وقت کا سفر، پھیلتی ہوئی کائنات

317

تلخیص و تحقیق: خرم عباسی
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات ماننے سے انکار کردیا ہے ‘ غور نہیں کرتے یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے ‘ پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ؟ کیا وہ (ہماری اس خلاقی کو ) نہیں مانتے؟( الانبیاء۔30).انسانوں کے دل و دماغ اس میں موجود دلائل و شواہد سے بالکل غافل ہیں۔ اگر کھلے دل و دماغ سے اس پر غور کیا جائے تو اس میں ایسے شواہد ہیں جو عقل و خرو کے دامن گیر ہوجاتے ہیں ‘ صرف چشم بینا چاہیے۔
یہ بات کہ زمین و آسمان پہلے ملے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو بعد میں جدا کردیا ‘ قابل غور ہے۔ فلکیات کے شعبے میں انسانی علم جس قدر آگے بڑھتا ہے وہ قرآن کے اس فرمان کی توثیق کرتا ہے جو قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے کہا۔ آج تک انسانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کہکشاں جس میں سورج ‘ چاند ‘ زمین اور ان کے تابع دوسرے سیارے ہیں وہ پہلے ایک ‘‘ سدیم ‘‘ تھے بعد میں جدا ہو کر ان اجرام نے موجودہ شکل اختیار کرلی۔ اور یہ کہ زمین سورج ہی کا ایک حصہ تھی جس سے وہ جدا ہوئی اور ٹھنڈی ہوگئی۔
لیکن یہ تو فلکی نظریات میں سے ایک نظریہ ہے۔ آج یہ قائم ہے ‘ کل پھر اڑ جائے گا اور اس کی جگہ ایک دوسرا زیادہ مضبوط نظریہ لے لے گا۔ مسلمانوں کا طریقہ کار یہ نہیں ہے کہ وہ یقینی آیت پر ماہرین فلکیات کا کوئی غیر یقینی نظر یہ تھوپ دیں اور پھر اس کی تفسیر اس کے مطابق کریں۔ آج ہم اسے قبول کریں اور کل مسترد کردیں۔ اس لیے قرآن مجید کی اس تفسیر میں یہ طریقہ اختیار نہیں کیا کہ قرآن کریم اور جدید سائنسی نظریات کے درمیان تطبیق کریں۔ لیکن سائنسی نظریات اور چیز ہیں اور سائنسی حقائق اور چیز۔ سائنسی حقائق وہ ہوتے ہیں جو تجربے سے ثابت ہوں مثلا۔ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ مادہ گرمی سے بڑھ جاتا ہے اور پانی گرم ہونے سے بخارات میں بدل جاتا ہے اور برودت سے پانی جم جاتا ہے۔ اس طرح کے دوسرے تجربات دراصل سائنسی حقائق ہوتے ہیں۔ یہ سائنسی حقائق علمی اور فلکی نظریات سے مختلف چیز ہے۔
قرآن کریم علمی نظریات کی کتاب نہیں ہے۔ نہ قرآن کریم اس لیے نازل ہوا ہے کہ سائنس کی طرح اس کے تجربے کیے جائیں۔ دراصل قرآن زندگی کا ایک پورا نظام ہے ‘ نیز اسلام عقل کے لیے بھی حدود متعین کرتا ہے تاکہ وہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔ اسلام معاشرے کے لیے بھی ایک ضابطہ مقرر کرتا ہے تاکہ وہ عقل کو کام کرنے کی آزادی دے۔ لیکن اسلام سائنسی جزئیات میں مداخلت نہیں کرتا۔ نہ جزئیات میں جاتا ہے۔ عقل کی سمت درست کرکے اسلام ان باتوں کو عقل پر چھوڑ دیتا ہے۔
قرآن کریم کبھی کبھار کائناتی حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے مثلاً ’’ آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان دونوں کو جدا کیا ‘‘۔ ہم اس حقیقت پر محض اس لیے یقین کرتے ہیں کہ یہ قرآن میں مذکور ہے ‘ اگرچہ تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے کہ یہ کیونکر ہوا ؟ زمین آسمان سے کیسے جدا ہوئی یا آسمان زمین سے کیسے جدا ہوا۔ ہم ان سائنسی نظریات کو بھی اس حد تک قبول کرتے ہیں جو حقیقت مذکورہ اور قرآن کے خلاف نہ ہوں۔ لیکن ہم یہ نہیں کرتے کہ فلکیاتی نظریات کو سامنے رکھ کر آیات قرآنیہ کو ان کے پیچھے دوڑائیں اور قرآن کی صداقت کا سرٹیفکیٹ ان نظریات سے لیں کیونکہ یقینی حقیقت قرآن ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کے فلکیاتی نظریات اس آیت کے اس مجمل مضمون کے خلاف نہیں ہیں جو آیت میں آج سے صدیوں پہلے بیان کردیا گیا تھا۔
اب ہم اس آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں جس میں کہا گیا ہے۔
’’ اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ‘‘۔ یہ آیت بھی نہایت ہی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سائنس دان اس کے انکشاف اور ثبوت کو ایک عظیم با ت خیال کرتے ہیں اور ڈارون کی اس بات پر تعریف کرتے ہیں جس نے کہ یہ دریافت کیا کہ پانی حیات کا بنیادی گہوارہ ہے اور اس حقیقت کو تجربے سے ثابت کیا۔
اس میں شک نہیں کہ سائنس دان جب اس حقیقت تک پہنچے تو یہ بہت بڑا انکشاف تھا لیکن قرآن مجید میں جو بات آئی ہے یہ ہمارے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے اور نہ سائنس دانوں کے انکشاف اور تجربے سے قرآن پر ایک مسلمان کے عقیدے میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن پر ہمارے اعتقاد کی بنیاد یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بنیاد نہیں ہے کہ جدید سائنسی نظریات قرآن کریم میں دیئے گئے حقائق کو ثابت کرتے ہیں۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈارون کا نظر یۂ ارتقاء اور نشوونما اس حد تک درست اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کس حدتک وہ زندگی کے لیے پانی کو ضروری خیال کرتا ہے۔
قرآن کریم نے تو آج سے چودہ سو سال قبل کفار کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ ذرا اس کائنات پر غور کرو ‘ اس کے عجائبات کو دیکھو ‘ قرآن نے تو ان کی جانب سے کائنات کا مشاہدہ نہ کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور یہ کہا تھا۔
’’ کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ‘‘۔ حالانکہ ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات یہ پکاررہی ہے کہ اللہ پر ایمان لائو۔
اور ذرا مزید کائناتی مناظر : ’’ اور زمین پر پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے ‘‘۔ یہاں جو بات ثابت کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین پر بڑے بڑے پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انسانوں کو لے کر ایک طرف ڈھلک نہ جائے اور اس کے اندر اضطراب نہ ہو۔ توازن مختلف صورتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً بعض اوقات داخلی دبائو جو زمین کے اندر ہوتا ہے ‘ توازن پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات خارجی دبائو توازن پیدا کرتا ہے اور یہ دبائو مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک جگہ پہاڑ بلند ہوں ‘ دوسری جگہ زمین میں گہرے کھڑے کے ساتھ متوازن ہوتا ہے۔ جو بھی ہو ‘ بہر حال اس آیت سے اجمالاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین کے توازن کا پہاڑوں کے ساتھ تعلق ہے اس لیے ہم عقلی علوم اور تجربات کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ قرآن نے ایک حقیقت کے بارے حقیقت ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اسے ثابت کریں ‘ سائنسی تجربات سے اور یہ ہے عقل انسانی اور سائنسی موضوع کے لیے کام کرنے کا اصل میدان۔ ہمیں قرآن کریم کے اس اعلان پر وجدانی یقین رکھنا چاہیے اور اس کے ثبوت کے لیے اس کائنات میں مزید تحقیقات کرنا چاہئیں۔
محترم سٹیون ہاکنگ،کائنات میں تحقیقات کے حوالے سے “وقت کا سفر”میں مزید لکھتے ہیں کہ ،1929ء میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے فلکیات کی تاریخ میں ایک عظیم دریافت کی۔ جس وقت وہ ایک بڑی دوربین کے ذریعے ستاروں کا مشاہدہ کررہا تھا، اس نے دیکھا کہ ان سے نکلنے والی روشنی، طیف (Spectrum) کے سرخ سرے میں منتقل ہورہی ہے اور جو ستارہ زمین سے جتنا دور ہے، یہ منتقلی اتنی ہی نمایاں ہے۔ سائنس کی دنیا میں یہ ایک تہلکہ خیز دریافت تھی، کیونکہ طبیعیات کے مسلمہ اصولوں کے مطابق اگر کسی روشنی کا طیف (Spectrum) نقطہ مشاہدہ (پوائنٹ آف آبزرویشن) کی جانب سفر کررہا ہو تو وہ بنفشی رنگ میں تبدیل ہوجائے گا، جبکہ روشنی کا یہ طیف نقط مشاہدہ سے دور ہورہا ہو تو اس کی روشنی سرخ ہوجائے گی۔ ہبل نے اپنے مشاہدات میں دیکھا کہ روشنی سرخ ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستارے ہم سے مسلسل دْور ہوتے جارہے ہیں۔
اس سے پہلے ہبل نے ایک اور اہم دریافت کی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ستارے اور کہکشائیں نہ صرف ہم سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی دْور ہوتے جارہے ہیں۔ اس مشاہدے سے کہ جہاں ہر شے دوسری شے سے دْور ہو رہی ہے، صرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کائنات مستقل پھیل رہی ہے۔ زیادہ تر ستارے جن کو ہم اپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں ہم سے چند نوری سال کے اندر واقع ہیں، موازنے کے طور پر ہمارا سورج ہم سے صرف آٹھ نوری منٹ دور ہے .
ہماری جدید تصویرِ کائنات صرف ۱۹۲۶ء ہی میں بنی جب فلکیات دان ایڈون ہبل نے بتایا کہ ہماری کہکشاں اکلوتی نہیں ہے ، در حقیقت بہت سی اور کہکشائیں بھی ہیں جو ایک دوسرے کے درمیان خالی جگہ کے وسیع خطے رکھتی ہیں، اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں ان چند کھرب کہکشاؤں میں سے ایک ہے جو جدید دوربینوں سے دیکھی جا سکتی ہے اور ان میں سے ہر کہکشاں کھربوں ستاروں پر مشتمل ہے . ہماری کہکشاں کا طول تقریباً ایک لاکھ نوری سال ہے اور یہ آہستہ آہستہ گھوم رہی ہے ، اس کے مرغولی بازوؤں میں ستارے اس کے مرکز کے گرد اپنا چکر کئی ارب سالوں میں لگاتے ہوں گے ، ہمارا سورج ایک عام درمیانی جسامت کا زرد ستارہ ہے جو ایک مرغولی بازو کے اندرونی کنارے کے قریب ہے ، ہم یقیناً ارسطو اور بطلیموس سے بہت آگے آ چکے ہیں جب ہم سمجھتے تھے کہ زمین مرکزِ کائنات ہے۔
دوسری کہکشاؤں کا وجود ثابت کرنے کے بعد ہبل نے مزید حیرت انگیز دریافت شائع کی کہ کہکشاں جتنی دور ہے اتنی ہی تیزی سے مزید دور جا رہی ہے اور اس کا مطلب تھا کہ کائنات ساکن نہیں ہو سکتی، جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا، بلکہ در حقیقت یہ پھیل رہی ہے اور مختلف کہکشاؤں کا درمیانی فاصلہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے بیسویں صدی کے عظیم فکری انقلابات میں سے ایک تھی.
اس باب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح کائنات کے بارے میں ہزار سال میں تشکیل پانے والے انسانی تصورات نصف سے بھی کم صدی میں بدل گئے تھے ، ہبل کی یہ دریافت کہ کائنات پھیل رہی ہے اور اس کی وسعت میں ہمارے اپنے سیارے کی بے وقعتی کا احساس صرف نقط آغاز تھا، جب تجرباتی اور نظریاتی ثبوتوں سے اضافہ ہوا تو یہ بات مزید عیاں ہو گئی کہ کائنات کا آغاز وقت کے اندر ہی ہوا تھا، حتی کہ ۱۹۸۰ء میں، میں (سٹیون ہاکنگ)نے اور پن روز نے آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر اسے ثابت کر دیا، اس ثبوت نے یہ ظاہر کیا کہ عمومی اضافیت کا نظریہ ایک نامکمل نظریہ ہے جو ہمیں یہ نہیں بتا سکتا کہ کائنات کس طرح شروع ہوئی، کیونکہ یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ تمام طبیعاتی نظریات بشمول خود اس کے ابتدائے کائنات کے سلسلے میں بے کار ہو جاتے ہیں، تاہم عمومی اضافیت کا نظریہ فقط جزوی نظریہ ہونے کا دعویدار ہے اس لیے جو بات وہ اکائیت کے قضیے (SINGULARITY THEOREM) میں حقیقتاً ظاہر کرتا ہے ، وہ یہ ہے کہ بالکل ابتدائی کائنات میں ایک وقت ایسا رہا ہو گا جب کائنات بہت چھوٹی تھی اور بیسویں صدی کے ایک اور جزوی نظریے کوانٹم میکینکس کے چھوٹے پیمانے کے اثرات کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہو گا، پھر ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اوائل میں کائنات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی تحقیق کا رخ غیر معمولی وسعت کے نظریے سے غیر معمولی انحطاط کے نظریے کی طرف موڑنا پڑا، اس سے پہلے کہ ہم دو جزوی نظریات ملا کر تجاذب کا ایک واحد کوانٹم نظریہ واضح کرنے کی کوشش شروع کریں، کوانٹم میکینکس کا یہ نظریہ آگے بیان کیا جائے گا۔
بشکریہ :سٹیون ہاکنگ،وقت کا سفر،ترجمہ:ناظر محمود/فی ظِلالِ القرآن.

حصہ