بانو قدسیہ کی یادوں کے ساتھ ایک پڑاؤ

1113

سید ظفر معین بلے جعفری
بیٹا! تمھارے والد سید فخرالدین بَلّے بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔وہ شاعر،ادیب ،دانشور اور مزاجاًصوفی ہی نہیں اپنی ذات میںایک ادارہ اورایک انجمن بھی تھے۔ساری زندگی رزق ِ حلال کل کمایا،خود بھی کھایااور بچوں کو بھی یہی کچھ کھلایا۔دوست احباب میں آسانیاں بانٹیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ قبر اور حشرمیں ان کے لئے بھی آسانیاں پیدافرمائے۔میں کیا کہوں ؟زبان گنگ ہوگئی ہے اور الفاظ میراساتھ نہیں دے رہے۔چندجملے بولنے کے بعد بانو آپا چپ ہوگئیں ۔لیکن اس مختصر سی گفتگو کی گونج مجھے تیرہ برس بعد بھی سنائی دے رہی ہے۔اور میری بھی اب وہی کیفیت ہے ،جو میرے والد کی تعزیت کے وقت محترمہ بانو قدسیہ کی تھی ۔بانو آپا بھی چل بسیں۔میں کیا لکھوں؟ قلم پر سکتہ طاری ہوگیا ہے۔زبان گنگ ہوگئی ہے اور لگتاہے الفاظ میراساتھ دینے کوتیارنہیں۔
چار فروری کاسورج کیاڈوبا۔ادبی دنیا میں اندھیراچھاگیا ۔بانوقدسیہ کی زندگی کاسورج ڈوبنے کے ساتھ ہی ناول نگاری اور افسانوی ادب کاایک روشن باب بند ہوگیا۔
اشفاق احمد اوربانوقدسیہ ادبی دنیاکی ایک مثالی جوڑی تھی۔جوایک یاد بن کر رہ گئی ہے۔
مرنے کے بعد بھی ان کا ساتھ نہیں چھوٹا۔بانو آپاکوان کے جیون ساتھی اشفاق احمد کے پائنتی سپردِ خاک کیاگیا۔
جادہ ادب پر دونوں ایک دوسرے کاہاتھ تھام کرچلے،رکے توساتھ رکے، اس دورکنی قافلے نے کہیں پڑائو ڈالاتواکٹھے ڈالا۔اور اس سفرمیں اتنے گہرے نقوش چھوڑے کہ مسافرانِ ادب کے لئے راستے روشن ہوگئے۔
بلاوا آنے پراشفاق احمد بانوقدسیہ کا ساتھ چھوڑ گئے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی یادیں دم ِ واپسیں تک بانو قدسیہ کی ہم سفرر ہیں،بانو قدسیہ محض اشفاق احمد کی اہلیہ نہیں،ناول نگاری اور افسانہ نویسی کا ایک بڑا نام تھیں اور ہیں ۔وہ اردو ادب کی آبرو تھیں اور گلشن ِادب کا خوب صورت رنگ۔ ان کے فکروخیال کی بنیاد پر جوکلیاں چٹکیں ،جو کونپلیں پھوٹیں، جو گلاب کھلے۔ اس سے ہمارا گلستانِ ادب مہک اٹھا۔
پھراچانک یوں ہوا ،ہجرتوں کے درمیان، کچھ اور نہیں،حواکے نام ،چہار چمن،پروا،دوسرا دروازہ،سامان ِوجود، اک ہنس کا جوڑا،فٹ پاتھ کی گھاس،شہرِ لازوال آباد ویرانے،توجہ کی طالب ،آتش زیرپا،سدھراں،مردابریشم،ایک دن ،شہرِ بے مثال،بازگشت،چھوٹا شہر بڑے لوگ،آخرمیں ہی کیوں؟،موم کی گلیاں،دست بستہ، سورج مکھی، موم کا پتلا،دوسرا قدم،حاصل گھاٹ،اور راجہ گدھ خوبصورت کہانیوںکی ایسی کتابیں ہیں ،جن میں انسانی نفسیات کی کارفرمائیاں بھی ہیں اورزندگی کی سچائیاں بھی،تخلیقی توانائیاں بھی ہیں اورتخلیات کی بلند پروازیاں بھی،مخصوص زاویہ فکرو نگاہ کی رعنائیاں بھی ہیں اورمعرفت کی عقدہ کشائیاں بھی۔آپ کوئی سی بھی کتاب اٹھا کردیکھ لیں، آپ کو اپنی اوردوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے بڑا واضح پیغام ملے گا۔راجہ گدھ پر بہت کچھ لکھا گیا ،اس کی بہت سی فکری اور تخلیقی جہتیں بھی ناقدین نے دریافت کیں۔اگر آپ غور کریں تو مرکزی خیال رزق ِحلا ل ہے اور رزق حلا ل کمانے کاپیغام اتنی خوبصورتی کے ساتھ دیاگیا ہے کہ یہ دل میں اترتاہوا محسوس ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ کا فلسفہ یہ ہے کہ رزق حلال کا پیغام ہی اسلام کی روح ہے، جو اسے تمام ادیان ِعالم سے ممتاز کرتا ہے۔ میں نے تو انہیں یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اسلا م واحد مذہب ہے ،جس نے رزق ِحلال کمانے کا حکم دیا۔ان کی یہی بات سن کران کے گھر آنے والے امریکی مہمان نے اسلام قبول کرلیاتھا۔
اشفاق احمداوربانو قدسیہ دو دو الگ الگ شخصیات ضرور تھیں لیکن ان میں جو فکری ہم رنگی اور ذہنی ہم آہنگی نظر آتی ہے، اس کے پیش نظر اگر انہیں سکے کے دو رخ قرار دیاجائے تو بے جانہ ہوگا۔وہ ایک گھریلو خاتون تھیں،ایک دن اشفاق احمد ان کا ہاتھ تھام کر انہیں کچن سے باہر لائے۔لان میں پڑی کرسی پر انہیں بٹھایا اور دوسری کرسی پر خود بیٹھ گئے۔ کہنے لگے کیوں باورچی خانے میں وقت اور خودکوضائع کررہی ہو؟کھانا پکانے کیلئے نوکرانی ہے ، سوچو،سوچو ،سوچو،تم کیاکرسکتی ہو؟
میں نے ایک منٹ کے توقف کے بعد کہامیں لکھ سکتی ہوں۔کہنے لگے پھرلکھتی کیوں نہیں؟چھوڑ دو باورچی خانے کو ہمیشہ کے لیے۔شوہر پرست بانو قدسیہ نے حامی بھرلی اور پھرلکھناشروع کردیا۔علم و ادب کو اپنااوڑھنابچھونا بنالیا۔یہ باتیں بانو قدسیہ نے قافلے کے پڑائو میں شرکت کے دوران اشفاق احمد کی موجودگی میں بتائیں۔ادبی تنظیم قافلہ کے بانی میرے والدِ بزرگوار سید فخرالدین بلے مرحوم تھے اور ہمارے گھرپر قافلے کے تحت کے جو محفلیں سجتی تھیں، انہیں میرے والد محترم قافلے کے پڑائوکانا م دیا کرتے تھے۔ قافلے کے پڑائو لاہور میں برس ہا برس جی او آر شادمان میں ہمارے گھر پر ہوتے رہے۔بڑے بڑے ادیبوں ،شاعروں اور دانشوروں سے مجھے بھی انہی محفلوں میں فیض یاب ہونے کے مواقع ملے۔
اشفاق احمداوربانوقدسیہ کا ہمارے گھرآنا جانالگارہا۔بعض دنوں میں ملاقاتیں بڑھ جاتیں اور بعض دنوں میں کسی معلوم وجہ کے بغیر ملناجلناکم ہوجاتا،لیکن وہ ہمارے اور ہم ان کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔
اشفاق حمد صاحب نے آنس معین کی الم ناک موت پر جس انداز میں پرسہ دیا اور اس کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے مضمون لکھ کردیا،اسے پڑھ کربانو آپا کی آنکھیں نم ناک ہوگئی تھیں۔انہوں نے کہا میں نے اس کی کچھ غزلیں اور نظمیں پڑھی ہیں بلکہ جن دنوں خان صاحب مضمون لکھ رہے تھے توانہوں نے بھی مجھے آنس معین کے کچھ اشعار سنائے تھے۔وہ تو بلا کا شاعر تھا،کرب،دکھ اس کی غزلوں میں رچابسا ہے،ایسا شعری رنگ مجھے آج کے کسی اور شاعر کے کلام میں نظرنہیں آیا۔وہ کافی دیر روتی رہیں اور آنس معین پر بات کرتی رہیں۔موضوع بدل جاتا تو پھر گھوم پھر کروہ آنس معین کی طرف اس کارخ موڑدیتیں۔انہوں نے مجھے مخاطب کرکے پوچھا بیٹا کیا شعر ہے وہ ،،میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا۔
میں نے آنس کاپورا شعر سنادیا، آ پ بھی سن لیں

میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج ، مجھے دیالکھنا

زندگی اور موت کی تاریخوں میں ایک ایک دن کافرق عجیب اتفاق ہے۔بانو آپا کی تاریخ ِ پیدائش اٹھائیس نومبر ہے اور آنس معین کی انتیس نومبر۔بانوآپانے چارفروری کودنیاسے کوچ کیااور آنس معین نے برسوں پہلے پانچ فروری کو۔ہے ناں عجیب سی بات۔
یہ 1980اور1990کے دہائی کی بات ہے ۔اشفا ق احمد اور بانو قدسیہ قافلے کے پڑائو میں شریک ہوئے۔بانو آپا(محترمہ بانو قدسیہ)نے اپنا افسانہ کعبہ میرے پیچھے ،بھی میری ہی فرمائش پرپڑھاتھا۔میں نے ان کے گھر جا کر تازہ افسانہ پڑھنے کی فرمائش کی تھی۔ انہوں نے جواباًبتایا ایک افسانہ تو کل پرسوں ہی مکمل ہوا ہے مگر وہ نہیں،بلکہ ایک اور افسانہ لکھناشروع کیاہے، وہ پڑھوں گی۔میں نے کہا قافلے کا پڑائو اب سے 20دن بعد ہوگا، یہ افسانہ میراہوا۔وہ مسکرائیں اور ہامی بھرلی۔چند روز بعد خیال آیاکہ بانو آپا نے تودعوت قبول کرلی ہے مگر ابھی اشفاق صاحب سے بات نہیں ہوئی، وہ ان کے بغیر نہیں آئیں گی، چنانچہ فون پر اشفاق صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ میری بانو آپا سے بات ہوچکی ہے، اب آپ کی اجازت درکار ہے۔ وہ بھی یوں کہ وہ آپ کے بنااور آپ ان کے بغیراتنے اچھے نہیں لگتے کہ جتنے ساتھ ساتھ ۔اشفاق صاحب میری بات پر ہنسے اور کہا انہیں پھانس چکے ہو اور اب میری باری ہے۔بہر حال پھریکم تاریخ بھی آگئی اور یہ دونوں بھی حسب وعدہ میرے والدبزرگوار سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر آگئے۔بہت سے اربابِ علم و ادب پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔اسلم کمال نے اپنے چند نثرپارے پیش کیے، پھر بانو آپا نے اپنا خوب صورت افسانہ پڑھا۔غالباً اس افسانے کا دورانیہ 45یا55منٹ تھا۔شرکائے قافلہ پڑائو کا انہماک دیدنی تھا۔چند منٹوں تک حاضرین محفل اس کے سحر سے باہر نہیں آسکے۔ پھر میزبان ِ محفل سید فخرالدین بلے نے افسانے کے حوالے سے گفتگو کا آغاز یہ کہہ کر کیاکہ بانو قدسیہ صاحبہ کا اشفاق صاحب سے بڑا قریبی تعلق ہے مگر پھر بھی افسانے میں کہیں ابہام نہیں ہے۔اس جملے کے بعد انہوں نے بانو آپا کے اس افسانے کی کچھ جہتوں کی نشاندہی کی اور اس میں چھپے ہوئے پیغام کو بھی اجاگر کیا۔ علامہ شبیر بخاری۔ مرتضیٰ برلاس۔ڈاکٹر وحید قریشی،ڈاکٹر اجمل نیازی ،خالد احمد ،بیدارسرمدی اور سرفراز سید نے افسانے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔البتہ اشفاق صاحب نے گفتگو میں کم حصہ لیا۔اب اشفاق صاحب اور برادر ِمحترم سید عارف معین بلے تبادلہ خیال میں مصروف نظرآئے۔میں نے بانو آپا سے کہا آپ چائے تو پی لیجیے ۔کہنے لگیں پہلے خان صاحب کو دیجیے۔ انہوں نے واپس جانے کی اجازت چاہی تو میں نے برجستہ کہا آپ سے آنے کا وقت طے ہوا تھا، جانے کا نہیں۔ پھر عارف بھائی بھی بانو آپا کے پاس آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے آپ سے تو اب بات ہوگی،چندلمحوں میں ان دونوں کا موضوع بن گئے اشفاق احمد۔عارف بھائی نے جب بانو آپا کو اشفاق احمد کی تمام تخلیقات کا بالترتیب حوالہ دیاتو بانو آپا نے حیرت کے ساتھ پوچھا بیٹا تم نے خان صاحب کو کتنا پڑھ رکھا ہے؟ ان کی تخلیقات کی گہرائی میں اترنا مشکل ہے لیکن خان صاحب سے آپ سب لوگوں کی محبت اور ان کی سوچ اور فکر سے آپ کی آگاہی قابل قدر ہے۔
میں نے کہا بے شک۔ لیکن آج تو آپ کا دن ہے اور اب عارف بھائی آپ سے آپ کی تخلیقات کے حوالے سے بات کریں گے۔ جب دیر تک بانوآپا عارف بھائی سے اپنی کتابوں اور افسانوی تخلیقات کے بارے میں سنتی رہیں تو فرمایا بیٹے یہ آپ کی محبت ہے ورنہ کیا برگد تلے کوئی پودا پروان چڑھ سکتا ہے؟عارف بھائی نے برجستہ کہا برگد کے پیڑ کے پاس ایک اور برگد کا پیڑ بھی تو ہوسکتا ہے۔ بانو آپا اشفاق احمد کو برگد کا پیڑ ہی کہا کرتی تھیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭

غزلیں

ڈاکٹر باقر رضا

محوِ شانِ الست رہتا ہوں
میں بہ ہر حال مست رہتا ہوں
ہوں ستاروں سے میں بلند بہت
اور ذرّوں سے پست رہتا ہوں
میں عدم ہوں اَبد کی منزل سے
دور بس ایک جست رہتا ہوں
حسنِ مغرور کرتا ہوں تسخیر
عشق کے زیرِ دست رہتا ہوں
زیست کی سرگزشت ہے اتنی
بود گزرا ہوں ہست رہتا ہوں
تو نے بخشا ہے خار و خس کا جہاں
کر کے کچھ بندوبست رہتا ہوں
کچھ خبر لے تری خدائی میں
کس قدر خار و خست رہتا ہوں
رزم و بزمِ حیات میں ہر وقت
سر بہ کف دل بہ دست رہتا ہوں
اپنی تعمیر سے نہیں غافل
زیرِ خوفِ شکست رہتا ہوں
بیچ میں سب خدا پرستوں سے
میں ہی اک خود پرست رہتا ہوں
بے خودی میں رضاؔ بہت ہشیار
پی کے جامِ اَلست رہتا ہوں

نظم/عمران شمشاد

دیکھو اس آنسو سے پہلے
ہم خوشیوں سے کتنا بہلے
دیکھو اِس آنسو کے بعد
آیا جانے کیا کیا یاد
دیکھو اس آنسو سے آگے
ہم دنیا کے پیچھے بھاگے
دیکھو اس آنسو کے پیچھے
کیا اپنی جانب کھینچے
دیکھو اس آنسو کے نیچے
حرص کا دریا آنکھیں میچے
دیکھو اس آنسو کے دائیں
منت مانگیں اور دعائیں
دیکھو اس آنسو کے بائیں
تشنہ لب کی سائیں سائیں
دیکھو اس آنسو کے اندر
اکیس دریا سات سمندر

حصہ