الخدمت یوتھ گیدرنگ

364

شعیب احمد ہاشمی
کوئی بھی تحریک اور مشن اُس وقت تک موثر اورکامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اُسے عام لوگوں کی تائید حاصل نا ہو۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے ممالک میں ہوتا ہے جس کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز سمیت طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہے ۔نوجوانی میں انسان متحرک ہوتا ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتا ہے لہذا ایک ایسے ماحول میں جہاں نوجوان بڑی تعداد میں موجود ہوں اور رضاکارانہ کام کی طرف آمادہ بھی ہوں، اُن کو مناسب رہنمائی ، تربیت اورانہیں پلیٹ فارم مہیا کیا جانا بہت ضروری ہے۔ الخدمت فائونڈیشن نے اِسی ضرورت کے تحت تجرباتی طور پر لیکن ایک مربوط نظام کے ذریعے مرکزی سطح پر الخدمت رضاکار پروگرام(Alkhidmat Volunteer Program)کا آغاز کیا۔دو طرح کے رضاکاروں کو پروفیشنل اور نان پروفیشنل میں تقسیم کیا گیا ۔پروفیشنل میں رضاکار ہیںجیسے ڈاکٹرز، انجینئرز،پروفیسرز، اساتذہ، وکلاء اور کوئی بھی نوکری پیشہ افراد ہو سکتے ہیں۔ جبکہ نان پروفیشنل میں اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات شامل ہیں۔گزشتہ چند عرصے میں الخدمت رضاکار پروگرام کے ذریعے30 یونیورسٹیز اور کالجز میں الخدمت فائونڈیشن کے ایمبیسڈر بنے۔4 ہزار رضاکار رجسٹر ہوئے۔مختلف مہمات (Campaigns) اور مل کر کام کرنے کے سلسلے میںیونیورسٹیز اور طلبہ سوسائٹیز کے ساتھ 15 مفاہمتی یاداشتوں(MoU) پر دستخط کئے گئے اور یوں نوجوانوں میں مثبت روایات کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ا لخدمت فاؤنڈیشن کے رضا کار پروگرام کے تحت معاشرے اور خصوصاًنوجوانوں میںرضاکارانہ خدمات کے جذبے کی آگاہی اورفروغ کے لیے’’ دوسری الخدمت یوتھ گیدرنگ ‘‘کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے 40سے زائد یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلباء و طالبات نے شرکت کی ۔اِس پروگرام کا لاہورکے تعلیمی اداروں میں کافی دنوں سے چرچا تھا اور نوجوان پروگرام کا حصہ بننے والے مہمانوں کو سننے، سمجھنے اور سیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔اگرچہ لاہور کا موسم سرد تھا لیکن نوجوانوں کی شمولیت اور پروگرام کی تیاریوں نے تقریب کو خوب گرما رکھا تھا۔منظم انداز میں رجسٹریشن کا عمل شروع تھا اور الخدمت کے رضاکار مہمانوں اور طلبہ و طالبات کو اُن کی نشستوں تک لے جا رہے تھے۔پروگرام کو مختلف سیشن اور ہر سیشن کو تھیم کے تحت پیش کیا گیا تھا ۔الخدمت یوتھ گیدرنگ میں موڈیریٹر کے فرائض راقم نے ادا کئے ۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی سعادت حافظ عبد اللہ طارق سپرا نے حاصل کی۔مجدی رشید نے رسول مقبول ﷺ کے حضور نظرانہ عقیدت پیش کیا۔ جس کے بعد تمام شرکاء نے کھڑے ہو کر قومی ترانہ پڑھا۔ قومی ترانے کے بعد الخدمت فائونڈیشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور اُن کا شکریہ ادا کیا ۔پروگرام کے مقاصد کو مزید واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پروگرام کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرناہے۔ہمیں خود کے اندر یہ احساس یدا کرنا ہوگا کہ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں ، زندگی کا اصل مقصد تو دوسروں کے لیے جینا اور دوسروں کے کام آنا ہے۔ ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ کے خطبہ استقبالیہ کے بعد الخدمت کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے گزشتہ سال منعقد کی گئی پہلی الخدمت یوتھ گیدرنگ پر ویڈیو رپورٹ پیش کی گئی۔جس کے بعد اگلے سیشن کے لیے نظامت الخدمت وومن ونگ کی صبا ثاقب صاحبہ نے سنبھال لی۔سیشن کا نام والنٹیرازم تھا۔محترمہ کلثوم رانجھا صاحبہ الخدمت وومن ونگ پاکستان کی سیکرٹری جنرل ہیں اورخواتین میں خدمت خلق کے کاموں کے حوالے سے تجربہ رکھتی ہیں۔انہوں نے خواتین بطور رضاکار کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل ورک ایک بڑ اکام ہے اور زندگی کے کئی اہم شعبے اِن کام سے عبارت ہیں۔ گھر میں ایک ماں کی حیثیت سے لے کر گلی محلے اور معاشرے میں استاد، ڈاکٹر یا سیاستدان ہی کیوں نا ہوں کسی نا کسی طرح سوشل ورک سے جڑا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ قران میں فرماتے ہیں کہ بھلائی کے کام کرو تاکہ فلاح پا سکو۔یہی وہ پیغام ہے جسے سمجھتے ہوئے الخدمت وومن ونگ نے خواتین کے لیے سوشل ورک کا آغاز کیا ۔انہوں نے کہا کہ ایک ملک جس کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اُن کی مدد اور انہیں سکھائے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ الخدمت وومن ونگ پاکستان نے 1500 سے زائد رضاکار بنائیں اور 68 یوتھ ایمبیسڈر بنائیں تاکہ اِس نیکی اور خیر کے کاموں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جا سکے۔الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے سینئر نائب صدر سید احسان اللہ وقاص ایک باکمال شخصیت ہیں۔ خدمت اِن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے 2005 کے زلزلے اور2010 کے ملک گیر سیلاب سمیت ملک میں آنے والے مختلف نا گہانی آفات کے دوران ریسکیو اور ریلیف کے حوالے سے کام کا موقع ملا اوراس دوران میں نے عزم و ہمت اور بھائی چارے کی ا یسی ایسی عمدہ مثالیں دیکھیںکہ پاکستانی ہونے پرمزید فخر ہوا۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم مثبت روایات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اور عام حالات میں بھی ایک دوسرے کی مدد کو آگے بڑھیں ۔غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ سے سید وقاص انجم جعفری ہمیشہ کی طرح چہرے پر مسکراہٹ سجائے پروگرام میں شریک تھے۔علم و ادب میں گہری دلچسپی اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ذریعے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں علم کی شمعیں روشن کرنے میں سید وقاص انجم جعفری اور اِن کی ٹیم کی کاوشیں شامل حال رہی ہیں۔انہوں نے رضاکارانہ کام کے فروغ کے لیے تعلیمی اداروں کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلا شبہ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات میں رضاکارانہ کام کا شعور اجاگر کرنا اور انہیں اِس حوالے سے آگاہی دینا بہت اہم کام اور ذمہ داری ہے۔نوجوانوں کے پروگرام کی مناسبت سے انہوں نے عمدہ معلومات شیئر کیں۔ سید وقاص انجم جعفری نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں 2 کروڑ 26 لاکھ بچے اسکول نہیں جا پاتے اور اِس اہم کام مسئلہ کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو 5 لاکھ 65 ہزار اساتذہ کی ضرورت ہے ۔اگر نوجوان عزم کریں تو علم کی شمعیں جلائی جا سکتی ہیں۔سینئر صوبائی وزیر خیبر پختونخوا عنائت اللہ خان نوجوان سیاست دان ہیں اوروزیر بلدیات کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیںاوراِن چند سالوں میں پشاور یا خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں کا دورہ کرنے والے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیںکہ عنائت اللہ خان نے بطور وزیر بلدیات اِن شہروں میں کس خوبصورتی سے تزئین و آرائش کا کام کیا ہے۔سیاست میں اِن خدمات کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن خیبر پختونخوا کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیں۔لیڈر بطور رضاکار کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان ہماری امیدوں کا مرکز ہیں ۔زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے سیکھنے کا عمل جاری رہنا چاہیے اور زندگی میں جو صلاحیتیں آپ رضاکارانہ کام کے دوران اپنے شوق اور لگن سے سیکھتے ہیں اُس کا کوئی متبادل نہیں ۔ الخدمت یوتھ گیدرنگ جیسی تقریبات کے انعقاد سے نوجوانوں کو اپنی زندگی کا حقیقی مقصد سمجھنے کا موقع ملے گا۔
اِس کے بعد موٹیوشنل سیشن تھا جس میں ’’عزم ہو تیراجواں‘‘کے موضوع پر پاکستانی کوہ پیما سعد محمد نے پریزنٹیشن کے ذریعے اپنی مائونٹ ایورسٹ سر کرنے کی سعی کی کہانی شیئر کی اوراُس سے بھی دلچسپ کرنل(ر) عبد الجبار کو ریسکیو کے حوالے سے بتایا ۔کرنل(ر)عبد الجبار نے مائونٹ ایورسٹ تو سر کر لی لیکن واپسی پر موسم خراب ہونے کے باعث وہ پھنس گئے ۔جنہیں سعد محمد نے ٹیم کی مدد سے ریسکیو کیا ۔ سعد محمد نے کوہ پیمائی کے حوالے سے بہت مفید معلومات بھی شیئر کیں۔
موٹیوشنل سیشن کے بعد اگلی مہمان ممبر قومی اسمبلی عائشہ سید صاحبہ تھیں۔عائشہ سید کا تعلق خوبصورت وادی سوات کے پسماندہ علاقے بدوزئی سے ہے۔ایک بھر پور سماجی کارکن سے قومی اسمبلی تک کا سفر اور جدوجہد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پسماندہ علاقے سے تعلق کے باوجودانہوں نے ہمت نہیں ہاری اور مشکل حالات کے باوجود انہوں نے نہ صرف خود تعلیم جاری رکھی بلکہ اپنے گائوں اور اسکول کالج تک مستحق ہم جماعتوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔انہوں نے کہا کہ ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے انہوں نے سوات میں خواتین کے لیے پہلی یونیورسٹی منظور کرا لی ہے ۔ الخدمت فائونڈیشن کے صدر محمد عبد الشکور صاحب نے اِس موقع پر عائشہ سید صاحبہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور انہیں یادگاری سونئیر پیش کرتے ہوئے اُن کے عزم و ہمت کو داد دی اور ساتھ ہی سوات کے اسکول کے لیے اپنی جیب سے اپ گریڈ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ عائشہ سید کے خصوصی گفتگو کے بعد بیٹھک اسکول کے بچوں نے ٹیبلو پیش کیا۔اسدوسیم قریشی اور عاصم چغتائی نے خوبصورت ترانے پیش کئے۔
الخدمت یوتھ گیدرنگ میں ہر سیشن کے بعد شرکاء کے لیے بہت دلچسپ سوالوں پر اُس سے زیادہ دلچسپ انعامات کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ نوجوان خوب محظوظ ہوئے۔اگلا سیشن لیجنڈ والنٹیرز کا تھا جس کا مقصد ایسے رضاکاروں کو متعارف کرانا تھا جو اپنی مدد آپ کے تحت معاشرے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اورجنھوں نے ساری زندگی انسانیت کی بے غرض اور پرخلوص خدمت کے لیے وقف کردی۔احمد طور نے مہمانوں کو سٹیج پر بلایا۔پہلی شخصیت ڈاکٹر غلام قادر فیاض تھے آج کل سروسز ہسپتال لاہور میں پلاسٹک سرجری کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا شمار پنجاب کے سینئر ترین پلاسٹک سرجنز میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر غلام قادر نے غریب و نادار پیدائشی ہونٹ اور طالو کٹے بچوں کے لیے پاکستان اور افغانستان میں پلاسٹک سرجری پروگرام کا آغاز کیااور 2003 سے اب تک 32000 بچوں کا مفت آپریشن کیا اور اُن کی مسکراہٹوں کو خوبصورت بنایا۔دوسرے مہمان ڈاکٹر شیر زماں مندوخیل تھے جو کہ غریب اور مجبور طبقے کو صحت عامہ کی بالکل مفت سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔بلوچستان اور پاکستان کے دیگر دور دراز علاقوں سمیت شہروں علاقوں کے بھی مستحق افراد کے لیے اب تک بے شمار بلڈ ڈونیشن،سرجیکل اورمیڈ یکل کیمپس کا انعقاد کرچکے ہیں جس میں تجربہ کار ڈاکٹروں کی زیرِ نگرانی مکمل طبی معائنے کے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔تیسرے مہمان محمد عمر خان قائم خانی تھے جو کہ1998سے تھرپارکر میں خدمت خلق کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔تھرکے دور دراز پسماندہ علاقوں میں زم ز م پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کے تحت پینے کا صاف پانی فراہم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ العلم پراجیکٹ کے تحت ایسے علاقے جہاں دور دور تک کوئی اسکول نہ تھا وہاں 45 ا اسکولز قائم کرچکے ہیں۔ روزگار پراجیکٹ سے مستحق اور بے روزگار افراد کو قرض فراہم کیا جارہا ہے۔چوتھے رضاکار ڈاکٹر شمشاد تھے جو اپنی ٹیم کی مدد سے گزشتہ کئی دھائیوں سے سندھ کے علاقے جھڈو میں فری آئی کیمپ کا انعقاد کر رہے ہیں جن میں آپریشن سے لے کر چشمے کی فراہمی تک سب انتظامات مفت کئے جاتے اور اب تک کئی ہزار افراد مستفید ہو چکے ہیں۔پانچویں رضاکار رخسانہ تھیں جو لاہورمیں عرصہ دراز سے غریب اور نادار افراد کو اپنے گھر میں مفت کھانا فراہم کررہی ہیں۔ ان کا مشن ہے کہ ان کے علاقہ میں کوئی بھی بھوکا نہ سوئے۔ اس مقصد کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے کھانا تیارکرتی ہیں۔اس کے علاوہ مختلف ریستورانوں کو بیگز بھی فراہم کررہی ہیں جس میں صا ف بچا ہوا کھانا پیک کرکے مستحقین تک پہنچایا جاتا ہے۔اِن سب رضاکاروں نے حاضرین سے اپنی کہانیاں شیئر کیں اور بتانے کی کوشش کی کہ رضاکارانہ کام کے لیے سب سے اہم نیک نیتی اور جذبہ ہوتا ہے ۔جب ہم لوگوں کے کام آنا شروع کرتے ہیں تو اللہ غیب سے ہماری مدد کرتا ہے اور وسائل خود بخود پیدا ہونے لگتے ہیں۔سامعین ان سادہ مگر عظیم مہمانان کی باتوں سے بے حد متاثر ہوئے جس کا عکس ان کے چہروں سے عیاں تھا۔لیجنڈ والنٹیرز کے بعدپاکستان کے مایہ ناز موٹیویشنل ٹرینر قاسم علی جلوہ افروز ہوئے۔ قاسم علی شاہ کو سوشل میڈیا پر کافی سنا تھا۔ لیکن پہلی مرتبہ براہ راست سننے کا موقع ملا انہوں نے نوجوان، امن اور رضاکارانہ خدمات کے حوالے سے مفید گفتگو رکھی اور نوجوانوں نے بہت توجہ کے ساتھ اُن کی گفتگو سنی ۔قاسم علی شاہ کے سیشن کے بعد نماز ظہراور کھانے کا وقفہ ہوا۔جس کے بعد پہلے ’’نعمت اللہ خان لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ کا اعلان کیا گیا۔ الخدمت فائونڈیشن نے اِن کے نام سے ـ’’نعمت اللہ خان لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ‘‘ کا اجراء کیا اور یہ ایوارڈ نعمت اللہ خان کی شخصیت کے مصداق خدمت خلق کے میدان میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والے فراد کو دیا جائے گا اور اِس ایوارڈ کے پہلے دو حقدار اخوت سے ڈاکٹر امجد ثاقب اور پشاور میڈیکل کالج سے ڈاکٹر حفیظ الرحمن تھے۔ دونوں حضرات بھی رفاعی کاموں میں ایک قابل ذکر پروفائل رکھتے ہیں ۔رائزنگ یوتھ کراچی سے رقعیہ منظر نے خواتین مین سوشل ورک کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے صدر محمد عبد الشکور نے ’’آئیے امید بنیں‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی اور امید کی نئی شمعیں روشن کیں۔ انہوں نے اُمید کے حوالے سے حدیث قدسی ﷺ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے امید کے حوالے سے جو بات بتائی وہ دنیا بھر کے لٹریچروں پر بھاری ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر قیامت کی تمام نشانیاں مکمل ہو گئی ہیں اور اگر آپ کے ہاتھ میں درخت لگانے کے لیے قلم ہے تو بالکل دیر نہ کریں اور وہ قلم لگا دیں ۔
مختلف ریجن اور یوتھ سوسائیٹیز سے چنے گئے رضاکاروں کو ایوارڈ دیے گئے اور اُس کے بعد ’’اسلام اینڈسوشل ورک‘‘ پر ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے ملٹی میڈیا پریزنٹیشن دی اور خوبصورتی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ سوشل ورک اسلام کا لازمی جزو ہے اور ر مسلمان کا بنیادی فرض بھی۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی گفتگو ہمیشہ حیران کن ہوتی ہے۔زاویہ نگاہ تبدیل کر دینے والی۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے جس خوبصورتی کے ساتھ اسلام اور سوشل ورک پر روشنی ڈالی وہ متاثر کن تھی۔پروگرام میں شرکاء کو سوال و جواب کے مرحلے میں انعامات جبکہ آخر میں مہمانوں کو شیلڈز پیش کی گئیں۔ پروگرام کے آخر میں مزاحیہ مشاعرہ کا اہتمام بھی تھا۔

حصہ