حسد کا انجام

994

مناہل امجد
ایک جنگل میں چرند پرند خوشگوار ماحول میں رہتے تھے ایک چھوٹی سے وادی تھی جو درختوں سے گہری ہوئی تھی یہاں ایک خوبصورت تالاب بھی تھا جہاں سب جانور اپنی پیاس بجھاتے ان میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں یعنی شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پی رہے تھے اس جنگل میں ایک بلی اور خرگوش رہتے تھے جو کہ پڑوسی تھے اور پڑوسی ہونے کے ناطے ایک دوسرے کا بہت خیال کرتے ماحول اسیبا تھا کہ رنجش اور حسد کی فضانہ تھی اس میں ایک شیر مرغ اس جنگل میں داخل ہوا اور یہاں کا ماحول دیکھتے ہوئے رہائش اختیار کر لی اس کا مزاج تھا کہ وہ اکیلا رہتا کسی سے بات نہیں کرتا اور کسی گہری سوچ میں رہتا دراصل شتر مرغ بلی اور خرگوش کی دوستی کو دیکھ کر حسد میں مبتلا تھا اور اس فکر میں تھا کہ ان کی یہ دوستی ختم ہو جائے اس سوچ کے تحت اس نے اپنی کاروائی شروع کر دی اور ایک دن بلی اور خرگوش کے بچوں میں لڑائی کرا دی جس کے باعث بلی کا بچہ زخمی بھی ہوا جس کا بلی کو بہت دکھ تھا شتر مرغ نے بلی کو بھڑکایا کہ شرارت خرگوش کے بچوں کی ہے جس کے باعث یہ لڑائی ہوئی بلی اور خرگوش میں بات چیت بند ہو گئی۔ شتر مرغ نے ایک خرگوش سے کہا کہ بلی تمہارے بچوں سے بدلہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے لیے تیاری کر رہی ہے اچانک حملہ کرے گی اس پر خرگوش کو بہت غصہ آیا اور اس نے بھی مقابلے کی تیاری شروع کر دی۔ دونوں طرف لڑائی کی تیاری جاری تھیں کہ بلی کے زخمی بچے کی حالت بہتر ہوئی تو اس نے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے۔ بلی نے کہا کہ تم کو مارنے کی کوشش کی اس کا خرگوش سے بدلہ لینے کے لیے تیاری کر رہے ہیں زخمی بلی کے بچے نے کہا کہ خرگوش کے بچوں کا قصور نہیں۔ اصل شرارت شترمرغ کی ہے اسی نے لڑائی کرائی اور مجھے زخمی بھی اس نے کیا الزام خرگوش کے بچوں پر لگا دیا۔ بلی نے فوری طور پر خرگوش سے رابطہ کیا اسے صورت حال سے آگاہ کیا شتر مرغ کی شرارت اور حسد کے متعلق بتایا۔ خرگوش اور بلی میں دوستی ہو گئی انہوں نے شترمرغ کو جنگل سے نکال دیا حاسد شتر مرغ کو اس کی حسد کی سزا مل گئی۔
٭٭٭

جنت کا شہزادہ

فرحت حسین فرحت
وہ ہستی اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت تھی کہ کالی صورت اور حسن و رعنائی سے محروم جسم کے اندر بھی ایک جگمگاتی ہوئی انسانی سیرت موجود ہو سکتی ہے۔ عام انسانی نگاہوں نے اب تک انہیں حقارت کے ساتھ دھتکار دیا تھا۔ انسانی آبادیوں میں ایک انسان اس ناکردہ گناہ کی سزا پا رہا تھا کہ وہ بدصورت کیوں پیدا ہوا ہے۔ لیکن قدرت کا ہاتھ اس بدصورتی کا پردہ ہٹا کر ان کے اندر چھپی ہوئی ان خوبیوں کو آشکار کرانے والا تھا جن کی خبر اس سیاہ فام انسان کو خود بھی نہ تھی۔
اپنی بدصورتی سے خائف اور مایوس انسان نے اللہ کے آخری رسول کے حضور یوں فریاد کی۔
’’اے محمد ! میں ایمان لانا چاہتا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ مجھے جنت کے دروازے پر اندر جانے سے روک دیا جائے گا۔‘‘
انتہائی دل سوزی کے ساتھ وہ نظر اس ہستی کی طرف اٹھی جس میں انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، ہمیشہ سچ بولنے والی زبان سے درد میں ڈوبے ہوئے الفاظ نکلے اور سننے والوں کی سماعت پر آب حیات کے ٹھنڈے ٹھنڈے قطرے ٹپکاگئے۔
’’نہیں اے سعدؓ ! اللہ کی جنت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے وہاں جانے سے تمہیں روکنے والا کوئی نہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ سعد الاسودؓ کا منہ حیرت اور خوشی سے کھلا کا کھلا رہ گیا اور پھر بے اختیار کلمہ توحید کا پاکیزہ نعرہ ان کے سیاہ ہونٹوں سے بلند ہو گیا۔
کچھ دن بعد ایک بار پھر یہی انسان ا? کے رسول کے پاس کھڑا ہوا دیکھا گیا۔ ایک بار پھر اس کے چہرے سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔
’’اے اللہ کے رسول۔‘‘ سعد الاسودؓ نے دل ریشی کے ساتھ کہا ’’اسلام نے مجھ سے جنت کا وعدہ تو کیا ہے مگر دنیا بدستور تاریک ہی ہے، میں نکاح کا آرزو مند ہوں مگر کوئی شخص مجھے اپنی بیٹی دینے کیلئے تیار نہیں۔‘‘
آنحضور نے ٹوٹے ہوئے دل کی پکار کا جواب دیتے ہوئی فرمایا ’’ جا￿! قبیلہ ثقیف کے نومسلم سردار عمر بن وہب کو اللہ کے رسول کا یہ فیصلہ سنا دو کہ اس کی بیٹی سعد الاسودؓ کے نکاح میں دے دی گئی۔‘‘
سعدؓ حیران ہو گئے یہ کیسے ممکن ہے کہ جس شخص کو کوئی معمولی سے معمولی خاندان اپنے اندر جذب کرنے کو عار سمجھتا ہو اس کو ایک معزز سردار اپنے گھرانے کا فرد بنانے پر آمادہ ہوجائے، مگر سعدؓ امید و بیم کے شدید اضطراب کے عالم میں گرتے پڑتے روانہ ہوئے اور معزز سردار کے دروازے پر دستک دے کر اپنی شادی کی پیش کش کر دی، معزز سردار یہ بات سنتے ہی آپے سے باہر ہو گیا، غیظ و غضب کے ابال نے اس کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہ دیا کہ اس پیش کش کے پس منظر میں رسالت کی آواز ہے۔ اس کے سامنے محض ایک کالا بھجنگ انسان کھڑا تھا جس نے قبیلہ ثقیف کے خاندانی وقار کو للکارا تھا۔‘‘
سعدؓ اس درسے ٹھکرا دیئے گئے مگر ابھی وہ چند قدم بھی جانے نہ پائے تھے کہ پیچھے سے ایک کانپتی ہوئی نسوانی آواز نے ان کو انتہائی بے تابی کے ساتھ پکارا۔
’’ اے جانے والے، اے اللہ کے بندے، اگر یہ فیصلہ محمد عربی کا ہے تو مجھے منظور ہے۔‘‘ یہ آواز عمر بن وہب کی صاحبزادی کی آواز تھی۔ بیٹی کے ایمان افروز فیصلے نے باپ کو جیسے گہری نیند میں چونکا دیا تھا ، دنیا جس شادی کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ وہ شادی طے ہو گئی تھی اور سعدؓ اس تقریب کا ضروری سامان خریدنے کیلئے بازار پہنچے کہ اچانک ایک عظیم آزمائش کا موڑ سامنے آگیا۔ انہوں نے بازار میں اس پکار کو گونجتا ہوا پایا کہ اے اللہ کے بندو میدان جنگ کیلئے تیار ہوجائو۔
اور سعد چلتے چلتے رک گئے۔ شادی کے سامان کی جگہ انہوں نے جہاد کا ساز و سامان خریدنا شروع کر دیا، اب ان کی زندگی اس مقام پر تھی کہ جہاں موت ہی حسین آرزو تھی، اللہ کا بندہ اپنے رب کی ملاقات کیلئے بے قرار میدان جہاد میں ایک خوبصورت عمامہ باندھے ہوئے جان دینے کیلئے بے تاب نظر آرہا تھا لیکن کوئی پہچان نہ سکا کہ وہ کون ہے؟ آج سعدؓ کی صورت نہیں ان کی سیرت کا حسن دنیا کے سامنے تھا۔ ان کا جذبہ جاں نثاری ایک ایسا دلفریب منظر پیش کر رہا تھا کہ دیکھنے والے رشک اور حیرت سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔ یکایک ان کے ہاتھ کی سیاہی لباس کے اندر سے ظاہر ہوئی اور سب سے پہلے رسول اللہ ؐنے پہچان لیا کہ یہ سعدؓ ہیں، آپ نے بے اختیار آواز دی مگر آج اللہ کے رسول کی آواز بھی ان کو شہادت کی سرمستی سے نہ چونکا سکی۔ وہ بڑھتے رہے، لڑتے رہے اور عبودیت کی نامعلوم گہرائیوں میں ڈوبتے چلے گئے اور انسان اپنے رب کے قدموں کو چھو لینے کیلئے اپنے وجود کی حدوں سے آگے نکلتا ہوا ہمیشہ کیلئے دور نکل گیا، سیاہ فام جسم سرخ خون میں نہایا ہوا فرش خاک پر پڑا تھا اور روح اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھی، رسول اللہ ان کی حسین لاش پر جھکے اور شدت جذبات سے بے جان نعش کوگھٹنوں پر رکھتے ہوئے فرمایا
’’اے قبیلہ ثقیف اللہ نے اپنے سعدؓ کو قبیلہ ثقیف کی بیٹی سے کہیں زیادہ حسین و خوبصورت دلہن عطا فرما دی ہے۔‘‘

حصہ