلقات کبھی بھی دیرپا نہیں ہوسکتے۔
دُنیا میں ریفرنڈم اور حقِ رائے دہی کا رواج عام ہے۔ مثلاً اسکاٹ لینڈ کے برطانیہ کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے پر ریفرنڈم، امریکا میں ریاست ٹیکساس کے امریکی فیڈریشن کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے پر دستخطی مہم۔ کشمیری عوام کو بھی اقوام متحدہ اور خود بھارتی وعدوں کے مطابق ’’رائے دہی‘‘ کا حق ملنا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کے 30 رکن ممالک ایسے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ریفرنڈم کے نتیجے میں آزاد ہوئے ہیں۔ جب تیس نئے ملک جنم لے سکتے ہیں تو اکتیسواں ایک اور ملک بن جائے گا تو کیا غلط ہوگا! لہٰذا انصاف کے مطابق یہ فیصلہ کشمیریوں کو کرنے دیں کہ وہ الگ ہونا چاہتے ہیں یا پاکستانی بننا چاہتے ہیں، یا بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بھارت کو اگر یقین ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی اکثریت اُس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو پھر اُسے ریفرنڈم میں پس و پیش کیوں ہے؟
فرد، اداروں، ملک یا ملکوں میں امن صرف انصاف سے قائم ہوسکتا ہے۔ انصاف کا یہی فارمولا کشمیر پر بھی لاگو کرنا چاہیے، تبھی اس خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔

حصہ