ایک مرد ایک عورت کی کہانی۔۔۔ برائی کا انجام

2657

افروز عنایت
اماں: تمہارے ابا کو اگر پتا چل گیا کہ سلیم کا آنا جانا ہمارے گھر پر ہے تو ہنگامہ کھڑا کردیں گے۔ انہیں تو ویسے ہی میرے میکے والوں سے بیر ہے۔
راشدہ: اماں وہ تو انہیں میں اپنی پڑھائی کے سلسلے میں کبھی کبھار بلا لیتی ہوں، اگر آئندہ مجھے ضرورت پڑی تو میں خالہ کے گھر جاکر ان سے پوچھ لوں گی۔
…………
آپا: بھابھی یہ راشدہ کیا اکثر سلیم سے پڑھنے آجاتی ہے؟
بھابھی: جی آپا اکثر آجاتی ہے۔
آپا کا ماتھا ٹھنکا۔ جب بھی سلیم کے سامنے راشدہ کا ذکر ہوتا تو اس کی آنکھوں کی چمک کسی سے چھپی نہ رہتی، یہ بات آپا نے بھی نوٹ کی تھی۔ اس لیے انہوں نے اشاروں کنایوں سے سلیم کو یہ باور کرایا کہ وہ دل میں جو سپنے بُن رہا ہے ان کی تعبیر ناممکن ہے۔
…………
اماں: بیٹا اب آپ کی پڑھائی مکمل ہوگئی ہے، اس لیے اب طاہرہ باجی کے گھر آنا جانا بند کردو۔
ماں نے بیٹی کا چہرہ پڑھ کر بیٹی کو وہاں جانے سے منع کردیا تاکہ بعد میں کسی مسئلے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ لیکن راشدہ اور سلیم کے درمیان محبت پروان چڑھ چکی تھی، گرچہ زبانی عہد و پیمان نہیں ہوا لیکن آنکھوں کے ذریعے انہوں نے ایک دوسرے کو پیغام پہنچادیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔
اماں: میرا خیال ہے راشدہ کی پڑھائی مکمل ہوگئی ہے، اب اس کے لیے کوئی لڑکا تلاش کرنا چاہیے، دونوں چھوٹی بھی جوان ہونے والی ہیں۔ آپ نے اکمل بھائی کے بیٹے کے رشتے کے لیے کہا تھا، آپ نے انہیں کیا جواب دیا؟
ابا: اکمل نے دو تین بار کہا ہے کہ رشتہ طے کردیں، میں نے انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ ٹھیک ہے، وہ تو شادی جلد کرنا چاہتے ہیں، میں ان سے بات کرتا ہوں۔
…………
اکمل راشدہ کے والد کے دور کے رشتے دار اور گہرے دوست بھی تھے، نہایت خوشحال گھرانہ تھا، لیکن لڑکے نے صرف میٹرک پاس کرکے باپ کے کاروبار میں اُن کا ہاتھ بٹانا شروع کیا تھا۔ سارا دن دوستوں یاروں کے ساتھ محفلیں جماتا۔ بڑا شوقین مزاج جوان تھا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔
…………
راشدہ نے جب شبیر کے ساتھ اپنی شادی کی بات سنی تو اسے بڑا دھچکا لگا۔ اکثر کالج آتے جاتے اس نے شبیر کو اپنی جانب للچائی نظروں سے گھورتے دیکھا تھا۔ اسے یہ عیاش لڑکا کبھی پسند نہ آیا تھا، اور آج اسی کے ساتھ اس کی شادی کی بات بھی طے ہوگئی تھی۔
راشدہ : اماں میں مزید آگے پڑھنا چاہتی ہوں، میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔
اماں: پاگل ہوگئی ہو، تمہارے ابا سنیں گے تو کیا کہیں گے، تمہارے ساتھ میرا بھی حشر کردیں گے۔
…………
ایک طرف سلیم، دوسری طرف شبیر… دونوں میں زمین وآسمان کا فرق تھا۔ کیا باباکو میرے لیے صرف شبیر ہی نظر آیا؟ کیا فائدہ میری تعلیم کا، اس سے تو بہتر تھا میں اَن پڑھ و جاہل ہی رہ جاتی۔ اچھے برے کی پہچان تو نہ کرپاتی۔ یہ سوچ کر ہی اس کا دل دکھ سے بھر جاتا، لیکن وہ بابا کے سامنے بے بس تھی۔ بے شک سلیم کے ساتھ بابا میرا رشتہ نہ کرتے لیکن شبیر کے ساتھ کیسے رہ پائوں گی!
…………
آج اس کی شادی کی پہلی رات تھی لیکن اس کے دل میں کوئی امنگ نہ تھی۔ کمرے میں آئی تو عجیب بدبو سے وہ چونک گئی۔ شبیر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ بڑے فاتحانہ انداز میں مخاطب ہوا ’’دیکھا، میں اپنی شرط جیت گیا، آج تم میرے بستر پر ہو‘‘ (زور سے قہقہہ لگاتے ہوئے)
یہ الفاظ تھے یا تیر… شاید وہ کسی نہ کسی طرح اس رشتے سے سمجھوتا کرلیتی، لیکن سامنے کھڑے شخص کے گھمنڈ اور فاتحانہ مسکراہٹ نے اس کے دل کو زخمی کردیا، اس کے وجود سے اُسے گھن آنے لگی۔
…………
شادی کو بہت عرصہ گزر چکا تھا لیکن شبیر راشدہ کے دل میں اپنے لیے جگہ نہ بنا پایا۔ وہ اپنے آپ کو دونوں بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رکھتی۔ اسے جینے کے لیے مقصد مل گیا تھا، لیکن شبیر اپنی ناکام محبت اور راشدہ کے سردمہری پر مبنی رویّے کی وجہ سے اب دن رات نشے میں دھت رہنے لگا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر نشے میں مٹی کے ڈھیر کی طرح پڑا رہتا۔ اس نشے کی عادت نے ہی ان دونوں کے درمیان طویل فاصلے پیدا کردیے تھے۔ پینے پلانے کا تو وہ شروع ہی سے عادی تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافے کی بدولت اس کی زندگی میں اندھیرے چھا گئے۔ اپنی اس گندی خصلت کی وجہ سے نہ بیوی اور نہ ہی بیٹے اور بیٹی کے دل میں اس کے لیے محبت اجاگر ہوسکی۔ لہٰذا اس کی موت سے کسی کی زندگی میں کوئی فرق نہ پیدا ہوسکا، بلکہ اس کی موت سے افرادِ خانہ کے سروں پر بدنامی کے جو سائے منڈلا رہے تھے جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں سر اٹھاکے جی نہیں پارہے تھے، وہ چھٹ گئے۔ سب نے سُکھ کا سانس لیا، کیونکہ اس نشے کی عادت نے نہ صرف گھر کا سکون ختم کردیا تھا بلکہ برکت بھی اٹھ گئی تھی۔ شبیر کی موت کے بعد راشدہ نے سکھ کا سانس لیا کہ اللہ نے اس کے گھر میں برکت بھی عطا فرمائی۔ شرابی کی نہ صرف اپنی دنیا و آخرت برباد ہوجاتی ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگوں پر بھی اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ شرابی کی بدولت اس کا تمام گھرانہ اللہ کی برکتوں سے محروم رہتا ہے۔ بے شک اسلام کے ہر حکم کے پیچھے مصلحت پوشیدہ ہے۔

حصہ