برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

401

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے اختلاف رکھنے والے اراکین کے اختلافی پہلوؤں کو میں نے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھا اور کوشش کی کہ اس کے حوالے سے مولانا مودودیؒ نے جو بھی وضاحت کی اور جوابات دئیے وہ بلا کم و کاست آپ کے سامنے رکھ سکوں۔
ہرچند کہ مولانا مودودیؒ کے ساتھ کچھ اراکین کے اختلافات جماعت کے قیام کے چند برسوں بعد ہی پیدا ہوگئے تھے، مگر تقسیم ہند کے مرحلے پر اور پھر پاکستان بن جانے کے بعد ان میں بہت تیزی آگئی۔ ابتدائی دنوں میں اختلاف مولانا محمد منظور نعمانی کی جانب سے سامنے آیا، اور پھر ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے موقع پر ان اختلافات نے بھیانک شکل اختیار کرلی۔ اراکین کے اختلافات کی تین نوعیتیں سامنے آرہی تھیں:
1- مولانا امین احسن اصلاحی کی جانب سے دستورِ جماعت اور اس کی آئینی تشریح و توضیح کے حوالے سے اختلاف کیا گیا تھا۔
2- مولانا محمد منظور نعمانی کی جانب سے جو اختلاف رہا وہ مولانا کی ذات، شخصیت اور گھر کے اندرونی معاملات پر محیط تھا۔
3- انتخابی سیاست کے فیصلے اور صرف اصلاحِ معاشرہ کے میدان میں سے کسی ایک کا انتخاب… یہ تیسری نوعیت تھی جو آخر میں سامنے آئی۔
جہاں تک مولانا امین احسن اصلاحی کا معاملہ تھا، ان کا اختلاف شوریٰ کے دائرۂ کار، شوریٰ کے انتخاب، اس کے اختیارات اور امیر جماعت کے اختیارات کے حوالے سے تھا۔
مولانا امین احسن اصلاحی کا مؤقف تھا کہ ’’امیر جماعت کو شریعت نے شوریٰ کے ایک خاص طریقے کا پابند کردیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ جماعت کو جن لوگوں پر اعتماد ہو، امیر کے لیے لازم ہے کہ انہی سے مشورہ کرے، اور ان سے مشاورت کے بناء وہ کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا… یہ تعین کرنے کے لیے کہ معتمد علیہ لوگ کون ہیں؟ عرب میں انتخابی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی کہ وہاں قبائلی سسٹم میں جو لوگ شیوخ ہوتے ہیں ان کے متعلق آپ سے آپ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے قبیلے کے معتمد علیہ ہیں۔ چونکہ یہاں قبائلی سسٹم نہیں ہے، اس لیے آئینِ شرعی کی رو سے لازم ہے کہ جماعت میں سے اُن لوگوں کو منتخب کیا جائے جو اس کے معتمد علیہ ہوں۔‘‘
مولانا مودودی کی رائے مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے سے مختلف تھی۔ مولانا کا کہنا تھا کہ
’’یہ آئینی شکل جو اصلاحی صاحب پیش کررہے ہیں اس بناء پر جماعت کے نظم کی آخری ذمہ داری امیر پر نہیں بلکہ Amirin Council پر عائد ہوتی ہے اور امیر اس کا پابند ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے انہی لوگوں کی رائے مشورے پر عمل کرے… اولاً تو میں شرعاً اس امر کے لیے کوئی دلیل نہیں پاسکا کہ واقعی امیر کی یہی پوزیشن ہے۔ دوسرے اس مرحلے پر جبکہ جماعت ابھی بن رہی ہے (تشکیل کے ابتدائی مراحل)، بہت کچھ ابھی تربیت اور رہنمائی کی محتاج ہے، اور تحریکِ اسلامی ایک سخت مخالف ماحول میں ابتدائی انقلابی مراحل سے گزر رہی ہے، میرے لیے اس آئینی پوزیشن کے مطابق امارت کی ذمہ داری سنبھالنا مشکل ہے۔‘‘
واضح رہے کہ دستوری شقوں میں اختلاف کی یہ صورت حال پاکستان بننے سے ٹھیک ایک سال پہلے1946ء میں الٰہ آباد میں مجلس شوریٰ کے موقع پر پیش آئی۔ مجلس شوریٰ میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہوئی مگر اُس وقت کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ طے پایا کہ اگست میں دوبارہ شوریٰ کا اجلاس ہو جس میں دوسرے مسائل کے علاوہ اس پر بھی فیصلہ کیا جائے۔
لیکن الٰہ آباد سے واپسی کے راستے میں ایک اور معاملہ پیش آگیا جس نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر کردیا۔ ہوا یہ کہ الٰہ آباد سے واپسی کے راستے میں مولانا کو ان کا ایک غیر مسلم دوست مل گیا جو مولانا کے لٹریچر سے متاثر تھا۔ اُس نے مولانا کی کچھ تجاویز سے جو تہذیبی اور بین الاقوامی وفاق کے قیام سے متعلق تھیں (یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے) اور مولانا کی جانب سے 1938ء میں ’’ہندوستان کے سیاسی حل کی راہیں‘‘ تلاش کرتے ہوئے پیش کی گئی تھیں، اتفاق کیا تھا۔ جس میں خاکہ پیش کیا گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو بہترین تحفظ مل سکتا ہے۔ مولانا نے اپنے غیر مسلم دوست کی تجویز کو بیان کی صورت میں جاری کردیا۔
اس بیان کے جاری ہوجانے کے بعد بعض اراکینِ شوریٰ کی طرف سے اعتراض آیا کہ مولانا کو بیان جاری کرنے سے پہلے شوریٰ سے اجازت لینی چاہیے تھی، ایسا کرکے مولانا نے جماعت کے مسلک اور آئینی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس کی وضاحت میں فرمایا ’’اعتراض آئینی ہے اور اس میں خاصا وزن ہے، اس معاملے میں اگر جماعت کی یہ رائے ہو کہ میں نے یہ کام اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر کیا ہے تو میرے نزدیک یہ ایسا قصور ہے کہ جس کے بعد میں اس کا مستحق نہیں رہتا کہ مجھے امیر جماعت رہنے دیا جائے۔ جماعت کا یہ ووٹ دراصل عدم اعتماد کا ووٹ ہوگا جس پر اگر وہ مجھے معزول نہ بھی کرے تو مجھے مستعفی ہوجانا چاہیے۔‘‘
یہ تنازع اگر فوری حل نہ ہوتا تو آگے چل کر مزید خرابی کی بنیاد بن سکتا تھا، چنانچہ امیر جماعت نے ان دونوں مسائل ( 1- آئینی دائرۂ کار، اور 2- اپنے مستعفی ہونے کے فیصلے)کو شوریٰ کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ شوریٰ کے چار اراکین غازی عبدالجبار، مولانا امین احسن اصلاحی، میاں طفیل محمد اور مولانا مسعود عالم نے فوری طور پر ان نکات پر مشاورت کی۔ دو روز کی مشاورت کے بعد ایجنڈے کی دفعہ 2 اور 3 پر وہ جس نتیجے پر پہنچے وہ باقی اراکین شوریٰ کو بھیج دیا تاکہ ان کی رائے معلوم کی جاسکے۔
مولانا کے اس بیان، ممکنہ استعفے اور شوریٰ کے انتخابی طریقہ کار کے حوالے سے جو اختلافی معاملہ سامنے آچکا تھا، اُس پر دیگر اراکینِ شوریٰ سے رائے طلب کی گئی اور سب کو پابند کیا گیا کہ 10 جون تک اپنی آرا پہنچا دیں۔
اخباری بیان کے حوالے سے اور مولانا کی استعفے والی تجویز پر چار رکنی مجلس میں بحث ہوئی۔ تین اراکین کی رائے تھی کہ مولانا نے بیان جاری کرکے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے، اور ایک کی رائے تھی کہ انحراف نہیں کیا ہے۔ اس بحث کے فیصلے اور دیگر دفعات پر کی جانے والی مشاورت کے فیصلوں کو دیگر اراکینِ شوریٰ کو بھیج دیا گیا۔
میرے خیال میں جن اراکین نے مولانا کی استعفے والی تجویز پر اپنی رضامندی دکھائی اُن میں غازی عبدالجبار، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا مسعود عالم شامل تھے۔ صرف میاں طفیل محمد نے اس رائے کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ پھر جب دیگر اراکینِ شوریٰ کی آراء سامنے آئیں تو صورتِ حال کچھ اس طرح تھی: دفعہ 3 جو مولانا مودودی کے استعفے کے متعلق تھی، مجموعی طور پر چھ اراکینِ شوریٰ کی رائے تھی کہ مولانا نے بیان جاری کرکے انحراف کیا ہے، اور چھ کی رائے تھی کہ انحراف نہیں ہوا۔ چار اراکین کا جواب نہیں آیا۔ اس طرح رائے بٹ جانے سے وہ خطرہ ٹل گیا جو مولانا مودودی کے استعفے کی صورت میں پیش آگیا تھا۔
ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی نے چھ گھنٹے کی طویل تقریر میں تاریخی حوالوں سے جماعت اسلامی کے سفر کی ابتدا، تاریخ اور اس مطلوبہ جدوجہد کے راستے کے خدوخال کو واضح کرتے ہوئے تمام اراکینِ جماعت کے سامنے قیامِ جماعت سے پہلے اور قیامِ جماعت اسلامی کے بعد تک کے تمام حالات کھول کر ایسے بیان فرمائے کہ جن احباب کو تاریخِ جماعت معلوم نہیں تھی اُن کو بھی ایسا محسوس ہوا کہ وہ جماعت اسلامی کے اس سفر میں قدم بہ قدم شریک رہے ہیں۔
اس اجتماع کی برکت تھی کہ ’’شر میں سے بھی خیر‘‘ نکل آیا۔ اس اجتماع نے جماعت کو یہ اعتماد فراہم کردیا کہ اللہ کے فضل اور اجتماعیت کی برکت سے وہ آنے والے کسی بھی دور میں اضطراب و طغیانی سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور پھر اس طرح بہت عرصے سے جماعت کے اندر اختلاف و انتشار کی کیفیت اور گروہ بن جانے کے چرچے مخالف حلقوں میں ہورہے تھے اس اجلاس کے فیصلوں نے ان کو یکسر ختم کرکے رکھ دیا۔
ان اختلافات کے نتیجے میں جن افراد نے جماعت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا وہ اپنے فیصلے میں کس حد تک صحیح یا غلط تھے، اس کا فیصلہ افراد کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان کے صحیح یا غلط کا فیصلہ خود ’’آنے والے وقت‘‘ نے کردیا۔ انتخابی سیاسی عمل کی جگہ صرف اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کے ذریعے تبدیلی لانے والے یا دستورِ جماعت اسلامی میں آئین کی توضیح میں شرعی اور غیر شرعی اشکال تلاش کرنے والے، یا پھر مولانا محترم کی ذات کے حوالے سے تنقید کرنے والے تمام ہی اراکین نے اپنے اپنے اختلافات کی بنیاد پر جماعت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علیحدگی اختیار کرنے والوں نے مولانا مودودی کی برپا کی ہوئی تحریک کے مقابلے پر اپنا کوئی مشترکہ جماعتی ایجنڈا سامنے لانے یا اس طرز کی کوئی عالمی تحریک برپا کرنے کی شعوری کوشش کی؟ یقینا نہیں، کیونکہ ا گر کی ہوتی تو اس کے کچھ و اثرات تو سامنے آتے… یا پھر اصلاحِ معاشرہ کے میدان میں کوئی ایسا کارنامہ انجام دے پائے جو اُن کے بعد بھی جاری رہا ہو؟
گزرتے وقت نے ثابت کیا کہ چند ایک کی جانب سے انفرادی کوششیں تفہیم دین اور فہمِ قرآن کے حوالے سے تو ہوئیں، مگر معاشرے میں ظلم و استبداد کے خلاف اللہ کے دین کو عملی طور پر نافذ کرنے کی کوئی کوشش اجتماعیت کی صورت میں سامنے نہ آسکی۔
بالآخر الحمدللہ ’’وقت‘‘ گزرنے کے ساتھ ساتھ معترضین کے تمام الزامات اور اختلافات غلط، اور مولانا مودودی کی وضاحت اور جماعت اسلامی کی شورائیت پر مبنی پالیسی ہی درست ثابت ہوئی، جس نے روزِ روشن کی طرح اس حقیقت کو آشکار کردیا کہ دینِ اسلام کو نافذ کرنے کی تحریک ’’اجتماعیت‘‘ کے بغیر اپنے اثرات دکھا ہی نہیں سکتی… اور کوئی کتنا بڑا عالم اور فقیہ و خطیب ہی کیوں نہ ہو، محض اپنے انفرادی کام کے نتیجے میں کوئی تحریک بپا نہیں کرسکتا۔
حوالہ جات: تاریخ جماعت اسلامی (حصہ دوم)۔ آباد شاہ پوری۔
کتاب: المودودی- مصنف: نعیم صدیقی
(جاری ہے )

حصہ