اکادمی ادیبات میں ’’میٹ اے رائٹر‘‘ پروگرام

264

24 جنوری 2018ء کو اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد کے اعزاز میں میٹ اے رائٹر پروگرام منعقد کیا گیا۔ محمد یامین عراقی اس پروگرام کے صدر تھے‘ تنویر رئوف اور پروین حیدر مہمانان خصوصی تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ڈاکٹر لبنیٰ عکس نے نعت رسولؐ پیش کی۔ قادری بخش سومرو نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان دستیاب وسائل کے تحت قلم کاروں کے مسائل حل کر رہا ہے۔ ہم اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے علاوہ ہر علاقائی زبان و ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آج کی تقریب کے مہمان اعزازی ڈاکٹر نثار احمد نثار سادگی پسند‘ اصول پرست اور دیانت دار انسان ہونے کے علاوہ ایک پختہ کار شاعر بھی ہیں۔ کراچی کی مختلف مشاعروں میں ان کی شاعری سنائی دیتی ہے۔ اس موقع پر الطاف احمد نے کہا کہ ڈاکٹر نثار احمد نثار ہمہ جہت شخصیت ہیں یہ شاعر ہیں‘ صحافی ہیں اور ماہر تعلیم بھی ہیں۔ یہ کراچی کے ادبی منظر نامے کا حصہ ہیں۔ یہ حکومت سندھ کے ایجوکیش ڈپارٹمنٹ سے 17 گریڈ میں ریٹائر ہونے کے بعد کراچی کے ایک معروف ادارے کے ایڈمنسٹریٹر ہیں انہوں نے پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک طلباء و طالبات کے یے درسی کتب لکھی ہیں جو کہ کراچی کے بہت سے اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہیں۔ 2004ء میں ان کا نعتیہ مجموعۂ کلام ’’نورالہدیٰ محمدؐ‘‘ شائع ہو چکا ہے جب کہ ان کی غزلوں کی کتاب ’’آئینوں کے درمیان‘‘ کی تقریب اجرا بہت جلد متوقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نثار احمد گزشتہ پانچ سال سے روزنامہ جسارت میں ادبی تقریبات کی رپورٹنگ کرنے کے علاوہ شعرا کے انٹرویوز بھی کر رہے ہیں۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ نثار احمد کا کلام سن کر اندازہ ہو رہ اہے کہ یہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی اردو ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہے اس کے ڈائریکٹر آف کراچی قادر بخش سومرو ہر بدھ کو مشاعرہ کراتے ہیں۔ ان کا یہ اقدام قابل تحسین ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا‘ جس میں محمد یامین عراقی‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ پروین حیدر‘ رونق حیات‘ رضیہ سبحان‘ زیب النساء زیبی‘ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ عرفان عابدی‘ شاہ روم ولی‘ حنیف عابد‘ افروز رضوی‘ مہتاب شاہ‘ حنا علی‘ صغیر احمد جعفری‘ نجیب عمر‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ رفیع مغل ایڈووکیٹ‘ طاہرہ سلیم سوز‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ تنویر سخن‘ زہرہ صنم‘ محمد علی زیدی‘ قادر بخش سومرو‘ دلشاد احمد دہلوی اور تاج علی رانا نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
٭٭٭

بزمَ شعر و سخن کا مشاعرہ

طارق جمیل علم دوست ہیں‘ وہ کراچی کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں‘ ان کی تنظیم بزم شعر و سخن تواتر کے ساتھ ادبی محفلیں سجا رہی ہے‘ گزشتہ ہفتے انہوں نے اپنے دولت کدے پر بیرون ملک سے تشریف لائے ہوئے رفیع الدین راز‘ عقیل دانش‘ ذکیہ غزل اور غزل انصاری کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا جس کے پہلے دور کی نظامت خالد میر نے کی جب کہ فیروز خسرو نے دوسرے دور میں نظامت کے فرائض انجام دیے۔ وہ اپنی زیر نظامت ہونے والی شعر نشست میں فی البدیہہ اشعار پڑھ پڑھ کر شعرا کو بلاتے رہے۔اس پروگرام میں صاحب صدر رفیع الدین راز‘ مہمان خصوصی عقیل دانش‘ مہمانان اعزازی غزل انصاری اورذکیہ غزل‘ ناظمین مشاعرہ فیروز خسرو اور خالد میر کے علاوہ اجمل سراج‘ سلمان صدیقی‘ نجیب ایوبی قیصر وجدی‘ حکیم ناصف‘ سیمان نوید‘ اکرم کنجاہی‘ تبسم صدیقی‘ احسن طارق‘ دلاور علی آذر‘ نورالدین نور‘ عائشہ یحییٰ اور کشور عدیل جعفری اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ عبید ہاشمی نے بزم شعر و سخن کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ بزم شعر و سخن کے صدر ممتاز سماجی شخصیت طارق جمیل نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب سے کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے تب سے ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں اب شہر بھر میں روزانہ کئی کئی ادبی تقریبات ہو رہی ہیں ان پروگراموں میں ہم بھی حصہ لے رہے ہیں کیونکہ ہم بھی اردو زبان و ادب کے فروغ میں سنجیدہ ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اردو کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ مشاعرے بھی اردو کے فروغ میں مددگار و معاون ہوتے ہیں ہر زمانے کے صاحبانِ قلم معاشرتی رویوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ ہر دور کا ادبی مزاج الگ ہوتا ہے‘ ہر زمانے کے مسائل الگ ہوتے ہیں اسی لیے ایک دور کی شاعری دوسرے دور سے مختلف ہوتی ہے لیکن غزل کے روایتی مضامین آج بھی مزا دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تنظیم کا یہ اصول ہے کہ ہم بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی شعرا کے اعزاز میں پروگرام ترتیب دیتے ہیں آج کی محفل میں اردو ادب کے ممتاز شعرا شریک ہیں اور سامعین کی ایک کثیر تعداد بھی موجود ہے میں ان تمام خواتین و حضرات کا شکر گزار ہوں جو میری دعوت پر مشاعرے میں شریک ہوئے۔

حصہ