سیارچے اور بونا سیّارہ

587

قاضی مظہر الدین طارق
آج ہم ’سیارچوی پٹّی‘ (Asteroid Belt) میں موجودایک بونا سیّارہ ’سیریس ‘(Ceres)اور ’سیارچوں ‘ (Asteroids) کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
یہ سیّارچے لاکھوں تعداد میںہیں،اور زیادہ تر سیارچے، سیارچوی پٹّی میں واقع ہیں،سیارچوی پٹّی مریخ (مارس ) کے بعداور مشتری(جوپیٹر)سے پہلے ،قدرے مریخ کی قریب واقع ہے ۔
اس میں گرد کے ایک ذرّے سے لے کر ۵۸۷ میل قطرتک کے سیارچے موجود ہیں،ان میں سے چند ایک کے اپنے چاند بھی ہیں۔
یہ ۰۰۰,۵۰ پچاس ہزار میل فی گھنٹہ کی اَوسط رفتار سے سورج کے گرد بیضوی مدار میں گردش کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ سیارچے، مشتری کے مدار میں، اس سے آگے اور پیچھے دَوڑ رہے ہیں،جیسے شاہوں کے آگے پیچھے محافظ ہوتے ہیں ،یہ پٹّی اورمشتری کے درمیان بھی تین ٹولیوں میں پائے جاتے ہیں اور بہت سے زمین کے قریب بھی منڈلا رہے ہیں۔
اتنی زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود ان کا آپس میں اتنا فاصلہ ہے کہ انسان کے بھیجے ہوئے سیکڑوں مصنوعی سیّارچے بغیر ٹکرائے اس پٹّی میں سے محفوظ گذر چکے ہیں،مگر یہ آپس میں ٹکراتے بھی ہیں،کبھی ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیںتو کبھی ایک دوسرے سے جُڑجاتے ہیں۔
اگرچہ ماضی میں سیّارچے آپس میں مدغم ہوکر ہی سیّارے بنے تھے، مگر اب مشتری کی زبردست کششِ ثقل ان کو مدغم ہو کر نیا سیّارہ بننے سے باز رکھے ہوئے ہے۔ البتہ سب سیّارچے آپس میں مل بھی جائیں توان سے چاند سے بڑا سیّارہ نہیں بن سکے گا۔
اٹھارہ ہزار سیّارچوں کے نام بھی رکھے گئے ہیں،پہلے یونانی دیوتاؤںنام پر نام رکھے گئے،جب وہ ختم ہوگئے توسائنسدانوں حتیٰ کہ ان کی زوجین کے نام رکھے گئے،پھران کے دریافت کرنے والوں نام رکھے گئے، آخر میںپچانوے ہزار کی پہچان نمبروں سے کی گئی۔
یہ زمین پر گرکر اس کے وزن میں سالانہ تیس ہزار ٹن کا اضافہ کر رہے ہیں،جن میں سیّارچوی پَٹّی کا حصہ پچانوے فیصد ہے۔
سورج اطراف کچھ دُمدار تارے بھی گردش کر رہے ہیں ،جن کی ساخت میں زیادہ تر برف اور کوئلہ ہے،برف تو سیّارچوں میں بھی ہے مگر دمدار تارے سورج کے قریب آتے ہیںتوسورج کے مخالف سمت میں لاکھوں میل لمبی دو دُمیں نکالتے ہیں ،ایک مادّوں کی دوسری(ion)کی،جبکہ سیّاچے یہ صفت نہیں رکھتے، اس لیے یہ سیّارچوں سے یہ بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
کچھ دُمدار تارے ایسے بھی ہیں جونظامِ شمسی سے باہربہت دور کہیں سے آ رہے ہیں،دور سے آنے والوں میں حال ہی میں ایک ایسا بھی ملا جس میں دُمدار تارے کی صفت کے بجائے سیارچے کی صفت ہے،سورج کے قریب آکر بھی یہ دُم نہیں بناتا،اس کا نام ’اوموأ اُوما ‘(Oumuaoma)رکھا گیا ہے،اس کی ایک بات اور عجیب ہے کہ اس وضح قطا دونوں سے مختلف ہے،اس کی ساخت بہت لمبی ہے،یہ ۸۷۵ گز لمبا ہے تو صرف ۸۷گز چوڑا اور موٹا ہے۔
سیّاچے، پتھریلے سخت چٹانی یا دھاتی ہوتے ہیں،ان کی تین قسمیں ہیں،دھاتی،معدنیاتی اوردونوں ملی جلی۔
قیمتی دھاتوں،سونا، پیٹینم وغیرہ کے علاوہ معدنیات اور وافر مقدار میں پانی بھی پایا جاتا ہے ۔
اس پر سے جس چیز کی ضرورت ہو زمین پر لائی بھی جا سکتی ہے، بلکہ یہ کام زمین کے قریبی سیّاچوں سے شروع بھی کیا جا چکا ہے۔
انسان نے اس پٹّی میں اب تک ایک لاکھ تیرا ہزارسیّارچوں کے نام رکھے ہیں اور ان میں سے بہت سوں کی مسلسل نگرانی بھی کر رہا ہے۔
ان سیّارچوں میں اب تک دریافت شدہ سب سے بڑا’سیریس‘(Ceres)ہے،جس کو اب بونے سیّارہ کہا جاتا ہے،’سیریس‘کا نام یونانی دیومالہ میں سے زراعت کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے۔
سیریس ،یکم جنوری ۱۸۰۱ ؁ء کو دریافت ہوا،جس کا سہرا ایک اطالوی گیوسپّی پیازّی ’Giuseppe Piazzi‘کے سر ہے۔
شروع میں ا س کو سیّارہ کہا گیا،پھر سیّارچہ سمجھا گیا،آخر سن ۲۰۰۶؁ء اس کوبونا سیّارے(Dwarf Planet)کا مقام اور نام دیا گیا،کیونکہ یہ کچھ سیّاروں کی خصوصیات کا بھی حامل ہے،لیکن اس کو سیّارہ اس لیے نہیں قرار دیا سکتا کہ اس کا اپنا انفرادی مدار نہیں ہے۔یہ اس پٹّی میں سب سے بڑا ہے لیکن بونا سیّارہ ہے ،سیارچوں میں سب سے بڑا سیّارچہ’ویسٹا‘(Vesta)ہے۔
بونے سیّارے’سیریس‘ کا قطرپانچ سوستاسی (۵۸۷)میل ہے ۔یہ ساڑھے چار زمینی سال سے کچھ زیادہ ، ایک ہزار چھ سو اسّی(۶۸۰,۱) زمینی دنوں میں سورج کے گرد ایک چکّر مکمل کرتا ہے ۔اس کی اَوسط رفتار پچاس ہزار (۰۰۰,۵۰) میل فی گھنٹہ ہے۔اس کا اپنے محور پر ایک چکر نو (۹)گھنٹے کا ہے،یعنی نو گھنٹوں میںاس کے دن رات مکمل ہو جاتے ہیں۔
اس کادرجۂ حرارت دن میں(۷۳ درجہ سنٹیگریٹ) ہوتا ہے،اور رات کے وقت(منفی۱۴۳) رہتا ہے۔
اس کی کمیّت(mass)ساری سیّارچوی پٹّی کی ایک تہائی ہے،مگریہ ہمارے چاند کی کمیّت کا دسواں حصہ ہے۔یہ چھ کلووزن فی سیکنڈ بھاپ کی صورت خلاء میں کھو رہا ہے۔
اندرونی چٹانی سیّاروں میں اس کے سوا کوئی بونا سیّارہ نہیں ہے، اس کا کوئی چاندبھی نہیں ہے مگراس بونے سیّارے کے علاوہ کئی ،جیسے پلوٹو کا ایک چاند ہے جو ایک بونا سیّارہ ہے، ویسے ہی ’ہَاومیا‘ (Haumea)’میک میک‘ (Makemake)‘ اور’اِیرس‘(Eris) کی مثال ہے جن کے کم از کم ایک چاند ہیں۔
انسان کے بھیجے ہوئے مصنوعی سیّارچے ،کئی ایک کے قریب سے، ٹہلتے ہوئے گذر تے ہوئے، اِن کی تصویریں اور قیمتی معلومات بھیج چکے ہیں، کچھ ان کے مداروں میں گھوم رہے ہیں،اور کچھ ان پر سوار ہیں تاکہ قریب سے ان کی ساخت کا تجزیہ کریں اور اس کی معلومات روانہ کریں۔
’ناسا ‘(NASA)نے ایک خلائی جہاز ’ڈان‘(Dawn)کے نام سے بھیجا،اس کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اس جہاز کے دو احداف رکھے گئے تھے۔اس نے پہلے ایک سیّارچے’ویسٹا‘ کا مطالعہ کر نا تھا پھر آگے بڑھ کربونے سیّارے ’سیریس‘ کا مطالعہ کرنا تھا۔
اس ’خلائی جہاز‘(space probe) کوستمبر ۲۰۰۷؁ء کو زمین سے روانہ کیا گیا، یہ ۲۰۱۱ء؁ سے ۲۰۱۲ء ؁ کے دوران چودہ مہینے تک اس کے مدار میں گھومتارہا،اس کا مطالعہ کیا ،تصویریں اور تجزیہ بھیجتا رہا۔
اس کے بعد آگے بڑھ کریہ مارچ ۲۰۱۵ء ؁ کوبونے سیّارے’سیریس‘ کے مدار میں پہنچا اور اب تک اُس کے گرد چکّر لگائے جا رہا ہے۔یہ کافی کام کر لے گااوراس کا ایندھن بھی ختم ہوجا ئے گا مگر پھر یہ جہاز دسمبر ۲۰۱۸ء؁ تک سیریس کے گرد گھومتا رہے گا،لیکن جب تقریباً جون تک اس کا ایندھن ختم ہو جائے گا تو یہ زمین پر اپنے پیغامات نہیں بھیج سکے گا۔
ان بونے سیّاروں،دُمدار تاروں ،سیّاچوں اور دیگر خلائی اَجرام کے مطالعے کی انسان کی نظر میں یہ اہمیّت ہے،کہ یہ جیسے ٹائم کیپسول ،یا رکاز (fosills)ہیں جن کے مطالعے سے انسان ایک بڑے سوال کا کھوج لگا سکے گا کہ ان سب تخلیقات کی ابتداء کیسے ہوئی؟
یہ وہ کام جس کا چیلنج خالق ارض و سماء نے پندرہ سو سال پہلے سورۃ عنکبوت کی بیسویں آیت میں انسان کودیا تھا اور کہا تھا کہ:
’’معلوم کرو کہ میں نے ان تخلیقات کی ابتداء کیسے کی؟‘‘
مگر اس کا کھوج اب تک انسان نہیں لگا سکا ۔
پھرجب اس سوال کا جواب انسان کو معلوم ہو جائے گا،
’’ تو اُس کو خود یقین آجائے گا کہ میں دوبارہ بھی اس کی تخلیق کروں گا۔‘‘
پھر ضرور بضروروہ ایک بڑے دن اِن سب کو جمع کرے گا اور ان سے اِس زندگی کا حساب لے گاپھر اِن کے اعمال کے مطابق اِن کو جزا و سزا کے عمل سے گزارے گا۔

حصہ