خدا حافظ نعیم الرحمن سے بچائے

374

زاہد عباس
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کی من مانیوں اور عوام کی مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آج کل جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے شہر کے مختلف نادرا دفاتر پر احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں حکمرانوں خاص طور پر نادرا حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عوام کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے، ٹاؤن کی سطح پر شناختی کارڈ دفاتر بنائے جائیں، جو پوائنٹ بند پڑے ہیں وہاں سروس دوبارہ شروع کی جائے، میگا دفاتر کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور شہر کے تمام دفاتر میں عملے کی تعیناتی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
میں چونکہ عوامی مسائل پر لکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں اس لیے ایسے اجتماعات میں ضرور شرکت کرتا ہوں جہاں لوگوں کے مسائل کے حل کے سلسلے میں بات ہورہی ہو۔ لہٰذا میرا، جماعت اسلامی کی جانب سے کیے جانے والے ایک ایسے ہی احتجاج میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں نادرا کی من مانیوں کے خلاف دیئے گئے عوامی دھرنے سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کو خطاب کرنا تھا۔ علاقائی نادرا دفتر پر عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، ہر طرف گہما گہمی تھی، کچھ لوگ احتجاج کرنے والوں سے الگ بیٹھے نظر آرہے تھے۔ یہاں کا ماحول دیکھ کر میں اُن کے درمیان جا بیٹھا جو بظاہر اس عوامی احتجاج سے علیحدہ دکھائی دے رہے تھے۔ ان لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ لوگ نادرا ملازمین ہیں اور اس احتجاج میں آنے والوں کی رائے جاننے کے لیے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میری معلومات کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسری جگہ نہیں ہوسکتی تھی، لہٰذا میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ باتوں باتوں میں ایک نے دوسرے سے کہا ’’پاکستان میں دھرنا کلچر جماعت اسلامی کی ایجاد ہے، سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کے زمانے میں جماعت اسلامی نے سیاسی دھرنے دینے کا آغاز کیا، یہ روایت آگے بڑھی اور دوسری جماعتوں نے بھی حکومتوں کے خلاف دھرنے دینے شروع کردیئے، اب جس کا جی چاہتا ہے، لوگوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر بٹھا کر کاروبارِ حکومت مفلوج کردیتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ ماضی میں اگر یہ جماعت دھرنے دینے کی روایت قائم نہ کرتی تو آج جتھوں کی صورت میں لوگ اسلام آباد کا گھیراؤ نہ کرتے، حافظ نعیم الرحمن تو قاضی صاحب سے بھی آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں، یعنی مرحوم قاضی حسین احمد صاحب نے صرف سیاسی دھرنوں کی بنیاد ڈالی، نعیم الرحمن صاحب تو اداروں کے خلاف عوام کو سڑکوں پر نکال رہے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے، اگر یہ سلسلہ بھی چل نکلا تو ہر کوئی اپنے ہم خیال لوگوں کو لے کر کسی بھی ادارے پر چڑھائی کرنے لگے گا، اس سے پہلے بھی تو جماعت اسلامی سیاسی میدان میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے فلاحی منصوبوں پرکام کیا کرتی تھی، لیکن جب سے حافظ نعیم الرحمن کراچی کے امیر جماعت بنے ہیں، ہر آنے والے دن کے ساتھ کسی نہ کسی ادارے کے خلاف احتجاجی پروگرام بنانے میں مصروف رہتے ہیں جس سے محکموں کو متنازع بنانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکے گا، ہر ادارہ اپنے طریقے سے کام کرتا ہے، اگر لوگوں کے بنیادی حقوق کا اتنا ہی خیال ہے تو بتایا جائے کہ کیا ’کے۔ الیکٹرک‘ کے مظالم سے لوگوں کو نجات مل گئی؟ شہر کراچی سے تاروں کی مد میں چوری کیا گیا تانبا برآمد کرلیا گیا؟کیا کے الیکٹرک کی جانب سے اوور بلنگ کی صورت میں کی جانے والی ڈکیتیوں کا سدباب کرلیا گیا؟ اگر نہیں تو کے الیکٹرک کے خلاف ہونے والے احتجاج کیوں بند کردیے گئے؟ حافظ نعیم الرحمن صاحب کا کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کے بجائے خاموشی اختیار کرنا سیاست نہیں تو اور کیا ہے!‘‘
یہ شخص مسلسل اپنے ساتھیوں کے سامنے نادرا کی وکالت کرنے میں مصروف رہا۔ اس کی باتوں سے ظاہر ہورہا تھا کہ جیسے یہ احتجاج محکمہ نادرا کے بجائے اُس کے خلاف ہو۔ وہ باتوں باتوں میں جماعت اسلامی کے قائدین کو کچھ یوں سیاسی مشورے دینے لگا: ’’حافظ صاحب کو چاہیے کہ وہ سیاست کریں، چند ماہ بعد الیکشن ہونے والے ہیں، وہ کراچی کی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں، جن لوگوں کو ووٹ دینے ہیں اُن کے پاس جائیں، بلاوجہ ہمارے پیچھے نہ پڑیں، ان دفاتر پر عوام کو جمع کرنے سے کیا ملے گا! میں تو کہتا ہوں کہ جوان آدمی کو کسی بھی سیاسی جماعت کی سیاسی ذمہ داری نہیں دینی چاہیے، جوان آدمی کا خون گرم ہوتا ہے اس لیے دماغ میں نئے سے نئے سیاسی خیالات آتے ہیں، بزرگوں کو عہدے دینے سکون رہتا ہے، خاص کر ہمیں دو پیسے کمانے کا موقع مل جاتا ہے، میں جماعت اسلامی کے اکابرین سے کہتا ہوں کہ حافظ نعیم الرحمن صاحب کو کوئی دوسری ذمہ داری دے کر ہماری جان چھڑائی جائے۔ ویسے بھی آج کل ہمارے محکمے کا پاپولر نعرہ یہی بنتا جارہا ہے کہ خدا نعیم الرحمن سے بچائے‘‘۔
ان لوگوں کے درمیان حافظ نعیم الرحمن کے ذکر پر مداخلت کرتے ہوئے میں نے کہا ’’جناب کیا مسئلہ ہے! آپ لوگ خاصی دیر سے ایک ایسے شخص کے متعلق فضول گفتگو میں مصروف ہیں جو آپ کے درمیان موجود نہیں۔ بے شک آپ کو کسی کی رائے سے اختلاف کرنے کا پورا حق ہے لیکن زیادہ بہتر طریقہ یہی ہے کہ بات سامنے کی جائے تاکہ دوسرے فریق کی رائے بھی آپ کے علم میں ہو‘‘۔
میری جانب سے کی جانے والی تنبیہ پر وہی شخص جو دیکھنے میں اُن کا لیڈر دکھائی دے رہا تھا، بولا ’’میں یہ باتیں کسی کے بھی سامنے کہہ سکتا ہوں، جب ہم لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں تو لوگ اپنی خوشی سے ہمیں پیسے دیتے ہیں، یہ سب باہمی رضامندی سے ہوتا ہے، ہم کسی سے زبردستی تو نہیں کرتے۔ پھر کس لیے ہمارے خلاف دھرنے دیئے جاتے ہیں؟‘‘
اس کی بات ختم ہونے پر میں نے کہا کہ ’’تم یقین رکھو، تمھارے سارے سوالوں کے جواب اور تحفظات دور کرنے کے لیے میں خود حافظ صاحب سے ملاقات کروں گا اور اس سارے معاملے پر اُن کا مؤقف بذریعہ تحریر عوام کے سامنے لاؤں گا تاکہ تم جیسے لوگوں کی تسلی ہوسکے‘‘۔
مجھے یقین تھا کہ یہ لوگ زیادہ دیر یہاں نہیں رکیں گے۔ میری باتیں سنتے ہی وہ وہاں سے چلتے بنے۔ پروگرام ختم ہوتے ہی میں گھر کی طرف چل پڑا۔ رات خاصی دیر سے گھر پہنچا تو نادرا دفتر میں لوگوں کے شور شرابے کی وجہ سے میں ذہنی طور پر تھکاوٹ محسوس کررہا تھا۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ پر کچھ تحریر کرنا چاہتا تھا لیکن ہمت جواب دے گئی تھی۔ ظاہر ہے جب انسان پر جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ طاری ہو تو بستر کی جانب جانے کا ہی فیصلہ کرتا ہے۔ میں نے بھی آرام کی غرض سے اپنے کمرے کا رخ کیا۔ خبر نہیں کہ کب نیند آگئی۔
یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ خیالات ہی خوابوں کی سیڑھی ہوا کرتے ہیں، دن بھر کی بھاگ دوڑ، لوگوں سے ملنا ملانا اور آپ کے ذہن پر سوار باتوں سے ہی خواب میں آنے والے کردار بنا کرتے ہیں۔ نادرا آفس میں ملنے والے صاحب کی طرف سے کی جانے والی باتیں اور اٹھائے جانے والے سوالات میرے ذہن میں نقش تھے۔ میں پہلے ہی تحریر کرچکا ہوں کہ تھکاوٹ کی وجہ سے کب نیند آئی اور میں کب خوابوں کی دنیا میں جاپہنچا، یاد نہیں۔ لیکن آنے والا خواب مجھے اچھی طرح یاد ہے اور شاید وہ میری تحریر کے لیے ضروری بھی ہے جس نے میرے مضمون کو حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کیے بغیر مکمل کردیا۔
میں اجمل سراج کے ساتھ جارہا ہوں کہ اچانک ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں میں ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ موسم سرد ہوگیا کیوں نہ کسی جگہ بیٹھ کر گرما گرم چائے پی لی جائے، اجمل سراج کا فون بجنے لگا۔ کس کا فون ہے؟ نجیب ایوبی کی کال ہے، مجھے جواب دیتے ہوئے اجمل سراج فون کال سننے لگے۔ فون بند ہوتے ہی بولے یار کیوں نہ کسی کیفے میں کچھ دیر ٹھہر کر چائے پی لی جائے۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، میں نے بھی فوراً حامی بھر لی ، یوں ہم دونوں گلشن کی طرف جانے والی سڑک کے ساتھ قائم کیفے میں جا پہنچے میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ خوابوں کے کردار آپ کے ذہن میں بسنے والے خیالات کا عکس ہوا کرتے ہیں ۔ جیسے ہی ہم کیفے میں داخل ہوئے ہماری نظر سامنے والی کرسیوں پر پڑی جہاں حافظ نعیم الرحمن کے ساتھ نجیب ایوبی بیٹھے تھے۔ ان دونوں شخصیات کو دیکھ کر میں نے اجمل سراج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کام بن گیا اچھا ہوا حافظ نعیم الرحمن یہاں مل گئے اور ساتھ پبلک ایڈ کمیٹی بھی میں نے نادرا دفتر میں ملنے والے شخص سے وعدہ کیاتھا کہ میں تمہارے سارے سوالات کے جوابات نعیم الرحمن صاحب سے ہی دلوائوں گا۔میں نے حافظ صاحب سے ملنے ادارے جانا لیکن یہ میری قسمت ہے کہ میری ملاقات کیفے ہائوس میں ہی ہوگئی بس یہی سوچتا ہوا میں ان احباب کی طرف آگیا۔ دعا سلام کے بعد میں نے ایک ایک سوال حافظ نعیم الرحمن کے سامنے رکھ دیا۔ میری ساری بات بڑے غور سے سننے کے بعد حافظ نعیم الرحمن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جماعت اسلامی ملک کی وہ واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ صاف ستھری اور عوامی ایشوز پر ہی سیاست کی ہے۔ قاضی صاحب کا زمانہ ہو یا جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کسی ایک شخص کی ذاتی رائے نہیں جماعت اسلامی کا ہر سیاسی قدم اکابرین جماعت کی اکثریت کا فیصلہ ہوتا ہے جتنا نظم و ضبط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے شاید ہی ملک کی کسی اور سیاسی جماعت کا ہو۔ جماعت اسلامی میں ہر ایک کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک کے خلاف چلائی جانے والی عوامی مہم ابھی ختم نہیں ہوئی، ادارے میں پبلک ایڈ کمیٹی کے ذمہ داران اس مہم کو بڑے ہی منظم طریقے سے چلا رہے ہیں، لوگوں کی شکایتوں پر کمیٹی متعلقہ ارباب اختیار سے رابطے میں رہتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب کوئی نیا ایشو آ جائے تو ہمارا فرض ہے کہ اس پر جتنا بھی ہوسکے کام کیا جائے۔ نادرا نے کراچی کے عوام کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں۔ ان مشکلات کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے جب تک نادرا کا قبلہ درست نہیں ہو جاتا احتجاج جاری رہے گا۔ جماعت اسلامی کسی ادارے کے خلاف نہیں اور نہ ہی اس کی لڑائی کسی فرد واحد سے ہے ۔ ہاں ہم ان لوگوں کے خلاف ضرور ہیں جنہوں نے اداروں میں کرپشن کی بنیاد ڈالی جو سرعام غریب عوام سے ہزاروں روپے بھتا وصول کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی قومی اداروں کو مضبوط بنانے کے حق میں ہے۔ ملکی ادارے مضبوط اور با اختیار ہونے سے ہی عوام کو ان کے مسائل سے چھٹکارا حاصل ہوسکے گا۔ رشوت اور کرپشن کی وجہ سے ادارے تباہ ہوچکے ہیں ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جماعت اسلامی عوام کو اس کرپٹ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ جماعت اسلامی اپنے منشور کے مطابق معاشرے کی تربیت کرتی رہے گی اور ان شاء اللہ ایک روز اس ملک میں اصل جمہوریت کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمن کی بات ختم ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے یہ سارا قصہ فوری طور پر اجمل سراج کو بذریعہ فون بتا دیا۔ خواب تو خواب ہوتے ہیں۔لیکن یہ خواب میرے لیے ایسا ثابت ہوا جس سے مجھے ان سوالات کے جوابات مل گئے، جو معاشرے کے کسی بھی شخص کے ذہن میں آسکتے ہیں۔

حصہ