امید ابھی کچھ باقی ہے۔۔۔۔

483

حیا مشعال
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمقدم صدیق اکبرؓ کے وصال کا وقت ہے اور دوسرے ساتھی عمر فاروق ؓ کی یہ کیفیت ہے کہ دو راتوں تک نیند ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے ۔لوگ صدیق اکبر ؓ کے پیمان اور وصیت کے احترام میں ان سے بیعت کر رہے ہیں کیونکہ وہ حضرت عمرؓ کی شدت کی وجہ سے ان سے ڈرتے تھے ۔ان میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو اپنے دل میں خلافت کی امید رکھتے ہیں لیکن وصیتِ صدیقؓ کے مطابق عمرِ فاروقؓ کی بیعت تیسرے روز ہو جاتی ہے ۔بیعت سے فراغت کے بعد آپؓ اٹھ کر فرماتے ہیں :”عرب کی مثال ایک نکیل والے اونٹ کی سی ہے جو اپنے ساربان کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ۔ یہ دیکھنا ساربان کا فرض ہے کہ وہ اسے کس طرف لے جائے۔مجھے ربِ کعبہ کی قسم! میں انھیںراہ راست پر لا کر چھوڑوں گاــ۔‘‘ظہر کی نماز کے لئے جب لوگ مسجد میں جمع ہوئے تو عمرفاروقؓ منبر پر چڑھ کر فرماتے ہیں :
’’مجھے معلوم ہے کہ لوگ میری سختی سے ڈرتے اور کانپتے ہیں ۔تمہیں جاننا چاہئے کہ اب وہ سختی نرمی سے تبدیل ہوگئی ہے لیکن ان لوگوں کے لئے اسی طرح قائم ہے جو مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔رہے وہ لوگ جو امن و سلامتی سے رہتے اور ایمان اور جرات رکھتے ہیں ،سو میں ان کے لئے سب سے زیادہ نرم ہوں۔اگر کوئی کسی پر ظلم و زیادتی کرے گا تو میں اس وقت تک ا سے نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا ایک رخسار زمین پر نہ لٹکادوں اور دوسرے رخسار پر اس کا پائوں نہ رکھ دوں جب تک کہ وہ راہ رست پر نہ آجائے،لیکن اپنی اس تمام تر شدت کے باوجود اہل عفاف اور اہل کفاف کے لئے میں خود اپنا رخسار زمین پر رکھ دوں گا۔‘‘
پھر فرمایا:”اے لوگو! مجھ پر تمہارے کچھ حقوق ہیں جو میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں۔اپنے یہ حقوق مجھ سے حاصل کرو۔مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہارے خراج اور اس کی غنیمت میں سے جو اللہ تعالی تمہیں عطا کرے کوئی چیز ناحق نہ لوں ۔مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ جب تم سے کوئی میرے پاس آئے تو مجھ سے اپنا حق لے کر جائے۔مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ اگر اللہ تعالی نے چاہا تو تمہارے عطیات اور وظائف میں اضافہ اور تمہاری سرحدوں کو مضبوط کردوں ۔اور مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہیں ہلاکت میں نہ ڈالوں۔تمہیں واپس آنے سے روکے رکھوں۔اور جب تم کسی جنگ پر جائو تو ایک باپ کی طرح تمہاری آل اولاد کی حفاظت و نگرانی کروں۔‘‘
یہ وہ حکمران ہے کہ جس نے جانشینی میں حکومت حاصل کی نہ ہی دھوکہ فریب میں سلطنت کا اقتدار لیا ۔یہ تو وہ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کا دل بیعت کے وقت اپنے رب کے حضور جوابدہی کے خوف سے لرز رہا ہے۔جس کا ہر ہر لمحہ اپنی رعایا کے مسائل حل کرتے گزرا۔جس نے راتوں میں اپنی نیندیں،سکون،چین سب قربان کرکے گلیوں میں چکر لگائے کہ کہیں اس رعایا میں سے کوئی ایک بھی مصیبت میں مبتلا ہو اور میں چین کی نیند سویا رہا تو میرے لئے روز ِقیامت ندامت کا باعث ہوگا۔
آپؓ ایک رات اسی طرح چکر لگاتے ہوئے ایک عورت کے پاس سے گزرے ،دیکھا کہ چولھے پر پتیلی رکھی ہے اور اس کے گرد بچے بلبلا رہے ہیں۔دریافت کیا ـ ’’بچے کیوں رو رہے ہیں؟‘‘ بولی ’’بھوک سے!‘‘دریافت کیا ’’اور چولھے پر کیا رکھا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا ’’پانی ہے،انھیں بہلا رہی ہوں کہ سو جائیں۔خدا ہی ہمارے اور عمرؓ کے درمیان انصاف کرے گا۔‘‘حضرت عمرؓ اسی وقت واپس ہوئے،بیت المال سے آٹا،گھی لیا اور اپنی پیٹھ پر لاد کر پھر اسی جگہ پہنچے۔پہلے آٹا اور پھر گھی پتیلی میں ڈالا اور آگ سلگانے لگے۔جب حلوہ تیار ہو گیا تو اسے بچوں کے سامنے رکھ دیا۔بچوں نے پیٹ بھر کر کھایا اور سو گئے۔اس کے بعدحضرت عمرؓ اس عورت کے پاس سے رخصت ہوگئے۔‘‘یہ وہ عورت تھی کہ جسے یہ معلوم نہ تھا کہ ابھی ابھی اس کے بھوکے بچوں کو کھلا کر پر سکون نیند سلانے والا کون ہے لیکن عمرِفاروقؓ جانتے تھے کہ ان کی اپنی رعایا کے لیے کیا ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔
حضرت عمرؓ کا دورِخلافت ہے۔یمن کے مرکزی شہر صنعاء سے خبر ملتی ہے کہ ایک نوجوان قتل ہوگیا لیکن اس کے ذمہ دار ورثاء تک نہیں پہنچائے جا سکے۔کچھ دن بعد ورثاء حاضرِخدمت ہوتے ہیں ۔امیرالمومنین فرمان لکھواتے ہیں کہ اتنے دن میں قصاص کی خبر مجھ تک پہنچنی چاہیئے۔تاریخ گزر جاتی ہے۔پھر ایلچی وہی جواب لاتا ہے کہ تاخیر ہے۔اب کی بار گورنر کاخط بھی ملتا ہے۔جس میں کچھ اس قسم کے الفاظ ملتے ہیں کہ قاتل اکیلا نہیں ہے اور اس واقعے کے پیچھے ایک با اثر خاندان کا ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔اگر ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو اہلِ یمن کے بپھر جانے کا خدشہ ہے اور سیاسی انتشار متوقع ہے۔اس خط کے جواب میں امیرالمومنین عمرِفاروق ؓ لکھواتے ہیں:’’اگر تمام اہلِ صنعاء اس قتلِ ناحق کے ذمہ دار ہوں تو میں قصاص میں سارے شہر کو قتل کروا دوں گا۔۱۱
پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ صنعاء کی جامع مسجد کے سامنے ایک جان کے قصاص میں سات لوگوں کو قتل کیا گیا جنھوں نے نوجوان کو فریب دے کر قتل کر دیا تھا۔تب نہ کوئی بغاوت اٹھی نہ ہی انتشار برپا ہوا۔
عمرفاروقؓ کی عدالت و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپؓ کے پاس یمن کی چادریں آئیں۔انھوں نے مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ہر مسلمان کو ایک ایک چادر حصے میں ملیں اور عمرؓ کا حصہ بھی ایک عام مسلمان کے برابر تھا۔ جب عمرؓ منبر پر چڑھے تو اسی چادر کا کرتا پہنے ہوئے تھے۔انھوں نے لوگوں کو جہاد کی دعوت دی۔اس پر ایک شخص نے کہا ہم تمہاری بات نہیں مان سکتے۔عمرؓ نے دریافت کیا کیوں ؟ وہ بولا تم نے اپنے آپ کو ہم پر ترجیح دی ہے۔تمہارے حصے میں ایک چادر آئی تھی لیکن تمہارا قد طویل ہے وہ چادر تمہارے لئے کافی نہیں ہوسکتی پھر تم نے اس کا یہ کرتا کیسے بنا لیا؟
یہاں عمرؓ نہایت مودب انداز میں اپنے صاحب زادے کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عبداللہ اس کا جواب تم دو اور عبداللہ نے کہا ،میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے والد کو دے دی اور اس سے یہ کرتا پورا ہوا ہے۔اس شخص نے کہا کہ اب کہو اب ہم تمہاری سنیں گے اور مانیں گے۔
عزیز ساتھیو ! یہ ایسے دیس کے کچھ مناظر تھے جہاں لوگوں کا یقین خلیفۂ دوم عمر فاروقؓ کی صورت میں موجود تھا۔جہاں انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں نہیں کھانی پڑتی تھیں بلکہ خلیفۂ وقت ہر معاملہ میں ہی عدل و انصاف سے کام لیا کرتا تھا۔جہاں حکومت کے نام پر عوام کو لوٹا نہیں جاتا تھا بلکہ جو چیزیں آپؓ کو عطیہ بھی کی جاتیں تھیں انہیں بھی تمام مسلمانوں میں برابر تقسیم کیا جاتا۔ جہاں غیرت کے نام پر تو کبھی محض تعصب کی بنیاد پر نقیب اللہ محسود جیسے نوجوانوں کو سرِعام قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ہر زبان ،ہر قوم کے لوگوں کو ہر شعبۂ زندگی میں برابری حاصل تھی۔جہاں زینب اور اسماء جیسی معصوم کلیوں اور عورتوں کو جنسی خواہشات کا شکار کر کے موت کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاتا تھا بلکہ رعایا میں موجود ہر ہر عورت ،بچی کی عزت و عصمت کی حفاظت خلیفہ کی ذمہ داری تھی۔جہاں روٹی،کپڑا،مکان دینے کے جھوٹے وعدے نہیں کیے جاتے تھے بلکہ حقیقتاً رعایا کی بھوک کی تڑپ حاکمِ وقت عمر،فاروقؓ کو محسوس ہوتی تھی۔ ’’جہاں اللہ کی زمین پر صرف اللہ کا نظام تھا۔‘‘
2018 انتخابات کا سال ہے۔حقِ رائے دہی ہر جوان مرد و عورت کو حاصل ہے۔اگر ہم واقعی بے راہ روی،قتل و غارت اور نا انصافیوں سے تھک چکے ہیں تو ہمیں کلمے کی بنیاد پر حاصل کی گئی اس پاک سرزمین پر عمر فاروقؓ جیسا حکمران لانا ہوگا۔’’آیئے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کریں۔

حصہ