اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط

262

عارف رمضان جتوئی

اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

کراچی کے علاقے صدر میں ریمبو سینٹر کے سامنے پنجروں میں قید پرندوں کی مارکیٹ کے ساتھ فٹ پاتھ پر دیوار سے لگ کر بیٹھے کمزور سے وجود اور ساتھ ہی مٹی کے ترتیب سے رکھے برتنوں پر نظر پڑتے ہی قدم تھم گئے۔ کمزور نسوانی وجود چہرے پر پڑی جھریوں میں دادی اور نانی کی شکل جھلک گئی، دل میں سوالوں نے جنم لیا اور اپنے سوالوں کے جواب کے لیے بے اختیار قدم بڑھ گئے۔
83سالہ امینہ بی بی کا تعلق لیاری سے ہے۔ یہ امینہ بی بی سے میری پہلی ملاقات تھی۔ باتوں ہی باتوں میں انہوں نے اپنے متعلق مختصر بتایا اور پھر دعا کا کہا۔ دعا کرنا میں ایک بار پھر مدینہ پاک دیکھ کر آئوں۔ دوسری بار پھر ملاقات کے لیے دل مچلا تو معلوم ہوا، دعا قبول ہوچکی تھی۔ دل میں عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔ 15دنوں بعد پھر جانے کو دل مچلا اور پھر ملاقات ہوگئیں۔ وہیں پرانی جگہ، وہیں مسکراہٹ۔ اپنے سفر کا بتا رہی تھیں۔ سندھی لہجے میں اردو بولتے ہوئے ان کے جملے بھلے لگ رہے تھے۔ ان کی مسکراہٹ پر دل میں عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔
امینہ بی بی نو عمری سے لے کر اب تک محنت مزدوری میں لگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ 68برس سے یہ معمول ہے کہ وہ صبح 8 بجے اپنے گھر سے نکل کر صدر میں کٹرک روڈ کی فٹ پاتھ پر پہنچ جاتی ہیں اور مٹی سے بنے ہوئے برتن مثلاً صراحیاں ، مٹکے ، گملے، گلک اورکونڈیلیاں وغیر ہ فرخت کرتی ہیں اور قریباً 10 سے 11 گھنٹے کام کرنے کے بعد واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔ سرد و گرم موسم، حالات کی اونچ نیچ سے ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گویا زندگی ایک خاص ڈگرپر چل رہی ہے۔ امینہ بی بی(نانی) سے کیا کیا باتیں ہوئیں آپ بھی پڑھیے۔
بچپن ہی میں ماں باپ چل بسے، جب ہوش سنبھالا تو بڑے بھائی کو والدین کی جگہ پایا لیکن ماں باپ کانعم البدل کوئی نہیں ہوسکتا حالا نکہ میرے بھائی میرا بہت خیال رکھتے تھے اور محنت مزدوری کرکے گھر کی گاڑی کو دھکا لگاتے تھے۔ آمدنی کم تھی اس لیے گزر بسر مشکل تھی لہٰذا میںنے بچپن ہی میں ان کا ہاتھ بٹانے کی ٹھان لی۔ چونکہ ہماری رہائش کمہارواڑے کے علاقے میں تھی جہاں مٹی کے برتن بنانے کا کام وسیع پیمانے پر ہوتا تھا اور یہاں کے بنے ہوئے برتن کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر میں سپلائی ہوتے تھے جبکہ وہاں مزدوری کے مواقعے بھی تھے۔
میں نے یہی کام سیکھنے کی ٹھان لی اور کچھ عرصے بعد اس کام سے تھوڑا بہت کمانا بھی شروع کردیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد میں برتن بنانا اور پکانا سیکھ گئی لیکن بارشوں کے موسم میں یہ کام بند ہو جاتا ہے اس دوران میں گھر گھر جاکر کپڑے، برتن دھوتی، جھاڑو، پونچا کرتی اور کبھی کبھی پانی کے بھاری مٹکے اٹھاکر لوگوں کے گھروں تک پہنچاتی تاکہ آمدنی کا تسلسل بر قرار رہے چاہیے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو۔ کم اجرت ملنے کی وجہ سے لوگ اس کام کو خیر باد کہہ کر دوسرے کاروبار میں لگ گئے اور ان مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک کے برتنوں نے لے لی ہے۔

گر آج اندھیرا ہے کل ہوگا چراغاں بھی
تخریب میں شامل ہے تعمیر کا ساماں بھی

کام کرتے کرتے زندگی کی گاڑی نے کب جوانی کی شاہراہ پر پہنچ گئی پتا ہی نہیں چلا۔ یہ سوچ کر کام کرتی رہی کہ شادی کے بعد زندگی آرام سے گزارے گی کیونکہ جس شخص سے میری شادی ہورہی تھی، اس کا بدین سے آگے منگریو میں چائے کا ہوٹل تھا۔ اسی سوچ سے میرے خوابوں کی دنیامیں رنگین پھو ل کھلنے لگے۔ مجھے صحیح تاریخ اور سَن تو معلوم نہیں مگر ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ ایوب خان کے دور میں میری شادی ہوئی اور میں لیاری سے منگریو جا بسی۔ ابھی شادی کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میرے شوہر کو کاروبار میں بھاری نقصان ہوا اور ہم پائی پائی کو محتاج ہوگئے، اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس کے پاس جاکر پریشانی بیان کروں۔ منگریو میں کوئی ایسا کام بھی نہیں تھاجہاں گھر گھر جاکر جھاڑو، پونچھا کرتی، یا بھٹی میں مٹکوں کی پکائی کرتی۔
آخر کار میںنے اور شوہر نے فیصلہ کیا کہ کراچی جاکر محنت مزدوری کرکے ازسر نو اپنی زندگی شروع کرتے ہیں۔ یہاں آکر میںنے دوبارہ اپنا پرانا کام شروع کردیا۔ شوہر زیر تعمیر بلڈنگ میں مزدوری کرتا اور میں بھٹی پرکام کرتی۔ اس طرح ہم نے کچھ پیسے جمع کیے اور ایک ٹھیلا خریدا، جس پر میرا شوہر مٹی کے برتن گلی گلی بیچا کرتا تھا۔ پھر میںنے بھٹی سے نکل کر صدر کے علاقے رینبو سینٹر کے برابر والی فٹ پاتھ پر برتن رکھ کربیچنا شروع کردیے۔ اس کام میں اس وقت بھی کوئی اچھی کمائی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے شوہر کو دوبارہ مزدوری پر لگایا اور خود برتن بیچنے لگی۔
ایوب خان کے دور میں شوہر کو 20 روپے مزدوری ملتی تھی، جس میں سے وہ مجھے2 روپے گھر میں خرچ کے لیے دیتے باقی پیسے جمع کرتے۔ اس دو روپے میں سے بھی ڈیڑھ روپے کا کھانا پکاتی اور 8آنے (پچاس پیسے) جمع کرتی، اس طرح ایک ایک پیسہ جمع کرکے لیاری میں ایک چھوٹا سے مکان لینے میں کام یاب ہوئے۔ مکان خریدنے کے کچھ ہی مہینے بعد اللہ نے میری گود اولاد کی نعمت سے بھر دی اور میرے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام سکندر ہے اور میرے اس کام میں برابر کا شریک ہے آپ کو پتا ہے کہ کوئی بھی کاروبار ایک آدمی کے بس کا نہیں ہوتا۔ پہلے میرے شوہر مزدوری کے بعد ساتھ دیتے تھے اور اب میرا بیٹا دیتا ہے، بہو بھی بہت خیال رکھتی ہیں۔ اس عمر میں ایک بوڑھیا کو اور کیا چاہیے۔
جن دنوںبے نظیر شہید ہوئی تو میں اور شوہر حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ میں تھے۔ حج کے بعد کچھ مہینے خیریت سے گزرے ہی تھے کہ میرے شوہر بستر سے لگ گئے۔ انہیں سانس کی بیماری تھی۔ دنیا بھر کا علاج کروایا، اسپتالوں کے چکر پہ چکر لگ رہے تھے اس ہی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت مت پوچھیں مجھ پہ کیا گزری۔ جس کے شانہ بہ شانہ مل کر ایک چھوٹا سا آشیانہ بنایا وہ ہی چل بسا۔ شوہر تو نہیں رہا مگر جب تک مجھ میں دم ہے یہ کام کرتی رہوں گی۔
آپ عورت ذات ہوکر یہ سب کام کرتی ہیںتو کیا عجیب نہیں لگتا کے سوال پر امینہ بی بی کا کہنا تھا کہ ہر گز نہیں۔ محنت مزدوری رزق حلال ہے اور حلال رزق عین عبادت ہے۔ میں عبادت کرتی ہوں اور عبادت میں مجھے کوئی شرم ورم نہیں آتی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جو لوگ بھیک مانگتے ہیں یا جو خواتین غلط راہ اختیار کرتی ہیں۔ ان کے لیے میری زندگی مثال ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا تیسرا حصہ اسی جگہ گزار دیا۔ مگر کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا اور نہ کبھی کسی سے کچھ مانگا۔ اللہ کا لاکھ شکر کرتی ہوں آج میں حج کے بعد عمرہ بھی ادا کر کے آگئی ہوں۔ اس در پر سجدے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ میں اب تیسری بار دیدار کے لیے جانے کی خواہش مند ہوں۔ آج پھر سے کہے رہی ہوں دعا لازمی کرنا میرے لیے۔
امینہ بی بی نے مزید اپنے متعلق بتایا کہ بچے بہت کہتے ہیں کہ اماں اب بس کرو گھر میں بیٹھو آرام کرو۔ میںبچوں سے یہ کہتی ہوں کہ اگر اب میںنے آرام کیا تو میں بیمار پڑ جائو گی اور پورے گھر کو میری دوا دارو کرنی پڑے گی۔ کام نا چھوڑنے کی ایک وجہ میں یہ بھی ہے کہ میں نوعمری ہی سے محنت کرتی آئی ہوں اور اللہ کامجھ پر بڑا کرم ہے کہ اس عمر میں بھی مجھے کوئی بیماری نہیں۔ میری یہ خواہش کہ اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرے اور بس چلتے ہاتھ پیر اپنے خالق ِحقیقی سے جاملوں۔
مٹی کے برتن کیسے بنتے ہیں ؟ امینہ بی بی نے بتایا کہ پہاڑوں سے مٹی لائی جاتی ہے، اسے کارخانوں میں لگی ہوئی مشینوں کے ذریعے مخصوص پروسیس سے گزارا جاتا ہے جس میں کم سے کم 8یا 9دن لگ جاتے ہیں۔ یہیں مٹی گیلی بھی کی جاتی ہے اور یہیں سے یہ مٹی مختلف اکھاڑوں میں پہنچا دی جاتی ہے۔حرف ِعام میں اکھاڑے سے مراد وہ جگہ لی جاتی ہے جہاں پہلوان کشتی لڑتے ہیں مگر امینہ بی بی کا کہنا ہے کہ کمہاروں کی بولی میں ’’اکھاڑہ‘‘ اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کمہار مٹی گوندھتا اور پھر اس سے برتن بناتا ہے۔کمہار سب سے پہلے مٹی کو گوندھتا ہے پھر اسے فن پاروں کی شکل میں ڈھالتا جاتا ہے، گھڑے، دیگچیاں، پیالے، گل دان اور نہ جانے کیا کیا، ان کچے برتنوں کو پکانے کے لیے استعمال ہونے والی بھٹی کو آوا کہتے ہیں، آوے سے اٹھا کر تیار ہونے والے برتنوں کو یہ فن کار رنگ و روغن سے مزین کرکے آخری بار دیکھتا ہے اور فروخت کے لیے مارکیٹ روانہ کردیتا ہے۔

حصہ