نیا ادیب اور ادب

295

سیمان کی ڈائری
’’السلام علیکم! کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘‘بوسیدہ کمرے میں پرانی میز اور کرسی پر موجود ایک صاحب نے اخبار کی اوٹ سے میری جانب دیکھاجو کرسی پر لمبی سی ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے ۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ کو مضبوطی سے دوانگلیوں کے درمیان پکڑا ہوااور چٹکیوں سے اس کی راکھ ایش ٹرے پر انڈیل رہے تھے۔ دوسرے ہاتھ میں اخبار کو اپنے پیٹ پر پھیلائے ہوئے خبروں کے گہرے مطالعے میں مصروف تھے۔مجھے دیکھ کر کہنے لگے،’’جی فرمائیے…‘‘
میں اُن کی رعب دار آواز سن کر سہم گیا اور جیب سے کاغذ کا ٹکڑا نکال کر کانپتے ہاتھوں سے ان کی جانب بڑھایااور کہا،’’ سر! یہ میری غزل ہے آپ کے ادبی صفحے پر چھپوانے کے لیے لایا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے میز پر رکھ دو ۔‘‘یہ کہہ کر وہ رعب دار آواز والا شخص پھر سے اخبار کی خبروں میں گم ہو گیا۔میں نے اپنی غزل کو ان کی میز پر رکھ دیاجہاں بہت سے تحریروں سے لیس کاغذکے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔اِس دوران مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کروں ۔ خداحافظ کہہ کر چلا جاؤں یا رکوں۔اسی شش و پنج میں واپس مڑنے لگا تو انھوں نے مجھے آواز دی۔
’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’جی نوید عباس۔‘‘
’’کیا کرتے ہو۔‘‘اخبار کو تہہ کرکے میزرکھااورر دوسری سگریٹ سلگاتے ہوئے پوچھا۔
’’ابھی پڑھ رہاہوں دسویں جماعت میں۔‘‘
’’غزل تم نے لکھی ہے؟؟یا کسی کو دکھائی بھی ہے؟‘‘میری غزل کو اٹھاتے ہوئے انھوں نے پوچھا اور اسے پڑھنا شروع کیا۔
’’جی!ایک استاد ہیں ان سے اصلاح لیتا ہوں۔‘‘میں نے بتایا۔
’’کون سی بحر ہے یہ ؟‘‘غزل کو تہہ کرکے میز پر رکھتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔
’’بحر کا نام تو مجھے نہیں معلوم۔ابھی سیکھنا شروع کیا ہے۔البتہ تقطیع کر سکتا ہوں۔‘‘ہمت پکڑ کر میں نے انھیں جواب دیا۔
’’لکھ کر دکھاؤ۔‘‘ایک سادہ کاغذاورکچی پنسل میری جانب بڑھاتے ہوئے انھوں نے پوچھا اور دوسری کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔میں نے مزید ہمت پکڑی اور کرسی پر بیٹھ کر غزل کے مطلع کے پہلے مصرع کو لکھا اور اس بحر کے وزن کے مطابق نیچے اس کی تقطیع کی۔انھوں نے مصرع کو دیکھا اور کہا کہ اس بحر میں دوتین مصرعے اورلکھ کر دکھاؤ۔میں نے دوبارہ اس بحر میں کچھ نئے مصرعے سوچے ۔ایک مصرع استاد میرتقی میرؔکی غزل کا اسی بحر میں یاد آیا وہ بھی لکھ کر انھیں دکھایا۔انھوں نے ایک مصرع پر کہا کہ درست نہیں ہے۔اپنی غزل یہیں رکھ جاؤ ۔یہ کہہ کر انھوں نے اخبار کو اٹھایا اور کرسی سے ٹیک لگا کر دوبارہ اس کی ورق گردانی میں مصروف ہوگئے۔میں بھی کچھ کہے بنا وہاں سے چلا گیا۔ اگلے ہی ہفتے میری غزل اسی اخبار کے ادبی ایڈیشن میں چھپی ہوئی تھی جسے پڑھ کر میں بہت خوش ہوا۔دوست احباب اور گھر والوں کو اپنی چھپی ہوئی غزل دکھائی اور استاد حمید عاکف کو بھی دکھائی جسے دیکھ کر وہ بھی بہت خوش ہوئے۔حمید عاکف نہ صرف میرے پہلے استاد تھے اور ہیں ۔مجھے اُن پر فخر ہے کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں انھی کی بہ دولت ہوں۔وقت گزرتا گیا تو بہت سے احباب ملے ۔اُن کی قربتوں میں اور اُن محفلوں سے بہت کچھ سیکھا جو ہم اکثر راتوں کر برف کے تختوں پر بیٹھ کر ہم ایک طرح مصرع پر اپنی اپنی غزل کہتے تھے۔میں سمجھتا ہوںوہ وقت احمد رضوان،رمزی آثم،سلیم قیصر ،حمیدعاکف اورمیرے لیے بہت اہم تھا ۔یہ باتیں جو میں بیان کررہا ہوں 1994میں ملتان کی ہے اور اُن صاحب کا نام عارف معین بلّے تھاجنھوں نے میری پہلی غزل کو اپنے اخبار کے ادبی ایڈیشن میں شائع کی۔ عارف صاحب ،سید فخر الدین بلّے کے صاحبزادے اور آنس معین کے بھائی تھے۔آگے چل کر ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب وہ ایک اخبار کے ایڈیٹر بنے اور مجھے انھوں نے بہ طور پروف ریڈر کی حیثیت مجھے نوکری بھی دی۔انیس سو 97میں غالباًمیری دوسری غزل جو میں نے سہ ماہی ’’اوراق ‘‘کو بھیجی جس کے مدیرمحترم ڈاکٹروزیر آغا تھے۔محترم وزیرآغااردوادب کا بہت اہم نام ہیں۔ سہ ماہی ’’اوراق ‘‘کو اُس زمانے میں ادبی حلقوں میں بہت اہمیت حاصل رہی اورمحترم جناب احمد ندیم قاسمی کی زیر ادارت چھپنے والے ادبی جریدے’’فنون ‘‘کا ہم پلّہ سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی یہ دونوں رسائل اردوادب کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔جناب وزیرآغا صاحب کاجوابی خط موصول ہوا تو میری خوشی کی انتہا ہی نہ تھی اور لفافہ کھول کر بھی نہیں دیکھا کہ کیا لکھا ہے۔اِسی خمار میں دودن گزارے پھر احباب کو اطلاع کی اور انھیں وہ خط دکھایا۔جناب وزیرآغا صاحب نے لکھا،’’ تمہاری غزل مجھے موصول ہوئی ہے۔مطلع دوبارہ سے کہواور بقیہ اشعار کوبھی از سر نو دیکھواورمجھے دوبارہ بھیجو۔یہ خط میری زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔اس اعزاز پر میرے دوست بھی بہت خوش تھے۔ غزل کواز سر نو دیکھا اور باردگرانھیں ارسال کیااوریوں میریی غزل’’ اوراق‘‘ میں شائع ہوئی۔
یہ جو تمہید میں نے باندھی ہے ۔میں اِس کے ذیل میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔اکیسویں صدی کادور ہے۔ عہدِ موجودمیں وقت کی رفتار بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اس دھارے میں اب اُوپربیان کی ہوئی باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔یعنی کوئی بھی شاعر ادیب جسے تھوڑا بہت لکھنا آگیا ہے وہ کسی سینئرز کی بات کو سننے کو تیار ہی نہیںہے جب وہ کچھ غلط تحریر کردے اوراُسے محفلوں میں جوں کا توں پڑھے اور جو جانتا ہے وہ اس کی نشاندہی کررہا ہو۔خاص طور پر اگر کسی محفل میں کوئی سینئر شاعر ادیب جب اپنی رائے دیتے ہیں تو انھیں حاسد کہہ کر پکارا جانے لگتا ہے یا انھیں اپنا دشمن سمجھ لیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پربھی یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے ۔واہ واہ اور بہت خوب جیسے جملے ہر کسی کی تحریر میں لکھے ہوئے ملتے ہیں۔اُس شاعر نے اپنی تخلیق کے ساتھ کتنا انصاف کیا۔ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد کسی ریفرنس کا گماں ہو۔کسی دوسرے شاعر کی زمین میں شعر کہے ہوں یاسرقہ کیا ہو،کوئی نہیں بتاتا۔اگر کوئی غلطی سے نشاندہی کردے تو اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔فرینڈز بک سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ کوئی کسی بات پر گفتگویا بحث کرنے کو تیار ہیں نہیں ہوتا ۔ حتٰی کہ اپنی غلطی کو بھی تسلیم نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس غلط رحجان کے لوگوں نے اردو ادب میں کسی بھی بڑے تخلیق کارکو پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔بہرحال بڑے ادیب والی بات تو خود الگ اورایک بڑاموضوع ہے اور میرے جیسے طالبِ علم کے لیے اس پر بات کرنا ممکن نہیں۔میں تو احباب کی توجہ اس پر دلانا چاہتا ہوں کہ سیکھنے کا،سمجھنے کا اور برداشت کا مادہ ہی اب ہم میں موجود نہیں رہا تو کیا اردو ادب کی مزید آبیاری ہوگی۔کیا آج کے عہد میں ہمارے پاس کچھ سمجھنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے یا ہم نے خود کو تسلیم کرلیا ہے کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں ۔ایک عمر کی ریاضت ہی انسان کی تخلیق کے ثمر کا باعث بنتی ہے نہ کہ راتوں رات یہ سوچ لیا جائے کہ صبح تک ہمیں شاعر بننا ہے اور اس کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کیا جائے ۔جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے ۔اس سے کہیں زیادہ ادب کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ادیب بھی وہی بنتا ہے جو باادب ہوتا ہے۔باادب ہے تو بامراد بھی ہے اور بے ادب ہے تو بے نصیب ہی کہلایا جائے گا۔ان خرابیوں کے کچھ ذمے دار کچھ ایسے سینئرز شعرا بھی ہیں جو اپنے مالی مفادات کی خاطر امیرزادوں،زادیوں کو لکھ کر دیتے ہیں اور ملک سے باہر جا کر اپنے نام کی تقاریب کرواتے ہیں اور کمائی کرتے ہیں ۔اُن کے اِس عمل سے ان کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا جسے وہ اپنے لیے دائم سمجھے بیٹھے ہیں۔دنیا کی ہر چیز فانی ہے ۔اچھی بھی اور بری بھی لیکن رہتا وہی ہے جو اپنے حصے کا کام بھرپور ایمانداری سے کر جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایک حیرت ناک بات یہ بھی ہے کہ اب تو صدر محفل جس نے گفتگو کرنی ہے براہ راست کسی تخلیق کو سننے کے بعد تو وہ بھی گھر سے اُس شاعر کا خاکہ ازخود بنا لیتے ہیں جو انھوں نے دو چار محفلوں میں دیکھا اور سنا ہوتا ہے۔محض دوغزلوں یانظموں سے کسی شاعر کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔معتبر اور سینئرز کا احترام اپنی جگہ لیکن انھیں سچ ضرور بولنا چاہیے اور کھلے دل سے بتانا چاہیے کہ خرابی کیاہے اور کہاں موجود ہے۔میزان کا پلڑا انھی کے ہاتھ میں ہے اور انھیں اس کو ایمانداری سے ناپ تول کرنی چاہیے۔آگے چل کر وہی جواب دہ ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ میری ہی طرح کا ایک لڑکا آرٹس فورم ملتان کے مشاعرے میں آیا اور ایک سینئرسے اُس نے کہا کہ وہ بھی مشاعرہ پڑھنا چاہتا ہے اور اس نے غزل لکھی ہے آپ اس کو دیکھ لیں۔مشاعرے سے قبل انھوں نے میرے سامنے اُس نوجوان کی غزل دیکھی اور مشاعرے میں سنائی۔جب وہ لڑکا غزل سنا رہا تھا تو اس دوران شاید ایک دوبار اُس نے مصرع غلط پڑھے یا واقعی بے بحر تھے۔سامعین نے داد کے دوران ہی اُس کی نشاندہی کی اور کہا میاں کسی استاد کو دکھایا بھی یا بس خود سے ہی لکھ کر لے آئے ہو سنانے۔وہ لڑکا پریشان ہواتو ہمارے وہ سینئر دوست فوراً اٹھے۔ مائیک لے کر سامعین سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ اس میں اِ س لڑکے کا قصور نہیں ہے ۔مشاعرے سے قبل اِس نے غزل مجھے پڑھ کر سنائی تھی اور اصلاح بھی لی۔یہ مجھ سے غلطی سرزرد ہوئی ہے۔میں اِس کی معافی مانگتا ہوں۔مشاعرے میں وہ یہ سب نہ کرتے توکیا ہوجاتامگر نہیں انھوں نے اُس نوجوان کا مستقبل سوچا اور خیال کیا کہ کہیں یہ نوجوان ادب یا ادیبوں سے ہمیشہ کے لیے بدگماں نہ ہو جائے۔
٭٭٭

غزلیں

طاہر عظیم

اینٹ اینٹ بولے ہے مہربان سنتا جا
منہدم مکانوں کی داستان سنتا جا
صبح کے جھرکوں سے گھر میں دھوپ آئی تھی
کیا ہوئے مرے سارے سائبان سنتا جا
لوگ مر گئے تو کیا گھر اجڑ گئے تو کیا
اس زمیں کے بارے میں آسمان سنتا جا
اس اداس بستی میں دل کی سر پرستی میں
کچھ جوان رہتے تھے نوجوان سنتا جا
رات کا وہی قصہ درد کا وہی حصہ
دل سے ٹھیس اٹھی ہے مہربان سنتا جا
اس زمیں کے زخموں کو کون بھرنے آئے گا
دیکھ اے زمانے دیکھ اے زمان سنتا جا

فاطمہ خان

آ نہ جائے ترا خیال مجھے
مار ڈالے گا یہ وبال مجھے
میں تری ذات میں ہوں گم ایسے
نہیں معلوم اپنا حال مجھے
کوئی ایسا جواب مت دینا
بھول جائے مرا سوال مجھے
میں ترے ساتھ بھی اکیلی ہوں
ایسی تنہائی سے نکال مجھے
فاطمہؔ کوئی اُس کو سمجھائے
ہے بچھڑنے کا جو ملال مجھے

تجلی نقوی

سب ہیں اچھے بُرا نہیں کوئی
سوچ کر یہ جیا نہیں کوئی
محو کیفِ شرابِ اُلفت ہوں
اس سے اچھا نشہ نہیں کوئی
پھر سے آ جائے گی چمن میں بہار
درد میں دوسرا نہیں کوئی
مجھ سے ناراض ہونے والوں نے
یہ تو مانا خطا نہیں کوئی
سامنے تھا نشان منزل کا
دو قدم بھی چلا نہیں کوئی
جی گیا میں تجلی جب یہ سنا
اس کو مجھ سے گِلا نہیں کوئی

حصہ