آج اور کل

1436

ذکیہ فرحت

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

وقت کا گھڑیال منادی کررہا ہے، شب و روز کی گردش بتا رہی ہے کہ تیری آج تیزی سے کل میں تبدیل ہورہی ہے۔ ’’آج۔ آج کا دن۔ آج اور کل‘‘ زندگی انہی دو لفظوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ کیا ہے یہ ’’آج اور کل‘‘۔ یہ زندگی کے دو پہلو ہیں، سکے کے دو رُخ کی مانند۔ اگر آج نہ ہو تو کل بھی نہیں ہوسکتی، اور اگر آج ہے تو کل بھی لازماً اور یقینا ہوگی۔ کتنی بڑی حقیقت ہے یہ۔ غور کیا جائے تو دل و دماغ کو ہلا دینے والی، سرتاپا جھنجھوڑ دینے والی ایسی حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں۔ انکار کی کوئی گنجائش نہیں… پل پل گزرنے والا لمحہ جو گھنٹوں سے دنوں میں ڈھل کر ہمارا آج بنتا ہے، اور پھر برف کی مانند قطرہ قطرہ پگھلنے والا وقت تیزی سے گزر کر ہماری آج کو کل میں تبدیل کردیتا ہے۔ پھر یہ کل ماضی کے اندھیرے میں گم ہوجاتی ہے، اس کی دبیز تہ میں دفن ہوجاتی ہے ہمیشہ کے لیے۔ گھڑیال کی منادی، گھڑی کی سوئی کی ٹِک ٹِک یہی تو بتا رہی ہے کہ غافل تجھے احساس کیوں نہیں کہ تیری زندگی کا ایک دن کم ہوگیا۔ تیری مہلتِ عمل کا ایک دن اور گزر گیا! کیونکہ زندگی ہی وقت ہے، اور وقت ہی زندگی ہے۔ زندگی گھنٹوں، دنوں اور ماہ و سال کے مجموعے کا نام ہی تو ہے۔ ’’آج‘‘ زندگی ہے، ’’کل‘‘ موت۔ ’’آج‘‘ دنیا ہے،’’کل‘‘ آخرت۔ ’’آج‘‘ آغاز ہے، ’’کل‘‘ انجام۔ ’’آج‘‘ امتحان ہے اور ’’کل‘‘ اس کا نتیجہ۔ اور اسی نتیجے پر آنے والے کل کا انحصار… آج ابتدا ہے کل اختتام۔ جب ہی تو کہا خالقِ اکبر نے ’’ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔ ہر طلوع ہونے والا سورج، ہر نئی صبح زندگی کا پیغام لاتی، اور ہر شام سورج غروب ہوکر آنے والے کل کی خبر دیتا ہے… نبیٔ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کوئی صبح نہیں ہوتی جب دو فرشتے نہ پکاریں کہ ’’اے آدم کے بیٹے میں ایک نیا دن ہوں اور تمہارے اعمال پر گواہ ہوں، پس مجھ سے فائدہ اٹھا لو، کیونکہ اب روزِِ قیامت سے قبل میں نہیں پلٹوں گا۔‘‘ یہ سبق ہے کہ جو کچھ ہے آج ہی کا دن ہے، یہی آج ہمارا سرمایہ ہے۔ یہ اگر ضائع ہوگیا تو کل خالی ہاتھ رہ جانا ہے۔
جب بندہ صبح کرتا ہے تو ہر صبح 1440 منٹ یعنی 24 گھنٹے کی تھیلی اسے تھما دی جاتی ہے کہ اسے خرچ کر۔ یہی اس کی مہلتِ زندگی کا ایک دن اور زندگی کی آج ہے۔ اب یہ اس کے اوپر منحصر ہے کہ اسے کیسے خرچ یا استعمال کرتا ہے۔ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جب کوئی اپنی صبح کرتا ہے تو یا تو وہ کامیاب ہوجاتا ہے، یا اپنے آپ کو ہلاک کرلیتا ہے۔‘‘
یہ وقت وہ شے ہے جسے ہم روک نہیں سکتے، پکڑ نہیں سکتے، بازاروں سے خرید نہیں سکتے، فریزر میں فریز نہیں کرسکتے۔ یہ تو ہوا کی مانند آتا اور آندھی کی طرح گزر جاتا ہے۔ اَن دیکھے طریقے سے آتا ہے اور غیر محسوس طریقے سے گزر جاتا ہے۔ وقت قیمتی ہے، وقت انمول ہے، یہ بس دریا کی طرح ہر دم رواں دواں رہتا ہے۔ اس پر انحصار تو ہے، اختیار نہیں۔ ہاں اس کو استعمال کرسکتے ہیں۔ ’’آج‘‘ ختم ہوجانے والی ہے اور ’’کل‘‘ باقی رہ جانے والی ہے۔ آج ہی تو ہماری کل کی کامیابی کی ضامن ہے، کل حاصل ہونے والے خزانے کی کلید ہے۔ پھر… کیا ہم اس کو ضائع کردیں… لہو ولعب کی سرمستیوں میں کھو کر، غفلت، کوتاہی و لاپروائی کے ساتھ آنے والی کل سے بے خبر ہوکر… دنیا کی رنگینیوں، دلچسپیوں، اپنی دنیاوی خواہشوں، عیش کوشیوں اور نفس پرستی میں غرق ہوکر؟
ہاں ہمارے اردگرد تو ایسی ہی دنیا پھیلی ہوئی ہے۔ اسی کا غلبہ ہے ہر طرف۔ میڈیا کا سبق بھی یہی ہے ’’کھا لے، پی لے، جی لے‘‘۔ گویا زندگی صرف کھانے پینے اور جی لینے کا نام ہو۔ علامہ اقبال نے تو نصیحت کی تھی اپنی قوم کو کہ ؎

دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم

انہوں نے دل کی آزادی کو شہنشاہی سے تعبیر کیا اور شکم کو سامانِ موت قرار دیا تھا۔ مگر اب شکم پُری ہی زندگی کا مقصد ٹھیرا ہے۔ اب ہر روز یہی سلوگن دیا جاتا ہے، ہر صبح ٹی وی کا دستر خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے سجایا جاتا ہے اور سب اسی محور پہ گھوم رہے ہیں۔ پیزاہٹ کلچر نے گھر کے کھانوں اور گھر کی دعوتوں کو دقیانوسی بنادیا ہے۔ نت نئے اور مہنگے ترین پکوانوں کے طریقے بتاکر، دکھا کر ہر لمحہ پیٹ کی اشتہا کو بڑھایا جائے تو کون اسے اختیار نہ کرے! لباس ستر پوشی کے بجائے عریانی اور خودنمائی کا مظہر بن گیا۔ مختصر ترین، فیشن کے نام پر جسموں پر ڈالا جانے والا بے حیائی کا گندا زہر متاعِ حیات نسوانیت پر حملہ آور ہوکر ہولناک مناظر دکھا رہا ہے۔ لباس کے بارے میں خدا کا فرمان کہ یہ تمہاری ستر پوشی کے لیے بنایا گیا ہے، بھلایا جا چکا… یہ بات بھی کہ شیطان اور اس کے ساتھی تمہیں اُس جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے (سورۃ اعراف)۔ کتنا ہنستے ہوں گے شیطان اور اس کے ساتھی کہ ہم بھی ان کی ذریات میں شامل ہوگئے ہیں۔ بے حیائی و شیطنت کے یہ مظاہر گلیوں میں، سڑکوں پر، چوکوں میں ہر جگہ موجود… اللہ کی پیاری و خطاب یافتہ یہ مخلوق جسے عورت کہا جاتا ہے، اللہ نے اسے لولو مرجان کا خطاب دیا، بیض المکنون کہا، آج شیطان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر باعثِ رسوائی بن گئی ہے۔
نافرمانیوں، بداعمالیوں، بدفعلیوں اور گمراہیوں کا ایک سمندر ہے جس میں ساری تہذیبی اقدار، اخلاقی معیار، اسلامی صفات، دینی و ایمانی احساسات و خیالات خس و خاشاک کی طرح بہہ رہے ہیں۔ یہی کچھ اور ایسی ہی ہے ہماری آج، جسے ’’کل‘‘ بننا ہے۔ افسوس کس کس طرح ضائع کررہے ہیں ہم اپنی ’’آج‘‘ کو، کہاں کہاں نہ برباد کیا۔ کتنی ہی ’’آج‘‘ حادثوں کی نذر ہوگئیں… کتنی غفلت، کوتاہی اور لاعلمی میں گزر گئیں… کتنی ہی ’’آج‘‘ لہو ولعب اور عیاشی میں رنگینی ٔ زندگی بن کر موجودہ سے گزشتہ ہوگئیں، جب کہ قرآن یہ خبر دے رہا ہے کہ ’’قریب آگیا ہے حساب کا وقت اور لوگ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔‘‘ دین سے غفلت اور دنیا سے رغبت تو کفار اور منکرین کا طریقہ اور نظریہ تھا کہ بابر بہ عیش کوش کہ علم دوبارہ نیست‘‘ (یہیں عیش کرلو، آگے کوئی دنیا نہیں ہے)۔ مگر ایمان لانے والوں کا نظریہ و خیال تو اس کے برعکس ہے۔ ان کی نظروں کے سامنے تو ایک دوسرا ہی جہان ہے، جواب دہی ہے، دائمی ہے سدا بہار جنت، جس کے عیش و آرام کی کوئی انتہا نہیں۔ لازوال نعمتوں سے بھرپور، جس کا سلسلہ لامتناہی ہے، کبھی نہ ختم ہونے والا۔ یہاں انسان جن جن چیزوں پر اپنی ’’آج‘‘ برباد کررہا ہے، وہ سب تو وہاں ملنے والی ہیں۔ زر، زن، زمین… ان تین چیزوں کے لیے آج انسان گردش میں ہے۔ ان کے حصول کے لیے دین و دنیا دونوں دائو پر لگا رہا ہے۔ یہی سب کچھ تو اللہ کا وعدہ ہے۔ جنت کا ابدی ٹھکانہ، حوروں کا ساتھ، مفت کا عیش و آرام، سراسر سلامتی… کیسا حسین ہے وہ عالم بالا۔ یہاں دل، دماغ اور پیٹ یہی تین چیزیں اہم ہیں، جن کی آسودگی کی طلب میں لگا ہوا اور اپنی کل کو بھولا ہوا ہے۔ یہی چیزیں تو کل اللہ کو محبوب ہوں گی۔ قلبِ مطمئنہ، ذہن کی یکسوئی اور حرام کے لقمے سے شکم کو بچائے رکھنے والا ہی تو ان نعمتوں کا حق دار ہوگا۔ ہاں مگر بات یہ ہے کہ آج یعنی دنیا پوری خوش نمائی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے، اور کل یعنی آخرت نظروں سے اوجھل ہے۔ بقول ایک فارسی شاعر:

آں بہشت نا پدید است ایں بہشت است عیاں
آج بہ نسیہ ایں بہ نقد اسد آں نہاں ایں آشکار

(وہ بہشت تو نظر نہیں آرہی ہے، کیا پتا ہے بھی یا نہیں۔ آج کی بہشت نظروں کے سامنے ہے، آج کا فائدہ ابھی اور نقد ہے۔ کل کا معاملہ تو ادھار پر ہے، کیا پتا ملے نہ ملے) لہٰذا آج سے فائدہ اٹھا لو، دونوں ہاتھوں سے سامانِ دنیا لوٹ لو، کل کس نے دیکھی ہے! مگر یہی تو آزمائش ہے، اسی لیے تو اس جنت کو اللہ نے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ دیکھے کون کیسے عمل لے کر آتا ہے، کون موجودہ پر فریفتہ اور کون آئندہ پر یقین رکھتا ہے، کون نقد چاہتا ہے اور کون ادھار پر بھروسہ کرتا اور اسے اہمیت دیتا ہے۔

تُو ہی ناداں چند کیلوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی تھا

ورنہ اس کے پاس تو دینے کے لیے دین و دنیا دونوں کے بے شمار خزانے ہیں۔ ہم اپنی ’’آج‘‘ سنوار لیں تو کل ہماری ہے۔ وہ جنت جو ہماری منتظر ہے۔ مگر وہ ’’آج‘‘ کے پرستار کو نہیں ’’کل‘‘ کے طلب گاروں کو ملے گی۔ اس کی طلب میں اپنی ’’آج‘‘ کو رب کی تابعداری اور اطاعت میں گزاریں تاکہ ہماری کل اچھی، خوشگوار اور کامیابی و کامرانی کی نوید بن جائے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ایک دن امورِ مملکت انجام دیتے ہوئے بہت تھک گئے اور کام ختم کرکے لیٹ گئے، پھر ایک اور ضرورت مند آیا تو بیٹے نے جاکر اطلاع دی۔ حضرت نے کہا اس سے کہہ دو کل آئے۔ بیٹا کھڑا رہا۔ والد نے پھر کہا اس سے کہہ دو اب کل آئے۔ بیٹے نے کہا: ابا جان کیا آپ کو معلوم ہے کل کا سورج آپ پر طلوع ہوگا؟ یہ سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اٹھ بیٹھے اور کہا: ہاں مجھے نہیں معلوم، اسے بلا لو، اس کا کام آج ہی ہوگا۔ بے شک رب کی اطاعت کرنے والے اپنی ’’آج‘‘ اور ’’کل‘‘ سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کہ جنت کا راستہ دنیا ہی سے ہوکر گزرتا ہے۔ ’’دنیا اچھی ہے اُس کے لیے جو اسے اپنی آخرت کے لیے توشہ بنائے، یا اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔‘‘ (حدیث)
سورۃ والعصر میں آج اور کل کا بہترین مرقع خسارے سے بچانے والا نسخۂ کیمیا۔ ایمان لانے والے، حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کے ساتھ عملِ صالح کرنے والے ہی تو کامیاب لوگ ہیں۔ اور پھر وہ پانچ سوال جو آنے والی کل کی شدت کا احساس دلاتے ہیں: عمر کہاں لگائی؟ لایعنی باتوں، بے مقصد کاموں، رنگ رلیوں میں، یارب کی اطاعت و فرماں برداری میں؟ جوانی کس کام میں صرف کی؟ وہ طاقت، صلاحیت، وہ جوش و جذبہ اپنی کل کو کارآمد بنانے میں لگایا، یا جوانی کے زعم میں ضائع کردیا؟ مال کمایا تو کس راستے سے؟ کیا حلال و حرام کی حدود کو قائم رکھا، یا ساری حدوں کو پھلانگ گئے؟ مال خرچ کیا تو کہاں؟ رب کی رضا کے لیے، یا اپنی نفسانی خواہشوں کی تکمیل میں؟ وہ علم جو تمہیں ملا تھا اس کا کیا کیا؟ اسے مخلوقِ خدا تک پہنچایا، بندے کو خدا سے قریب لانے کے لیے استعمال کیا، یا اپنے دل و دماغ کے تہہ خانے میں بند کیے رکھا؟ کہا گیا پانچ سے پہلے پانچ کو غنیمت جانو: مصروفیت سے پہلے فراغت کو، بیماری سے پہلے صحت کو، ناداری سے پہلے امارت کو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، اور موت سے پہلے زندگی کو۔ ’’آج‘‘ عمل کا موقع ہے۔ ’’کل‘‘ حساب کا دن ہوگا اور اس دن عمل کی مہلت نہ ملے گی، اور کل تو بس آیا ہی چاہتی ہے۔ فرمایا ہادی ٔ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے: ’’دنیا کوچ کرچکی ہے، جارہی ہے، آخرت کوچ کرچکی ہے، آرہی ہے۔‘‘ مگر افسوس کہ جہنم سے بھاگنے والا بھی سورہا ہے اور جنت کو چاہنے والا بھی سو رہا ہے۔ حضرت عمرؓ کی دعا تھی ’’اے اللہ ہمیں شدت میں نہ چھوڑیئے، ہمیں غفلت کی حالت میں نہ پکڑیئے، اور غفلت والوں میں نہ بنایئے۔‘‘ آج کا دن جو نعمت کے طور پر ملا ہے اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور کل اس کا حساب دینا ہے۔ آج کی قیمت پر کل کا سودا کرنا ہے۔ آخرت کے بازار میں تو صرف عمل ہی کا سکہ چلے گا، یہ سکہ اگر کھوٹا ہوا تو سودا بھی کھوٹا ہی ہوگا۔ اے رب غفور ہماری آج کو بہترین کردے، اسے قابلِ عمل بنا دے۔ زندگی کی ساعت کی بہتری کے اوقاتِ عمر میں برکت کے سوال کے ساتھ نیکیوں میں اضافے اور آج کی نعمت کے ساتھ کل کی نعمت کا سوال کرتے ہیں۔ آج کا دن جو ہدایت کے لیے ہے، کل یہ ندامت نہ بن جائے، کیوں کہ:

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

٭٭٭

کشمیر ہمارا حصہ ہے

فرح ناز فرحؔ

ریت پہ لکھے حرف نہیں ہم پتھر کی تحریر بنیں
وہ جتنا چاہے ظلم کریں ہم ہمت کی تصویر بنیں
کچھ زور لگائیٍں بازو کا اور علم کی طاقت حاصل ہو
کچھ ہم پختہ ایمان کریں اور ملت کی تقدیر بنیں
کشمیر ہمارا حصہ ہے اور خواب ہے جاگتی آنکھوں کا
ہم جان و دل قربان کریں اور خوابوں کی تعبیر بنیں
اسلام کا پرچم لہرا کے ہم دینِ محمدؐ عام کریں
ہم مردِ مجاہد بن کے جئیں اور قرآں کی تفسیر بنیں
جب ملک پہ کوئی وقت پڑے ہم جان و دل سے حاضر ہوں
اپنوں کے لیے تو بادِ صبا دشمن کے لیے شمشیر بنیں
ہم ہاتھ میں لے کر ہاتھ چلیں پرچم کو اٹھا کے ساتھ چلیں
جو ٹوٹ سکے نہ دشمن سے ہم اک ایسی زنجیر بنیں

حصہ