بزرگ ہمارے محسن

459

افشاں نوید
سپر اسٹور میں وہ ادھیڑ عمر کا آدمی ایک ہاتھ سے ٹرالی دھکیل رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہیل چیئر۔ کبھی ٹرالی ایک طرف کھڑی کردیتا، کبھی وہیل چیئر۔ ان ضعیف خاتون کے ہاتھ میں سامان کی فہرست تھی۔ وہ مختلف الماریوں سے چیزیں نکالتا، خاتون چیک کرتیں اور ٹرالی میں ڈلواتی جاتیں۔ میں دانستہ ان کے کچھ قریب ہوگئی، اس دوران وہ صاحب دونوں ہاتھوں میں پیکٹ لے کر آئے۔ خاتون بولیں: دال یہ نہیں چھلکے والی چاہیے۔ چائے کی پتی کبھی عائشہ (غالباً بہو ہوگی اُن کی) اس برانڈ کی پسند نہیں کرتی۔ ڈٹرجنٹ کا اس نے بڑا پیکٹ کہا تھا، یہ رکھ دو اور دو کلو والا لے آئو۔ وہ صاحب تابعداری سے احکامات پر عمل کرتے رہے۔
میرے ذہن میں خیال آیا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر عائشہ خود آجاتیں یا ان صاحب پر بھروسا کرکے فہرست ان کے حوالے کردیتیں۔ ان معذور خاتون کے ساتھ خریداری کے اس عمل کا بوجھل پن کس قدر بڑھ گیا ہے ان صاحب کے لیے۔ اپنی خریداری سے زیادہ میری توجہ کا مرکز وہ وہیل چیئر تھی۔ ایسا ہی خیال مجھے چند روز قبل اُس وقت آیا جب ایک دوسرے شاپنگ سینٹر پر میں نے دیکھا کہ ایک انتہائی ضعیف خاتون ستّر، اسّی برس کے درمیان کی عمر کی لگتی تھیں، اسٹک کے سہارے چلتی ہوئی آئیں، ان کے ہمراہ بارہ چودہ برس کا ایک بچہ تھا۔ وہ کپڑے والے کو ایک کپڑا دکھا کر کہنے لگیں: اس رنگ کی میچنگ کا دوپٹہ نکال دو۔ وہ بولا: اماں انگلش کلر ہے مشکل سے ہی ملے گا، آپ ایسا کریں کہ رنگوا لیں۔ وہ بولیں: درجن بھر دکانیں تو دیکھ چکی ہوں، چلو دوچار اور دیکھ لوں، پھر تم سے آکر سفید ہی خرید لوں گی۔تب بھی مجھے خیال یہی آیا کہ کتنا اچھا ہوتا کہ ان کی یہ خدمت کوئی اور انجام دے دیتا اور ان کو اس زحمت سے بچالیتا۔ ہمارے خاندانی نظام میں تو اس عمر میں پوتی پوتے اور نواسی نواسے بزرگوں کی خدمت کے لیے حاضر رہتے ہیں۔پوری دنیا میں یکم اکتوبر کو بزرگ شہریوں کا دن منایا گیا۔ اس دن کے موقع پر مضامین پڑھتے ہوئے مجھے اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔ میں نے خود کو اس جگہ پر رکھ کر جائزہ لیا کہ اگر مجھے میرے بچے اس عمر میں جس کو بزرگی کی عمر کہتے ہیں، خاندان کی تقریبات میں لے جانا چھوڑ دیں کہ آپ تھک جائیں گی، دیر سے سونے پر آپ کی طبیعت خراب ہوجائے گی، آپ گھر میں رہیں تو بہتر ہے!! اس طرح تو سماج سے رابطہ کٹتے کٹتے انسان کتنا تنہا ہوجائے گا؟ بزرگوں کو ضرورت صرف اچھے لباس، عمدہ غذا، بروقت علاج معالجہ کی ہی نہیں ہوتی، ان کی سب سے بڑی ضرورت ان کو سماج سے جوڑ کر رکھنے کی ہے۔ وہیل چیئر پر ماں کو بازار لانے والا یقینا صحت مند سوچ کا مالک ہے۔
میں اسپتال میں اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ میرے دائیں طرف کی نشستوں پر ایک بزرگ بیٹھے تھے جو اسّی برس کے لگ بھگ دکھائی دیتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بہو یا بیٹی تھیں، اور ان کے دو ٹین ایج کے بچے تھے۔ وہ بچے کوئی سوال کرتے تھے اور بزرگ اس کا تفصیلی جواب دیتے۔ ان کی زیادہ تر گفتگو اپنی نوجوانی کے دور اور اپنے والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں تھی جو اب اِس دنیا میں نہیں ہیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ لگا مجھے اپنی باری کے انتظار میں، اور وہ بزرگ مسلسل بولتے رہے اس دوران۔ اندازہ ہوا کہ وہ بچے ان کے نواسی اور نواسہ تھے۔ میں سوچنے لگی پتا نہیں کتنے دنوں بعد ان بزرگ کو یہ موقع ملا ہوگا کہ وہ کسی سے اپنے دل کی اتنی باتیں کریں۔ یہ ان کے لیے کتنے خوبصورت لمحات ہوں گے کہ کوئی سننے والا ان کو میسر تھا۔ اور سامع بھی ان کی آئندہ نسل اور ان کے جگڑ کے ٹکڑے… اور وہ بچے کس قدر خوش نصیب ہیں جن کو بزرگوں کی صحبت میسر آئے۔ بزرگوں کی ہر بات میں چاہے وہ وقتی طور پر اچھی نہ بھی لگے، اپنی نسل کے لیے نصیحت ہوتی ہے، محبت کا درس ہوتا ہے۔ وہ وہاں سے چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے ان کی عمر کے لوگ ہی دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں۔ ہم نے قوم کے دانشوروں کو نوجوانوں کے بارے میں فکرمند دیکھا ہے۔ نوجوانوں کے بارے میں لکھا اور بولا جاتا ہے۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوانوں کے پروگرامات الیکٹرانک میڈیا پر رکھے جاتے ہیں، کھلاڑیوں اور نوجوان فنکاروں اور گلوکاروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اخبارات نوجوانوں کے صفحات نکالتے ہیں۔ انہیں ہنر اور روزگار کے طریقے بتاتے ہیں۔ اچھی اور کامیاب زندگی کے گر سکھائے جاتے ہیں۔ مگر جو طبقہ ہمارے معاشرے میں بہت نظرانداز ہوتا ہے وہ بزرگوں کا طبقہ ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تو یہ خیال تقویت پارہا ہے کہ ہمارے بزرگ نہ آج کی جدید ٹیکنالوجی سے واقف ہیں، نہ بدلتے ہوئے تمدن کے تقاضے انہیں سمجھائے جاسکتے ہیں، نہ آج کے نوجوانوں کے لائف اسٹائل کو وہ پسند کریں گے۔ اس لیے ان سے فاصلہ ہی بہتر ہے۔ وہ اپنی عمر گزار چکے ہیں، ان کا ہمارا رشتہ صرف احترام کا رشتہ ہے۔ فرصت ملنے پر سلام کرلیا اور دعائوں کی درخواست کردی، یا کوئی مشکل گھڑی آپڑی تو بزرگ یاد آگئے کہ ان کی دعائیں اس مشکل گھڑی میں کام آئیں گی۔
ہمارے اطراف میں وہ لوگ جو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گزار رہے ہیں آپ اُن کی مصروفیات کا جائزہ لیجیے۔ ہمارے ایک قریبی عزیز جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے اعلیٰ عہدے سے فارغ ہوئے اُن کی مصروفیات ٹی وی دیکھنے، گھر کا سودا سلف لانے اور گملوں کی دیکھ بھال تک محدود ہیں۔ ہم نے اُن سے سوال کیا کہ اپنے ادارے میں تیس سال مختلف عہدوں پر خدمات انجام دینے کے بعد وہ ریٹائر ہوئے ہیں، کیا ان کے ادارے کو ان کے تجربات سے استفادے کی ضرورت نہیں؟ چاہے بلامعاوضہ ہی ہو، مگر ان کو کبھی کسی مشاورتی فورم پر مدعو کرلیا جائے، کبھی کوئی لیکچر وغیرہ رکھوا لیا جائے؟ وہ بولے ’’نہیں! نئے افراد اتنی بڑی تعداد میں آتے ہیں، پرانے کس کو یاد رہتے ہیں!‘‘ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہزاروں تجربہ کار پروفیسر، بینکر، انجینئر، صحافی، فنی ماہرین اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہمارے سماج میں موجود ہیں۔ سماج نے ان کی بہترین خدمات سے استفادہ کیا ہے، مگر ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی خود ان میں سے بیشتر کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں تھنک ٹینکس ہوتے ہیں، ان میں ایسے افراد کو شامل کیا جاتا ہے جو اپنے شعبوں کے ماہرین ہوں۔ حکومت پالیسی سازی میں ان سے رہنمائی لیتی ہے اور مستفید ہوتی ہے۔ وہاں بزرگوں کے کلب ہوتے ہیں۔ الگ تفریحی مقامات ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہاں خاندانی نظام ہمارے سماج کی طرح مضبوط نہیں، اس لیے ریاست ان کے حقوق کے لیے کمربستہ رہتی ہے۔ ’’اولڈ ہومز‘‘ کا تصور انہی معاشروں کے لیے تھا جہاں بزرگوں کے لیے گھروں میں جگہ نہیں تھی۔ اب تو بدقسمتی سے ہمارے ہاں چھوٹے شہروں میں بھی اولڈ ہومز بن رہے ہیں۔ خاندان ٹوٹ رہے ہیں، اکائیوں میں بٹ رہے ہیں۔ خاندان سے مراد میاں، بیوی اور بچے لیے جاتے ہیں۔ ماں باپ کے والدین اب ہمارے ہاں بھی اضافی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں، اور ان کی ذمہ داری کو ایک ’’احسان‘‘ سمجھ کر ہی ادا کیا جاتا ہے۔ اگرچہ کہ ہر جگہ ایسا نہیں ہے، مگر عمومی رویہ یہی ہے۔ بیشتر گھرانوں میں تو ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ماں کسی ایک بیٹے کے پاس رہتی ہے اور باپ کسی دوسری اولاد کے ساتھ۔ اس عمر میں ماں اور باپ کو جدا کرنا کتنا اذیت ناک ہے، محض اس عذر کی بنا پر کہ ان کی معاش اور دوائوں کا خرچ کوئی ایک فرد نہیں اٹھا سکتا۔ لہٰذا ماں کی ذمہ داری ایک بیٹا قبول کرلے اور باپ کی ذمہ داری دوسرا…!!عالمی سطح پر ضرور بزرگوں کا دن منایا جاتا ہے، مگر ہمارے تین سو پینسٹھ دنوں میں کتنے دن بزرگوں کے نام ہوتے ہیں! آپ جب بھی بزرگوں سے ملیں، ایک احساس ضرور ہوتا ہے کہ ان کو ہماری ضرورت ہے۔ ان کے بہت سے قرض ہیں ہم پر۔ عموماً ہم اپنے بچوں کے قرض اتارنے میں ایسے منہمک ہوجاتے ہیں کہ بزرگوں کے قرض اتارنے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا ہمارے پاس۔ اپنے والدین کے والدین کا قرض بہت ہی کم خوش نصیب اتار پاتے ہیں۔ کتنے ایسے گھرانے ہوں گے ہمارے سماج میں جہاں خاندان کے بزرگوں کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہو، خاندان کے بزرگوں کے ساتھ کوئی شام منائی جائے، ان کو سنا جائے، تحائف دئیے جائیں، ان کو پیار کرکے ان کی قدر وقیمت کا احساس انہیں دلایا جائے۔ محلوں کی سطح پر جو کمیٹیاں ہوتی ہیں اُن میں ان کو نمائندگی دی جائے، مختلف این جی اوز میں اعزازی رکنیت دی جائے۔
میرے بچے نے ایک دن اسکول سے آکر بتایا کہ کلاس میں بچوں سے ان کے نانا اور دادا کے نام پوچھے گئے تو بیشتر بچوں کو نہیں آتے تھے۔ بالخصوص وہ بچے جن کے نانی نانا اور دادی دادا ان کے بچپن میں یا دنیا میں ان کے آنے سے پہلے انتقال کرگئے ہوں وہ ان رشتوں سے قطعی واقف نہیں ہوتے۔ حالانکہ نانی نانا یا دادی دادا کے بہن بھائیوں میں سے ضرور کوئی حیات ہوتا ہوگا، بچوں کا ان سے تعلق بنایا جاسکتا ہے تاکہ وہ ان رشتوں کی حلاوت تو محسوس کرسکیں۔
قرآن نے خود والدین کے حقوق متعین کردیے۔ اللہ نے اپنے حق کے بعد والدین کا حق بتایا اور دعا کے الفاظ تک ہمیں سکھادیے
رَبِّ الرْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرہ
اتنا حساس ہے ہمارا دین ہمارے والدین کے حقوق کے معاملے میں۔ ہمارے وہ والدین جو اب دنیا میں نہیں، ہم اپنے بچوں کے سامنے کتنا اُن کا ذکر کرتے ہیں؟ کب کب ان کی مثالیں پیش کرتے ہیں؟ کتنا ان کے احسانات کا ذکر کرتے ہیں؟ ہم میں سے کتنوں نے اپنے بچوں کے لیے اپنے خاندان کے بزرگوں کو رول ماڈل بناکر پیش کیا ہے…؟ جو اپنے ماضی سے نہیں جڑے ہوتے اُن کا مستقبل بھی اتنا مستحکم نہیں ہوتا۔ ہماری اولادیں اگر بزرگوں کی قدر کرنا جانتی ہوں، اپنے وقت پر اُن کا حق تسلیم کرتی ہوں، اُن کی رہنمائی کو اپنا اثاثہ سمجھتی ہوں تو معاشرے کی بہت سی صحت مند اقدار پھر سے زندہ ہوسکتی ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی زندگیوں پر اپنے والدین کا سایہ ڈالتے رہنا چاہیے، چاہے وہ دنیا میں ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر وہ دنیا میں نہیں تو گاہے گاہے اجتماعی دعا میں گھر میں اُن کا نام لے کر دعا کرنی چاہیے تاکہ بچوں کو یہ احساس ہو کہ ہماری دعائوں میں ہمارے والدین اور اُن کے والدین کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔
میرے سسر مرحوم جنہوں نے ضعیفی کی عمر میں وفات پائی، اپنی آخری سانسوں تک اپنی ماں کا اس طرح ذکر کرتے تھے جیسے ان کو دیکھ رہے ہوں، محسوس کررہے ہوں۔ اسی طرح قیام پاکستان سے قبل وفات پانے والے اپنے عزیزوں کا اس طرح ذکر کرتے کہ ہم بھی ان کی شخصیتوں کے بہت سے روشن پہلوئوں سے آگاہ ہوئے۔
جہاں پر بزرگ حیات ہیں ان کی اس طرح قدردانی ہونی چاہیے جیسے اپنے قیمتی تحائف کی ہم حفاظت کرتے ہیں۔ اور جو بزرگ رخصت ہوچکے ہیں ان کے ذکر باقی رہنے چاہئیں، تب ہی ہماری دعائوں میں بھی ان کا حصہ رہے گا۔ ہمارے بچے اپنے ماضی سے جڑیں گے تو مستقبل کی بہتر نقشہ گری کے قابل ہوسکیں گے۔

حصہ