گناہوں سے نیکی کا سفر، جیل کی کہانی

499

قدسیہ ملک
جرم ریاست کے فوجداری و دیوانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔گناہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ برائی اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ ان تینوں کی خلاف ورزی انحراف ہے۔ جرم کی سزا ریاست کے قانون کے مطابق دی جاتی ہے۔ مجرم، گنہگار اور برا آدمی… یہ تینوں منحرف کردار ہیں۔ اس پر تحقیقات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لیکن ایک مجرم، جرم کی سزا کے بعد معاشرے میں اپنا کیسا مقام پاتا ہے، دوبارہ معاشرے میں کیسے سلوک کا مستحق ٹھیرتا ہے، کیا اپنا وہی مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرپاتا ہے جو جرم کی سزا پانے سے پہلے وہ معاشرے میں بناچکا تھا؟ اس پر شاید تحقیق نہیں کی جاتی۔ سچے واقعات پر مبنی اس سلسلے میں ہم نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ قیدی کی جیل کے بعد کی زندگی کی مشکلات بھی آپ کے سامنے رکھی جائیں تاکہ معاشرے میں مستحق و ظلم کی چکی میں پسے ہوئے حقیقی کرداروں سے شناسائی ہوسکے، کچھ ناکردہ گناہوں کا شکار قیدی خواتین کی مدد ہوسکے، کچھ حقیقی دنیا میں اپنوں کی بے رخی کا شکار ہونے والی معصوم جانوں کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔
حقوقِ نسواںسے مراد وہ حقوق اور قانونی استحقاق ہیں جن کا مطالبہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں خواتین اور لڑکیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے، اور جن کے مطالبے نے انیسویں صدی کی حقوقِ نسواں تحریک اور بیسویں صدی کی تحریکِ نسائیت (feminist movement ) کو بنیاد فراہم کی۔ بہت سے ممالک میں ان حقوق کو غصب یا نظرانداز کیا جاتا ہے۔ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے اُن میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خودمختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں ترقی یافتہ ممالک کی امداد پر پلنے والی این جی اوز معاشرے میں صرف اپنے اہداف کے لیے کام کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کی علَم بردار عاصمہ جہانگیر ہوں یا ’’سیونگ فیس‘‘ کے ذریعے آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے… ان سب کا واحد مقصد پاکستان کی اسلامی و نظریاتی اساس کو نقصان پہنچانا اور پاکستان مخالف سوچ کو پھیلاکر غیر ملکی امداد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ تمام اینٹی پاکستان سوچ کی حامل تنظیمیں اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ لیکن ان این جی اوز کی غلط سوچ اور غلط مقصد کے تدارک کے لیے کچھ محب وطن این جی اوز بھی مملکتِ خداداد پاکستان میں اپنا کام پوری تندہی و دیانت سے کررہی ہیں۔ حالانکہ وسائل کی کمی اور حکومتی ناقص پالیسیاں ان کا راستہ روکنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہیں۔ لیکن یہ این جی اوز قرآن کی محبت اور پاکستان سے مخلص ہوکر انسان کو بندگیٔ رب کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں۔ انہی میں سے ایک ’’ویمن ایڈ ٹرسٹ‘‘ بھی ہے۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خان نے انٹرویو میں بتایا کہ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی رجسٹریشن 1994ء میں ہوئی لیکن عملی سرگرمیوں کا آغاز 13 اپریل 1997ء سے ہوا۔ پہلا پراجیکٹ راولپنڈی کی سینٹرل جیل اڈیالہ میں شروع کیا گیا۔ پنجاب میں تنظیم کے ارکان کی تعداد 40 کے قریب ہے، جن میں سے زیادہ تر رضاکار ہیں، اور ٹرسٹ کی فنڈنگ بھی پاکستان کے اندر سے ہی کی جاتی ہے۔ شاہینہ خان نے اپنے ادارے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’’ہمارا مقصد خاندان جیسے بنیادی ادارے کی بقا اور بھلائی کے لیے جدوجہد کرنا، اور ایسی ہر جدوجہد میں تعاون کرنا ہے۔ قانونی اور سماجی مشاورت کی فراہمی، عورتوں اور بچوں کی فلاح کے منصوبے، دستکاری اور فنی مہارت کے پراجیکٹ، خودکفالتی اسکیموں کا آغاز اور ایسے تربیتی پروگراموں کا اہتمام جن کے ذریعے معاشرے میں خواتین کے حقوق و فرائض سے متعلق شعور میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ سوشل ریسرچ، اعداد و شمار جمع کرنا، چھوٹی سطح پر تعلیمی اور تربیتی پبلی کیشنز اور مختلف تربیتی پروگرام… ان جملہ مقاصد کے ساتھ ہم صوبہ پنجاب کی جیلوں میں مختلف منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
یہاں ہم کراچی جیل کی سابقہ قیدی کا قصہ ضروری ردوبدل کے بعد انہی کی زبانی بیان کررہے ہیں:
’’میں ایبٹ آباد میں رہتی تھی۔ وہیں پلی بڑھی۔ گھر میں ہر طرح کی آسائش تھی۔ اے سی، ٹی وی، ہیٹر سب کچھ موجود تھا۔ ٹی وی کے نئے نئے ڈراموں سے مجھے شہر کے حالات پتا چلتے کہ شہر بہت بڑے ہوتے ہیں۔ وہاں عورتیں بھی جاب کرتی ہیں۔ میری شادی ہوگئی۔ میں نے اپنے شوہر کوکسی طرح کراچی شہر آنے کے لیے راضی کرلیا۔ میرے میکے والے اس بات سے بہت ناراض ہوئے۔ یہاں آکر ہم ایک چھوٹے سے کمرہ نما مکان میں کرائے پر رہنے لگے۔ میرا شوہر روز کے 100 روپے کماتا۔ وہ ہوٹل میں برتن دھوتا تھا۔ شادی کے بعد دو برسوں میں دو بچے بھی ہوگئے۔ میں ایک پیکجنگ کمپنی میں ملازمت کرنے لگی جہاں گارمنٹس کا سامان پیک ہوکر بیرون ملک جاتا۔ زندگی کی گاڑی بہت مشکل سے چل رہی تھی۔ میں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں لیکن میرے کراچی آنے پر ناراض ہوکر سب نے میری مدد سے ہاتھ کھینچ لیے۔ ہم دونوں میاں بیوی بہت پریشان رہتے۔ ایک دن میرے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی نے میرے حالات سنے تو مجھے اپنے ساتھ چلنے کوکہا۔ چھٹی پر جب میں اُس کے ساتھ گئی تو کیا دیکھا کہ ایک تنگ گلی میں جاکر اس نے اپنے بیگ سے ایک پستول نکالا اور کہا ’’دیکھو آمدنی میں کیسے اضافہ ہوتا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر واپس پستول کو اپنے پرس میں چھپایا اور مصروف سڑک پر آگئی۔ وہاں ٹریفک جام تھا۔ اس نے ایک گاڑی کے قریب جاکر پستول سے شیشہ نیچے کرنے کو کہا۔گاڑی میں بیٹھی عورت نے جلدی سے شیشہ نیچے کیا اور اپنے کڑے، لاکٹ اور کان کے ٹاپس نکال کر اس کے حوالے کردئیے۔ وہ میرے ساتھ یہ سب چیزیں لے کر سنار کے پاس گئی اور بیچ دیں۔ اسی وقت اس کے ہاتھ میں 20000 روپے موجود تھے۔ اس نے یہ طریقہ مجھے بھی بتایا۔ ایک ٹی ٹی بھی لاکر دی۔ بس پھر میں بھی فیکٹری سے واپسی پر یہی کام کرنے لگی۔ پولیس آتی تو ہم سب بھاگ جاتے۔ اب میں بھی بہت اچھے کپڑے پہنتی، اچھاکھاتی۔ شوہر سے کہہ دیا کہ تنخواہ بڑھ گئی ہے۔ وہ بھی مطمئن ہوگیا۔ اب میں دوبارہ امید سے ہوئی۔ وہی کام کرتی رہی۔ اچانک ایک دن پولیس آگئی۔ سب بھاگ گئے۔ چونکہ میں بھاگ نہیں سکی، لہٰذا پکڑی گئی۔ مقدمہ چلا، سی آر پی سی 392 کے تحت مجھے سزا ہوگئی۔ جیل سے عملے کے ساتھ ہسپتال جاکر جب میرا میڈیکل چیک اپ ہوا تو پتا چلا کہ میں جڑواں بچوں کی ماں بننے والی ہوں۔ میں اپنے دو بچوں اور شوہر کے لیے بہت پریشان رہتی۔ یہیں میری ملاقات اقبال باجی سے ہوئی جو ہمیں قرآن سکھانے جیل آتی تھیں۔ جناح ہسپتال میں میرے دو بچے ہوئے۔ ایک پیدائش کے کچھ دیر بعد فوت ہوگیا، دوسرا جیل میں کچھ عرصہ رہ کر اللہ کو پیارا ہوگیا۔ وہیں مجھے قرآن سے انسیت پیدا ہوئی۔ دکھی تھی، اپنے گناہ یاد کرکے بہت روتی تھی۔ پھر 7 سال بعد مجھے رہائی مل گئی۔ لیکن اب مجھے عزت سے روزگار کمانا تھا۔ پہلے میں نے اپنا گھر شفٹ کیا۔ پھر باجی سے رابطہ کیا۔ وہ میرے بچوں کے اسکول کی فیس، ماہانہ راشن اور مکان کے کرائے کے پیسے خود گھر لے کر آتیں۔ وہ مجھے کہتیں تم بھی سلائی کرو تاکہ کچھ پیسے آتے رہیں۔ بقرعید میں گوشت بھجواتیں۔ میں نے جیل میں انہی لوگوں سے سلائی سیکھی تھی۔ مجھے کچھ عرصے بعد مشین دے دی۔ میرے گھر والوں سے بھی ویمن ایڈ ٹرسٹ والے رابطہ کرتے، لیکن وہ ان کی ایک بات سننے کو تیار نہ تھے۔ اس واقعے کے بعد وہ مجھ سے اور بدظن ہوگئے تھے۔ خیر میں نے فیکٹری چھوڑ کر سلائی کا ہی کام شروع کردیا تھا۔ محلے اور پاس پڑوس کی عورتوں کے کپڑے سیتی تھی جس سے اچھی خاصی رقم مل جاتی تھی۔ اچانک ایک دن بھائی نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اُس نے مجھے معاف کردیا تھا۔ میں حیران تھی کہ اتنے عرصے بعد انہیں میرا خیال کس طرح آیا! بعد میں پتا چلا کہ ویمن ایڈ ٹرسٹ والے بہت عرصے سے میرے بھائیوں کی کونسلنگ کررہے تھے۔ وہ بھائیوں کو میرے حالات سے آگاہ کرتے رہے، جس کے باعث بھائیوں کا دل بھی پسیج گیا۔ مجھے اللہ نے مزید دو بیٹوں سے نوازا۔ اب میرے 4 بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا میٹرک کرچکا ہے۔ میرے بھائی نے احسن آباد میں مجھے فلیٹ لے کر دیا ہے۔ اب ہم بہت خوش ہیں۔ اللہ سب کو گناہوں کی دلدل سے بچائے۔ میں اقبال باجی اور شاہدہ باجی کا بہت شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اب بھی ہر بقرعید میں پہلے کی طرح مجھے گوشت بھجواتی ہیں۔ اللہ خوش رکھے۔ اب میں کبھی شارٹ کٹ کا نہیں سوچتی۔ اللہ میرے گناہوں کو معاف کردے، آمین۔‘‘
ویمن ایڈ ٹرسٹ کے ذریعے رفعت کی قانونی امداد کی گئی۔ ’’ویٹ‘‘ کا قیام انسانی معاشرے کی حقیقی اور بنیادی ضرورت عورت کے حقوق اور مسائل کا ادراک اور ان کے حل کے ذریعے پورے انسانی معاشرے کی بھلائی کی ہمہ گیر جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کے مختلف شعبہ جات ہیں جن میں لیگل ایڈ، سماجی مشاورت، جیل میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام، سماجی فلاحی کام، تحفظِ ماحولیات کے شعبے اور تحقیقی مرکز شامل ہیں۔ گزشتہ 22 برسوں سے ویمن ایڈ ٹرسٹ سے وابستہ سابق صدر کراچی اقبال النساء نے کراچی میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1996ء میں ہماری سرگرمیوں کا آغازکراچی سے ہوا۔کراچی جیل میں کام شروع کیا۔ خاندانی جھگڑوں اور تنازعات کے حل کے لیے کراچی سٹی کورٹ کے سامنے ہم نے اپنے آفس کی بنیاد رکھی۔ اُس وقت پینل میں12 ارکان تھے جن میں سے 6 ارکان ایڈووکیٹ لائر تھے۔ فیض آپا اور شاہدہ آپا ہماری بانی ارکان میں شامل تھیں۔ جیل میں ہم نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز آئی جی سندھ کی اجازت سے درس قرآن سے کیا، تاکہ وہ درس میں آکر رب کو پہچان سکیں، گناہوں سے بچ سکیں۔ آئی جی کی اجازت ملنے کے بعد ہم نے اپنے کاموں کو جیل میں مزید بڑھاتے ہوئے دستکاری، ہاتھ سے بنائی جانے والی اشیاء اور مختلف گھریلو دستکاری قیدی خواتین کو سکھانی شروع کی۔ ہم نے ایک خاتون کو جیل میں اس کام کے لیے مختص کردیا کہ وہ آکر خواتین کو مختلف اشیاء بنانا سکھائیں اور ساتھ ساتھ دینی فہم سے بھی آگاہ کرتی رہیں، تاکہ جیل سے باہر آکر یہ خواتین باعزت روزگار حاصل کرسکیں۔ اسلام آباد جیل میں خواتین سے پرس، فائل، مختلف ہینڈی کرافٹس بھی بنوائے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں ہم نے صرف کپڑوں کی سلائی اور دستکاری پر اکتفا کیا۔ اب ہم قیدی خواتین کو باہر سے پراجیکٹ لاکر دیتے ہیں اور ان کی مطلوبہ رقم ان کو فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ جیل میں ہی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں۔ اس کے لیے ہمارا مطمح نظر تبلیغ دین و فہم دین کے ساتھ ساتھ قیدی خواتین کے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرنا ہوتا ہے۔کیونکہ خوفِ خدا تمام نیکیوں کی بنیاد ہے۔ جب آپ میں اللہ کا خوف اور جوابدہی کا احساس ہوگا تو خودبخود دل برائیوں سے بدظن ہوکر نیکی پر آمادہ ہوگا۔ 2006ء میں جیلوں میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی طرف سے کمپیوٹر سکھانے کا کام شروع کیا۔ ایم ایس ورڈ، آئی جی سندھ کا مرتب کیا ہوا نصاب خواتین جیلوں میں کروایا جاتا ہے۔ اس میں قیدی خواتین کی دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ اس کورس کو کرنے سے ان کی سزا میں 6 ماہ کی تخفیف کردی جاتی ہے، جس کی وجہ سے قیدی خواتین دلچسپی سے کمپیوٹر پر کام سیکھتی ہیں۔ پھر ہم آئی جی کے ذریعے نصاب کے مکمل ہونے کے بعد ان خواتین کو سرٹیفکیٹ بھی دلواتے ہیں، جس سے ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ جیلوں سے رہائی کے بعد باہرآکر بھی انہیں ایک باعزت روزگار مل جاتا ہے۔

حصہ